ملالہ کا اتنا ملال کیوں؟

ملالہ ایک عاقلہ بالغہ عزیزہ ہے۔ سننے میں آیا کہ کچھ لوگوں نے طالبات کا ایک سکول اڑایا اسی میں ملالہ بھی زیر تعلیم تھی۔ پھر اس نے گھر پر پڑھنا شروع کیا اور محلے کے بچوں کو بھی پڑھاتی۔ اسکے ساتھ ساتھ اس کا رابطہ امریکی فورسز کے ساتھ ہوگیا ، وہ کیسے ہواظاہر ہے ایک پاکستانی لڑکی اتنی آزاد نہیں کہ وہ من مانیاں کرے پھر صوبہ خیبر پختون خواہ کے باسیوں سے ایسی توقع ممکن نہیں۔ ہاں اس میں اسے گھر کے کسی فرد کی اعانت حاصل ہوئی اور اس نے طالبان یا مجاہدین کی پل پل کی خبریں کیسے امریکیوں کو دینا شروع کیں۔ ملالہ کو وین سے اتار کر نقاب پوش فرد نے گولی ماری۔ پھر اس نے کچھ اور لڑکیوں کو بھی اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اس خبر کو میڈیانے انتہائی اہمیت دیتے ہوئے تمام ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز چلائیں، ترجیحی بنیادوں پر خبریں چلائی گئیں، مرثیہ خوانی کے انداز میں نعرے چلائے گئے۔ اخبارات میں انتہائی اہمیت دی گئی۔ اخبارات کے صفحہ اول ، جلی سرخیاں ، دیکھتے ہی دیکھتے ریلیاںنکلنے لگیں ، اجلاس ہوئے، مندروں میں بتوں کے آگے ملالہ کا ملال پیش کیا گیا، معلوم نہیں بتوں نے کیا جوابدیا، گرجا گھروں میں حضرت عیسی علیہ السلام اور سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کی مورتیوںسے ملالہ کے زخمی ہونے کی شکائت کی گئی،معلوم نہیں کیا جواب ملا۔ پاکستان کے عوام کو میڈیا کی جانب سے جو سوچ دی گئی وہ کس حد تک درست ہے؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا ۔ پھر ملالہ کو مخصوص ایر بس میں کوئین ہسپتال برمنگھم میں علاج کے لیئے بھیج دیا گیا۔ ملالہ کے زخمی ہونے پر سب سے پہلے امریکی مذمت سامنے آئی۔ پھر دیکھا دیکھی بھیڑ چال چلی اورملالہ کے ملال کا اظہار کیاگیا۔ پھر دہشت گردوں کے قائد الطاف نے برطانیہ میں بیٹھ کر بڑھک مار دی کہ افواج پاکستان طالبان کو کرش کریں ورنہ میں عالمی طاقتوں کو وہاں حملہ کرنے کی دعوت دوں گا۔ یہ کیا بکواس ہے؟ کیا الطاف دہشت گرد کی بڑھک پاکستان کے ارباب حکومت نے بھی سنی، افواج پاکستان کے سربراہان نے بھی یہ بکواس سنی؟ پاکستان کے سیاسی رہنماﺅں ، علماءکرام اور مشائخ عظام نے بھی یہ سب کچھ سنا۔ الطاف ایک نامی گرامی دہشت گرد ، قاتل اور ڈاکو ہے۔ حکومت کو معلوم ہے کہ الطاف کے خلاف کتنے مقدمات قتل و ڈاکہ زنی درج ہیں۔ ایم کیو ایم ڈاکوں ،قتل اور بھتہ خوری پر قائم ہے۔ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اس پر تو پابندی لگائی جائے۔اب میں ملالہ بیٹی پر ظالمانہ فائرنگ کی بات کرتا ہوں۔ ماہرین اس بات پر غور کریں کہ طالبان فائرنگ کے مشاق ہیں اگر طالبان نے ملالہ کو مارنے کے لیئے حملہ کیا ہوتا تو ملالہ اللہ کو پیاری ہوچکی ہوتی۔وہ جب کسی کو مارتے ہیں تو ایک آدھ گولی نہیں پوری میگزین خالی کرتے ہیں۔مزید برآں طالبان سے یہ توقع ہی نہیں کہ وہ ایک عورت اورپھر وہ ایک کم سن لڑکی کوقتل کریں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں بے راہروی حدیں پار کرچکی ہے۔ لونڈے لپاٹے اور آوارہ گرد چھوکرے تعلیمی اداروں کے راستوں پر کھڑے لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں ۔ بعض دفعہ اپنی محبت میں ناکامی پر لڑکیوں کو مارڈالتے ہیں۔ صرف ایک گولی چلانا بھی کچھ ایسی ہی سوچ کی پیداوار ہو۔ پھر بوکھلاہٹ میں فائر کیئے جو دیگر دو طالبات کو لگے۔اللہ تمام زخمی بچیوں کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور وہ پاکستان کی باعزت مسلمان خواتین بنیں۔ یہ امریکی سازش بھی ہوسکتی ہے کہ لڑکی پر حملہ سے شمالی وزیرستان پر حملہ کا جواز پیدا کیا جائے۔ جو اب واضح ہو چکا ہے۔ ۔ اس میں کئی شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ۔ پور ی دنیا کے مسلمان امریکہ میں بنائی جانے والی خبیث فلم کے بارے صلیبیوں کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ پاکستان میں ناموس رسالت تحریکیں زور پر ہیں۔ دوسری طرف کراچی میں شب و روز قتل ، ڈاکہ اور لاقانونیت کا راج ہے۔ سندھ میں دوسرے مقامات پر بھی قتل کا بازار گرم ہے۔ بلوچستان میں قتل عام ہورہاہے۔ موجودہ حکومت وفاقی اور صوبائی سطح پر ناکام ہوچکی ہے۔ حکمران اگر لوگوں کے جان مال کو تحفظ نہیں دے سکتے تو حکومت چھوڑ دیں۔ لیکن یہ لوگ اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ ان تمام امور سے قوم کی توجہ ہٹانے کے لیئے امریکہ کی سازش پر عمل ہوا۔ اس بات کو میڈیا کی جانب سے انتہائی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ یقین میں تبدیل کرتا ہے۔ زخمی تو ملالہ بیٹی اور اسکی ساتھی دیگر بچیاں ہوئیں جس کا ہر کسی کو صدمہ ہے۔ مگر ہم کس کس کا صدمہ سہیں۔ وہ ڈاکٹر عافیہ جو خبیث امریکہ کی قید میں ہے کیا وہ پاکستان اور مسلمانوں کی عزت نہیں کیا وہ عورت نہیں ۔ حکمرانوں یا میڈیا نے اسکی رہائی کے لیئے ایسا کچھ کیا؟

کیا سول سوسائٹی نے کچھ کیا، کیا مندروں اور گرجا گھروں میں اس غیرت مسلم کی بازیابی کے لیئے دعائیں کی گئیں؟ میں یہ بھی یاد دلاﺅں کہ ملالہ سے زیادہ اہم وہ سلالہ والے ہیں کہ جنہیں امریکہ خبیث نے شہید کیا مگر انکی شہادت پر ہمارے حکمرانوں نے لیپا پوتی سے کام لیا دل سے امریکہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ہمارے میڈیا یا دیگر تنظیموں نے ملالہ جیسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں۔ سوائے مذہبی تنظیموں کے کہ انہوں نے امریکہ خبیث کئے خلاف آواز بلند کی۔ مگر ہمارے حکمران درپردہ اپنے آقاﺅں کو خوش کرتے رہے اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ نیٹو فورسز کی ضروریات پوری کرتے رہے۔ ملالہ کا ملال ضرور ہے مگر وہ ایک زخمی بچی ہے جبکہ وزیرستان میران شاہ میں ہزاروں عورتیں، قوم کی بچیاں اور معصوم بچے امریکی ڈرون حملوں کا شکار ہورہے ہیں مگر حیف ہے کہ ہمارے میڈیا والے اور ہمارے حکمران انہیں اپنی بچیاں نہیں سمجھتے ، انہیں اپنے بیٹے نہیں سمجھتے انہیں اپنی مائیں اور بہنیں نہیں سمجھتے کیونکہ صرف ملالہ پر اتنا ملال کا اظہار کیا جارہا ہے گویاکہ اس ملک میں صرف یہی ایک انوکھا واقعہ وقوع پذیرہوا ہے۔ محسن پاکستان ، محافظ پاکستان عزت مآب ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے ساتھ امریکہ کی خواہش پر سابق حکمران پرویز مشرف نے کتنا توہین آمیز سلوک کیا اور انہیں ذہنی اذیت پہنچائی۔ تو کیا اس وقت بھی ملک کی فضا اسی طرح سوگوار ہوئی تھی۔میڈیا نے جو طوفان آج american favourit پر برپا کر رکھا ہے کیا اس وقت بھی میڈیا کا یہی کردار تھا۔ کیا جب ملک کی وفادار اور سابقہ وزیر اعظم کی شہادت پر بھی میڈیا آج کی طرح پریشان ہوا تھا؟ میڈیا اس ملک کے عوام کو بیرونی طاقتوں کے اشارے پر کہاں لے جانا چاہتا ہے؟ فحاشی اور بے حیائی کی تعلیم تو ٹی وی چینلز کا جھومر ہے۔ ٹی وی چینلز مالکان کے اشارے پر چلتے ہیں۔جن کا مطمع نظر مال بنانا ہے۔ اینکر پرسن من مانی نہیں کرسکتے وہ تو ریموٹ کنٹرولڈ ہیں۔ چینل مالکا ن پیسہ ضرور کمائیں لیکن اللہ کو یاد رکھیں اور بہت جلد قبر میں جانے کا احساس فرمائیں۔ وہ ایمل کانسی جوان کسی کو نظر نہ آیا جسے پاکستان کے غیرت باختہ لوگوں نے امریکہ کے ہاتھوں فروخت کیا اور پھر قوم کے اس بیٹے کی لاش آئی۔ ریمنڈ ڈیوس دہشت گرد ی کا مرتکب ہوا اس ملک کے ایمان باختہ لوگوں نے ڈالر لے کر امریکہ کے حوالے کردیا۔ اگر امریکہ اور برطانیہ کو ملالہ کا ملال زیادہ ہوا تو یہ اظہار ہمدردی اپنے پیچھے غور طلب امور رکھتی ہے۔ جو اہل دانش کچھ ہی دنوں میں قوم کو بتائیں گے۔ دعائیہ تقریبا ت کا مطلب اللہ تعالی کے حضور التجائیں کرنا ہے۔ لیکن یہ دیئے جلاکر، موم بتیاں روشن کرکے ، کہیں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرکے اللہ تعالی سے صحت کی دعا کی منطق اسلام میں کہیں نظر نہیں آتی۔ بھلا قوم کو یہ طریقے کون سکھا رہا ہے؟ یہ سب کچھ دینی تعلیمات سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں کیا سکھایاجارہاہے؟ علما اور مشائخ خواب غفلت سے بیدار ہوکر قوم کو صالح سوچ اور فلاح کا راستہ بتائیں۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128231 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More