سرحد پار حملوں میں کابل کی آشیر باد؟

ملالہ پر حملے کے بعد پاکستان میں طالبان، افغانستان، شمالی وزیرستان میں آپریشن اور پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ایک لمبی بحث چھڑ گئی ہے۔ اس طرح ایک منظم طریقے سے قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ اس حوالے ایک کنفیوژن پیدا ہوچکی ہے۔بعض تو اس معصوم بچی پر ہونے والے حملے کو ابھی تک اپنی سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس حملے کے بعد پاکستان کے مختلف طبقوں نے جس پرزورانداز میں دہشت گردوں کے عزائم کے خلاف ڈٹ جانے کا عزم کیا تھا اس عزم کو نقصان پہنچانے کے لئے بھی بہت سی شخصیات سرگرم عمل ہیں اوراس معاملے سے توجہ ہٹانے کے لئے ان کی طرف سے مختلف شوشے چھوڑ ے جارہے ہیں۔ مگر جس عزم کے ساتھ قوم اس واقعے کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے اب دہشت گرد خواہ وہ کسی بھی لبادے میں موجود ہوں ان کا پراپیگنڈہ کتنا ہی موثر ہو، وہ عوام کو اپنے رنگ میں نہیں رنگ سکتے۔

ملالہ کے واقعہ کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی اور اس پر حملے پر عملد آمد بھی سب کے سامنے آچکا ہے مگر جو پہلو ابھی منظر عام پر نہیں آیاتھا، وہ اس مذموم کارروائی کی منصوبہ بندی کے جگہ کا تعین تھا۔ گزشتہ دنوںقومی اخبارات میںشائع ہونے والی ایک خبر نے اس سے پردہ اٹھایا ہے۔ جس کے مطابق ملالہ پر حملے کی منصوبہ بندی افغان صوبوں کنڑ اور نورستان میں موجودطالبان پاکستان کے مولوی فضل اللہ نے کی۔ ذرائع کے مطابق سوات میں پاک فوج کے کامیاب آپریشن کے بعد مولی فضل اللہ اور تحریک طالبان پاکستان کے عناصر نے افغانستان کے صوربہ نورستان اور کنڑ میں محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لے لی اور سرحد پار حملوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا۔

اس طرح ملالہ پر حملے کے ڈانڈے افغانستان میں پناہ گزین مولوی فضل اللہ سے جا ملے ہیں ۔مولوی فضل اللہ وادی سوات میں پاکستانی طالبان کا رہنما تھا اور سن 2009ء میں پاکستانی فوجی کی کارروائی کے بعد وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ ملا فضل اللہ کو اپنی آتشیں ریڈیو تقریروں کی وجہ سے ایف ایم ملا یا ریڈیو ملا بھی کہا جاتا ہے۔اس نے افغانستان میں دوبارہ منظم ہو کر وہاں اپنے مضبوط گڑھ قائم کر لئے اور پاکستان کے لیے ایک بار پھر خطرہ بن گیا ہے ۔ اس طرح افغانستان سے پاکستان کے اندر سرحد پار حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیکڑوں کی تعداد میں یہ دہشت گرد اچانک پاک سرحدوں میں داخل ہوجاتے اور سرحدی دیہات اور بارڈر فورسز پر حملہ کردیتے۔ ایک اندازے کے مطابق ایسے حملوں میں گزشتہ ایک سال میں دو سو چھ شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس عرصہ کے دوران سرحد پار سے چودہ بڑے حملے کئے گئے۔حتیٰ کہ 24جون 2012ءکو فضل اللہ کی جنوبی ملیشیا کے ارکان نے کنڑ سے دیر بالا کے راستے پاکستان میں داخل ہوکر گشت پر پاکستانی فوجیوں کے ایک گروپ کو اغواءکرلیا اور 17روز بعد ایک ویڈیو جاری کی جس میں 17فوجیوں کے سرقلم دکھائے گئے اور ان کے شناختی کارڈز بھی ویڈیو میں موجود تھے۔ 2011ء کے پورے سال میں اس قسم کے واقعات ہوتے رہے جس کی وجہ سے پاک افغان تعلقات کشیدگی کی انتہاءکو پہنچ گئے تھے۔

پاکستان نے مبینہ طور پرافغانستان میں روپوش طالبان شدت پسندوں کے سرحد پار حملوں کو دوطرفہ تعلقات کے لیے ایک بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کابل حکومت کے ساتھ بات چیت میں اس معاملے کو اٹھایا گیا ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو افواج کو بھی اس بارے میں پاکستان کی تشویش سے آگاہ کردیا گیا ہے۔ہم ا ±مید کرتے ہیں کہ اس مسئلے کے تدارک کے لیے جلد مناسب اقدامات کیے جائیں گے ۔دوسری جانب کابل میں پاکستانی افواج پر افغانستان کے سرحدی قصبوں پر بمباری کے الزامات کو دہراتے ہوئے کہا گیا تھا کہ صدر کرزئی نے ان کی فوری بندش کا مطالبہ کیا۔افغان صدر کے بقول سرحد پار بمباری کے دو طرفہ تعلقات اور افغانوں کے احساسات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جوپاکستان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔اس سے قبل کابل میں نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے ترجمان لطف اللہ مشعل نے بھی انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یہ موقف اختیار کیا تھا کہ دہشت گرد گروپ سرحد کی دوسری جانب سے آ کر افغانستان میں حملے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کوئی بھی گروپ دوبارہ منظم نہیں ہو رہا اور نہ ہی یہاں مقیم ہے۔اس نئے عنصر سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ یہ معاملہ سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے اور دونوں فریق ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔

پاکستان نے متعدد مرتبہ افغان اوروہاں تعینات بین الاقوامی فورسزپر زوردیا کہ وہ سرحد پار حملوں کو روکیں اور مولوی فضل اللہ کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ مگر جس آزادی سے یہ دہشت گرد تسلسل سے سرحد پار حملے جاری رکھے ہوئے ہیں لگتا ہے کہ افغان حکومت اور اتحادی افواج کی مرضی بھی اس میں شامل ہے ۔ سب سے مضحکہ خیز خبر یہ ہے کہ پاکستان کی ان باربار کی درخواستوں، مطالبات کے برعکس کرزئی حکومت اور نیٹوفورسز نے یہ موقف اختیار کیاکہ وہ مولوی فضل اللہ کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ وہ نورستان اور کنڑ صوبوں سے کارروائیاں کرتا ہے جو 2009ءمیں امریکی سربراہی میں اتحادی افواج نے خالی کر دیئے تھے اور یہ علاقے ان کی عملداری سے باہر ہیں۔

پاکستان پر دہشت گردوں کی جانب سے حملوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس حوالے سے پاکستان میں سخت قسم کی تشویش پائی جاتی ہے۔ زرداری حکومت جو پہلے ہی امریکی ڈرون حملوں کی بدولت شہریوں اور ذرائع ابلاغ کے ہاتھوں دباﺅ کا شکار ہے اس نئی صورتحال نے اسے مزید بے چینی میں مبتلا کردیا ہے۔ سرحد پار حملوں سے پاک افغان تعلقات بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اگر صورتحال کو بغور دیکھا جائے تو افغان حکومت اس سلسلے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہی ہے۔ نیٹو افواج کی جانب سے بھی اس سلسلے میں جو سردمہری دکھائی جارہی ہے اس سے اندازہ ہوجانا چاہئے کہ دونوں اتحادیوں کی نیت اس حوالے سے ٹھیک نظر نہیں آرہی۔ اگر وہ واقعی مخلص ہوتے تو کنڑ اور نورستان میں دہشت گردوں کولگام دیتے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرتے۔ ان کی طرف سے الٹا پاکستان کو موردِالزم ٹھہرانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہیںاس پس منظر میں یہ صورتحال آئندہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کاباعث بن سکتی ہے۔ جو 2014ءمیں امریکی افواج کے انخلاءکے بعد ایک خطرناک رخ بھی اختیار کرسکتی ہے۔ لہٰذا کرزئی حکومت کو چاہئے کہ وہ کنٹر اور نورستان میں موجود دہشت گردوں کے حوالے سے کوئی واضح اور ٹھوس کارروائی کرے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد واتفاق کی فضا ہی دہشت گردی سے چھٹکارے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ کیونکہ دہشت گردی سے نجات ہی سے خطے میں خوشحالی اور امن کا خواب پورا ہوسکتا ہے۔
Prof Afraz Ahmed
About the Author: Prof Afraz Ahmed Read More Articles by Prof Afraz Ahmed: 31 Articles with 21106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.