زندگی بھی عجیب شے ہے کبھی تو
اپنے آنچل میں خوشیوں کے حسین رنگ ہماری ذات میں بکھیر کر ہمیں پر مسرت کر
دیتی ہے اور کبھی خزاں کی مانند ہمارے وجود کے سارے رنگ سمیٹ کر اپنی راہ
لیتی نظر آتی ہے ور ہمیں اندھیروں سے لڑنے کے لئے چھوڑ جاتی ہے انسان کی ان
رنگوں سے انسیت بھی عجیب ہے جب یہ رنگ اس کی ذات کو مسحورکن کرتے ہیں تب وو
زمانے سے نالاں رہتا ہے اور جب اسکا دامن ان رنگوں سے خالی ہو جاۓ تو اسے
یہ ہی زمانہ اپنا ہمسر نظر اتا ہے لیکن اگر انسان کی اس تباھ کاری پہ نظر
ثانی کی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ان حالت کا ذمداروہ خود ہے اس
ہی ذات نے اس کو ان تباہیوں سے دوچار کرایا ہے آخر انسان کی اس پست و بالا
ہونے میں کیا کیا عوامل کارفرما ہیں ان پہ بھی تھوڑی نظر ثانی کرتے ہیں کہ
آخر انسان کی آزمائش الله تلاش کیوں لیتا ہے اور انسان کا حقیقی مقصد ان
دنیا میں آنے کا کیا ہے -
اس دنیا میں کوئی بھی چیز اپنے آپ کے لئے نہیں بنی دریا خود اپنا پانی نہیں
پیتا ہوا خود کے لئے تسکین کی وجہ نہیں درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتا پھول
خود کے لئے خوشبو نہیں بکھیرتے سورج خود کو حرارت نہیں دیتا اس زندگی کا
اصل مقصد اس دنیا والوں کے کام انا ہےزندگی کا حقیقی مقصد بھی یہ ہی ہے کہ
انسان صرف اپنی ذات کو مطمئن کرنے میں نہ لگا رہے بلکے الله کی خلکت کے کام
اکر اجرو ثواب کماۓ آج کے انسان کی سوچ کا محور فقط اس کی ذات سے لیکر اس
کی ذات تک محدود ہے اس کو اس کی ذات سے الگ نہ کچھ دکھائی دیتا ہے ا ور نہ
کچھ سنائی دیتا ہے یہ وجہ خدا کو ناراض کرنے ک لئے کافی ہے اور یہ وجہ آج
کے انسان کی بربادی کا سبب بھی ہے کیا ہم اپنے آپ سے بڑھ کر نہیں سوچ سکتے
ہیں اور سوچیں کہ اللہ نے ہمیں پیدا کر کے اتنی ساری نعمتوں سے نوازا ہے جب
وہ ہمیں ہماری مرضی کی ہماری خوشیوں کی فکر کرتا ہے تو کیا اب یہ ہمار فرض
نہیں کہ اس کو راضی کرنے کے لئے اس کی خلقت کی مدد کریں . آج کے اس نفسا
نفسی کے دور میں انسانیت کی بقا ور اس کی فلاح و بہبود کے لئے کم کرنا مشکل
ضرور ہے پر نہ ممکن نہیں آج دین کے نام پی لوگو کا مال و اسباب لوٹنا بہت
آسان ہے پر انہی لوگوں کی دل جوئی کرنا بہت مشکل آج دوسروں کے دلوں کو
دکھانا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل ان کے زخموں پی مرہم کرنا ہے آج کی زندگی
جس منزل کی جانب گامزن ہے وو نہ صرف انسان کو تباہ کاری کے اس دلدل میں
دھنسا دے گی جہاں سے اس کا نکلنا بہت مشکل بلکہ نہ ممکن ہو جاۓ گا اب یہ
انسان پی منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے وہ جو انسانیت کی بقا
کا راستہ ہے یا وہ جو انسانیت کو تباہ کرنے کل راستہ ہے اب اختیار آپکا ہے- |