ملالہ کے واقعے کے بعد این جی
اوز بھی ہوش میں آگئی ہے چونکہ معاملہ ڈونرز کو خوش کرنے کا ہے اس لئے اب
خواتین کے این جی اوز بھی ملالہ کے نام پر دکانداریلگانے کی کوششوں میں
مصروف ہے کہ چلو اسی کے نام پر "خیرات" مل جائیگا اور ہم " خیرات خور"قوم
کے نام پر اپنے لئے کچھ نہ کچھ نکال لیں گے- ملالہ پر ہونیوالے واقعے کے
بعد پشاور میں خواتین این جی اوز کے ایک گروپ جس میں اقوام متحدہ کی خواتین
کیلئے کام کرنے والے ادارے کے مرد بھی حاضری لگوانے آئے تھے وہ بھی ملالہ
کے معاملے پر میڈیا کو لتا ڑ رہے تھے کہ یہ سب کچھ ان کی وجہ سے ہوا-موصوف
ملالہ کیلئے آواز تو اٹھا رہے تھے لیکن اپنا چہرہ میڈیا سے چھپا یا ہوا تھا
کہ کہیں" طالبان" انہیں اٹھا کر مہمان نہ بنوالیں-ویسے بھی ان جیسے بہت
سارے لوگوں کو تنخواہ ڈالرز میں لینا اچھا لگتا ہے لیکن زمینی حقائق ان
جیسے بہت سارے این جی اوز کے " خیرات" پر پلنے والوں کو پتہ نہیں ہوتا
کیونکہ لمبی گاڑیوں اور ائیر کنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر رپورٹ/پروپوزل
بھیج کر فنڈ لینا فیلڈ میں جا کر حقیقت معلوم کرنے کے مقابلے میں کچھ بھی
نہیںلیکن ان کو سمجھائے کون- خیر معاملہ ملالہ کے معاملے پر سچ لکھ کر
ہمیں"ملال"ہورہا ہے کیونکہ "ملالہ کے نام خط" پر پڑھے لکھے لوگوں نے سوشل
سائٹ پر جو گالیاں مجھے دی ہیں ان کیلئے میں "دعائے خیر "ہی کرسکتا ہوں -گذشتہ
دنوں پشاورپریس کلب میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے نے صحافیوں
کیلئے تربیتی سیشن کا اہتمام کیا جس میں صحافیوں کو بتایا گیا کہ بچوں پر
اور ان کیلئے لکھتے ہوئے ہمیں کن کن چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا اور اس کا
دائرہ کار کہاں تک ہے -تربیتی سیشن میں تقریبا سبھی اس بات پر متفق تھے کہ
ملالہ بھی ایک بچی ہے اور بچی کو کبھی بھی سزا نہیں دی جاتی اس بات پر تمام
صحافی متفق تھے اسے کس نے سزا دی اور کیون فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اور
کیا وہ واقعی فائرنگ کا نشانہ بنی بھی تھی یا نہیں یا پھر جن پر الزام
لگایاجاتا ہے کیا واقعی وہ لوگ اس واقعے میں ملوث ہے کہ نہیں یہ وہ سوال ہے
جو مجھ جیسے کئی صحافی اس تربیتی سیشن میں کررہے تھے لیکن اس کا جواب کسی
کے پاس بھی نہیں تھا-
بطور صحافی میرے اور میرے کئی دوستوں کیلئے یہ بات حیران کن ہے کہ ملالہ پر
حملے کے بعد فوری طور پر یکساں قسم کی بننے والی فلم کیسے " سب ٹی وی
چینلز"کو مل گئی ہر کو اسے اپنے لئے excelusive قرار دے رہا تھا اس فلم کو
فراہم کرنے والا کون تھا اور کون اتنے منظم طریقے سے فلم سب ٹی وی چینلز کو
پہنچا گیا-کیونکہ گذشتہ چار سال ٹی وی چینل کیساتھ رہ کر اتنا اندازہ تو
ہوگیا کہ ہر ایک ٹی وی چینل اپنی انفرادیت بتانے کیلئے مختلف قسم کی
لائیوکوریج دیتا ہے لیکن اس واقعے میں فلم سب کو یکساں مل گئی - سوات میں
آنے سے قبل ملٹری کے زیر انتظام چلنے والے ادارے کی جانب سے ملالہ کی یکساں
قسم کی تصاویر جاری کی گئی جس میں زخم ایک طرف دکھائی دے رہا ہے اور پشاور
سی ایم ایچ میں پہنچنے کے بعد زخم کا رخ ہی تبدیل ہوگیا جبکہ یہی زخم
برطانوی ملٹری ہسپتال پہنچنے کے بعد غائب ہوگیایہ سوالات بڑے کنفیوژن پیدا
کرنے والے ہیں اور اس کا جواب ابھی تک کوئی بھی نہیں دے سکا ہے -اپنی چھتیس
سالہ کی زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے ملالہ کے حوالے سے یہ سنا کہ اس کے سر
کی ہڈی تبدیل کردی جائیگی یہ بات مجھے مزید کنفیوز کرگئی کہ اسے سر کے کون
سے حصے کی ہڈی لگائی جائیگی اور کیا ایسی کوئی فیکٹری بنی ہوئی ہے جہاں پر
انسان کے سر کی ہڈی تیار کی جاتی ہو -کیا اس کیلئے کوئی اپنے سر کی ہڈی
عطیہ کرسکتاہے اگر نہیں تو کیا اسے کسی جانور کے سر کی ہڈی لگائی جائیگی
-شائدایسا کوئی انتظام ہو جس کی وجہ سے ملالہ کے سر کی ہڈی لگ جائے ہمیں تو
خوشی ہوگی کہ چلو اتنے انسان قابل ہوگئے کہ انسان کی ہڈی بھی بنا لی لیکن !
مجھے اپنے "لالٹین کے دور میں بھیجنے والی سرکار" کے صوبائی ترجمان کی پریس
کانفرنس بھی یاد آرہی ہے جس میںانہوں نے "ارشاد فرمایا"کہ اس کے سر کی "ہڈی
گولی کی وجہ سے چور چور ہوگئی ہے " لیکن برطانوی ملٹری ہسپتال میں یہ چور
چور ہڈی جس پر پشاور میں پٹی بھی نظر آرہی تھی وہاں پر غائب ہوگئی جس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کے "ڈاکٹر"للو پنجو قسم کے " ڈاکٹر"ہیں ان سے
قابل تو برطانیہ کے ڈاکٹرز ہیں جنہوں نے ایک ہفتے اندر زخم بھی بھر دیا- سب
سے عجیب بلکہ ہمارے اپنے " رحمان ملک "کی بالوں کی طرح " غریب" بھی کہ اب
تک جتنے بھی لوگوں کا سر کا آپریشن ہوا انہیں گنجا کردیا جاتا ہے لیکن
ملالہ کے معاملے میں ابھی تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ہمیں کچھ
بتایا گیا کہ معصوم "ملالہ " آپریشن کیلئے کتنی حد تک "گنجی "کردی گئی-
ملالہ جب تک پشاور کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں رہی دو دن تک میں اس کے خبر
لینے کیلئے کینٹ میں خوار ہوتا رہا جیسا کہ ہمارے صحافیوں کیساتھ" بیلٹ
والی سرکار"کا معاملہ ہوتا ہے یعنی جب ضرورت ہوتی ہے تو پھر انہیں ہیلی
کاپٹروں میں بھر بھر کر "چاند ماری"دکھانے تو لے جاتے ہیں لیکن جب معاملہ
چھپانے کا ہو تو پھر ہم جیسے صحافی ان کیلئے " ٹٹ پونجئے " بن جاتے ہیں اور
ہماری "درگت" عوام سے بھی گئی گزری ہوتی ہے جس وقت ملالہ کو سی ایم ایچ
پشاور سے لے جایا جارہا تھا اس سے تقریبا بیس منٹ پہلے ملٹری کے ڈاکٹرنے
میڈیا کے سامنے یہ بیان دیا کہ وہ ٹھیک ہے ملٹری کے ڈاکٹرکیساتھ ڈاکٹر
فیونا نے بھی میڈیا سے بات کرنی تھی لیکن آخری وقت میں یہ بتایا گیا کہ
فیونا نے بات کرنے سے انکار کیا کیونکہ انہیں سیکورٹی خدشات کا سامنا ہے
لیکن پھر جب ہماری بات دوبارہ ہوگئی تو بتایا گیا کہ "برطانوی
ڈاکٹرفیونا"تو آئی ہی نہیں حالانکہ یہی لوگ ڈاکٹر فیونا کی آمد کی تصدیق
کررہے تھے ڈاکٹر فیونا کی میڈیا سے بات چیت سے انکار بھی کئی بات کو مشکوک
کر گیا لیکن بھیڑ چال میں کون سنتا ہے-سب سے عجیب بات کہ اپنے "رحمان ملک
"نے پشاور میںمیڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ہمیں مجرموں کا پتہ ہے لیکن اپنے
"لالٹین والی سرکار"نے انعام رکھ دیا کہ ہمیں بتا دو ہم انعام دیں گے -ہمیں
نہیں پتہ کہ ان میں جھوٹا اور سچا کون ہے ویسے دونوں کا تعلق ایسی پارٹیوں
سے ہے جو گذشتہ پانچ سال سے عوام سے جھوٹ ہی بول رہے ہیں -
ملالہ کے نام پر اب تو ڈالرز آئینگے اور ہماری بہادر قوم اور ا ن کے رہنماء
اور بہت سارے"اسی خیرات" میں ڈبکی لگالیں گے لیکن میں این جی اوز سے یہ
سوال کرنا چاہ رہا ہوں کہ ہمیں ملالہ کے نام پر سبق پڑھانے والے " خود "اس
بچے کے نام پر کتنے فنڈز لیں گے اور ہمیں اخلاقی اقدار سکھانے والے بڑے بڑے
این جی اوز والے کیا برطانوی نشریاتی ادارے سے یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ
کیونکہ انہوں نے "کوڈ آف کنڈکٹ"کی خلاف ورزی کی ایک بچی کو " طالبان" کے
خلاف استعمال کیا کیوں اس بچی کی زبان سے ایسے الفاظ نکلوائے گئے جس کی وجہ
سے اس بچی کی جان کو خطرہ پیدا ہوگیااور کیا معصوم بچی انے میچور الفاظ سکھ
سکتی ہیں جتنا ایک صحافی لکھتا ہے اور اس بچی کیساتھ ایک گھنٹے کی انٹرویو
میں کچھ حصوں کو ڈائری کی شکل میں دیکر برطانوی ادارے نے چھاپا - کیا اس سے
اندازہ نہیںہوتا کہ اتنے بڑے ادارے "پروپیگنڈے" کی آڑ میں ہمارے ساتھ اور
ہمارے مستقبل کیساتھ کیا کررہے ہیں-کیا اس کا جواب کوئی دے سکتا ہے ! |