”اردو“ پس منظر و پیش منظر

فی الواقعہ یہ حقیقت ہے کہ اردو ایک لطیف زبان ہے اور اس کے لہجے کی شیرینی اور پیرائے نزاکت ہی اس کی لطیف مقبولیت کا سبب بھی ہے۔ یہ ایسی زبان ہے جس میں پیار و محبت، حسن و عشق کی چاشنی شامل ہے۔ مختلف تہذیبوں، فرقوں، زبانوں کے لوگوں (افراد) کے اختلاط اور میل جول سے یہ زبان وجود میں آئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس زبان کے خمیر میں اتحاد و یکجہتی کُوٹ کُوٹ کر پیوست ہے۔ تقسیمِ وطن سے پہلے اور اس کے بعد اردو ایک خاص گلدستہ کی شکل میں دنیا بھر میں سجایا گیا۔ رفتہ رفتہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا آج اس زبانِ نسیاں سے نکل کر ہماری روز مرہ کی عملی زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ اردو یوں تو اب اخبارات ، رسائل، ٹیلی ویژن چینلوں اور ویب سائٹس پر اس طرح شامل ہے جیسے اردو کا سیلاب اُمڈ آیا ہے۔ جدید اردو آج پوری قوت کے ساتھ محوِ پرواز ہے۔ ضرورت اس امر کی واضح ہے کہ ہم اردو زبان سے محبت کرنے والے موقع کو غنیمت جان کر کھلے دل اور کھلے دماغ کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات اور جدید ضروریات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اور ضروریات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں، سماج، ملک اور قوم کے تئیں اپنی زمہ داریاں سمجھیں اور اردو کے لئے ترقی کے مدارج طے کریں۔

”اردو “آزادی کے بعد جس ابتلا و آزمائش کے دور سے نبرد آزما رہی وہ پوشیدہ نہیں ہے ، سرکاروں کی درجہ عناد پر بھی رہی ، بے توجہی کا عذاب بھی جھیلی، یہ اردو ہی کا دم خم تھا کہ وہ اپنے وجود کو ہر شکست و ریخت سے بچائے رکھنے میں کامیاب ہوئی۔ دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنو کے بیچ بھی اردو کافی عرصہ تک وجہ تنازعہ رہی ،پاک و ہند میں اردو زبان کی بحالی کیلئے کافی عرصے تک جد و جہد کی گئی ، خدا بھلا کرے اصحابِ مدارس والوں کا کہ انہوں نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنائے رکھا ، بازاروں،محلوں، گلی کوچوں میں بھی اردو کا چلن چونکہ ناقابلِ شکست تھا اس لئے برصغیر پاک و ہند کے فلم انڈسٹری نے بھی اردو کو قومی سطح پر رابطے کی زبان بنائے رکھنے میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ۔ اس موقعے پر اگر اردو کے صحافی صاحبان کی خدمات کا اعتراف کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے آزادی سے پہلے اور بعد میں اگر انتہائی جرات و حوصلے کے ساتھ انگریزی سامراج سے تکڑ لی تھی تو آزادی کے بعد بھی اردو کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے میں کوئی جھجک نہیں دکھائی۔

بیسویں صدی کے آخری عشرے میں جب معیشت کا آغاز ہوا اور ملک بھر میں نیا اطلاعاتی انقلاب برپا ہوا تو اردو بھی اپنے نئے امید اور امکانات لئے ہوئے ہم سب کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ یوں اردو اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک پہنچتے پہنچتے دنیا بھر میں عام ہوگئی۔ دنیا میں شاید کوئی ملک بھی ایسا نہ ہو جہاں اردو نہیں بولی جاتی یا ان ملکوں میں اردو دان کی کمی ہو۔ کم و بیش ہر ملک میں اردو دان اور اردو سے محبت رکھنے والے لوگ ملتے ہیں۔دنیا بھر میں بے شمار اردو اکیڈمیاں، مرکزی سطح کے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جیسے ادارے قائم ہیں اور یہ سب ادارے اردو کی فروغ اور بہتری کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ اردو دان مایوسیوں کے جس حصار میں رہنے کے عادی ہوگئے ہیں اس میں کامیابیوں کے روشن امکانات بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔ بہرحال جغرافیائی محور بدلے ہوں یا اردو دانشوری کے چہرے یا پھر اردو کے حوالے سے اقتصادی میدان سجے ہوں ، امکانات کی تلاش کرنے والے اردو کا مستقبل پہلے سے زیادہ روشن دیکھ رہے ہیں۔ویسے بھی اس مضمون کا مقصد صرف یہی ہے کہ اردو زبان کی احیاءونگہداری کرنا۔اور اس کی وسعت کیلئے برسرِ پیکار رہنا۔ ویسے بھی اردو تو جناب ہمارے ملکی کی سرکاری زبان ہے اور اس کی بہتری کیلئے ، اس کی احیاءو نگہداری کیلئے ہر کسی کو مستعد رہنا چاہیئے ۔ویسے بھی پاکستان قوم کا شماردنیا بھر میں ذہین ترین اقوام میں ہوتا ہے۔ جب بھی ملک اور زبان کی ترویج کی بات آتی ہے یہ قوم یک جان دو قالب کے مصداق ایک ہو جاتی ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ اردو نے ان زبانوں کے دستر خوانوں سے خوشہ چینی کی ہے جو خود اپنے ملک میں مکمل اور وسیع رہی ہیں۔ اردو زبان کا بڑا ماخذ فارسی زبان ہے جو نہ صرف ایران میں رائج ہے بلکہ مغلیہ بادشاہوں کے دور میں درباری زبان کا فخر رکھتی ہے۔ اردو تمام غیر ملکی زبانوں کے الفاظ کو اپنی آغوش میں لینے کی استعداد بھی رکھتی ہے پس پاکستانیوں کو یہ دعویٰ کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ اردو زبان میں ترقی کرنے اور وسعت پانے کا فطری جوہر موجود ہے ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس کی فطری صلاحیتوں کو کس طرح بروئے کار لایا جائے جس سے ترویج ِ اردو بامِ عروج کو چُھو سکے۔

ہمارے ملکی، ملی، ثقافتی حالات اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان میں اردو کو قومی زبان قرار دے کر اس کو وہی مقام دے دیا جائے جو پاکستان کے وجودِ ہستی پر آنے سے پہلے انگریزی زبان کو حاصل تھا۔ یوں علمی سرمائے میں وسعت کے ساتھ ساتھ اردو ترقی کا باعث بنے گی۔یہاں یہ قطعہ تحریر کرنا چاہوں گا اور وہ بھی شاعر سے بہت معذرت کے ساتھ کہ موزوں کو دیکھتے ہوئے چند لفظوں کی تبدیلی اس مقام پر ناگزیر ہوگئی تھی۔
ہر ایک لفظ ہے زندہ علامتوں سے تری
مری ترقیوں کی یہ قامت نزاکتوں سے تری
تیری طلب کے حوالے سے زندگی تھی مری
مِرا جواز ہوا ختم قربتوں سے تیری

یہاں آپ یہ موازنہ کر سکتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب انٹر نیٹ پر اردو زبان کا شائبہ تک نہیں تھا مگر اب یہ بات قدرے خوش آئند ہے کہ اردو سے پیار کرنے والے انٹر نیٹ کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ ہمارے کچھ محبِ وطن نوجوانوں کا گروہ اس فرض سے غافل نہیں ہے اور وہ اردو کی ترقی کے لئے اپنی تمام تر صلاحتیں اور قدرے پیسہ بھی وقف کر رہے ہیں اور شب و روز اردو کیلئے محنت کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ انہیں اور حوصلہ مل سکے۔ مندرجہ بالا تجاویز جو کہ بہت مختصر الفاظ(تنگی جگہ) میں تحریر کی شکل میں لائی گئی ہے ، ان تجاویز کو عملی جامہ پہنایا جائے اور حکومتی سرپرستی مل جائے تو یقینا اردو زبان ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی اور اسے دنیا کی تیز رفتار ترقی میں ایک خاص مقام حاصل ہو جائے گا۔
Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawed Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 367983 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.