تحریر: اثرؔ صدیقی ، کائناتِ نجم
النسآء ،جعفر نگر ، مالیگاوں۔
نعت عربی لغات کا وہ مقدس ، محتشم ، مکرم اور محترم لفظ ہے جو اپنی ساعتِ
آفرینش سے امروز تک صرف اور صرف اوصافِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار
واشتہار کے لیے مختص و مستعمل ہے۔ نعت اس کامل ترین شخصیت کی قصیدہ خوانی و
تہنیت و تقدیس ہے، جس کے جاہ و جلال، تقوا، اخلاص، توکل ، صبر وتحمل، تدبر
و تشکر اور فصاحت و بلاغت کاکائناتِ عالم میں کوئی ثانی نہیں۔ وہ روحِ
کونین ہے جس کا اسوۂ حسنہ دربارِ ایزدی میں مرکزِ درودوسلام ہے بہ قول
اعلا حضرت مولانا احمدرضا بریلوی ؎
میں تو کیا چیز ہوں خود صاحبِ قرآں کو شہا
لاکھ مصحف سے پسند آئی بہارِ عارض
قرآن مجید نے رحمۃ للعالمین ، طٰہٰ و یٰٓس، مدثر ومبشر، منذر ونذیر، مزمل
و سراجِ منیر جیسے القاب و اعزازات سے خاتم النبین ﷺ کو خطاب کرکے ابنِ
آدم کو دربارِ رسالت مآب میں گفتگو کا سلیقہ و قرینہ تفویض کیا، قرآن
مجید صرف سرمدی و ابدی گل دستۂ نعت نہیں بل کہ ایک جامع درس گاہِ نعت بھی
ہے بہ قول مصنفِ حدائقِ بخشش ؎
قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکامِ شریعت ملحوظ
فنِّ نعت کو صرف شعری محاسن نہیں جذباتی مناقب بھی درکار ہیں ۔ نعت خارجی
انسلاکات و داخلی محسوسات کا جمالیاتی اشتراک ہوتی ہے۔ محفلِ نعت اس محبوبِ
خدا ﷺ کی بارگاہ ہے جہاں عاشقِ دل گیر کو بے سروسامانیاں نہیں سازو رخت کی
ضرورت ہے۔ اس بزمِ ناز میں عاشق شکوہ سنج نہیں تشکر طرازہوتا ہے۔ یہاں پاے
اسلوب میں شریعت کی بیڑیوں کی کار فرمائی ہے۔ ایوانِ نعت میں ’’باادب‘‘…’’با
ملاحظہ‘‘… کی صداے باز گشت ہمیشہ گونجتی رہتی ہے۔ نعت گو… وتعزروہ وتوقروہ…
کے آفاقی نظام کا پابند ہوتا ہے۔
اس دربارِ رسالت مآب میں قیس و فرہاد کی طرح بے محابا اظہارِ عشق کی اجازت
نہیں۔یہاں عقیدتِ صدیق کی خاموش عبادت مقبول ہے۔ یہاں دلِ رنجور کے ہزار
پارچے یہاں وہاں بکھیرنے والوں کا ازدحام نہیں بل کہ یہاں باطل کے لشکرِ
جرار کے رو بہ رو چند فدائیانِ رسول کے عزم و عمل کی صف بندیاں ہیں ۔ یہاں
دیدارِ یوسفِ کنعاں سے زلیخاے وقت کی انگلیاں نہیں کٹتیں بل کہ فیضانِ یار
سے نسلوں کے مقدر سنورتے ہیں ۔ یہاں کفِ کلیم میں اک چاند نہیں چمکتا بل کہ
اک جنبشِ انگشت سے مہِ تابِ عالم تاب کے شق ہونے کی سر مستیاں ہیں۔ یہاں دمِ
مسیح سے مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ نہیں بل کہ اک مکمل ضابطۂ حیات اور
روشن لائحۂ عمل سے مردار ادیان و ملل کے اجسام میں حیات افروزیاں ہیں ۔
یہاں بحر و بر میں تختِ سلیمانی کی طاقت آزمائی نہیں بل کہ قلوب و اذہان
کی تسخیر کے درخشاں ابواب ہیں۔ یہاں صرف قندیلِ لفظ کی قیمت و پذیرائی نہیں
بل کہ جذبۂ بلیغ و اخلاصِ عمیق کے ماہِ کامل کی کام رانی ہے۔ نعت گوئی
صحراے بے کراں کی غزل خوانی نہیں بل کہ حریمِ جاں میں اذانِ شوق ہے۔ نعت
گوئی مجازی محبوبوں کے سنگِ در کی بوسہ بازی نہیں بل کہ کربلاے وقت میں
سجدۂ حسین کی سرشاری ہے۔ یہاں سوداے نقد کا معاملہ نہیں بل کہ انتظارِ
محشر کا کیف و سرور ہے ؎
رضاؔ جو دل کو بنانا تھا جلوہ گاہِ حبیب
تو پیارے قیدِ خودی سے رہیدہ ہونا تھا
حضرت مولانا کی نعتیہ شاعری شاعرِ مشرق کے ساختیاتی و معنیاتی آئینہ خانوں
میں نغمۂ عندلیب و رنگِ طاوس نہیں بل کہ سوزِ جبریل یا بانگِ سرافیل ہے۔
مولانا کا احساس لاکھ حکیم سربہ جیب نہیں بل کہ ایک کلیم سربہ کف ہے ۔
مولانا کی شاعری جلوۂ شعور و شعار نہیں بل کہ مدینہ و نجف کی سرمہ سرائی
ہے۔ یہاں سر ریشۂ قلم سے خانۂ فرہاد روشن ہے۔ یہاں کاروانِ شوق ہر لحظہ
نئے طور اور نئی تجلیوں کا ہم سفر ہے ۔ یہاں حریمِ وجود مشعلِ عشق سے
فروزاں ہے۔ حدائقِ بخشش کے اوراقِ فروزاں پر صلاۃ و درود سے تب و تابِ دروں
کا منظر نامہ ہے۔ یہاں رمزِ دل کی آشنائی سے ہنروری و دیدہ وری کے ابواب
روشن ہیں۔ محترم کی تکبیرِ دل میں معرکۂ بود ونبود کی گدازیت ہے۔ یہ محفلِ
شعر و سخن وہ آہِ سحر گاہی ہے جس کی بہ دولت عطار، رومی، رازی، غزالی،
سعدی اور شیرازی سرفراز ہیں ؎
اے رضاؔ یہ احمدِ نوری کا فیضِ نور ہے
ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
غالبؔ کے زر نگار محیطِ سخن میں حدائقِ بخشش کی شاعری دلِ ہر قطرہ میں سازِ
اناالبحر کی باز گشت ہے۔ حدائقِ بخشش مستانہ وار وادیِ خیال کا سفر ہے۔
حدائقِ بخشش حریمِ لفظ لفظ میں گنجینۂ معنی کا طلسم ہے۔ حدائقِ بخشش کا
چراغ، جلوۂ بینش(ﷺ) کے زکاتِ حسن سے مہر آسا ہے ؎
مرے غنی نے جواہر سے بھر دیا دامن
گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گداے فلک
حدائقِ بخشش بساطِ ہنر پر گل گشتِ جنوں ہے۔ حدائقِ بخشش قرطاسِ شوق پر فروغِ
عشق کی کار فرمائی ہے۔ حدائقِ بخشش محفلِ شعر و سخن میں ایک عاشق کی نغمہ
سرائی ہے ؎
اے رضاؔ جانِ عنادل ترے نغموں کے نثار
بلبلِ باغِ مدینہ ترا کہنا کیا ہے
حضرت مولاناکا قلم جمالِ کائنات سے تلازمے تلاش کرتا ہے۔ ان کا وجدان صبح
کے سورج کی طرح فرحت بخش ہے۔ ان کا شعور ماہِ درخشاں کی طرح ظلمت نبرد ہے۔
ان کے جذبوں میں غنچوں کی طہارت ہے۔ ان کے احساس میں پھولوں کی خوشبوہے۔ ان
کی بصیرت میں خاکِ کیمیاکی قوتِ جاذبیت ہے ؎
جہاں کی خاک روبی نے چمن آرا کیا تجھ کو
صبا ہم نے بھی ان گلیوں کی کچھ دن خاک چھانی ہے
حدائقِ بخشش کی نعتیہ فضا ایک عاشق کا شہرِ شعار ہے ، جہاں محبوبِ رعنا کے
غمزہ و چشم، قدو گیسو، ناز وادا ، لب و رخسار کی قصیدہ خوانیوں کی جلوہ
آرائیا ں بھی ہیں ؛ قلبِ بسمل کے اضطراب و بے تابیوں کی جلوہ سامانیاں بھی۔
شعر شعر میں محبت کے بے شمار جاوداں رنگ بکھرے پڑے ہیں ۔ کاوشِ محترم کا
لفظ لفظ عقیدت کی منقبت ہے۔ حرف حرف میں مسلکِ احترام کی تہنیت ہے ؎
میٹھی باتیں تری دینِ عجم ایمانِ عرب
نمکیں حسن ترا جانِ عجم شانِ عرب
مولانا محترم نے ادیان و ملل کی بے بضاعتی و تنگ دامانی کا اظہار آپ (ﷺ)کی
رحمتِ ناتمام کے وسیلوں سے کیا ہے۔ مولانا محترم کے زاویۂ نگاہ کے رو بہ
رو بھوکے شکم سے پتھر باندھ کر نسلوں کی غم خواری کی تاریخِ مبیں ہے۔ انھیں
بارشِ سنگ میں عطاے دعا کی شریعت کا عرفان ہے ۔ انھیں کھجوری چٹائی والے
درد مند پیمبر(ﷺ) کے شفاف احساس کی معرفت ہے۔ انھیں پتا ہے کہ بوسیدہ کالی
کملیا میں لپٹا ہوا انسانیت و بشریت کا نجات دہندہ و مسیحا ہے۔
اعلا حضرت اردو شاعری کی روایاتِ پارینہ کے علم بردار سہی مگر اوراقِ
حدائقِ بخشش میں فکری علائم سے تفہیمات کے ابواب روشن ہیں ۔ جا بہ جا تحریر
میں سمعی و بصری تلازمے سر چشمۂ اظہار ہیں ۔ حضرت مولانا کے شعری محرکات
اجتہادی کیفیات کے علم بردار ہیں۔ موصوف کا وجدان نئے معنیاتی جہانوں کا
متلاشی ہے۔ حدائقِ بخشش کے سیاق و سباق میں تازہ کاری کا رنگِ شفق ہے۔
لاریب! حدائقِ بخشش کا استعاراتی نظام بلیغ، کامل اور پُر اثر ہے ؎؎
جنگل درندوں کا ہے ، میں بے یار ، شب قریب
گھیرے ہیں چار سمت سے بد خواہ ، لے خبر
پُر خار راہ ، برہنہ پا ، تشنہ ، آب دور
مولا! پڑی ہے آفتِ جاں کاہ ، لے خبر
حدائقِ بخشش روحانی محسوسات کا ارتکاز ہے۔ حدائقِ بخشش متصوفانہ تخیلات کا
انکشاف ہے۔ حدائقِ بخشش پاکیزہ جذبات کا انعطاف ہے۔ اسلامی بلندروایات اور
انسانی اعلا اقدار کی پاس داری و وفا شعاری نے اعلا حضرت کو ایک ’’دلِ
گداختہ‘‘ عطا کیا اور اس دلِ درد مند نے موصوف کے نعتیہ کلام کو ایک عاشقِ
رسول ﷺ کا ترانہ بنا دیا ۔ چوں کہ نعتِ پاک میں تفریط و افراط کی چنداں
گنجایش نہیں ، اس لیے حدائقِ بخشش کے اظہارِ عقیدت کا توازن و اعتدال قابلِ
صد احترام ہے۔ اس نعتیہ کلام میں ترسیلات کا منظر نامہ متنوع اور دل پذیر
ہے۔ تخلیقی استعارات سے تخیل اور عقیدت کے آمیزے کی نموداری ہے۔ وارفتگیِ
عشقِ رسول ﷺ نے وجدان کو جمالیاتی آہنگ بخشا ہے اور یہ مجموعہ ایجازِ
تراکیب کا ایک گہوارہ بن گیا ہے ؎
ملک ِ سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں |