عصری نسائی ادب کی دھنک رنگ شاعرہ

اردو شاعری کی زلفِ گرہ گیر کو سنوارنے اور نکھارنے میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین نے بھی اپنی فکر و نظر اور محسوسات و تفکرات سے ایک روشن نقش ابھارا ہے۔ دورِ جدید میں نسائی ادب میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ آج اردو ادب کے منظر نامے پر شاعرات کا ایک جم غفیر نظر آتا ہے۔ جو اپنی شاعرانہ ریاضتوں سے نسائی ادب کو مالا مال کررہی ہیں ۔خواتین شعرا کا یہ سلسلہ کشورؔ ناہید، پروینؔ شاکر، داراب ؔبانو، فہمیدہ ریاضؔ ، مسعودہ حیاتؔ، نورجہاں ثروتؔ ، عشرت آفریںؔ وغیرہ سے ہوتا ہوا’’ نقرئی کنگن بول اٹھے ‘‘ کی مصنفہ تک پہنچتا ہے۔

’’نقرئی کنگن بول اٹھے‘‘ پروفیسر عائشہ شیخ ،شعبۂ اردو اکبر پیر بھائی کالج ، ممبئی کا اولین شعری مجموعہ ہے۔ جس کی اشاعت کے ساتھ موصوفہ نے ادبی دنیا میں ’’عائشہ سَمن‘‘ کے نام سے اپنا تعارف ایک بہترین شاعرہ کے طور پر کرانے کی کامیاب کوشش ہے۔ پیشِ نظر مجموعے میں حمد و مناجات ، نعت، غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ حسبِ روایت اس مجموعے کا آغاز بھی حمدِ باریِ تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ دوحمدیہ نظمیں ربِ ذوالجلال کی طاقت و قدرت ، عظمت و رفعت اور لطف و کرم کے اظہار سے مملو ہیں۔ جن میں صداقت اور سچائی کا عنصر پایا جاتا ہے ؎
مرے شعور میں شایستگی تجھی سے ہے
مرے خدا ، مری دیدہ وری تجھی سے ہے
تجھی سے ہے مری آنکھوں میں یہ جمال و جلال
مرے وجود کی ہر روشنی تجھی سے ہے

دنیا میں جو کچھ ہے سب اسی پروردگارِ عالم کی مِلک ہے۔ وہی سب کا پالنہار ہے ۔ وہی ہے جس نے کائنات کولفظ ِکن سے پیدا فرمایا ۔ اس کی پکڑ جہاں سب سے زیادہ شدید ہے وہیں اس کا رحم و کرم اور عدل و انصاف بھی سب سے ارفع و اعلیٰ ہے ۔ ہر عدل و انصاف اسی کے فضل و کرم کا پرتو ہے ، اور ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے والی حقیقی ذات بھی اسی کی ہے ؎
تیرے کرم کے پرتو ہیں سب عدلِ جہاں کی تاریخیں
ظلم کی گردن کاٹنے والی شمشیریں بھی تیری ہیں

حمد باریِ تعالیٰ کے نذرانے کے بعد مناجات پیش کی گئی ہے۔ جس میں عائشہ سَمن نے بارگاہِ ایزدی میں اپنے عجز کا اظہار کیا ہے۔ اور اپنے دریچۂ ذہن سے دعا کا جو شعری پیکر ڈھالا ہے وہ پسندیدگی کا حامل دکھائی دیتا ہے ۔ جو بار بار انھیں غموں کی سوغات دیتا رہتا ہے وہ اسی کے لیے خوشی و مسرت اور نشاط و شادمانی کی طلب گار ہیں ، دعا کا یہ اچھوتا انداز اُن کے اندرون میں پنہاں خلوص کو عیاں کرتا ہے ؎
جو تازہ غم کا تحفہ روز مجھ کو پیش کرتا ہے
تُو اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ شادماں کردے

ہر شاعر اپنے کلام میں حمد و مناجات کے بعد نعتِ پاک کو پیش کرناباعثِ سعادت سمجھتا ہے ۔ شاعری کی جملہ اصناف میں سب سے زیادہ نازک اور مقدس صنف نعت ہے۔ ہماری اردو شاعری میں بیش تر شعرا کا شناخت نامہ نعت گوئی سے ہی ہے۔ عائشہ سَمن نے بھی اپنے مجموعۂ کلام میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار بڑے مخلصانہ انداز میں کیا ہے۔ ’’نقرئی کنگن بول اٹھے‘‘ میں دو نعتیہ کلام جگمگ جگمگ کررہے ہیں ۔ پہلی نعت کی زمین بڑی مترنم اور نغمگی و غنائیت سے پُر ہے، جب کہ دوسری نعت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ و فریاد کی لَے سے سرشار ہے ، دونوں نعتوں کے مطلعے خاطر نشین فرمائیں ؎
راستوں سے کہو ، منزلوں سے کہو ، آخری راہ بر ہیں ہمارے نبی (ﷺ)
چاند ، سورج ، ستاروں سے پوچھو ذرا کس قدَر معتبر ہیں ہمارے نبی (ﷺ)
زندگی ہوگئی دشوار شہہِ کون و مکاں
ہم پہ کیجے نظر اک بار شہہِ کوں و مکاں

۱۶۰؍ صفحات کا یہ مجموعہ حمد و مناجات اور نعتیہ کلام کے بعد تین حصوں حصۂ غزل ، حصۂ نظم اور حصۂ غزل پر منقسم ہے۔ پہلے حصے میں ۴۱؍ غزلیں ، دوسرے حصے میں ۲۲؍ نظمیں اور تیسرے حصے میں ۶۲ ؍ غزلیں اور اخیر میں ایک استقبالیہ گیت شامل ہے۔عائشہ سَمن کے پیشِ نظر مجموعے کی غزلوں اور نظموں کا سرسری مطالعہ موصوفہ کی شعری بصیرت اور زبان و بیان پر قدرت کو ظاہر کرتا ہے۔اُن کی زبان بڑی صاف ستھری ، عمدہ اور سلیس ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں بعض ایسی اچھوتی اور نرالی لفظی تراکیب کا دل کش اور خوب صورت انسلاک کیا ہے کہ جن کو پڑھ کر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ ذیل میں چند تراکیب ملاحظہ کریں تاکہ موصوفہ کی زبان دانی کا ایک ہلکا سااشاریہ سامنے آجائے:
’’ تہذیب کے گل دان/ کاسۂ لفظ / زہرابِ غم / برفیلا بھنور / زم زمِ اشک / خلعتِ غلافِ جاں / بساطِ کہکشاں / شیریں صفت آہو / لبِ چشمۂ زمستاں / مشامِ گلاب / پھول کی وحشت / شبنمی احساس / صہباے محبت / وحشتِ صحراے جنوں / صحیفۂ ماتم / غسلِ برگ / جزدانِ جاں / آ نکھ کا کاسہ / زلف کی چاندی / بہشتِ دل / قسمت کی پوشاک /شاداں جزیرہ/دل کی کھڑکیاں / رداے خامشی/ رگِ جاں کا خلیل ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

عائشہ سَمن کا تعلق شہرِ علم وادب مالیگاؤں سے ہے ۔ وہ ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ’’نقرئی کنگن بول اٹھے‘‘ کا شعری اظہاریہ روایتی رومان پسند نسائی پیرایۂ بیان کے جِلو میں کہیں کہیں عصری محسوسات و کیفیات اور تصوفانہ رنگ و آہنگ سے بھی ہم رشتہ دکھائی دیتا ہے۔ موصوفہ کے بہ قول اُن کے خانوادے کی تہذیبی روایات اور سماج و معاشرے کے ثقافتی اَقدار ہی اُن کی شاعری کے اصل محرکات ہیں ۔ بزرگوں کی اعلیٰ تربیت نے اُن کے وجدان و شعور ، خیال و خواب ، فکر و نظر اور احساس و ادراک کو جِلا بخشی ۔ جس کے نتیجے میں وہ عنفوانِ شباب ہی سے اپنے تصورات ، خیالات اور محسوسات کے اظہار کے لیے صنفِ شاعری کو بہ طورِ وسیلہ استعمال کررہی ہیں۔ عائشہ سَمن نے فی زمانہ نسائی شعری اظہار کے روایتی و رومانی طرزِ اسلوب میں حسبِ استطاعت زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بڑے جوش و ولولے کے ساتھ نظم کیا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں محبوبِ نظر اور شمعِ شبستاں ہی نہیںبل کہ ماں ، بیوی، بہن ، بیٹی ، معلمہ اور مجاہدہ سبھی کچھ نظر آتی ہیں ؎
جزدانِ جاں میں رکھتی ہوں ان کو سنبھال کر
مکتوب جو تمہارے ہیں میری کتاب میں
ہمیشہ آنکھ کا کاسہ لیے وہ پھرتا ہے
اسے مَیں دید کی خیرات دینے والی ہوں
جس نے حق مارا کسی حق دار کا
کیسے اس کی ذات کو اچھا کہوں
شعلوں کی گزرگاہوں سے بے خوف گذر جا
رستے میں کہیں پھول کا بستر بھی ملے گا
مَیں زندگی کے گلستاں سے اور کیا لاتی
تفکرات کی خوشبو سمیٹ لائی ہوں
وہ مرے لب کا تبسم وہ مرے اشکوں کا نور
مامتا کی ہر ادا ہے ایک پاگل کی طرح
شرابِ معرفت پی کر مَیں جب مدہوش ہوتی ہوں
مَیں سجدوں سے ، تشکر ، بے خودی سے پیار کرتی ہوں
تری عظمت سمٹ سکتی نہیں کونین میں لیکن
ترے فضل و کرم کی روشنی سمٹی ہے رحمت ہے

عائشہ سَمن کی غزلوں اورنظموں میں فن کی پختگی ، شعریت کا رچاو ، جذبے کا خلوص ، فکر و خیال کی سلاست ، شگفتگی اور بے ساختگی کا احساس جابجا ہوتا ہے ۔ وہ طبقۂ نسواں کی نمایندگی کرتے ہوئے عام فہم انداز میں اپنے محسوسات کو شعری پیکر میں ڈھالنے کا ہنر بخوبی جانتی ہیں۔ ’’نقرئی کنگن بول اٹھے ‘‘ میں شامل بعض غزلوں کی زمینیں جدت و ندرت کی آئینہ دار ہیںجن کی ردیفیں بڑی ادق اور مشکل ہیں ۔ عائشہ سَمن کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ فنّی پابندیوں میں رہ کر نئے اسلوب میں بہترین غزلیں کہنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہیں ۔ انوکھے قافیوں اور ردیفوں پر مشتمل چند غزلوں کے مطلعے ملاحظہ کریں اور فن کا رہ کو داد دیں ؎
آؤ ہم تم سنگ بکھیریں
اپنے اپنے رنگ بکھیریں
ساری دنیا دیکھتی میری ہنسی
کھلکھلاتی ، ناچتی میری ہنسی
عشق کرنے کو ہو حوصلہ منفرد
زندگی کا مری تجرِبہ منفرد
دیکھ کتنی اداس ہے دنیا
جیسے خالی گلاس ہے دنیا
تجھ سے بچھڑ کر ڈر سا کیوں ہے
نینوں سے جل برسا کیوں ہے
ہر سمت نظر آتے ہیں بکھرے ہو ئے جذبے
چہرے پہ تبسم ہے کہ الجھے ہوئے جذبے
بہت لکھا ہے تم نے خلعتِ زردار کا قصہ
کبھی اشکوں سے لکھ ڈالو مرے کردار کا قصہ

عائشہ سَمن کا شعری سفر پابند نظمیہ سے آگے آزاد نظم نگاری جیسے نئے جزیروں کی طرف بھی گامزن ہے۔ ’’نقرئی کنگن بول اٹھے‘‘ میں شامل نظمیں اپنے موضوع و مواد کے اعتبار سے خصوصیت کی حامل دکھائی دیتی ہیں۔ اِن میں ’’صبحِ نو/ رشتے دار/ حوا کی تقدیس ہے عورت / میری بیٹی / تو امی یاد آتے ہیں تو ابّو یاد آتے ہیں‘‘ جیسی نظمیں لائقِ تعریف اور بار بارپڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

باوجود اِن محاسن کے عائشہ سَمن کی شاعری میں کہیں کہیں فنّی خامیاں بھی دکھائی دیتی ہیں ، مثلاً ایک غزل جس کا مطلع ہے ؎
مَیں خوشبو اور جمالِ زندگی سے پیار کرتی ہوں
مَیں پھولوں سے کلی سے روشنی سے پیار کرتی ہوں

میں زندگی سے / روشنی سے / خوشی سے / آگہی سے وغیرہ کی طرح ایک شعر میں قافیے کا التزام نہیں ہے ، شعر دیکھیں ؎
محبت کے سفر میں ہے یہی رختِ سفر جاناں
مَیں آنسو سے ، کراہوں سے ، غموں سے پیار کرتی ہوں

درج بالا شعر میں ’’غموں ‘‘ کی بجاے ’’غمی‘‘ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ؎
رندوں کے لیے جب درِ مَے خانہ بنوں گی
صہباے محبت! ترا پیمانہ بنوں گی

میں مَے خانہ / پیمانہ / کاشانہ / دردانہ ، کی مناسبت سے قافیہ جاناناں فنّی اعتبار سے توجہ طلب ہے ؎
نفرت سے اگر دیکھے تو اجڑے گا گلستاں
وہ شوق سے دیکھے تو مَیں جاناناں بنوں گی

علاوہ ازیں زیرِ نظر مجموعہ میں مرتکز/ پامردی/ ثمر/ مراحل/ مرغوب/قمر جیسے الفاظ زیر کے ساتھ مرِتکز/ پامِردی/ ثِمر/ مِراحل/ مِرغوب/ قِمر لکھے گئے ہیں ۔کئی لغت میں تلاش کرنے پر یہی نتیجہ نکلا کہ یہ الفاظ زبر ہی سے صحیح ہیں ۔

بہر کیف! موصوفہ نے جس اندازاور مزاج کی شاعری کی ہے وہ بہ نظرِاستحسان دیکھنے کے قابل ہے۔ آج جب کہ عصری شعری منظر نامے پر خواتین کے کلام میں زیادہ تر وارداتِ عشق اور اس سے منسلک محسوسات و کیفیات کی شعری ترسیل ہی کو محبوب و مرغوب سمجھا جارہا ہے۔ ایسے ماحول میں نسائی روایتی رومانیت کو برتنے کے ساتھ اپنے شعری اظہار کو مزید وسعت دے کر اس میں زندگی کی تلخ حقیقتوں، عصری محسوسات و کیفیات اور تصوفانہ رنگ و آہنگ کو پیش کرنے والی دھنک رنگ شاعرہ عائشہ سَمن کا یہ مجموعہ یقینااہل نقد و نظر کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیابی حاصل کرے گا ۔
( عائشہ سمن کے شعری مجموعے ’’نقرئی کنگن بول اٹھے ‘‘ کی رسم اجرا پر پڑھا گیا مضمون 24/08/2012)
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646860 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More