عرب اور ایران سے ہندوستان کے
تجارتی تعلقات بہت قدیم زمانہ سے ہیں ۔عرب ایک ریگستانی ملک ہے چونکہ زراعت
کے لیے اس میں پانی کے ذخیرے اورزندگی بسر کرنے کے لیے روزی کمانے کے
امکانا ت بہت کم ہیں۔اس لیے عربوں نے تجارت کو اپنا اہم پیشہ بنایا۔ وہ
جہازوں اور اونٹوں کے ذریعہ ناریل،کالی مرچ،لونگ،مشک،مسالے ،چاندی اور
ہاتھی دانت کی مصنوعات وغیرہ ہندوستان سے یورپ،چین اور عرب کی منڈیوں میں
پہنچاتے تھے اور کچا مال مثلاً نارنگی،انناس ،شہتوت اورسیب لاکر ہندوستان
کی منڈیوں میں فروخت کیا کرتے تھے۔خلفاے راشدین کے بعد عرب میں توسیع پسندی
کا جذبہ جڑ پکڑنے لگا تو محمد بن قاسم صوبۂ سندھ پرفتح حاصل کرلیتے ہیں
مگر ملکِ شام کی مرکزی سلطنت کمزور ہوجاتی ہے اور یہ ہونہار سپہ سالار مرکز
کے اشارے سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔
مسلمان جب برِّ صغیر ہند و پاک میں داخل ہوئے تو عربی، فارسی اور ترکی
بولتے آئے اور جب ان کا اقتدار قائم ہوا تو فارسی سرکاری زبان ٹھہری ۔تاریخ
شاہد ہے کہ حاکم قومیں اپنی زبان اور اپنا کلچر ساتھ لاتی ہیںاور محکوم
قومیں جن کی تہذیبی و تخلیقی قوتیں مُردہ ہوجاتی ہیں، اُس زبان اور کلچرسے
اپنی زندگی میں نئے معنی پیدا کرکے نئے شعوراور احساس کو جنم دیتی ہیں۔محمد
بن قاسم سے محمود غزنوی تک اور محمود غزنوی سے بابر کی فتح تک کازمانہ
تقریباًآٹھ سوسال کو محیط ہے ۔ مسلمانوں کا کلچر ایک فاتح قوم کا کلچر
تھا۔جس میں زندگی کی وسعتوں کو اپنے اندر سمیٹنے کی پوری قوت موجود تھی۔اس
کلچر نے جب ہندوستان کے کلچر کو نئے انداز سکھائے اور یہاں کی بولیوں
پراپنا اثر ڈالاتوان بولیوں میں سے ایک نئی بولی کاجنم ہوا جو وقت کے
تہذیبی ،معاشرتی و لسانی تقاضوں کے سہارے مسلمانوں اور برِّ صغیر کے
باشندوں کے درمیان مشترک اظہار و ابلاغ کا ذریعہ بن گئی۔فاتح و مفتوح کے
امتزاج سے وجود میں آنے والی اس بولی کو کبھی لشکری تو کبھی ریختہ تو کبھی
ہندی، ہندوی اور ہندوستانی دہلوی وغیرہ کا نام دیا گیااور آج اسی کو
’’اردو ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
محمد بن قاسم کے خاصے عرصے کے بعد محمود غزنوی کی مرکزی سلطنت سندھ اور
پنجاب تک پھیل گئی ۔کہا جاتا ہے کہ دولت کی ہوس نے اسے اندھا بنا دیا تھا۔
شاید ان کے کردار کی یہ ایک کمزوری ہو مگر وہ بڑے دین دار ،دلدار اور فراخ
دل بادشاہ تھے ۔انھوں نے ہندوستان سے تعلقات استوار کرنے کے لیے اپنی
سرکاری مہرمیں سنسکرت کے الفاظ کندہ کرائے تھے۔ان کے عہد میں سنسکرت کی بہت
سی کتابیں فارسی میں ترجمہ کی گئیں۔ان کے زمانے میں خواجہ مسعود سعدؔ سلمان
(۴۳۸ھ -۵۱۵ھ/۱۰۴۶ئ-۱۱۲۱ئ)جیسا قادرالکلام شاعر پیدا ہوا جس نے عربی ،فارسی
،ترکی ،اور ہندوی(اردو)میں شاعری کی اور اپنے پیچھے تین دیوان چھوڑے جو
تازی،پارسی اور ہندوی میں ہیں۔انھیں ہندوی کا پہلا شاعر ماناجاتا ہے جو کہ
لاہور کے رہنے والے تھے۔جن کے بارے میں امیر خسروؔ نے ’’غرۃ الکمال‘‘ کے
دیباچے میں تحریر کیا ہے کہ :
’’پیش ازیںشاہانِ سخن کسے را سہ دیوان نبودہ مگر مراکہ خسرو ممالک
کلامے۔مسعود سعد سلمان را اگر ہست اماآں سہ دیوان در عبارت عربی و فارسی و
ہندی است و درپارسی مجرد کسے سخن را سہ قسم نکردہ جز من‘‘
(تاریخِ ادبِ اردو:ڈاکٹر جمیل جالبی،ج :۱،ص:۲۳)
امیرخسروؔ کی فارسی مثنوی ’’تغلق نامہ‘‘ میں ایک جملہ’’ہے ہے تیر مارا‘‘
ملتا ہے جو ہندوی زبان کے مخصوص آہنگ کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے یہ معلوم
ہوتا ہے کہ مسعود سعد سلمان کی زبانِ ہندوی سے خسروؔ کون سی زبان مراد لیتے
ہیں۔
حافظ محمود شیرانی کے مطابق:’’ اردو کا قدیم نام ہندی یا ہندوی ہے‘‘(پنجاب
میں اردوص۲۳)جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہونچتی ہے کہ مسعود سعد سلمان نے
جس زبان(ہندوی) میں شاعر ی کی ہے وہ ’’اردو ‘‘ ہی ہے۔مسعود سعد سلمان
کاہندوی دیوان ناپید ہوچکا ہے۔اگر یہ دست یاب ہوجاتا ہے تو لسانیات سے
متعلق بیش تر مسائل خصوصاً اردو زبان کے ارتقائی مراحل کے بہت سارے گم شدہ
ابواب روشن ہوجائیں ۔
محمود غزنوی کے بعد جب غوری دورآیاتو سلطان شہاب الدین کی سلطنت کا رقبہ
دہلی تک وسیع ہوگیا اوراس نے قطب الدین ایبکؔ کو دہلی کا صوبہ دار مقرر کیا
۔ہندو اور مسلم دونوں قوموں کے تہذیبی ،معاشرتی اور لسانی ملاپ سے جس نئی
زبان نے جنم لیا تھااُس نَو مولود زبان کے شعرو ادب میں اس دور میں رفتہ
رفتہ ترقی کی شروعات ہوئی ۔خلجی اور تغلق حکومتوں کے دور میں امیر خسروؔ ،ابوالحسن
یمین الدین(۱۲۵۳ئ-۱۳۲۵ئ)کی بلندو بالا شخصیت اردو زبان و ادب کی ابتدائی
تشکیل میں بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔امیر خسرو ۹۹؍ تصانیف کے مصنف تھے اور
بنیادی طور پر فارسی کے بہت بڑے شاعر اور عالم تھے ۔ان کے دوہے ،نظمیں ،انملیاں،مکرنیاں،
پہیلیاں،اور لوریاں لسانی اعتبار سے کافی اہمیت کی حامل ہیں۔خسروؔ پہلے
ماہرِلسانیات تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے ہندوستان کی زبانوں کو دو حصوں
میں تقسیم کیا تھا۔ایک ہندی ،دوسری دہلوی ،جو دوآبہ کے علاقوں میں بولی
جاتی تھی اور جس میں خسروؔ نے شعر کہے اور دوہے ،انملیاں، مکرنیاں ،پہیلیاں
وغیرہ مدون کی ہیں ۔دراصل یہی زبان آگے چل کر ’’اردو‘‘کے نام سے معنون
ہوئی۔آج خسروؔ کا جو کچھ بھی اردو کلام ملتا ہے وہ بعض محققین کے نزدیک
مستند نہیں ہے، لیکن یہ بات بہر حال اپنی جگہ مسلم ہے کہ امیرخسروؔ نے اردو
میں شاعری کی ہے۔چنانچہ ’’غرۃ الکمال ‘‘ کے دیباچے میں خود خسروؔ نے اس بات
کی تصدیق کی ہے کہ ’’جزوے چند نظم ہندی نذرِ دوستان کردہ است‘‘۔خسروؔ سے
پہلے ہندوی کے شاعر کی حیثیت سے مسعود سعد سلمان مشہور تھے۔اس لحاظ سے اردو
شاعری کے بنیاد گزاروں میں مسعود سعد سلمان اور امیرخسروؔ خشتِ اوّل کی
حیثیت رکھتے ہیں ۔امیر خسروؔ کے کلام کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ
ہوتا ہے کہ اب یہ زبان قدیم اُپ بھرنش سے آگے نکل کر اپنی تشکیل کے اک نئے
دور میں داخل ہوگئی ہے اور جس پر کھڑی بولی اور برج بھاشا دونوں اثر انداز
ہوئی ہیں ۔
خسروؔ کی شاعری میں یہ انفرادیت ملتی ہے کہ انھوں نے ایک مصرع فارسی اور
ایک مصرع اردو کا قلم بند کیا تو کہیں آدھا مصرع فارسی میں میں تو آدھا
اردو میں …ذیل میںاس طرح کے کلام کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں ؎
زحالِ مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہوں کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چو عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
حضرت نظام الدین اولیا کی وفات پر خسروؔ نے جو شعر کہا وہ بھی اسی رنگ و
آہنگ کا آئینہ دار ہے ؎
گوری سووے سیج پہ اور مکھ پر ڈارے کیس
چل خسروؔ گھر آپنے سانج بھئی چوندیس
اردو شاعری کی جس روایت کو مسعود سعد سلمان اور امیرخسروؔ نے شروع کیا اس
کو آگے بڑھانے میں چندمحققین کے خیال میں صوفیاے کرام کا بہت بڑا ہاتھ
ہے۔بل کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے نزدیک تو اردو شاعری کا آغاز مذہبی
شاعر سے ہی ہوا ہے جو کہ صوفیائے کرام کی رہینِ منت ہے۔
اردو زبان و ادب کے نشوونما سے متعلق ماہرینِ لسانیات کے فراہم کردہ مواد
،اردو زبان کی اوّلین تخلیقات اور بزرگانِ دین کے ملفوظات کی روشنی میں یہ
بات قطعیت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اردو بان کے فروغ اوراس کے نشوونما میں
صوفیاے کرام نے نمایاں کردار اداکیا ہے ۔یہ بے لوث اور مخلص لوگ بندگانِ
خدا تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے بے تاب تھے ۔وہ لوگوں کے دروازوں ہی پر
نہیں ان کے دلوں پر بھی دستک دینا چاہتے تھے ۔ظاہر ہے اس کے لیے ضروری تھا
کہ وہ اپنا پیغام عوام تک خود ان کی زبان میں پہنچائیں۔ چنانچہ صوفیاے کرام
نے خواص کی ادبی زبان کے بجائے عوام میںرائج زبان کو اپنی پیغام رسانی کا
وسیلۂ اظہار بنایا اور انہیں کی بولی میں تعلیم و تلقین فرمائی ۔صوفیاے
کرام جس خطے میں جاتے وہاں کی زبان سیکھ کر اس خطہ کے لوگوں تک انہیں کی
زبان میں اپنا پیغام پہنچاتے۔ اس طرح انہوں نے عوامی زبان کے دائرے کو وسیع
کیا اور اپنی ضرورت کے مطابق نئے نئے الفاظ استعما ل کرکے اس زبان کے
ذخیرۂ الفاظ میں قابلِ قدر اضافہ کیا ۔بابائے اردو مولوی عبدالحق صوفیائے
کرام کو اردو کا محسن خیال کرتے ہیں ۔
اردو زبان، اردو شاعری اوراردو نثر نگاری کو بنیاد فراہم کرنے والے اور اس
کی اوّلین روایتوں کی تشکیل میں نمایا ں کردار اداکرنے والے صوفیاے کرام
میںشیخ فریدالدین مسعود گنج شکر(۱۱۷۳ئ/۱۲۶۵ئ)،شیخ باجن(۱۳۸۸ئ/۱۵۰۶ئ)،شیخ
حمید الدین ناگوری(۱۱۹۳ئ/۱۲۷۴ئ)، امیرخسروؔ(۱۲۵۳ئ-۱۳۲۵ئ)،شیخ شرف الدین
بوعلی شاہ قلندر پانی پتیؔ(م۱۳۲۳ئ)،شیخ شرف الدین یحییٰ منیریؔ(م۱۳۸۰ئ)،شیخ
عبدالقدوس گنگوہی (م۱۵۳۸ئ)وغیرہ کے اسماے گرامی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ۔ان
میں زیادہ تر حضرت نظام الدین اولیا محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کے
مریدین،خلفا اور متوسلین ہیں ۔ان صوفیائے کرام نے اردو نثر کے ساتھ ساتھ
اردو شاعری کے عروج و ارتقا میں اپنا خونِ جگر لگایا۔چنانچہ بابا فریدالدین
مسعود گنج شکر کے کئی دوہے اور ریختے ملتے ہیں:مثلاً ؎
سائیں سیوت گل گئی ماس نرھیا دیہہ
تب لگ سائیں سیوساں جب لگ ہوسوں کیہہ
راول دیول ہمے نہ جائیے
پھاٹا پہنہ روکھا کھائیے
ہم دروشنہ اہے ریٖت
پانی لوریں اور مسیٖت
(تاریخِ اردو ادب: ڈاکٹر جمیل جالبی، ج:۱،ص:۳۷)
علاوہ ازیں دیگر صوفیائے کرام کے دوہے اور ریختے جو خالص ہندوی یعنی اردو
میں ہیں ذیل میں ملاحظہ ہوں ؎
بوعلی شاہ قلندر پانی پتی:
ساھرے نہ مانیو پیو کہ نہیں تھانو
کُنہہ نہ بوجھی بات اوی دھنی سہاگن نانو
سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے
بدھنا ایسی رین کر بھور کدھی نہ ہوئے
شیخ شرف الدین یحییٰ منیری:
کالا ہنسا نہ ملا بسے سمندر تیر
پنکھ پسارے یکہ ہرے ارمل کرے سریر
درد رہے نہ پیڑ
شرف حرف مائل کہیں درد کچھ نہ بسائے
گرد چھوئیں دربار کی سودرد دور ہوجائے
شیخ عبدالقدوس گنگوہی:
جگ بھایا چھوڑ کر ہوں تُج جوگن ہوں
باج پیاری ہے سکھی ایکو جگ نہ لئیوں
جے پیئو سیج تو نیند نہلیں پردیس تو یوں
برہ برودھی کامنی نا سکھ یوں نہ یوں
جدھر دیکھوں ہے سکھی دیکھوں اور نکوئے
دیکھا بوجہہ بچار مَنہہ سبھی آپیں سوئے
اردو شاعری کے ارتقا میں جہاں ایک طرف صوفیائے کرام نے کوششیں کیں تو وہیں
دوسری طرف غیر مسلم سنتوں نامدیوؔ(۱۲۷۰ئ/۱۳۵۰ئ)،کبیرؔ داس (م۱۵۱۸ئ)اور
گرونانکؔ(۱۴۶۹ئ/۱۵۳۸ئ) بھگتی تعلیمات کی اشاعت میں راجستھانی ،برج بھاشا
اور پنجابی زبانوں کا استعما ل کررہے تھے ،جن پر عربی،فارسی ،ترکی اور
سنسکرت کے الفاظ بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ۔ان سنتوں نے بھگتی تحریک
کو عوام و خواص تک پہنچانے کے لیے شاعری کو وسیلۂ تبلیغ بنا تے ہوئے
دوہے،راگ،راگنی وغیرہ قلم بند کیں ۔
نام دیو بنیادی طور پر مراٹھی کاشاعر تھالیکن ’’گرو گرنتھ صاحب)) میں اس کا
جو کلام ملتا ہے وہ ہندوی یعنی اردو کے آہنگ میں مکمل طور سے ڈھلا ہوا ہے
،دو شعر ملاحظہ ہوں ؎
مائے نہ ہوتی باپ نہ ہوتا کرم نہ ہوتی کائیا
ہم نہیں ہوتے تم نہیں ہوتے کون کہاں تے آئیا
چند نہ ہوتا سور نہ ہوتا پانی پون ملایا
شاست نہ ہوتا بید نہ ہوتا کرم کہاں تے آیا
بھگتی تحریک کے سب سے بڑے اور مشہور ترین شاعر کبیرؔ ہیں جو بنارس کے رہنے
والے اور ذات کے جولاہے تھے۔وہ توحید کے علم بردار تھے ،بت پرستی کی شدید
مخالفت ان کا ایمان تھا ۔وہ کہتے تھے’’ جسے خدا مل گیا اسے سب کچھ مل گیا
‘‘۔اپنے انھیں خیالات کی تبلیغ کے لیے انھوں نے شاعری کا سہارا لیا ،اور
اردو شاعری کو عروج بخشا۔انھوں نے صنفِ دوہا کو ہی زیادہ تر استعمال کیا
یہی وجہ ہے کہ جب دوہا کا ذکر نکلتا ہے تو ذہن خوبخود کبیرؔ کی طرف چلا
جاتا ہے ۔’’بیجک‘‘ اور ’’بانی‘‘ ان کے مجموعۂ کلام ہیں ،جن سے چند دوہے
ذیل میں ملاحظہ ہوں ؎
کل کرے سو آج کر ، اج کرے سو اب
پل میں پرلے ہوئے گی پھیر کرے گا کب
کال کرے سو آج کر ، آج ہے تیرے ہاتھ
کال کال تو کیا کرے ، کال ہے کال کے ساتھ
کبیرؔ سریر سرائے ہے کیا سوئے سکھ چین
سوانس نگارا باج کا باجت ہے دن رین
کبیرؔ نے عوامی زبان،لب ولہجے ،آہنگ اور ترنم کے ساتھ آسان اور سلیس
اسلوب میں اپنے نظریات کو دوہوں میں قلم بند کیا ہے۔انھوں نے عوامی زبان کو
اسی انداز میں استعمال کیاجیسی وہ بولی جارہی تھی ،فارسی،عربی اور ترکی کے
بیش تر الفاظ بھی ان کے دوہوں میں ملتے ہیں۔
علاوہ ازیں کبیرؔ ہی کے ایک پیروکار گرونانک ؔ نے بھی اردو شاعری کے فروغ
میں اچھا خاصا حصہ لیا۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق:
’’گرونانک (۱۴۶۹ئ-۱۵۳۸ئ)اور ان کے جانشین بنیادی طور پر کبیرؔ ہی کے مسلک
کے پیرو ہیں۔کبیرؔ کی فکر نے گرونانک کے فکر اور خیال کو جنم دیا جو رفتہ
رفتہ ایک نئے مذہب کی شکل میں ڈھل گئے…گرونانک نے کبیرؔ کو اپنا پیشوا کہا
ہے ۔۱۴۹۶ء میں گرونانک کی کبیر سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔شیخ عبدالقدوس
گنگوہی نے،جن کا سالِ وفات وہی ہے جو گرونانک کاہے،اپنے خطوط میں گرونانک
کا ایک دوہا لکھا ہے:
موبو پیاس نانک لہو پانی
پیو سو رانڈ سہاگن نانوں‘‘
(تاریخِ اردو ادب:ڈاکٹر جمیل جالبی،ج:۱، ص:۴۷)
گرونانک کے کلام میں پنجابی کے ساتھ کھڑی بولی کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔گرو
گرنتھ صاحب میں عربی،فارسی الفاظ بھی بکثرت موجود ہیں اور اس میں اردو زبان
کی جو شکل و صورت ملتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے نظریات کی
تبلیغ و اشاعت کے لیے اس زبان کا سہارا بھی لیا ہے۔گرو گرنتھ صاحب سے
گرونانک کے اردو کلام کی مثالیں ذیل میں ملاحظہ ہوں :
پیر پیکامبر (پیغامبر) اور سہید (شہید)
سیکھ مسائک (شیخ مشائخ) کاجی (قاضی) ملّاں
در درویس رسید (درویش رشید)
برکت تن کو اگلی پڑھدے رھن دروٗد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِہر مسیت (مسجد) سدک (صدق مصلّا)
ھک ھلال (حق حلال) کران (قرآن)
سرم (شرم) سنت سیل روجہ (روزہ) ھوھو مسلمان
کرنی کابا (کعبہ) سچ پیر کلما (کلمہ) کرم نواج (نماز)
تسبیہہ (تسبیح) ساتس بھاوسی نانکؔ رکھے لاج
گرونانک کے کلام میں عربی ،فارسی الفاظ کو ہندوی سانچے اور تلفظ میں جس
انداز سے استعمال کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی زبان کی ساخت
اور لب و لہجے پر اردو زبان کا گہرا اثر تھا۔آپ نے بھی دوہوں کے ذریعے
اردو شاعری کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ۔
اردو شاعری کے فروغ میں جہاں ایک طرف شمالی ہند کے مسلم صوفیائے کرا م اور
غیر مسلم سنتوں نے حصہ لیا تو وہیں دوسری طرف جنوبی ہند میں بھی اردو شاعری
رفتہ رفتہ پروان چڑھ رہی تھی ۔دراصل جب تغلق نے دیو گیر(دولت آباد) کو
اپنا دارالخلافہ بنایا تو اس کے ساتھ کئی ہزار لوگوں نے نقل مکانی کرکے
جنوبی ہند کو آباد کیا جن میں صوفیہ،علما،صلحا،ادبا،شعرا،اطباوغیرہ بھی
شامل تھے ۔جنھوں نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے اپنی زبان کا استعمال تو
کیا لیکن جنوبی ہند کے لوگوں سے میل ملاپ کے نتیجے میں دکنی اردو کا آغاز
ہوا۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شمالی ہند کی بہ نسبت جنوب میں اردو شاعر نے بے
پناہ ترقی کی ۔بہمنی اور عادل شاہی سلطنت کے بعد جب قطب شاہی سلطنت کا عروج
و اقبال ہوا تو اس کے بادشاہوں نے شعر و ادب کی نہ صرف سرپرستی کی بل کہ وہ
خود بھی دکنی اردو کے باکمال شعرا کہلائے، چنانچہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان
شاعر قطب شاہی سلطنت کا ایک فرما ں روا محمد قلی قطب شاہ معانی (988ھ
تا1020ھ/1580ء تا1611ئ)ہی کہلاتا ہے۔جنوبی ہند میں خواجہ بندہ نواز گیسو
درازؔ،فخر دین نظامیؔ،اشرف ؔبیابانی،میراں ؔجی شمس
العشاق،قریشیؔ،لطفیؔ،مشتاقؔ،وجہیؔ،غواصیؔ،ابن نشاطیؔ،فائزؔ،نصرتیؔ،ولیؔ اور
سراجؔ وغیرہ نے اردو شاعری کے ارتقامیں جو نقوش مرتب کیے ہیں وہ قابلِ دید
ہیں ۔
عرب و ایران اور ہندوستان کے تجارتی تعلق ،مسلم بادشاہوں کی آمد اور پھر
ان کی حکومتوں کے قیام کے بعد یہاں کے مقامی باشندوں اور مسلمانوں کے
مشترکہ میل ملاپ ،سماجی،معاشرتی اور لسانی تقاضوں کے سبب ایک نئی زبان کا
وجود ہوا جسے ہندی،ہندوی،ہندوستانی،ریختہ،لشکری،کھڑی بولی کانام دیا گیا
جوآگے چل کر اردو کہلائی ۔محمود غزنوی کے دور میں مسعود سلمان سے اردو
شاعری کا آغاز ہوا جو امیرخسروؔ تک پہونچ کر کافی ترقی کرگئی۔خواجہ نظام
الدین اولیا کے خلفا و مریدین ،مسلم صوفیائے کرام ،غیر مسلم سنتوں نام
دیو،کبیر گرونانک جیسی بھگتی تحریک کے مبلغین ،شمال و جنوب کے شاعروں اور
ادیبوں کی مشترکہ جدو جہد سے اردو شاعری نے اپنادائرہ بہت جلد وسیع کرلیا
۔اردو شاعری کے آغاز اور اس کے ارتقائی عمل میں مسلم و غیر مسلم دونوں نے
برابر برابر حصہ لیا ۔اور مسعود سعد سلمان اور خسروؔ نے جس درخت کی تخم
ریزی کی تھی اس کی آبیاری میں ان حضرات نے اپنا خونِ جگر لگا کر اسے پروان
چڑھایا یہ انھیںحضرات کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ آج جہاں جہاں اردو بولی
،پڑھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں وہاں اردو شاعری موجود ہے۔ |