(مہر دین تمہاری وطن پرستی زندہ
ہے)
فی البدی مضمون کے عنوان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کہیں بھی اپنے احباب،
رفقائ، اور عزیز ساتھیوں کو اپنے سے دور نہیں جانے دیں گے مگر قدرت کے رنگ
نِرالے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں نا کہ جس کی اذان ہوئی ہے اس کی نماز بھی ہوگی۔
اور یوں سب کو ایک نہ ایک دن سفرِ آخرت کی طرف کوچ کر جانا ہے۔ بابا مہر
دین بھی انہی ہر دل عزیز ہستیوں میں سے ایک ہیں۔
برٹش انڈیا میں سنہ 1922ءمیں بابا مہر دین کی پیدائش ہوئی، اور ہجرت کرکے
پاکستان آ گئے۔ اور جب سے ہوش سنبھالا تو سفید شلوار اور سبز قمیض کے ساتھ
پاکستان کا قومی پرچم ہاتھوں میں تھامے واہگہ بارڈر پر اپنی وطن پرستی کے
گیت گاتے رہے۔ کہتے ہیں کہ لگ بھگ ساٹھ سالوں سے یہ دیپ بابا مہر دین اسی
طرح جگمگاتے رہے جیسے کہ اپنی جوانی میں وطن پرستی نبھاتے رہے تھے۔ انہوں
نے اپنی زندگی پاکستان کیلئے وقف کر دی تھی ۔چاچا بروز اتوار نوے سال کی
عمر میں اس دارِ فانی سے کُوچ کر گئے اور یہ بات آج بڑے افسوس کے ساتھ یہ
لکھنا پڑ رہا ہے کہ بابا مہر دین ہم میں نہیں ہے ۔ اللہ رب العزت انہیں جنت
الفردوس میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے۔ (آمین)
آپ یقین کریں کہ چاچا مہر دین ہر روز سن 1947ءسے واہگہ بارڈر پر جایا کرتے
تھے، چاہے دھوپ کی تمازت ہو یا بارش کی برستی شامیں، گرمی اور لُو سے
بھرپور دن ہو یا سردیوں سے کپکپاتی شامیں، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ
جب بابا مہر دین واہگہ پر موجود نہ ہوتے ہوں۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ
حب الوطنی کا ورلڈ ریکارڈ ہے۔ چاچا کا اپنا کوئی گھر نہیں تھا اور موصوف
اپنے Nephewsکے ساتھ رہا کرتے تھے۔ اور یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ مہر دین
نے شادی بھی نہیں کی تھی۔(واللہ اعلم)
چاچا مہر دین کے عزیزوں کا کہنا ہے کہ جب سے ہوش مندی ہماری رگ و پے میں
آئی تب سے ہم نے کوئی دن ایسا نہیں دیکھا کہ چاچا واہگہ بارڈر پر پاکستانی
پرچم تھامے اور قومی پرچم کے رنگوں کا لباس زیب تن کئے وہاں نہ جاتے ہوں۔یہ
بھی حقیقت ہے کہ وہ مطلوبہ جگہ سے چالیس کلو میٹر دور رہا کرتے تھے مگر حب
الوطنی کا جوش انہیں روزآنہ اتنی دور سے کھینچ لاتا تھا۔ چاچا نے پاکستان
رینجرز اور مختلف آفیشلز سے ایوارڈ سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کر رکھا تھا۔ چاچا
کا گاﺅں پنجاب میں چندرائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔جہاں وہ آج ابدی نیند سو
ئے ہوئے ہیں۔ کفن کی جگہ وہی سفید شلوار اور سبز قمیض ان کے بدن کے زینت
بنی۔
وطن سے محبت کرنے والے چاچا مہر دین ملٹری رولز کو بہت پسند کیا کرتے تھے
اور ڈیموکریٹک سسٹم کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ یہ باتیں بھی غالباً ان کے
بھتیجوں نے بتایا ہے اور یہ بھی کہ سابق وردی دان صدر پرویز مشرف صاحب نے
انہیں عمرہ پر بھی پولیٹیکل کوٹے پر بھیجا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ
ہمارے چاچا کا کوئی سورس آف انکم نہیں تھا بلکہ بارڈر پر موجود لوگ ان کی
یہ کمی پوری کر دیا کرتے تھے۔قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ چاچا مہر دین جب
بارڈر پر نظر نہیں آئے تو کسی فرد نے بھی اس محبِ وطن شخص کے بارے میں نہیں
پوچھا کہ بابا کہاں گئے ۔ بعد میں پتہ چلنے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
حب الوطنی کی مثال یوں تو دنیا بھر میں کئی ہونگی مگر چاچا کی طرح وطن سے
محبت کی مثال تاریخ میں نرالی لگتی ہے۔ ان کی ملک سے محبت کو اہلیانِ وطن
نظریہ وطنیت و قومیت، تصورِ شاہین کی نظروں سے دیکھتی ہے۔ اب شاید ہی کوئی
چاچا پاکستانی اپنے قوم کے نونہالوں کی ترویج کیلئے پیدا ہو۔ اب شاید ہی
کوئی چاچا پاکستانی اپنی حب الوطنی کی مثال قائم کر سکے ! ہاں مگر یہ ضرور
ہے کہ ملک کا بچہ بچہ وطن کی محبت سے سرشار ہے۔ اس کی آن، اس کی شان پر مَر
مٹنے کو ایک ایک پاکستانی تیار و کامران ہے۔اور انشاءاللہ تاقیامت یہ سب
کچھ بمعہ ہمارے وطن کے تابندہ رہے گا۔علامہ محمد اقبال ؒ نے کیا خوب کہا ہے
کہ:
خودی کا سرِ نہاں لا الہ الا اللّٰہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللّٰہ
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللّٰہ
چاچا مہر دین اب ہم میں نہیں ہیں مگر درد و غم، سادگی، تصوف، سوز و گداز کی
تصویر ہم میں چھوڑ گئے ہیں۔ اور حب الوطنی کے زمرے میں چاچا کو بڑی قدر و
احترام کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ کیونکہ انہوں نے وطن سے محبت کی ایسی مثال
قائم کی ہے کہ ان کے قدر دان انہیں تا قیامت یاد ضرور رکھیں گے۔ |