امام اعظم اور اخذِحدیث کے اصول

اخذِحدیث کے اصول

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے، '' جس نے میری طرف جھوٹی بات منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے''۔ ( بخاری، مشکوٰۃ کتاب العلم) ہر دور میں عموماً اور قرونِ اولیٰ میں خصوصاً محدثین کرام حدیث کی روایت میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے رہے ہیں۔ امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ نے بھی روایتِ حدیث میں نہایت محتاط طریقہ اختیار کیا ۔

مشہور محدث امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، '' امام ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ علم حاصل کرنے میں نہایت محتاط اور حدودِ الٰہی کی بے حرمتی کرنے پر بیحد مدافعت کرنے والے تھے۔ آپ صرف وہی حدیثیں لیتے تھے جو ثقہ راویوں سے مروی اور صحیح ہوتی تھیں اورآپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمر کے فعل کو لیا کرتے تھے اور اس فعل کو جس پر انہوں نے علماءِ کوفہ کو عمل کرتے پایا۔ مگر پھر بھی ایک قوم نے بلاوجہ ان پر طعن کیا ہے۔ اﷲتعالیٰ ہماری اور انکی مغفرت کرے''۔ ( الانتقاء لابن عبدالبر : ١٤٢ طبع مصر)

حسن بن صالح رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ'' امام اعظم رضی اﷲ عنہ ناسخ و منسوخ احادیث کو بکثرت تلاش کرتے تھے اور اہلِ کوفہ کی تمام احادیث کا علم رکھتے تھے۔ لوگوں کا جس امر پر اتفاق تھا آپ اسکی سختی سے پیروی کرتے تھے اور آپ ان سب حدیثوں کے حافظ تھے جو آپکے شہر والوں کو پہنچی تھیں''۔ (الخیرات الحسان : ٩٧)

علامہ ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ نے آپ ہی کا ایک اور ارشاد نقل کیا ہے کہ '' امام اعظم رضی اﷲ عنہ فہم اور علم میں پختہ تھے جب آپ کے نزدیک آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحیح ثابت ہوتی تو پھر اس سے غیر کی طرف آپ ہرگز نہ جاتے''۔ ( الانتقا ء : ١٢٨)

یہ سیدنا امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احا دیث سے محبت کی دلیل ہے اور اس محبت کا ہی ایک تقاضا یہ ہے کہ ان تمام راستوں کو بند کردیا جائے جن کے ذریعے کوئی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب غلط روایت منسوب کرسکے۔

علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اسی خیال سے صحابہ کرام کو ہمیشہ حکم دیتے تھے کہ حدیثیں کم بیان کریں۔حضرت ابو اسلمہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے پوچھا، کیا آپ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے زمانہ میں بھی اسی طرح حدیثیں روایت کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا، '' نہیںورنہ حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ درے مارتے''۔ (سیرۃ النعمان : ١٧١)

دورِ عثمانی و دورِ حیدری میں احادیث کی اشاعت عام ہوگئی تو اہلِ بدعت نے بےشمار حدیثیں وضع کرلیں۔ حماد بن زیدرحمہ اللہ کے بقول چودہ ہزار حدیثیں صرف ایک فرقہ زنادقہ نے وضع کرلیں۔ ان حالات میں امام اعظم رضی اﷲ عنہ نے روایتوں کی تنقید کی بنیاد ڈالی اور اسکے اصول و ضوابط مقرر کیے۔ اسوقت ان شرائط کو نہایت سخت کہا گیا۔ پھر امام مالک رضی اﷲ عنہ نے روایت کے متعلق جو شرائط لگائیں وہ آپ کی شرائط کے قریب تر ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کو مشدّدین فی الروایۃ کہا گیا ہے۔

سیدناامام اعظم رضی اﷲ عنہ کے قلیل الروایۃ ہونے کا ایک سبب آپ کے اس قول سے ظاہر ہے کہ'' کسی شخص کے لیے حدیث بیان کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ اس حدیث کو سننے کے دن سے بیان کرنے تک صحیح یاد نہ رکھتا ہو''۔ (الخیرات : ٢٢٠)

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ آپکی احتیاط کا ذکر یوں کرتے ہیں، ''امام اعظم ابوحنیفہ صرف وہ احادیث بیان کرتے ہیں جن کے وہ حافظ ہیں''۔ (تاریخ بغداد، ج١٣:٤١٩)

آپ روایت بالمعنی کے جواز کے قائل نہ تھے۔ محدث علی قاری لکھتے ہیں،''امام اعظم روایت بالمعنی کو جائز نہیں کہتے، چاھے وہ مترادف الفاظ ہی میں کیوں نہ ہو۔ جبکہ جمہور محدثین کے نزدیک روایت بالمعنی جائز ہے''۔ (شرح مسندالامام ابی حنیفہ:٣)

''امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو اس احتیاط پر جس چیز نے مجبور کیا وہ یہ تھی کہ انکے زمانہ تک روایت بالمعنی کا طریقہ عام تھا اور بہت کم لوگ تھے جو الفاظِ حدیث کی پابندی کرتے تھے اسلیے روایت میں تغیر و تبدل کا ہر واسطہ میں احتمال بڑھتا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ ذہبی رحمہ اللہ تذکرۃ الحفاظ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے حالات میں لکھتے ہیں کہ وہ روایت میں سختی کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو جھڑک دیتے تھے کہ الفاظ کے ضبط میں بے پروائی نہ کریں ۔ وہ جب کبھی بالمعنی روایت کرتے تو ساتھ ہی یہ الفاظ استعمال کرتے، اومثلہ، اونحوہ، او شبیہ'' بہٖ اما فوق ذلک واما دون ذلک واما قریب من ذلک۔ یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا تھا یا اس کے مثل یا اسکے مشابہ یا اس سے کچھ زیادہ یا کم یا اسکے قریب قریب فرمایا تھا ۔ ابو درداء رضی اﷲ عنہ کا بھی یہی حال تھا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جو لوگوں کو روایاتِ حدیث سے منع کیا کرتے تھے انکا بھی غالباً یہی منشاء تھا۔ وہ جانتے تھے کہ الفاظ کم یاد رہ سکتے ہیں اور معنی کی عام اجازت سے تغیر و تبدل کا احتمال بڑھتا جاتا ہے۔(سیرۃ النعمان : ١٨٠ ـ- ١٨٤)

امام اعظم رضی اﷲ عنہ نے چونکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے تلامذہ سے اکتسابِ علم کیا اس لیے ایسی ہی احتیاط امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کے یہاں نظر آتی ہے۔امام صاحب نے ضبطِ راوی کو اخذِ حدیث کے لیے بہت اہمیت دی اسکی کیا وجہ ہے؟اگر ''ضبط'' کے مفہوم پر غور کیا جائے تو حدیث کے راوی کے لیے اس کی اہمیت وضرورت بنیادی شرط کے طور پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ فخرالاسلام علامہ بزدوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں،
''ضبط کا مفہوم یہ ہے کہ روایت کو اس طرح اخذ کیا جائے جس طرح اسکے حصول کا حق ہے، پھر اسکے صحیح مفہوم کو سمجھا جائے اور پوری کوشش سے اسے یاد کیا جائے پھر اسکی حدود کی حفاظت کر کے اسکی پابندی کی جائے اور روایت بیان کرنے تک اسے بار بار دہرایا جائے تاکہ وہ ذہن سے اتر نہ جائے''۔(اصول البزدوی، ج٢:٧١٦)

امام عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ نے آپ کی ایک اور شرط یہ تحریر کی ہے کہ'' جو حدیث سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو ا س میں امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ یہ شرط لگاتے ہیں کہ اس پر عمل سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ راوئ حدیث سے صحابی راوی تک متقی وعادل لوگوں کی ایک خاص جماعت اسے نقل کرتی ہو''۔ (میزان الکبریٰ ج ١ : ٦٣)

اس حوالے سے دیکھا جائے تو امام اعظم نے وہی روایات لی ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے تابعین اور کبار تبع تابعین کو آپ نے خود ملاحظہ فرمایا۔امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا یہ ارشاد علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے،

یاخذ بما صح عندہ من الاحادیث التی کان یحملھا الثقات۔''امام اعظم ابوحنیفہ احادیث کی وہ روایات لیتے تھے جو آپ کے نزدیک صحیح ہوتی تھیں اور جنہیں ثقہ راویوں کی جماعت روایت کرتی ہو''۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ:٢٠)

امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کی سخت شرائط کے حوالے سے امام سیوطی شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، '' یہ سخت مذہب ہے یعنی انتہائی درجہ کی احتیاط ہے۔ اس سلسلے میں دیگر محدثین اس اصول کو نہیں اپنا سکے۔بہت ممکن ہے کہ بخاری و مسلم کے ان راویوں کی تعداد جو مذکورہ شرط پر پورے اترتے ہوں، نصف تک بھی نہ پہنچتی ہو''۔ ( تدریب الراوی : ١٦٠)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کی قبولِ روایت کے لیے شرائط امام بخاری و مسلمرحمہما اللہ کی شرائط سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ علمِ حدیث میں آپکی احتیاط کے بارے میں مشہور محدث وکیع بن جراح رحمہ اللہ یوں گواہی دیتے ہیں،

'' میں نے حدیث میں جیسی احتیاط امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کے یہاں دیکھی ایسی احتیاط کسی دوسرے میں نہ پائی''۔( مناقب للموفق عربی ج ١ : ١٩٧)

اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمہ اﷲ نے امام محمد رحمہ اﷲ کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے،''امام اعظم حدیث اخذ کرنے اور بیان کرنے میں جتنے سخت ہیں دوسروں سے اسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ معلوم ومعروف ہے''۔ (فتاویٰ رضویہ ج٥:٦١٢)

امام ترمذی وبیہقی رحمہما اللہ جرح وتعدیل میں امام اعظم کا قول بطوردلیل پیش کرتے ہیں،

''جامع ترمذی میں امام ابوحنیفہ سے روایت ہے کہ میں نے جابر جعفی سے زائد جھوٹا اور عطاء بن ابی رباح سے افضل نہیں دیکھا۔ بیہقی نے روایت کی کہ آپ سے سفیان ثوری سے علم سیکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا، وہ قابلِ اعتماد ہیں، ان سے حدیث لکھو سوائے ان احادیث کے جو جابر جعفی نے ابواسحق سے روایت کی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس سے امام اعظم کی جلالت فی الحدیث معلوم ہوتی ہے''۔ (الخیرات:٩٠)

علم حدیث میں امام اعظم رضی اﷲ عنہ کی خدمات کے متعلق آزاد خیال مصنف شبلی نعمانی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ،''امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جس بات نے تمام ہم عصروں میں امتیاز دیا وہ ہے احادیث کی تنقید اور بلحاظِ ثبوت ، احکام اور انکے مراتب کی تفریق۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعد علم حدیث کو بہت ترقی ہوئی ۔غیر مرتب اور منتشر حدیثیں یکجا کی گئیں، صحاح کا التزام کیا گیا، اصولِ حدیث کا مستقل فن قائم ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن تنقیدِ احادیث ، اصولِ درایت اور امتیازِ مراتب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تحقیق کی جو حد ہے آج بھی ترقی کا قدم اس سے آگے نہیں بڑھتا''۔( سیرۃ النعمان : ١٦٨)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381352 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.