کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ
متنازع علاقہ ہے جس کا فریق پاکستان بھی ہے مسئلہ کشمیر کے حل میں بھارت کا
ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی
خواہشات کے مطابق حل کیے جانے تک تحریک آزادی کشمیر اور شہادتوں کا سفر
جاری رہے گا۔ جبری گمشدگیوں، حراستی تشدد اور گمنام قبروں کے معاملات کو
روکنے کے لئے سیفٹی ایکٹ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت نے کشمیریوں پر مظالم، بربریت اور ان کے جذبہ آزادی کو کچلنے کے لئے
سات لاکھ سے زائد فوج کو ریاست میں متعین کررکھا ہے۔ اب نوبت یہاں تک آن
پہنچی ہے کہ کشمیریوں کے استحصال کے لئے ان کے مذہبی جذبات اور دینی
تعلیمات میں مداخلت کی سازش تیار کرلی گئی ہے جس کی ابتداءقرآنی تدریس کی
درسگاہوں کی بندش سے کی گئی ہے اور اپنی مرضی کے اساتذہ کا تقرر کیا جارہا
ہے جو ان درس گاہوں میں قرآن کی تعلیم دیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں
کے خلاف فوجی آپریشنوں کے علاوہ اب تعلیمی اداروں میں بندے ماترم گایا جاتا
ہے اور تمام کشمیری نوجوانوں اور طلباءسے کہا جاتا ہے کہ وہ بھارتی ترانہ
گائے جانے کے دوران تعظیماً کھڑے رہیں۔ بعض ایسے اساتذہ جو دباﺅ کے تحت بات
نہیں کرسکتے ان احکامات کو تسلیم کررہے ہیں لیکن کشمیری نوجوان طبقہ کشمیر
کو ثقافتی اعتبار سے بھارتی رنگ میں رنگنے کے خلاف مزاحمت کررہا ہے۔ وہ
اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ بھارتی فوج اور پولیس تحریک حریت کو
بزور طاقت کچلنے کے لئے ہر حربہ استعمال کررہی ہے۔ کشمیری لیڈروں کو روزانہ
ان کے گھروں میں قید کردیا جاتا ہے۔ انہیں عیدین اور جمعہ کی نمازیں مساجد
میں ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ جب تک
کشمیریوں کو ان کی اپنی مرضی کے مطابق مسئلہ کشمیر کے فیصلے کی اجازت نہیں
دی جاتی اور انہیں استصواب رائے کے تحت ان کا حق نہیں دیا جاتا یہ مسئلہ
جنوب مغربی ایشیاءمیں ایٹمی فلیش پوائنٹ کی حیثیت سے موجود رہے گا۔ اس
مسئلے کو حل کیے بغیر علاقے میں امن کے قیام کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور
نہ ہی کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کیا جاسکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان
بھارتی مظالم کو کب تک برداشت کرتے رہیں گے۔ انہیں سب سے بڑا سہارا پاکستان
کا ہے لیکن جب پاکستان کی حکومتیں اس مسئلے کے حل میں مخلص نہیں ہوں گی اور
محض زبانی کلامی کشمیریوں کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کا دعویٰ ہی کیا جائے
گا بھارت اس طرف کبھی بھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دے گا۔ گزرے 65 برسوں میں
کئی مواقع ایسے بھی آئے جب کشمیریوں کی آزادی کی منزل قریب تر دکھائی دی
لیکن ایک بڑے فریق کے طور پر پاکستان نے ان مواقع کو گنوا دیا۔ اس وقت
پاکستان کو کئی اندرونی اور بیرونی مسائل درپیش ہیں، بلوچستان، پختونخواہ،
کراچی اور قبائلی علاقوں میں بدامنی اور غیر ملکی ریشہ دوانیوں کا ہاتھ ہے۔
بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات اس کے لئے باعث اطمینان ہیں
اور چونکہ پاکستان اپنی داخلی مسائل میں الجھا ہوا ہے اور وہ جوں جوں کشمیر
کے معاملے پر پیچھے ہٹ رہا ہے۔ بھارت کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور وہ
کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کچل رہا ہے۔ کشمیری عوام میں پاکستان کے بارے
میں بدگمانی کا پیدا ہونا بجا ہے۔ جب پاکستان اور اس کی حکومت ہی اس اہم
مسئلے کو نظر انداز کرے گی اور بھارت سے مرعوب ہو کر کشمیر کاز کو خود ہی
پس پشت ڈالے گی تو کشمیری عوام میں مایوسی اور بددلی پھیلے گی۔ پاکستانی
حکومت اور پاکستانی حکمرانوں پر واضح ہو جانا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کا حل
اس لئے بھی ضروری ہے کہ بھارت نے کشمیر سے آنے والے دریاﺅں پر بند باندھ کر
پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کی جو سازش مکمل کی ہے اس کا توڑ بھی صرف
مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل میں ہے۔ کیا حکومت پاکستان دو کروڑ کشمیری
مسلمانوں کو بھارتی ظلم و ستم اور بربریت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بھارت کے
ساتھ دوستی کی پینگیں ہی بڑھاتی رہی گی؟ |