لڑکیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا ذمہ دار کون ؟؟

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

ملک میں عصمت دری ،زنا بالجبر اور معصوم لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی چھیڑ چھاڑ کی خبروں سے ہر انسان مطلع ہے ۔اس مرض سے نہ یہ کہ والدین ،رشتہ دار ،گھر و خاندان ،ملک اور شہر پریشان ہے بلکہ حکومت کا پورا املہ سکتہ میں پڑا ہے ۔اور اس بات کی حل تلاش نے میں سارے لوگ لگے ہیں کہ آخر اس مسئلہ کا حل کیا نکالا جائے اور اس متعفن مرض پر قابو کیسے پایا جا ئے جس سے ملک میں لڑکیوں کو تحفظ دیا جا سکے۔ملک و شہر کا ہر ذمہ دار طبقہ پریشان نظر آرہا ہے لیکن کو ئی اس بات پر اتفاق نہیں رکھتا ہے کہ معاشرے میں اس اخلاقی انحطاط کا سبب اس مورڈن پریڈہے جہاں مغرب نے استعداد و ٹاءیلنٹ اور آزادی کے نام پر لڑکیوں کوبرہنہ اور شمع محفل بنا دیا ہے۔

ایسے پر آشوب ماحول میں نادان والدین اور بے دین ماں باپ اور رشتہ داروں کی جانب سے لڑکیوں کو دی جانے والی کھلی چھوٹ اور بے جا آزادی ان کی عزت و آبرو کے پامال ہونے کا باعث بن گیا ۔ہر عقل سلیم رکھنے والا شخص یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ عورت معاشرہ کا ایک اہم رکن ہے اسی سے معاشرہ بنتا بھی ہے اور اسی معاشرہ بگڑتا بھی ہے ۔اسکول و کالج ،دفتروں اور کارخانوں ،سڑکوں اور بازاروں پر ایک اچٹتی ہو ئی نظر ڈالیں تو چاروں طرف لڑکیاں نیم عریاں لباس پہن کرجسم وحسن کی کھلی نمائش کرتی پھر رہی ہیں اوراس طوفان بدتمیزی کی زدمیں معاشرہ کی شریف عورتیں بھی آرہی ہیں ۔لباس پر نظر ڈالیے تو وہ اتنا تنگ و نازک کہ جس سے جسم کے ہر نشیب و فراز کا مشاہدہ با آسانی کیا جا سکتا ہے ۔اور اسی مشاہدہ کے بعد مرد کے اندر چھپے ہو ئے جذبات شعلے بن کر بھڑک اٹھتے ہیں تو کہیں عصمت دری ،زنا،گینگ ریپ تو کہیں چھیڑ چھاڑ جیسے واقع رونما ہو تے ہیں ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ اس جرم میں نہ یہ کہ ہوس پیشہ مرد ملوث ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور اسکے زیر نظر چلنے والے عالمی ثقافتی ادارے ، میڈیا،انٹرنیٹ ،موبائل و ڈش ،معاشرہ اور والدین بھی برابر کے شریک مانے جائیں گے۔ ناچ گانے،کمیڈی اورفیشن شوز کے نام پر جسم کی نمایش کا گھناؤنا کھیل کہ جس میں نہ فقط غیر مرد بلکہ اب تو قیامت یہ ہے کہ ماں باپ اور رشتہ دار بھی اپنی لڑکیوں کے اس عمل پر اسٹیج پر بیٹھے تالیاں بجاتےاور فخر کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔

ہمارے مشرقی سماج میں کبھی عورتیں گھرو خاندان کی رونق ہوا کرتی تھیں لیکن مغرب سے چلنے والی ہوا نے انھیں ہوا کردیا اب ان کے بغیر بازاروں کا سارا کاروبار ہی ٹھپ نظر آتا ہے ۔ٹی وی ہوا یا اخبار ،میگزین ہوا یا کو ئی اور جریدہ و وسائل۔۔۔۔بغیر عورتوں اور لڑکیوں کے نہیں چلتا ۔ایک قلم یا صابن کا بھی پرچارآتا ہے تو اس پر ایک نیم برہنہ عورت کی تصویر ضرورہوتی ہے جو ہمارے معاشرہ کے کم سن و سال بچوں اور بچیوں کے لیے سم قاتل سے کم نہیں ہے ۔بظاہر یہ ایک معمولی سی شئے نظرآتی ہے لیکن حقیقتاً یہ چیزیں ان پر اتنا گہرا اثر چھوڑتی ہیں جس کا نتیجہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں بھگت رہے ہیں۔

حالانکہ ہمارے آفاقی اور الہی دین مذہب اسلام نے مرد کو عورت کی عزت و ناموس کا محافظ بنایا ہے ۔اسے بے حجاب کر کے شمع محفل بنانے کے بجائے چراغ خانہ بنا کر اس کی عزت و توقیر میں چار چاند لگائے ہیں ۔لیکن جہاں لادینیت ،بے شرمی ،بے حیائی اور بے ایمانی کا رجحان بڑھ رہاہے وہاں عورتیں سربازار رسواہوتی ہو ئی نظر آرہی ہیں ۔

کیا یہ غلط اور مغالطہ تو نہیں ہے کہ گھر سے نکلنے والی ہر عورت خود کوغیر محفوظ سمجھتی ہے اور اس پر اٹھنے والی ہر نگاہیں ہوس آلودہ ہوتی ہیں ۔وہ چاہے گھر ہو یا محلہ ، بازار ہو یا اسکول و کالج،دفتر ہوں یا کار خانے ،کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں ہوتی اور اس کی واحد وجہ بے پردگی و عریانیت اور ان کا تنگ و نازک لباس ہے ۔اس عریانیت و بے حیائی کی وجہ سے معاشرہ کے بگڑے ہو ئے لوگ ان پر چھچھوری نظر ڈالتے ہیں اور پھر جو قیامت برپا ہو تی ہے وہ اپنی جگہ آپ ہے ۔۔۔۔۔جسے ہم میڈیا پر آئے دن سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جسم و حسن سے لوگوں کو لبھانے والی وہی عورتیں عزت و آبرو لٹنے جانے کے بعدزندگی بھر اپنے دامن پر لگے داغ کا ماتم کرتی رہتی ہیں۔اور خوامخواہ ملک و شہر میں ایک ہنگامہ رہتا ہے کہ آج اس جگہ تو کل فلاں جگہ فلاں کی عصمت دری کی گئی و۔۔۔۔

جرمنی کا چانسلر ترکی کے دورے پر آیا۔وزارت ثقافت و تعلیم ترکیہ نے اس کے بے مثال استقبال کا پروگرام بنایا ا۔اپنی ثقافت،اپنی تہذیب دکھانے کے لیے اور اپنے آپ کو ایک ایڈوانس ملک ثابت کرنے کے لیے وہ بعض اسکولوں کی نوجوان و نوخیز بچیوں کو سڑکوں پر لے آئے ۔سڑکوں کے کنارے نوجوان خوبصورت بے پردہ لڑکیاں پھول لے کر کھڑی تھیں۔وہ جہاں سے گزرتا اس پر پھول نچھاور کیے جاتےتھے۔

جرمنی کے اس چانسلر نے جب لڑکیوں کے لباس کو دیکھا تو اسے بے حجابی کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔اس نے ذمہ داران حکومت ترکیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:۔۔۔۔کہ یورپ میں ہمیں یہی بے غیرتی و بے حجابی تو لے ڈوبی ہے،گھرانے تباہ و برباد ہو گئے ،رشتے داریاں ختم ہو گئیں،بچے اپنے والدین سے جُدا ہو گئے ،ہمارا فیملی سسٹم پورے کا پورا تباہ و برباد ہو گیا ہے۔

دورِ جدید کا مؤرخ ٹوٹوٹمبی کہتا ہے ، میں نے تاریخ کو پڑ ھا ہے اور یہ پرکھا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اقوامِ عالم اُس وقت تباہ و برباد ہوئی ہیں جب ان کی عورتیں بے حجابانہ باہر نکلی ہیں ۔

مشہور مؤرخ پروفیسر جے ٹائن بی لکھتا ہے :تاریخ انسانی میں زوال کے ادوار وہی تھے جب کہ عورت نے گھر کو خیر آباد کہہ دیا ہے ۔

آزادی کے نام پر مغرب نے عورتوں کو اجنبی مردوں کے ساتھ دکانوں ، کارخانوں ، دفتروں اور فیکٹریوں میں جمع کر دیا ہے ۔ اس کے علاوہ پارکوں ، کلبوں ، رقص و سرور کی محفلوں اور بار کلبوں میں بھی عورتیں اپنی پوری بے حیائی کے ساتھ دستیاب ہیں ، جس کی وجہ سے پورا معاشرہ اور خاص طور سے عورتوں کی گھر سے دوری نے عائلی نظام کو تباہ کر دیا ہے ، بچوں کی تربیت نرس اور خادماؤں کے ذمے ہے جس کا لازمی نتیجہ اخلاقی آوارگی، فکری بے راہ روی، جنسی انار کی کی صورت میں مغربی معاشرہ کو گھن کی طرح کھا رہا ہے ، اس گھن زدہ معاشرے کی عکاسی مندرجہ ذیل رپورٹ کرتی ہے :

امریکہ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی اس کے مطابق اس ملک میں ہر روز نو ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں بارہ سو ترسٹھ ناجائز ہوتے ہیں ، ہر روز پانچ ہزار نو سو باسٹھ شادیاں اور ایک ہزار آٹھ سو چھیاسی طلاقیں ہوتی ہیں ، ہر روز تین ہزار دو سو اکتیس اسقاطِ حمل ہوتے ہیں ۔

اس ترقی یافتہ ملک کی عصمت کا یہ حال ہے کہ ہر روز دو ہزار سات سو چالیس لڑ کیاں سِن بلوغ سے پہلے ہی حاملہ ہو جاتی ہیں ، روزانہ اڑ سٹھ ہزار چار سو ترانوے بچے سوزاک اور آتشک جیسی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں ۔

یونانی تہذیب و تمدن کادنیا میں بڑا چرچہ تھالیکن جب ان میں بے حیائی پھیلی تو یہی ان کے زوال کا باعث بنی۔ رومی تہذیب نے بھی بہت ترقی کی، مگر اسے بھی یہی بے حیائی نگل گئی۔

انیسویں صدی کے انسائیکلو پیڈیا میں مذکور ہے کہ رومیوں کی خواتین خانہ داری کے کاموں سے فراغت کے بعد سوت کاتتیں، اس کو صاف کرکے کپڑا بناتی تھیں۔ وہ سخت پردہ کرتی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت بھاری نقاب اور موٹی چادر پہنتیں تو ان کی شکل تو کجا جسم کی بناوٹ کا بھی پتا لگانا مشکل تھا۔

اس دور میں رومی تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی پذیر تھے۔ پھر جب ان میں عیش پرستی اور لہو و لعب کا شوق پیدا ہوا تو انہوں نے عورتوں کو بھی بے پردہ کردیا، جو ان کی عظیم الشان حکومت کی تباہی پر منتج ہوا۔

تاریخ کی روشنی میں علامہ فرید وجدی کہتے ہیں :پھر جب ان عورتوں کو بے پردہ بنادیا گیا تو باقتضائے فطرت مرد ان پر مائل ہونے لگے، ان کے لیے آپس میں کٹ مرنا شروع ہوگیا، یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کو ماننے سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا ۔

یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ جس معاشرے میں بے پردگی و عریانیت مرد عورت کا اختلاط ، کھلے عام شراب وجوا،ناچ گانے،نشہ آور چیزیں ،سیکس کو ابھارنے والی رنگ برنگی دوائیں اورعیاشی کے نت نئے سامان فراہم ہوں ظاہر سی بات ہے وہاں زنا ،عصمت دری وغیرہ جیسی چیزوں کی کثرت ہوگی اوروہاں کے کلچر و سماج کا نظام درہم برہم ہوگا ۔لہذا ایسے سماج و معاشرہ اور ماحول میں اخلاقی اور انسانی انحطاط کا سد باب کی ذمہ داری نہ فقط وزارت ثقافت وتعلیم ،والدین بلکہ ہر انسان پر عائد ہوتی ہے۔

ملک و معاشرہ کا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ برائیوں کا چرچا تو کرتا ہے لیکن اس کی جگہ اچھائیوں کو جاگزین کرنے کی راہیں ہموار نہیں کرتا یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وہ جوان جو ملک و معاشرہ کا سرمایہ ہیں اکثریت بے کاری ،بے روزگار ی اور جہالت اورشہوت و خواہشات کی آگ میں ہمیشہ جھلس ر ہےہیں،آخر وہ کر یں بھی تو کیا کریں نہ والدین ہی وقت پر ان کے لیے شادی خانہ آبادی کی سوچتے ہیں اور نہ ہی حکومت اور قوم و ملت کے سرمایہ دار ان کی غربت و افلاس پر ترس کھا کر انھیں تسکین روح کا جائز طریقہ فراہم کرتے ہیں ۔ایک طرف مغرب کی بے شرم و حیاء تہذیب و تمدن ہے جو ترقی کا لباس پہن کر ہمارے پورے کلچر کو اپنے تصرف میں لے رکھا ہے۔ اب ایسے روح فرسا اور ہوش ربا حالات میں ان نادان اور دین کے آئین و قوانین سے بے خبر جوانوں سےخیر اور پاکدامنی کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے ؟

دوسری طرف ان کے اندر پائے جانے والے جذبات اور انھیں پریشان کر دینے والا ہیجانی مادہ انھیں بےراہ روی پر گامزن کرنے پر ہمہ تن کوشاں ہے جسے نہ حکومت سمجھتی ہے اور نہ ہی والدین وغیرہ سمجھتے ہیں ۔

حکومت اوروزارت ثقافت کا المیہ یہ ہے کہ ترقی کے نام پر معاشرہ میں ہم جنسی ،جسم فروشی ،شراب و جوا اور ان جیسی دیگر چیزوں کو جوانوں کی عیش کوشی اور بے راہ روی کے لیے زمینہ ہموار ہوجانے دیتی ہے۔ ایسے حالات میں معاشرہ میں لڑکوں اورلڑکیوں کے تحفظ کی باتیں بھینس کے آگے بین بجانے کےبرابرہے۔

ریحان احمد یوسفی اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں کہ ہمارے لیے اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ جدید میڈیاجو مغربی طرز فکر کے سامنے سجدہ ریز ہوچکا ہے، ہماری زبان میں ہمارے لوگوں اور خاص کر خواتین سے مخاطب ہوتا ہے۔ان میں اپنا مشرکانہ [اور ملحدانہ] مذہب پھیلاتا ہے۔اپنی تہذیب و روایات کو فروغ دیتا ہے۔مغرب کے زیرِ اثر فحاشی اور عریانی کا درس دیتا ہے۔

آج ہم یا ہمارا میڈیا جس عورت کی لٹتی ہوئی آبرو کاماتم کر رہے ہیں یا ہمارے معاشرہ کے درندہ صفت انسان ان کی عزت و ناموس سے بر سر عام کھلواڑکررہے ہیں تو یہ ان کی عظمت سے بالکل نہ آشنا ہیں کہ یہی عورت آغاز زندگی سے انسان کو تہذیب و شرافت کا سبق سکھاتی ہے ،سفر حیات کو سکون بخشتی ہے ،یہی عورت ہے جو انسانی وجود کے لیے رشک ساماں اور راحت و سلامتی کی علامت ہے جس کے بطن سے انسان کے وجود حیات پر فیض عطاہوا ،جس کے ہاتھوں میں زندگی انگڑائی لیتی ہے،یہی عورت ہے کہ جس کی آغوش مرد کا پہلا وطن ہے ۔لیکن افسوس نسوانیت اورانسانیت کی حقیقت سے غافل اپرادی صرف اسے اپنی جنسی تسکین کا وسیلہ بنا رکھا ہے۔کہنے والے نے یہ بالکل صحیح کہا ہے کہ :
آدم کی جو اولاد کہی جاتی ہے انساں اس اسم کا کثرت سے مسمی نہیں ملتا

انسان دشمن عناصر کی چیرہ دستیوں نے انسان کاامن و سکون غارت کر دیا ہے لہذا ہر انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے صحیح،انسانی اور پاک و صاف معاشرہ کی تشکیل نو کے لیے خوش فہمیوں کے گھروندے سے نکل کر اپنے گھروسماج سے سامراجی اور یورپی تہذیب کا باءکاٹ کرتے ہو ئے آفاقی اور الہی پیغام کہ جس میں خدائے واحد نے پورے معاشرہ بالخصوص بنت حوا کو یہ نصیحت کی ہے کہ اگر تمہیں سماج میں تحفظ چاہیئے تو اپنے جسم کے لباس ،حسن اور پردہ کا خاص خیال رکھو ۔

سورہ مبارکہ نور میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ :”وقل للموٴمنات یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولایبدین زینتھن الاماظھر منھاولیضربن بخمرھن علیٰ جیوبھن ولایبدین زینتھن۔“”اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں‘ مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ ہونے دیں“۔

نیز ارشاد خدا وندی ہے کہ ”یاایھا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء الموٴمنین یدنین علیھن من جلابیبھن ،ذلک ادنی ان یعرفن فلایوٴذین ،وکان اللہ غفوراََرحیماََ“”اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں‘ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے‘ تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں‘ اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے“۔

آج بھی اگر ہم اس چیز پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ سماج میں با پردہ و باحجاب لڑکیوں کے مقابلہ میں بے حجاب و بےپردہ لڑکیاں زیادہ مورد حملہ واقع ہوتی ہیں اور انھیں زیادہ ہی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بینک اور اس جیسے دیگر دفاتر میں کاؤنٹر پر رکھے ہو ئے قلم کی طرح سے ہے جسے ہر کوئی استعمال کی غرض سے ادھر ادھر کرتا ہے اور جب سے یہ دفاتر کھلتے ہیں اپنے معینہ وقت پر بند ہونے تک ،ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں دن بھر میں سینکڑوں اورہزاروں لوگوں تک پہنچتے ہیں لیکن جو قلم و پین منیجر کی میز پر ہوتا ہے اسے کوئی ادھر ادھر نہیں کرتا کیونکہ وہ اس کے خصوصی استعمال کے لیے معین ہے بالکل اسی طرح سے جو عورتیں باپردہ اپنے گھروں سے نکلتی ہیں انھیں نہ ہی کوئی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے اورنہ ہی انھیں کوئی چھیڑ نے کی ہمت کرتا ہے ۔
انسانی تاریخ شاہد ہے کہ ہر زمانے میں عورتوں میں زیب وزینت ‘ بناؤ سنگھار اور بننا سنورنا رائج رہا ہے‘ یہ اس کی فطرت اور جبلت بھی کہی جاسکتی ہے‘ ہرعورت کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہت خوبصورت نظر آئے۔

ہرزمانے میں بناؤ سنگھار کے معیار بدلتے رہتے ہیں‘ لیکن زینت کا داعیہ چونکہ فطرت میں موجود ہوتا ہے‘اس لئے عورت اپنے آپ کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کے تمام جتن اور حربے استعمال کرتی ہے‘ اسلام عورت کی اس فطرت پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگاتا ‘ بلکہ اس کی اس خواہش اور فطرت کو تسلیم کرتا ہے‘ ہاں اس کی تنظیم وتہذیب کرتے ہوئے ضابطہ بندی ضرور کرتا ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت کا تمام ترحسن وجمال‘ اس کی تمام زیب وزینت اور آرائش وسنگھار میں اس کے ساتھ صرف اس کا شوہر شریک ہو‘ کوئی دوسرا شریک نہ ہو‘ عورت اپنی آرائش اور جمال صرف اپنے مرد کے لئے کرے۔
اگر دیکھا جائے تو عورت درحقیقت تمام تر سنگھار وآرائش مرد کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اس کی خصوصی توجہ کے حصول کے لئے ہی کرتی ہے‘ اسلام ایسا دین ہے جو انسان کی زندگی کے ایک ایک لمحے کی تہذیب کرتا ہے‘ ان کے لئے پاکیزہ طریقہ وضع کرتا ہے‘ تاکہ کوئی مسلمان اور اہل ایمان کسی طریقے سے کسی برائی میں مبتلا نہ ہو اور ان کے میلانات جائز طریقوں تک محدود رہیں‘ اللہ ہی ہے جو تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے‘ جس سے انسانی فطرت کی نفسیاتی تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ عورت کے حسن وجمال کو اس کی زیب وزینت کو اللہ تعالیٰ نے اس کے شوہر کی دل بستگی اور توجہ کے لئے محدود کردیا ہے‘ تاکہ وہ اپنی ساری توجہ اپنی بیوی کی طرف مرکوز رکھے اور اس کی عورت غیروں کی ہوس ناک نظروں سے محفوظ ومامون رہے۔

اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ یہ ان کی قربت اور ہم نفسی کی علامت ہے‘ اسلام جب پردے کی تاکید کرتا ہے تو اس سے مراد ایک نہایت پاک وصاف سوسائٹی کا قیام ہے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ احکام الٰہی سے اعراض اور روگردانی کے کیسے کیسے بھیانک اور عبرت ناک مناظر سامنے آرہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا ،برائیوں میں کمی واقع ہونے کے بجائے روزانہ اس میں اضافہ ہورہاہے۔اور لوگ پردہ کی افادیت سے انکار کرتے ہو ئے اسکول و کالج اور دیگر دفاتر و خارخانوں میں اسے خیر باد کہہ دیا ہے ۔انھیں باپردہ عورتیں دھاتی اور دقیانوسی لگنے لگی ہیں تو یہاں ان سے سوال یہ ہے کہ کیا شرم و حیا سے عاری مغربی تہذیب کی اندھی تقلید عورتوں کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے یا انھیں حجاب و پردہ ہی ان کی عزت و آبرو کا محافظ ہے ؟

یہ کہنا بالکل درست ہے کہ پردہ عورتوں کا وقار اور ان کی عزت ہے وہ انھیں نہ یہ کہ تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ وہ ان کے حسن کو چار چاند بھی لگاتا ہے ۔لیکن ہمارے سماج کی بد قسمتی یہ ہے کہ پردہ کی بات پرمغرب کی اندھی تقلید کرنے اور ان کے تھوکے کو چاٹنے والے بے دین افراد اورمغرب کی ہم آغوش حکومت پردہ کو تعصب کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے اوراسکا باءکاٹ کرنے میں لگی ہے ۔۔۔شاید یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرہ میں ترقی اور آزادی کے نام پر منکرات رائج کرنے اور عوام کے اخلاق کو تہس نہس کرنے کے لئے دامے درمے سخنے اپنا خاصہ سرمایہ لٹا رہے ہیں جو در اصل مغربی استعمار کے ایجنٹ ہیں جو لوگوں کو اپنی گندی تہذیب کا عادی بنا رہے ہیں ۔

آج دنیا میں خصوصا ہندوستان و پاکستان میں ترقی و آزادی، ٹایلنٹ اورکمیڈی کے نام پربے حیائی ،بے غیرتی ، بد تمیزی ،بے شرمی اور عریانیت کو فروغ دیا جا رہا ہے !جس کا ایک نمونہ ملک کا مغربی ذہنیت کا غلام میڈیا ہے جو ہرآن آزادی و مساوات ،عورت کو مرد کے مساوی قرار دینے ،معاشرہ میں عریانیت ،بے پردگی ،بے حیائی ،بے غیرتی ،جنسی مخالطت ،عیش و عشرت کے نام پر عیاشی و عیش کوشی،عورتوں کو گھر کے بجائے اسٹیج اور شمع محفل بناکرپیش کرنے میں لگاہوا ہے جو ہو بہو مغرب کی شرم و حیا سے عاری تہذیب کی اندھی تقلید ہے جہاں نہ عورتوں کا کو ئی خاص مقام ہے اور نہ ہی کو ئی عزت و آبرو۔اب ایسے حالات میں عورتوں کی تحفظ کی امیدکیا رکھی جائے ۔۔۔جہاں چاروں طرف جنسی ہیجان اور بے راہ روی کا بازار ہو اورانسان کی شکل میں لوگ درندہ نظر آتے ہوں وہاں عورت کے تحفظ کی باتیں شاید بے سود و بے فائدہ ہوں۔بس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اپنے ملک و سماج ،گھر و خاندان میں مغربی تہذیب جیسے کینسر کا علاج کیا جا ئے ورنہ وہ دن دور نہیں ہے کہ جس کے لپیٹ میں ہمارا پورا سماج و معاشرہ آسکتا ہے۔اس لیے کہ مغربی غلاموں نے ہمارے کلچر و سوسایٹی میں بے حجابی ،فحاشی ،بے راہ روی جیسی مہلک بیماریوں کو عام کرنے کیلئے بہت کوششیں کیں اورسالانہ لاکھوں اور عربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں اور لوگوں کو یہ باور کررا رہے ہیں کہ ان کی ترقی میں رکاوٹ حجاب و عفت ہے ۔حالانکہ ترقی کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

مغرب نے کئی سالوں تک یہ تبلیغ کی کہ حجاب ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔حالانکہ یہ فکرسراسر باطل ہے کہ حجاب کرنے والی خواتین آزاد نہیں ہیں۔ بلکہ حجاب کرنے والی خواتین ہی متمدن اور تہذیب یافتہ ہیں۔

مغربی تہذیب کا المیہ ہی یہی ہے کہ وہ عورت کو تفریح یا تسکین کے ذریعے سے زیادہ حیثیت دینے کےلئے تیار نہیں ۔ لیکن جتنی تیزی کے ساتھ مغربی تہذیب کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ وباءہمارے معاشرے میں پھیلی ہے وہ ہمیں ان تہذیبوں کے عبرتناک انجام یاد دلانے کےلئے کافی ہونی چاہئے جنہوں نے نفس کو اپنا حاکم اور ابلیس کو اپنا خدا بنایا۔ کیا ہمیں آسمانی آفات کا انتظار کرنا چاہئے یا اصلاحِ احوال کےلئے خود ابلیسی قوتوں کو للکارنا چاہئے۔

آج مغربی معاشرے میں عورتوں کی جو حال زار ہے وہ اللہ کی پناہ۔۔۔ مغرب میں آزادی نسواں کا جو تصور اُبھرا ہے وہ افراط و تفریط کا شکا ر ہونے کے باعث بہت غیر متوازن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ تک دیگر معاشروں کی طرح مغرب میں بھی عورت کو کسی قسم کا کوئی معاشرتی حق حاصل نہیں تھا اور اس کی حیثیت مرد کے غلام کی سی تھی۔ اسی ردعمل کے طور پر وہاں آزادی نسواں کی تحریک شروع ہوئی اور اس کی بنیاد مر دوزن کی مساوات پر رکھی گئی مطلب یہ تھا کہ ہر معاملہ میں عورت کومرد کے دوش بدوش لایا جائے ۔ چنانچہ معاشرت، معیشت ، سیاست اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کو بھی ان تمام ذمہ داریوں کا حق دار گردانا گیا جواب تک صرف مرد پوری کیا کرتا تھا۔ ساتھ ہی عورت کو وہ تمام حقوق بھی حاصل ہوگئے جو مرد کو حاصل تھے ۔ اسی بات کو آزادی نسواں یا مساوات مرد وزن قرار دیا گیا ۔ اس کا نتیجہ اس بے بنیاد آزادی کی صورت میں برآمد ہوا کہ عورت تمام فطری اور اخلاقی قیود سے بھی آزاد ہو گئی۔
عورت کے بارے میں علامہ اقبال کا نظریہ بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے وہ عورت کے ليے وہی طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں تھا کہ مروجہ برقعے کے بغیر بھی وہ شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تما م سرگرمیوں میں پوری طرح حصہ لیتی ہیں۔ اس ليے طرابلس کی جنگ میں ایک لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تو اس واقعہ سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسی لڑکی کے نام کوہی عنوان بنا کر اپنی مشہو ر نظم لکھی ۔
فاطمہ! تو آبرو ئے ملت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر!
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر!
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظر میں عورت کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ اور اسی کے باہر نکل کر اگر وہ ٹائپسٹ، کلرک اور اسی قسم کے کاموں میں مصروف ہو گی تو اپنے فرائض کو ادا نہیں کرسکے گی۔ اور اسی طرح انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ البتہ اپنے دائرہ کار میں اسے شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزارنی چاہیے کہ معاشرہ پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریم ِ کائنات اس طرح روشن ہو جس طرح ذاتِ باری تعالٰی کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے۔

اقبال عورت کے ليے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہے اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقعہ ہر گز نہیں ہے اسی برقعہ کے بارے میں کسی شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔
بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار
اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نادید ہے

نتیجہ اور خلاصہ بحث میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ لڑکیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے ذمہ داروں میں ان کے والدین کا سب سے اہم کردار ہے جنہوں نے اپنی بچیوں کو بے لگام اور کھلی آزادی ، نیم عریاں اور تنگ لباس پہننے کی چھوٹ دے رکھی ہے اور یہ بےپردگی ہی معاشرے میں تمام برائیوں کی جڑ ہے۔یہ کہناشاید غلط نہ ہو کہ بچیوں کی عصمت و ناموس سے جانے اور انجانے طور پر خود ان کے والدین کھیلواڑ کر رہے ہیں اور ان کا قتل و خون کوءی اور نہیں بلکہ خودیہی ان کے قاتل بھی ہیں ۔ لہذا ملک و معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی ،بے شرمی ، بے حیاءی و بپردگی عصمت دری اور زنا جیسے امراض کی روک تھام کے لیے والدین کو اپنی بچے اور بچیوں پر مسلط ہونا پڑے گا اور سماج کے سنججیدہ افرادبالخصوص حکومتی ثقافتی اداروں کے ذمہ دار افراد کو عریانیت کے خلاف لڑکیوں کو پردہ کرنے کی تشویق کرنی پڑے گی اورانھیں نیم عریاں لباس ، سرو سینہ کھول کر گھروں سے نکلنے اور تنگ لباس پہن کر جسم کے نشیب و فراز کی نمایش کی ممانعت اور میڈیا ،سنیما تھیٹروغیرہ کو برہنہ اور غیر اخلاقی فلموں اور ڈراموں کی نمایش سے سختی سے روکنا پڑے گا تا کہ ہمارے کلچر میں ہماری ماں ،بہن،بیٹی اور بہو کی عزت آبرو محفوظ رہے سکے اس لیے کہ یہ بات نہایت غور طلب ہے کہ : دولت سے کتابیں مل جاتی ہیں مگر علم نہیں،دولت سے ساتھی مل جاتے ہیں مگر دوست نہیں، دولت سے اچھا بستر مل جاتا ہے مگر نیند نہیں ۔۔۔دولت و حشمت سے سب کچھ خریدا جا سکتا ہے لیکن لٹی ہو ئی عزت آبرو کو واپس نہیں لایا جا سکتا ۔اس لیے ضروری ہے کہملک کے جوان کو بے راہ روی اور غیر فطری اور انسانی اقدار سے روکنے اور انھیں صحیح راستے پر گامزن کر نے کے لیے کلچر میں لگے مغربی تہذیب کے گھن کا خاتمہ کرنا پڑے گا تا کہ ہمارے معصوم نوجوان (بچے اور بچیاں ) ہجیانی اور التہابی کیفیت سے نجات پاسکیں انہیں مہذب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں غیر اخلاقی اور غیر انسانی انحطاط سے محفوظ رکھ کر انھیں شرم و حیاء جیسی چیزوں کا درس دیا جا ءے۔اس لیے کہ:
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :مَنْ کساهُ الْحَیاءُ ثَوْبَهُ لَمْ یرَ النّاسُ عَیبَهُ؛جوحیاء کا لباس زیب تن کر لے تو لوگ اس کے عیب نہیں دیکھ پائیں گے۔

نیز آپ نے فرمایا:أَلْحَیاءُ یصُدُّ عَنْ فِعْلِ الْقَبیحِ؛حیاء انسان کو برے عمل سے روکتی ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :لا حَیاءَ لِمَنْ لاإِیمانَ لَهُ؛ جس کے پاس حیاء نہیں اس کے پاس ایمان نہیں۔

حضرت امام جعفر صادق عليه السلام:طُوبي لِمَنْ كانَتْ اُمُّهُ عَفِيفَةً. خوشخبری ہےا ن کے لیے جن کی مائیں پاکدامن ہیں ۔

امام صادق عليه السلام :عَفُّوا عَن نساءِ النّاسِ تُعَفُّ نِساوُكُمْ.۔۔دوسروں کی عورتوں سے چشم پوشی کرو تا کہ تمہاری عورتوں کو دوسرے لوگ دیکھنے سے خود داری کریں ۔ ۔

نیز حضرت امام جعفر صادق عليه السّلام: لا ينبَغي للمَراةِ ان تَجْمَرَ ثَوْبَها اذا خَرَجتْ مِنْ بَيْتِها.عورتوں کے لیے یہ شائستہ نہیں ہے کہ وہ گھر سے باہر میک اپ کر کے نکلیں ۔

حضور ختمی مربت صلّي الله عليه و آله نے فرمایا : ... و المَرْاةُ اذا خَرَجَتْ من بابِ دارِها مُتَزَيِّنَةً مُتَعَطِّرَةً و الزّوجُ بذلِكَ راضٍ يُبني لِزَوجِها بكُلّ قَدَمٍ بيتٌ في النّار.اگر عورت اپنے گھر سے بناؤ سنگھار کراور معطر ہو کے نکلے اور اس کا شوہر اس کے اس فعل پر راضی ہو تو اس عورت کے ہر ہر قدم پر جہنم ایک گھر بنا ہو گا۔
syed taqi abbas rizvi
About the Author: syed taqi abbas rizvi Read More Articles by syed taqi abbas rizvi: 11 Articles with 13014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.