میرے خدا مجھے کردار کی بڑائی دے
مری حیات کے دامن کو پارسائی دے
قلم کو علم دے پاکیزہ روشنائی دے
نظر کو ظرف، میرے قلب کو صفائی دے
انور جلال پوری کا یہ شعر پڑوسیوں کے حقوق کے سلسلے میں بھی کہیں کہیں پورا
اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جس طرح گھر میں آئے مہمان کیلئے کہا جاتا ہے کہ
ان کا استقبال بہت ہی خوش دلی سے کرنا چاہیئے اور انہیں بوجھ ہرگز تصور
نہیں کرناچاہیئے۔ جس طرح بزرگوں کےلئے دل میں عزت و احترام رکھا جاتاہے اور
ان کا ہمیشہ خیال رکھا جاتاہے ، مہمانوں کے سامنے گھرکا رونا لیکر نہیں
بیٹھناچاہیئے، کبھی کسی کی بے عزتی کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیئے، اپنی
امیری پر کبھی غرور نہیں کرناچاہیئے کیونکہ یہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ سب
اللہ رب العزت کا ہی دیا ہوا ہے، اپنی غلطیوں کے لئے دوسروں کو ذمہ دار نہ
ٹھہرائیں، اگر آپ کو کسی کی بات پسند نہ آئے تو ان کی بے عزتی نہ کریں بلکہ
ان سے مختصر بات چیت کے بعد وہاں سے چلے جانے پر ہی اکتفا کریں، چھوٹی
چھوٹی باتوں کو در گزر کرنے کی عادت ہونی چاہیئے، خود اپنا محاسبہ کریں اور
کوشش کریں کے ایسی غلطیاں دوبارہ سر زد نہ ہوں،یہ ایسی باتیں ہیں جن پر عمل
کرکے آپ اپنی زندگی کو خوشیوں سے بھرپور بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح پڑوسیوں کے
حقوق بھی آپ پر واجب ہے۔ ان کا دُکھ درد، ان کی خوشی ، ان کے کھانے پینے،
ان کے ہر معاملات کو ایسے دیکھیں کہ انہیں کبھی رنج و دُکھ کا گمان نہ ہو۔
پڑوسیوں سے گفتگو کا ہنر ہر پڑوسی کو آنا چاہیئے ویسے بھی کسی انسان کی
شخصیت کی پہچان اس کے اندازِ گفتگو سے ہی ہوتی ہے۔ کوئی انسان کتنا ہی
خوبصورت ہو لیکن اس کی گفتگو میں سختی اور روکھا پَن ہو تو وہ کبھی کسی کو
متاثر نہ کرسکے گا نہ کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگا۔لیکن تلخ
یا شیریں لہجہ ہی کسی کی شخصیت کو نکھارنے کے لئے کافی نہیں ہے ، تلخ یا
شیریں آواز کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کا اندازِ گفتگو کیسا ہے کیا
آپ غلط اور صحیح کی تمیز کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں یا صرف وقت کاٹنے کے لئے
کیونکہ یہ بات بھی آپ کے اندازِ گفتگو سے ظاہر ہو جاتی ہے۔اللہ رب العزت کی
اس کائنات میں جس کا ذرہ ذرہ خالقِ حقیقی کی عبادت میں مشغول رہتا ہے۔ اسی
رب نے عزت ، دولت، کامیابی و کامرانی کے پیمانے بنائے ہیں۔ جن بندوں نے
دنیا میں اچھائی کی، نیک کام کئے، برائیوں سے دور رہے انہیں عزت عطا کی اور
جنہوں نے بُرے کام کئے، اچھائیوں سے گریزاں رہے ، بے ایمانی سے ہمیشہ بھرے
رہے انہیں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا۔
آج کے اس نفسا نفسی اور پُر فتن دور میں ہم اچھے اعمال، اور نیک افعال سے
کتنے دور ہوتے جا رہے ہیں، جس تیز رفتاری سے دن گزر رہے ہیں اورا س سے چار
گنا تیزی سے ہماری اچھائیاں اور ہماری نیکیاں ہم سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
ہم نے اچھے اخلاق، پڑوسیوں کے حقوق، والدین کی فرمانبرداری ، بزرگوں کا
احترام ، ہم وطنوں سے محبت جیسی صفات کو بہت پیچھے چھوڑ دیاہے، ان تمام
باتوں کی سب سے اچھی مثال ہم سب کو اپنے اطراف میں ہی نظر آئیں گی۔ افسوس
صد افسوس کہ آج لوگوں کو اپنے پڑوس میں کون رہتا ہے اس کا بھی علم نہیں
ہوتا۔ یہ کوئی کہانی یا قصہ نہیں ہے! حقیقت ہے جناب، ہم سب صبح سے شام تک
دنیا کے گردشوں میں الجھے رہتے ہیں اور رات کو تھک کر اپنے آشیانے میں آکر
سو جاتے ہیں ، سماج میں خواتین و حضرات دونوں نے مصروفیت کے نام پر جو
لبادہ اوڑھ لیا ہے اور اسی پر اکتفا کر رکھا ہے بس یہی ہماری زندگی کی زینت
ہوگئی ہے۔ کیا ایسا ہی ہونا چاہیئے!
ہمیں اس بات کا قطعی علم نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس کے گھر میں جو لوگ رہتے
ہیں وہ کس حال میں ہیں اور نہ ہی انہیں خبر ہوتی ہے کہ آپ کا حال کیسا ہے۔
پہلے بزرگ کہتے تھے کہ گھر کا پڑوس ہمیشہ اچھا ہونا چاہیئے تو عزیزو! تالی
دونوں ہاتھ سے بجتی ہے اگر ہم اپنے پڑوسی کی خیریت دریافت کریں گے تبھی اسے
ہمارا خیال ہوگا۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی ہم نے اخلاقیات کی تمام حدیں
پار کر لی ہیں۔ والدین کی فرمانبرداری کا مسئلہ آج کے دور میں دنیا کا سب
سے بڑا مسئلہ بن کر اُبھر رہا ہے ۔ جو والدین بڑی محنت و مشقت سے اپنی
اولاد کی پرورش کرتے ہیں، اپنی تمام خواہشات و ارمانوں کی قربانی دے کر
اولاد کی خواہشات اور ارمانوں کو پورا کرنے میں اپنی تمام زندگی مٹا دیتے
ہیں ان کی خوشیوں پر اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ آج وہی اولادیں
اپنے والدین کی فرمانبرداری تو دور انہیں ساتھ رکھنے میں بھی شرم محسوس
کرتی ہیں۔ جس اولاد کی ہر غلطی پر پردوہ ڈال کر انہیں صحیح راستے کی تربیت
دینے والے والدین کو بھی وہی اولاد ایسے راستے پر چھوڑ آتی ہے جس سے واپسی
کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اور ایک راستہ رہ جاتا ہے وہ آخری منزل کا سفر
ہوتا ہے۔ آج کے دور میں بہت کم خوش نصیب والدین ہونگے جو اپنی اولادوں کے
ساتھ رہتے ہیں اور یہ ان کا انعام ہے جو انہوں نے پرورش کے دوران ان کی
غلطیوں پر انہیں ٹوکا، انہیں دین کے احکام بتائے، نبی ﷺ کی احادیث پر عمل
کرنے کی تلقین کی۔ بے شک جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں پر
عمل پیرا ہوا اسے ہی دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی و کامرانی حاصل ہوگی۔
پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشادِ پاک ہے کہ : جبرئیل علیہ
السلام مجھے برابر پڑوسیوں کے بارے میں تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے
سوچا اسے بھی وارث بنا دینگے، اللہ کے نزدیک سب سے اچھا پڑوسی وہی ہے جو
اپنے پڑوسی کیلئے سب سے بڑھ کر اچھا کرے۔ ایک حدیث ہے کہ: جس کا اللہ پر
اور قیامت کے دن پر ایمان ہو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرے۔ پڑوسی
کے ساتھ احسان کی شکل ایک یہ بھی ہے کہ اسے موقعے کی مناسبت سے تحفے پیش
کیا کرو کیونکہ تحفے دینے سے محبت پیدا ہوتی ہے اور رنجش و عداوت دور ہوتی
ہے ۔ میری دعا ہے کہ اے اللہ پاک! ہمیں اپنے سارے حقوق ادا کرنے کی ہمت اور
طاقت عطا فرما، ہم سب پر اپنی رحمت ، فضل و کرم عطا فرما۔ (آمین)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن
ارشاد فرمایا کہ:” اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، اللہ کی قسم ! وہ شخص
مومن نہیں، اللہ کی قسم ! وہ شخص مومن نہیں۔“(جب آپ ﷺ نے بار بار یہ الفاظ
ارشاد فرمائے اور اس شخص کی وضاحت نہیں کی تو) صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا
رسول اللہ ﷺ ! وہ کون شخص ہے (یعنی رسول اللہ ﷺ کس بدنصیب شخص کے بارے میں
قسم کے ساتھ ارشاد فرما رہے ہیں کہ وہ مومن نہیں، اور اس میں ایمان نہیں)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ” وہ شخص جس کے پڑوسی اس کی برائیوں اور اس کے شر
سے محفوظ و مامون اور بے خوف نہ ہوں۔“
مگر ہم اپنے ارد گِرد یہی دیکھتے ہیں کہ آج کے دور میں ہمسایوں کا سب سے
بڑا حق یہی سمجھا جاتا ہے کہ اپنے گھر کا کچرا صاف کرکے گلی میں پڑوسی کے
دروازے پر ڈال دو ،گھر تو صاف ہوگیانا! الٹی گنگا بہہ رہی ہے بھائی! اللہ
تعالیٰ ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد پر عمل نصیب فرمائے ۔ ایسا نہیں کہ
ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی سمجھ نہیں ہے مگر ہم پھر بھی اس پر عمل
نہیں کرتے جو ہم سب کی بڑی غلطیوں میں سے ایک غلطی ہے۔
والدین اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں ہمیں جینے کے طورطریقے سکھاتے
ہیں جو ہمیں یعنی آج کی نسل کو گراں گزرتا ہے۔ لیکن وقت کی چکی سے پِس کر
تجربے کے آٹے سے گوندھ کر وہ اپنے ذہن کے جو خزانے ہمیں دیتے ہیں اس سے نہ
صرف ہماری زندگی میں خوشیاں ملتی ہیں بلکہ ہم کامیابی سے ہم کنار بھی ہوتے
ہیں۔ آج ہم سب کو چاہیئے کہ اپنے بچوں کے دلوں میں اخلاقی قدروں کو جگائیں،
غلطیوں پر انہیں ٹوکیں ، ان کی نس نس میں ساری انسانیت کی خدمت و پیار کا
جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھر دیں تاکہ آنے والے دنوں میں یہ بچے اپنے بزرگوں کا
احترام کریں، اپنے والدین کی فرمانبرداری کریں، اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا
کرنے میں پس و پیش نہ کریں اور اپنی تہذیب و تمدن کے قیمتی سرمائے کو ضائع
ہونے سے بچا سکیں۔(آمین ثم آمین) |