جیسی عوام ویسے حکمران(1)

یہ بات درست ہے کہ ہمارے حکمران بہت اچھے نہیں ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمران عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں یا نہیں؟جب ہم کسی امیدرار کوصرف اس لیے ووٹ دیتے ہیں کہ وہ ممبر اسمبلی بن کر ہمارے جائز ناجائزکاموں کو سپورٹ کرئے گا اور قانون کی گرفت سے بچائے گا تو پھر اگر وہ حلقے کے ترقیاتی کام نہیں کرواتا یا ملک کی تراقی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا توہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کے ہم اسے برا بھلا کہیں۔کیونکہ ان کاموں کی اہلیت تو ہم نے اس میں ووٹ دینے سے پہلے دیکھی ہی نہیں تھی ۔جب ہم نااہل لوگوں کو منتخب کرکے اسمبلی بھیجتے ہیں توپھر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ صرف حکمران ہی نااہل نہیں بلکہ عوام بھی (ڈیش ڈیش ہے) حکمران کسی اور دنیا کی مخلوق نہیں بلکہ وہ بھی ہم میں سے ہی ہیں۔اس لیے صرف حکمرانوں کو بد عنوان اور کرپٹ کہنے یا ثابت کرنے سے عوام کی ذمہ داریاں کم نہیں ہوتی بلکہ ایسے حالات میں عوام کی ذمہ داریاں اور بھی بڑجاتی ہیں لیکن بد قسمتی سے پچھلے 65سال سے پاکستانی عوام نے ہر حکمران کو غلط کہنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ جن حکمرانوں کو پاکستانی عوام غلط کہتے ہیں وہی لوگ بار بار الیکشن جیت کر پاکستان پر حکومت کرتے ہیں ۔عوام جن کو غلط کہتے ہیں ووٹ بھی انھیں کو ہی دیتے ہیں ۔جب منتخب کرنے والوں کے قول وفعل میں تضاد ہو گا تو پھر کیسے ان کے منتخب کیے ہوئے لوگ سچے اور ایماندار ہوسکتے ہیں ۔ اور پھرکسی ملک یا کسی ریاست کو چلانے کے لیے صرف حکمران ہی توکاقی نہیں ہوتے بلکہ عوام پر بھی حکمرانوں سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتیں ہیں کرڑوں لوگوں پر چندحکمران تب ہی کامیابی سے حکومت کرسکتے ہیں جب وہ عوام کے صحیح ترجمان ہوں اورجہاں جمہوریت ہو وہاں صحیح ترجمان تلاش کرنا عوام ہی کے اختیار میں ہوتا ہے ۔پاکستان کے عوام اگرچہ اپنے ہی منتخب کئے حکمرانوں کو برا سمجھتے ہیں لیکن برا سمجھنے کے باوجودمیری قوم کا حال یہ ہے کہ اپنی جیب میں انھیں برے حکمرانوں کے وزٹینگ کارڈ رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور خاص طور پر سیاسی ورکر ان کا تعلق چاہے کسی بھی پارٹی سے ہووہ اپنے آپکو خدا کی اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہیں ۔جس کے پاس کسی mpaکارڈ ہووہ اپنے آپکوہی mpaسمجھتا ہے اوراس حساب سے اگرکسی کے پاس mnaکاکارڈہوتووہ بھی خود کوہیmnaسمجھتا ہے۔میرے ہم وطن جن حکمرانوں کوان کے دور حکومت میں بہت برا سمجھتے ہیں الیکشن کے دنوں میں انھیں کے نعرے لگاتے نظرآتے ہیں جن کو، کرپٹ ،چورلٹیرے اور غدارکہا ہوتا ہے الیکشن کے دنوں میں انہی لوگوں کے ساتھ تصویریں بنوا کر اپنی بیٹھک کی دیواروں پربڑے بڑے فریموں میں بڑے ہی فخر سے آوزاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس شخص کوبڑا لیڈر سمجھا جاتا ہے جوچوروں ،ڈاکوں ،منشیات فروشوں ،کی پشت پناہی کرے اور جورشوت خوروں کو اچھی طرح ڈیل کرسکے اور جس کی برادری بڑی ہو ۔اس طرح بڑی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کرپٹ سیاست دان ا لیکشن میں کامیاب ہوتے ہیں۔جس برادری کا ایک فرد mpaیاmnaبن جاتا وہ ساری برادری اپنی گاڑیوں پرmpaاورmnaلکھی نمبرپلیٹ لگاکراختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ان حالات میں ہر خاص وعام کی دلی خواہش ہے کے وہ کسی نہ کسی طرح سرکاری عہدے پر فائز ہوجاے تاکہ وہ اپنے آپ میں سرکار ہوجاے ۔ اقتدار کی بھوک ہمارے معاشرے کی رگوں میں اس قدر سرایت کر گئی ہے کہ قوم کا ہر فرداپنے آپکوراتوں رات بغیر محنت کئے بڑھا آدمی بننا چاہتا ہے ہماری چھوٹی سی ننھی سی تمنایہ ہوتی ہے کہ ہم کم ازکم ملک کا، صدر،وزیراعظم،وزیراعلیٰ،یا پھر کم ازکم کوئی نا کوئی وزیربن سکیں ۔ اور یہ سارے عہدے ہم ملک وقوم کی خدمت کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی شخصیت کا قد بڑا کرنے کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔جس قوم کاہر فرد صرف اپنے لیے ہی سوچتا ہو اس کے حکمران کس طرح ملک و قوم سے مخلص ہوسکتے ہیں:جاری ہے
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 514366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.