علامہ صائم چشتی اہلِ نظر کی
نظر میں
حضرت پیر سیّد امین علی نقوی شاہ صاحب فرماتے ہیں !
حضرت ِ صائم پہ بیشک ناز ہے نقوی ہمیں
عاشقِ شاہِ عرب ہیں واصفِ ماہِ نجف
صائم چشتی ایک ایسے مردِ مجاہد کا نام ہے جس نے نظم و نثر کے ملک میں ایسے
خوبصورت شہر تعمیر کئے ہیں جن کی اُردو اور پنجابی ادب میں نظیر نہیں ملتی
،
( تقریظ سلامِ اہلِ بیت)
محمد علی ظہوری لکھتے ہیں !
جناب صائم چشتی اہلسنّت وجماعت کے معروف و مشہور شاعر ہیں ۔ پنجابی زبان کے
بہت کم شعراء کو اپنی عمر کے اوّلیں دور میں اس قدر مقبولیت ِعامہ حاصل
ہوئی ہے۔ملک کے مذہبی اجتماعوں ادبی اجلاسوں اور دینی سٹیجوں پر جناب صائم
چشتی کا معنوی کلام اپنی انفرادیت کے لحاظ سے بے حد پسند کیا جاتا
ہے۔پاکستان کا مشہور صنعتی شہر لائل پور پورے ملک میں اس لحاظ سے بھی منفرد
ہے کہ یہاں پنجابی مشاعروں میں لاکھوں افراد کی شرکت تا اختتام ہمہ تن گوش
ہوتی ہے اور یہ مثالی نظم و ضبط جناب صائم چشتی کے ادبی لگائو اور شبانہ
روز کاوشوں کا مرہونِ منت ہے ۔
(تقریظ زینب دا ویر)
ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں !
بیسویں صدی کے آخری ربع میں صائم چشتی نے اپنی جن نثری اور شعری تحریروں
سے شہرت اور مقبولیت حاصل کی ان کا محوری و مرکزی موضوع اسلام ، دینی عقائد،
نعت و منقبت ، ترجمہ و تفسیر اور سیرت ِ صحابہ ہے ان کے متنوع کاموں میں
تحقیق ، ترتیب ، اور ترجمہ سب کا تنوع لائقِ تحسین ہے ۔
(تقریظ سلام اہلِ بیت)
پروفیسر مفتی عبدالرئوف لکھتے ہیں !
شاعری کی اس نوع میں شاعرِ اہلسنّت حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے
جو ہمہ گیر شہرت حاصل کی وہ آپ ہی کا حصہ ہے ۔ علامہ صائم چشتی جیسی قد
آور شخصیت علمی وادبی ، روحانی اور مذہبی حلقوں میں اب سی تعارف کی محتاج
ہیں آپ کا وجد آفریں کلام آج ہر نعتیہ محفل کی زینت بنتا ہے اور دِلوں
میں عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شمع فروزاں کرنے میں خصوصی
تائید و تاثیر کا حامل ہے۔ آپ کے علمی و فکری کمالات کا دائرہ بہت وسیع ہے
جس کے لئے ایک الگ تصنیف کی ضرورت ہے۔ آپ بیک وقت ایک باکمال ادیب اور بے
مثال خطیب ہیں۔خطابات میں کئی جلدوں پر مشتمل ’’خطبات ِ چشتیہ ‘‘ آپ کی
عظیم یادگار ہے ۔ اسی طرح آپ ایک عظیم محقق اور جید مترجم بھی ہیں ۔ تفسیر
و تصوف کی ادق اور اہم کتابوں کے تراجم آپ کے علم و فضل پر شاہد ہیں لیکن
آپ کو سب سے زیادہ شہرت ایک نعت گو شاعر کی حیثیت سے ملی ۔ آپ نے اُردو
اور پنجابی دونوں زبانوں میں یکساں مہارت سے شعر کہتے ہیں ۔ آپ کے موضوعات
کی وسعت نعت ، منقبت ، مدح شریف ، روحانیت اور عشق و معرفت پر محیط ہے ۔
آپ نے شاعری کو ایک نیا آہنگ اور منفرد لب و لہجہ عطا کیا ۔ جس میں فکری
روشنی کے ساتھ نظریات کے تحفظ کا بھی خصوصی اہتمام کیا اور یہی انداز آپ
کے بعد آپ کے تلامذہ کے پاس بھی پایا جاتا ہے جوایک کثیرتعداد میں آپ کے
پاکیزہ مشن کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں اس حیثیت سے آپ کی ذات ایک علمی
و روحانی دبستان کا درجہ رکھتی ہے۔
حضرت علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا شماراُن شعراء میں ہوتا ہے جن کا
کلام آغاز ہی سے قبولیت ِعامہ کی تمام منازل طے کر کے شہرت کی حدود سے
آگے گزر جائے۔(تقریظ سلام اہلِ بیت )
صاحبزادہ پیر سید محمد طاہر شاہ کاظمی لکھتے ہیں !
علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ وجہہ تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ
وسلم کے سچے عاشقِ رسول تھے آپ کا منظوم کلام پیاسے دِلوں کو سیراب کرتا
ہے تو کہیں دِلوں میں موجود عشقِ رسول کی آتش کو اور بھڑکاتا ہے ۔آپ کے
اشعار دیدارِ مصطفےٰ کے طلبگاروں کی رہنمائی کرتے ہیں تو کہیں اشکوں سے نم
آنکھوں اُمیدو بیم کی نئی کرنوں کی اَفزائش کا سامان کرتے ہیں ۔آپ فرماتے
ہیں !
بڑھ کے اشکوں سے سوغات ہوتی نہیں
آنسوئوں کو کبھی مات ہوتی نہیں
پاک جب تک نہ صاؔئم ہوں قلب و نظر
مصطفےٰ کی قسم نعت ہوتی نہیں
آپ کی تحریر و تخلیق کردہ نعتیں اور قوالیاں جہانِ وجدو سرور کا سامان
کرتی ہیں ۔ آپ کی مشہور نعت نوری محفل پہ چادر تنی نور کی ، آج بھی آپ
کے اشعار عاشقانِ رسول کے جذباتِ عشق و محبت کی تسکین اور شجرِ ایمان و
یقین کی آبیاری کرتے ہیں ۔ عقیدہ کے حوالہ سے وہم و گماں پہ گِرے پردوں کو
اُٹھانے اور حقیقت آشنا کرنے کا جو کام آپ کی شاعری نے کیا ہے وہ کسی اور
کی شاعری میں کہیں نظر نہیں آتا ۔آپ حضور کے کمالات و خصائص ،مقام و
مرتبہ اور محبوبیت ِ کاملہ کے حوالہ سے حسنِ شعر کا اہتمام آپ کی شاعری کا
خاصہ ہے۔
آپ ؒکی شاعری عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ دل کے سوئے ہوئے تاروں کو اِس
عمدگی کے ساتھ بیدار کرتی ہے کہ سُننے اور پڑھنے والا عالمِ وجد و سرور کے
دریا میں غوطہ زن ہو جاتا ہے ۔اِس کی خاص وجہ یہ ہے کہ آپ کے تخلیق کردہ
اشعار میں ایمان کی رُوح نظر آتی ہے۔آپ کی شاعری دلوں کو گرمانے اور
چھونے کا کام ہر شعر میں کرتی ہے ۔ یہی وہ ملکہ ہے جو آپ کی شاعری میں
بدرجہ اتم موجود ہے عاشقانِ رسول کی رہنمائی کا جو فریضہ آپ کی شاعری نے
انجام دیا ہے اُس کی وجہ آپ کو حاصل مہارت تامہ اور ید ِ طُولیٰ ہے ۔
آپؒ کے صاحبزادوں محمد لطیف ساجد ، محمد شفیق مجاہد اور محمد توصیف حیدر
میں چھلکتا ہوا عشق ومحبت دیکھ کر آپ ؒکی یاد تازہ ہو جاتی ہے بلکہ آپ کی
موجودگی کا تصوراتی اور تخیلاتی یقین بھی ہو جاتاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ
اِن شہزادوں کو تاقیامِ قیامت قائم رکھے تاکہ آپ کے ہر مشن کی تعلیم و
تکمیل کا کام جاری رہے ۔ آمین۔
ہجومِ عاشقاں کی بالیقیں بنیاد ہے صائم
محبت کا معلم عشق کا اُستاد ہے صائم
سُنو اے وادئ عشقِ محبت کے مکینو تُم
وِلائے اہلِ دل کی دلنشیں رُوداد ہے صائم
عمر مراد پیغمبر تو میری مراد ہے صائم
زمانہ کہہ اُٹھا طاہر کہ زندہ باد ہے صائم
محمود رضا سید لکھتے ہیں !
علامہ صائم چشتی کی حیات حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عبارت تھی
۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت و سیرت بیان کرتے ہیں لکھتے ہیں !
والضحیٰ والقمر ہے جبیں آپ کی ، حسن والیل زلف عنبریں آپ کی
انکے رخ میں سمٹ کر ہیں سب آگئے جلوے جتنے بھی ہیں رب ستار کے
حضرت علامہ صائم چشتی کی نعتیہ شاعری جہاں مدحت رسول کی حامل ہے وہاں وہ
سیرت کے اہم پہلوئوں اور واقعات کا اظہار بھی دلکش انداز سے کرتے ہیں ان کے
قلم سے نکلنے والا ہر حرف ان کی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے
عشق و محبت کا بیان ہے ۔
حضرت علامہ صائم چشتی کی نعت کا ہر رنگ قرآن و حدیث کی تلمیحات سے مملو
نظر آتا ہے اِسی لئے الفاظ کا چنائو کرتے وقت اُن کے ہاں آیاتِ قرآنیہ
کے حوالے جا بجا نظر آتے ہیں حسنِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا
تذکرہ اُن کی شاعری کا حسین ترین پہلو ہے ، جب وہ آقا علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی بے مثل ذات کا تذکرہ کرتے ہیں تو لفظ نور کے موتیوں کی صورت میں
نظم ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ملاحظہ فرمائیں !
تُو شاہِ خوباں تُوجانِ جاناں ہے چہرہ اُم الکتاب تیرا
نہ بن سکی ہے نہ بن سکے گا مثال تیری جواب تیرا
تُو سب سے اوّل تُو سب سے آخر ملا ہے حسنِ دوام تُجھ کو
ہے عمر لاکھوں برس کی تیری مگر ہے تازہ شباب تیرا
حضرت علامہ صائم چشتی کی شاعری فنا آشنا نہیں ہو گی کیونکہ اُن کا مذکور
زندہ ہے ۔ |