اسلام میں علم اور مطالعہ اور
تحقیق کی اور متاع لوح وقلم کی بڑی اہمیت ہے علم کوعبادت کا درجہ دیا گیا
ہے۔ ایک حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ علم میں زیادتی عبادت میں زیادتی سے
بہتر ہے ۔ علم کا ایک شعبہ مخطوطات کی تحقیق بھی ہے ۔امام اوزاعی نے لکھا
ہے کہ کثرت تصنیف اس امت کا اعجاز ہے ۔ یہ تصنیفات مخطوطات کی شکل میں آج
بھی موجود ہیں ۔محققین نے بے شمار مخطوطات کی تحقیق وتدوین کی ہے اور ان کو
زیور طبع سے آراستہ کیا ہے اور بے شمار مخطوطات ابھی کتاب خانوں میں بند
ہیں اور کسی دست تحقیق وتدقیق کی منتظر ہیں ۔ تحقیق کے میدان میں مستشرقین
کی کاوش کا بھی اعتراف کرنا چاہئے اور سچ یہ ہے کہ یہ جدید فن ان ہی کے
ذریعہ مسلمان محققین تک پہنچا اور عام ہوا ۔مشہور محقق صلاح الدین المنجد
مغرب کے معیاراور اصول تحقیق کو درست قرار دیتے ہیں اس کے مقابلہ میں عبد
السلام ہارون نے مشرقی اور قدیم بعض اصول تحقیق کی وکالت کی ہے ۔مستشرقین
نے ابتداءمیں اپنے مقاصد کے تحت عربی زبان سیکھی عربی کتابیں پڑھیں اور ان
کی تحقیق کی اور ان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان میں شکوک پیدا کرنے کی
کوشش کی مقصد یہ تھا کہ اسلام کے سیل رواں کو روکا جائے ۔ بعد میں بعض
مستشرقین کے یہاں معروضیت بھی پیدا ہوئی ۔ پریس کی ایجاد کے بعد مخطوطات کو
تحقیق وتدوین کے بعد شائع کیا جانے لگا اس طرح سے علم سینہ علم سفینہ بن
گیا اور ہر خاص وعام تک ان کتابوں کی رسائی ہو گئی حاجی خلیفہ کی کشف
الظنون ابن الندیم کی الفہرست زمخشری کی المفصل علامہ ذہبی کی تذکرة الحفاظ
ابن ہشام کی السیرة النبویة ابن خلکان کی وفیان الاعیان یاقوت الحموی کی
معجم البلدان وغیرہ کی ایڈیٹنگ سب مستشرقین کے کارنامے ہیں ۔ کارل بروکلمان
کی تاریخ ادب عربی میں دنیا میں پھیلے ہوئے مخطوطات کا ذکر تفصیل سے ملتا
ہے ۔ فواد سزگین کی تاریخ التراث العربی میں بھی مخطوطات اور مراجع کا ذکر
شرح وبسط سے کیا گیا ہے ۔ عرب ملکوں میں جب طباعت کا دور شروع ہوا اور
چھاپہ خانے قائم ہونے شروع ہوئے تو تحقیق اور تدوین کا دور بھی شروع ہوا
اور عرب علماء بھی مخطوطات کی تدوین کا کام کرنے لگے رفاعہ طہطاوی کے ساتھ
تحقیق اور تدوین کا کام کرنے والوں کی ایک جماعت تیار ہو گئی ۔ دار الکتب
المصریہ نے بھی مخطوطات کی فہرست شائع کی مختلف کتب خانوں نے اپنے اپنے
مخطوطات کی مبسوط فہرستیں شائع کیں اس طرح تحقیق اور مخطوطہ شناسی کا فن
پروان چڑھنے لگا ۔ مخطوطہ شناسی اور تحقیق کے لیے زبان وادب میں مہارت اور
موضوع سے پوری مناسبت اور مخطوطہ کے مختلف نسخوں کا علم اور تقابلی مطالعہ
لازمی شرط ہے ۔
ہندوستان کی بھی عربی فارسی مخطوطات کی پورے عالم اسلام شہرت ہے کہا جاسکتا
ہے کہ ” دفن ہوگا نہ کہیں ایسا خزانہ ہرگز؛؛ ۔ یہ مخطوطات جب تک محقق ہو کر
منظر عام پر نہ آجائیں ان کی حیثیت ایک طرح سے دفینہ ہی کی ہے ان دفینوں
اور نگینوں کو تحقیق کرکے وقف خاص وعام کردینے کی ضرورت ہے اس لئے مخطوطات
کی تدوین کی ٹریننگ دینے اور اس علمی اور تحقیقبی ذوق کو عام کرنے اور
محققین کی قدر فزائی کی بہت زیادہ ضرورت ہے افسوس ہے کہ یہ کام ہمارے علمی
اداروں میں ابھی تک نا قدری کا شکار ہے ۔ جب عالم اسلام پر تاتاریوں کی
یورش ہوئی تھی اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی اس وقت ہندوستان
میں مسلمانوں کی مستحکم حکومت قائم تھی بے شمار علماء اور مصنفیں اپنی علمی
کتابوں اور مخطوطات کو اور علمی جواہر باروں کو کو سینوں سے لگائے ہوئے
ہندوستان پہونچے تھے یہےی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کے کتاب خانے مخطوطات کی
بے بہا ثروت سے نہال اور مالا مال ہیں حیدراباد عظیم آباد رام پور علی گڑھ
ٹونک کلکتہ اور دوسرے شہروں کے کتاب خانوں میں مخطوطات کے ذخائر ہیں جوکسی
محقق کے دست ہنر مند اور مرد خردمند کے منتظر ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے
ہیں کہ ” مردے از غیب بروں آید وکارے بکند ۔؛؛ لیکن ہندستان کے بعض کتاب
خانوں میں مخطوطات کے سرقے اور ان کی اسمگلنگ کے جو واقعات پیش آئے ہیں ان
کی وجہ سے مخطوطات کی نقل حاصل کرنے کی قوانین سخت ہو گئے ہیں اور مخطوطات
کی پوری نقل حاصل کرنا جوئے شیر لانے کی مرادف ہو گیا ہے ۔
تحقیق در اصل متن کو تصویب و تصحیح کے بعد منظر عام پر لانے کانام ہے اس
کام میں متن کے مختلف نسخوں کا تقابلی مطالعہ کرتا پڑتا ہے متن کو تحریف
اور تصحیف سے پاک کرنا پڑتا ہے ۔ مختلف رسم خط پڑھنے میں مہارت حاصل کرنی
پڑتی ہے کیونکہ تمام مخطوطے ایک ہی رسم خط میں نہیں ہوتے ہیں اور پھر ہر
عہد کا رسم خط الگ ہوتا ہے ۔ ۔اسی طرح ایک محقق کو حواشی تحریر کرنے پڑتے
ہیں حواشی میں متن کے الفاظ کی وضاحت کرنی پڑتی ہے مختلف نسخوں کے درمیان
اگر فرق ہو تو وہ بھی بیان کرنا پڑتا ہے۔ اگر محقق جس مخطوطہ پر کام کررہا
ہے اس کا کوئی حصہ ناقص ہو تو دوسرے نسخوں کو سامنے رکھ کر اس کی تکمیل
کرنی پڑتی ہے اس کا ذکر اسے حاشیے میں کرنا پڑتا ہے ۔ املا کو درست کرنا
ہوتا ہے رموز اوقاف کا لحاظ کرنا پڑتا ہے مقدمہ میں مخطوطہ کی اہمیت اجاگر
کرنی پڑتی ہے اگر قرآن کی آیتیں اور حدیثیں یا اشعار یا اقوال مخطوطہ میں
ہوں تو اس کے لیے مصادر اور مراجع کی طرف رجوع ہونا پڑتا ہے اماکن واشخاص
کا تذکرہ اگر ہے تو ان کا تعارف بھی لکھنا ہوتا ہے تعیین زمانہ کے لیے
تاریخ وسیر کی کتابوں کو کھنگالا جاتا ہے مشکل اور مغلق الفاظ اور اصطلاحات
کی حاشیہ میں تشریح بھی ایڈٹ کرنے والی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور
اگرکسی ناشر کے پاس کسی معاصر مصنف کا کوئی نیا مخطوطہ آتا ہے جسے شائع
کرنا ہے تو پیرا گراف کو گھٹانا بڑھانا زبان وبیان کو بہتر بنانا تکرار کے
عیب کو دور کرنا یہ سب محقق کی ذمہ داری ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ
تحقیق وتدوین کا کام کس قدر مشکل اور کس قدر نازک ہے اور اس کے لیے کس قدر
علمی صلاحیت درکار ہے یہ کام بہت محنت اور دیدہ ریزی کا طالب ہے بہت باریک
بینی اور دقت نظری کا طلبگار ہے ۔اس کام میں تمام ذہنی توانائیوں کو بروئے
کار لانا ہوتا ہے۔ یہ چونٹیوں کی طرح شکر کے دانے جمع کرنے کا کام ہے، یہ
باد صبا کی طرح گل کترنا ہے ،شبنم کی طرح پھولوں کونہلانا ہے ، یہ عروسِ نو
کو آراستہ کرنا ہے اور اس کی حنا بندی کرنا ہے ،یہ ایک پوشیدہ گنج گرانمایہ
کو علماا ور ارباب ذوق تک پہنچانا ہے ۔
مخطو طہ کسی زبان کا ہو وہ جتنا زیادہ قدیم ہوگا اس کی اہمیت اتنی ہی زیادہ
ہوگی ۔ ہندوستان میں جو لوگ تحقیق اور تدوین میں مشہور ہوئے ان میں امتیاز
علی خان عرشی ،حافظ محمود خان شیرانی ، قاضی عبد الودود ، ڈاکٹر حمید اللہ
، قاضی عبد الودود، پروفیسر عبد المعید خان ،مولانا ابو الوفاءافغانی،
مولانا حبیب الرحمن عظمی، عبد العزیز میمن ،پروفیسر مختار الدین آرزو، محی
الدین قادری زور کا نام آتا ہے عربی مخطوطات کی تحقیق کے لیے عربی زبان اور
قواعد سے واقفیت اور جدید دور کے تحقیقی اور علمی طریقوں سے واقفیت ضروری
ہے ۔
مخطوطات کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ پہلے پتلی کھال پر کتابت ہوتی تھے ہارون
رشید ( متوفی 193)کے زمانہ تک کھال پر قرآن مجید کے نسخے لکھے جاتے تھے
کھال کی دباغت کی جاتی تھی کھال کے ساتھ درختوں کی چھال کو بھی اس مقصدکے
لیے استعمال کیا جانے لگا پیشہ ور کاتبوں کا طبقہ وجود میں آیا جن کو
نساخین یا وراقین کہا جاتا تھا اس طرح خوش نویسی کے فن نے بھی ترقی کی۔
کتابیں جب کثرت لکھی جانے لگیں تو پھر کتاب خانے وجود میں آئے جہاں ہاتھ سے
لکھی ہوئی کتابیں رکھی جاتی تھیں مخطوطات اسی دور کی یادگار ہیں ۔ اندلس کے
بعض کتاب خانوں کے بارے آتا ہے کہ ان میں ایک لاکھ سے زیاد سے کتابیں تھیں
۔بغداد کا دار الحکمت مصر کا دار العلم اندلس کا مکتبہ قرطبہ مکتبہ دمشق
مکتبہ نظامیہ کا نام قدیم عہد کے مشہور کتاب خانوں میں ہوتا ہے ۔ترکی میں
غالباً سب سے زیادہ مخطوطات ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے ترکی کو مخطوطات کا
دار الخلافہ قرار دیا تھا ۔ پہلے اعلیٰ علمی ذوق کے لوگ اچھی اورپسند کی
کتابوں کو نساخین سے نقل کرواتے تھے ۔ایک ایک کتاب کی کئی کئی نقلیں تیار
کی جاتی تھیں اور مختلف کتاب خانوں میں ان کو محفوظ کیا جاتا تھا صحت متن
کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ آج بہت سے مخطوطات کے مختلف نسخے مختلف کتاب
خانوں میں اسی لئے پائے جاتے ہیں ۔ یہ مخطوطات ہماری میراث گم گشتہ ہیں ۔
آج چونکہ مخطوطات شناسی اور تحقیق کا کام ناقدری کا شکار ہے اس لیے اہل علم
وہنر نے اس کام سے صرف نظر کرلیا ہے اور یہ کہنے لگے ہیں کہ ”اس نے نظر جو
پھیر لی ہم نے بھی جام رکھ دیا ” اور جو محققین گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر
ابھی تک ستائش کی تمنا اور صلہ کی پرواکئے بغیر بایں ہمہ ناقدری اور
ناسپاسی اس کام میں لگے ہوئے ہیں وہ در اصل علم اور تحقیق کی خاطر بڑی
قربانی دے رہے ہیں اور معیارِ زندگی کی بلندی کی اس ریس میں اور باد ِصرصر
میں علم کا چراغ اٹھائے ہوئے ہیں ۔کیونکہ اسی سے شجرِ علم سایہ دار اور
روکش بہار ہوتا ہے اور دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہے ۔ان سے کوئی
ان کا حال پوچھتا ہے تو جواب میں یہ کہتے ہیں
اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے
لنگر سے روٹی ملتی ہے پانی سبیل سے |