یہ بات ہم تمامی ہندوستانی
مسلمانوں کے لیے باعث فخر ہے کہ ہم نے جس صدی کو خیر باد کہا ہے اس میں
ہندوستا ن نے ایک ایسی عظیم شخصیت کو دیکھا ہے جو اپنی ذات میں نہ صرف اک
انجمن تھا بل کہ عظیم ترین چلتی پھرتی یونی ورسٹی تھا۔ جدید ریسرچ و تحقیق
کے مطابق امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ بیک وقت ایک سو چودہ علوم و فنون
کے ماہر تھے اور اتنے ہی علوم و فنون پر ایک ہزار کے لگ بھگ کتب و رسائل کے
مصنف بھی ۔
بیسویں صدی بلکہ اس سے پیش تر کئی صدیوں کی تاریخ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں
تو نہ صرف ہمارے ملک ہندوستان بل کہ دنیا بھر میں کوئی شخصیت امام احمدرضا
قادری برکاتی بریلوی قدس سرہٗ کے جیسی ہمہ جہت ، ہمہ گیر اور متنوع خوبیوں
کی مالک ، ذہین ، دور اندیش ، محقق ، بالغ نظر ، طباع اور عالی دماغ کسی
بھی مذہب و مسلک کے دامن میں نظر نہیں آتی۔
آج عالمی سطح پر مسلمانوں کو جس بے دردی کے ساتھ ظلم و ستم، جبر و تشدد اور
مصائب و مظالم کا سامان کرنا پڑ رہا ہے اس ناگفتہ بہ اور خوں آشام عالم میں
مجھے باربار امام احمد رضا کی روشن تعلیمات اور نور باراں پیغام عشق رسالت
صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی شدت کے ساتھ یاد آرہی ہے کیوں کہ ہر قسم کے درد
و کرب ، رنج و الم اور دکھوں کا مداوا صرف اورصرف محبتِ رسول ﷺ میں موج زن
ہے ۔
1856ء میں جب کہ برصغیر ہندو پاک ( غیر منقسم بھارت)بڑی سخت ترین آزمایشوں
اور مصائب و آلام کے دور سے گذررہا تھا۔ مذہبی ، دینی ، علمی ، ادبی ،
تعلیمی، معاشرتی ، تہذیبی ، تمدنی ، اقتصادی ، سیاسی اور سماجی قدروں کی
پامالی انتہائی عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔ ایسے پُر آشوب عہد میں امام
احمدرضا محدث بریلوی قدس سرہٗ ریاست اترپردیش کے شہر بریلی میں پیدا
ہوئے-----ایسے خطرناک دور میں پیدا ہونے کےباوجود آپ نے امت مسلمہ کو اس
زمانے میں بنام اسلام و ایمان چل رہی نت نئی باطل تحریکات کے جنونی بہاو
میں لے جانے کی بجاے ساری کائنات کے مرکز عقیدت مصطفیٰ جان رحمت ﷺ کے عشق و
محبت میں سرشار کرنے کی سعیِ بلیغ فرمائی اور یہ باور کرایا کہ تمام قسم کے
دکھوں ، مصیبتوں ، پریشانیوں ، کلفتوں ، رنج و الم ، سوز و غم اور مصائب و
آلام کا واحد مداوا اورعلاج رسولِ کریم ﷺ کی محبت و الفت اور روف و رحیم
آقا ﷺ کی تعظیم و توقیر ہی میں مضمر ہے ----دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کی
اسی عظیم ترین دولت و ثروت سے مسلمانوں کو محروم کرنے کے لیےابتداے اسلام
ہی سے نت نئی سازشوں کے دروازوں کو کھول دیا تھا۔ قبلۂ اول بیت المقدس کا
بار بار مسلمانوں کے ہاتھوں سے چلا جانا، اسپین کی تباہی ، غرناطہ کا سقوط،
بغداد کی دہشت ناک لوٹ مار، اور درجنوں اسلامی حکومتوں اور سلطنتوں کی
دردناک تباہی و بربادی اور ان کے سقوط و خاتمے کی کرب ناک تواریخ کا جب بہ
نظر غائر مطالعہ کیا جاتا ہے اور بربادی کی اصل وجہ تلاش کی جاتی ہے تو یہی
نتیجہ سامنے آتا ہے کہ عشقِ رسول ﷺ کی دبی ہوئی چنگاری کو شعلۂ جوالہ
بنانے کی بجاے جب مسلمانوں نے اسے سرے سے ختم ہی کردیا اورمحبت رسول ﷺ
سےاپنے قلوب و اذہان کو ویران کردیا ۔ تعظیم رسالت ﷺ سے کوسوں دور ہوگئے تو
دماغ پراگندہ ہوگئے ، متاعِ عقل و خرد لُٹ گئی، تباہی و بربادی مقدر بن گئی
اور امت کا شیرازہ منتشر ہوکر رہ گیا ---آج ساری دنیا کے مسلمان جس کرب و
بے چینی اور جبر و تشدد کے ماحول سے گذررہے ہیں ایسے عالمِ جاں سوز میں
امام احمدرضا محدث بریلوی کے اسی پیغامِ عشقِ رسالت پناہی ﷺ کا اکنا ف جہاں
میں زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی سخت اور اشد ضرورت ہے ۔
سرزمینِ ہندوستان پر جنم لینے والی اس عظیم ترین ذات کی علمی و تحقیقی
حیثیت کے صحیح خدوخال آج ہندوستان میں محض بغض و عناد اور تعصب و تنگ نظری
کے باعث مسلمانانِ ہند کی نظروں سے اپنے وصال کے پون صدی سے زائد عرصے کے
بعد بھی اب تک اوجھل ہے ۔ جب کہ اس کے برعکس بیرونِ ہند ، پاکستان ، بنگلہ
دیش ، سری لنکا ، جاپان ، فرانس ، جرمنی ، اٹلی ، امریکہ ، برطانیہ ،
ہالینڈ ، آسٹریلیا، ساوتھ افریقہ ، تنزانیہ ، ماریشش، لیبیا ، ترکی ، مصر ،
انڈونیشیا ، ملیشیا ، حجازِ مقدس ،کویت ، شام ، اردن ، لبنا ن ، عرب امارات
، زمبابوے وغیرہ وغیرہ ممالک میں آج اسکولوں ، کالجوں ، یونی ورسٹیوں ،
معروف عالمی شہرت یافتہ دانش گاہوں اور جامعات و کلیات کے نصاب میں آپ کی
مایۂ ناز تصانیف شامل ہیں اور باقاعدہ آپ کی متنوع خوبیوں کی حامل شخصیت
پر سرعت رفتار ی سے تحقیق و ریسرچ جاری ہے۔ آپ کی شخصیت پر درجنوں محققین
نے ریسرچ کرکے تحقیقی مقالات قلم بند کرکے ڈاکٹریٹ اور ایم فل و ایم اے کی
ڈگری سے سرفراز ہوچکے ہیں ۔
مختصر یہ کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو اس بات پر بجا طور پر ناز کرنا چاہیے
کہ ہمارے ملک میں ایک ایسی عظیم ترین ذات پیدا ہوئی کہ جس کے نام کا چرچا
آج افق سے تابہ افق ہورہا ہے ----مگر افسوس صد ہزار افسوس ! !! یہاں تو
معاملہ بالکل الٹا ہی ہے ، ہم تعصب و تنگ نظری اور بغض و عناد کے ضرررساں
حصار میں مقید و محبوس ہوکر ایک عظیم ترین علمی شخصیت کے مذہبی و علمی ،
ادبی و تحقیقی شہ پاروں سے آنکھیں موند رہے ہیں ، اور اس کی ہمہ گیر و ہمہ
جہت خدماتِ دینیہ سے بے اعتنائی برت رہے ہیں ----خدارا! اب فکر و نظر کو
تبدیل کیجیے ----وقت کا تقاضا پہچاننے کی کوشش کیجیے ----حالات کی نازکی کے
احساس کو اپنے قلوب و اذہان میں جگہ دیجیے ----امام احمد رضا کی شخصیت کو
صحیح طور پر جاننے اور سمجھنے کی مثبت اور مخلصانہ کوشش کیجیے----یقیناً آپ
کو اک نیا جہان نظر آئے گا ----اک بے لاگ ، بے باک ، اسلام اورمسلمانوں سے
سچی ہمدردی رکھنے والی ----اہل اسلام کی فلاح و بہبود کے جذبۂ عظیم سے
مرصع و معمور----خوف و خشیت ربانی سے سرتاسر مخمور ---- تعظیم و توقیر و
محبت و الفتِ سرکارِ دوعالم ﷺسے شاد کام و مسرور----اور آقاے کائنات ﷺ کی
بے ادبی و گستاخی سے رنجیدہ و مغموم ----گستاخانِ خدا ورسول ( جل و علا
وصلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے برق و شرر ---- عاشقانِ خدا و رسول جلا و علا
وصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ریشم کی طرح نرم و ملائم شخصیت آپ کے سامنے آئے
گی---- جس کا مقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے
مسلمانوں کے دل عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے سرشار ہوجائیں----مسلمان اپنے آقا سے محبت
و عقیدت کے ساتھ ساتھ آپ کی دل و جان سے تعظیم و توقیر کرتے ہوئے قادرِ
مطلق خالق کائنات جل و علا کے خوف و خشیت کو دل میں نہایت پختگی کے ساتھ
راسخ کرکے حیاتِ مستعار کے شب وروز بسرکریں کہ اسی میں ہر قسم کی دنیوی و
اخروی کامرانیوں اور کامیابیوں کاراز پوشیدہ ہے۔
مشمولہ : سال نامہ یادگارِرضا ممبئی سنہ 2004ء ، صفحہ نمبر 74/67 |