تحریر : محمد اسلم لودھی
بزرگوں کی زبانی یہ سنا کرتے تھے کہ اصل سے سود پیارا ہوتا ہے ۔ اس وقت
ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں تھی کہ یہ فقرہ کیوں بولا جاتا ہے لیکن شادی کے
بعد جب اللہ تعالی نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا تو اکثر میرا بیٹا شاہد
اور بیٹی تسلیم اپنے دادا( محمددلشاد خان لودھی ) کی آغوش میں اٹھکیلیاں
کرتے ہوئے دکھائی دیتے ۔ جو اس وقت ریٹائر ہوکر گھر تک ہی محدود ہو گئے تھے۔
بیٹے شاہد کو پیار کرتے ہوئے دیکھ کر میں اندازا نہیں کرپاتا تھا کہ دادا
کو اپنے پوتے سے اتنا پیار کیوں ہوتا ہے کیونکہ بیٹا شاہد مجھ سے زیادہ
اپنے دادا کے زیادہ قریب تھا بلکہ اس کی پرورش کی مجھ سے زیادہ ذمہ داری
دادا دادی نے سنبھال رکھی تھی۔ لیکن آج جبکہ میرا وہی بیٹا ( شاہد ) جوانی
کی منزلیں طے کرتا ہوا شادی شدہ ہوچکا ہے اور میرے گھرمیں مثالی بہو کی
حیثیت سے بیٹی ( تحسین بانو ) آچکی ہے۔ اس کی آمد پر جس قدر شادیانے بجے
اور خوشیاں منائی گئیں اس کا ذکر تو الفاظ میں ممکن نہیں ہے لیکن گھر کی
عزت ٬ شان اور رونق کے ساتھ ساتھ اس کا سب سے بہترین تحفہ ہم سب کے لیے ایک
ایسی نٹ کھٹ ٬ ذہین٬ حاضر دماغ اور انتہائی خوبصورت شکل و صورت کی حامل بچی
(شرمین فاطمہ لودھی ) ہے ۔شرمین فاطمہ جہاں اپنے والدین کی اولین اولاد ہے
وہاں وہ رشتے میں میری پوتی ہے ۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ شیخ زید ہسپتال کے گائنی وارڈ میں 26 دسمبر 2010کی سہ
پہر جب شرمین کی ولادت ہوئی تو بیٹے شاہد نے مجھے ٹیلی فون کرکے یہ خوشخبری
سنائی۔ ابو آپ دادا بن گئے ہیں ۔یہ الفاظ میری سماعت کو جونہی ٹکرائے یوں
محسوس ہوا کہ پورے جسم میں خوشی کی ایک لہر سے دوڑ گئی ہے ۔ بہت دیر تک
مجھے اس خوشگوار حیرت نے گھیرے رکھا کہ کیا میں اتنا بڑ ا ہوگیا ہوں کہ اب
میرا شمار دادا کی حیثیت ہونے لگا ہے جہاں پہلے میرے والدین فائز تھے ۔دوسرے
لفظوں میں قدرت کا مجھ پر یہ ایک اور انعام تھا پہلے شادی کی صورت میں ایک
سگھڑ اور باوفا بیوی ( عابدہ اسلم ) ملی پھر اللہ تعالی نے کمال مہربانی
کرتے ہوئے اولاد کی نعمت سے سرفراز فرمایا ۔ جب وہ پڑھ لکھ کربڑے ہوئے تو
ان کی شادیوں کا آغاز ہوگیا اور اب میرے گھر میں ایک ننھا منھا سا ایک اور
پھول کھلا ہے جس کی خوشبو سے میرا گھر مہک سا گیا ہے ۔
|
|
جب اس بچی کا نام رکھنے کا مرحلہ آیا تو بیٹے شاہد نے یہ ذمہ داری مجھے
سونپ دی ۔چونکہ نام انسان کی شخصیت پر بے حد اثرانداز ہوتاہے اس لیے پرانے
وقتوں کے ڈھکسلوں کی بجائے میں نے جید عالم ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب سے
رابطہ قائم کیا اور ان سے بچی کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی ۔انہوں نے
دو نام تجویز کئے ۔ عدن فاطمہ اور شرمین فاطمہ۔میں نے جب ان ناموں کی تفصیل
جاننا چاہی تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا عدن اور شرمین دونوں خوشنما پھولوں کے
نام ہیں جبکہ حضرت فاطمہ ؓ نبی کریم ﷺ کی سب سے لاڈلی اور پیاری بیٹی کا
اسم گرامی ہے ۔ چنانچہ یہ بچی حضرت فاطمہ ؓ کا پھول کہلائے گی۔ اور نام کے
ساتھ فاطمہ کا اضافہ بچی کی خوش نصیبی میں چار چاند لگا دے گا ۔اس حوالے سے
نبی کریم ﷺ کی محبت شفقت اور نسبت بھی بچی کو حاصل ہوجائے گی۔ ڈاکٹر صاحب
نے مزید کہا اللہ نے اگر چاہا تو یہ بچی دنیا میں اپنی ذہانت ٬ عزت اور
عظمت کی بلندیوں کو چھوئے گی اور والدین کے لیے بھی دنیا میں عزت اور آخرت
میں نجات کا باعث بنے گی۔
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب کے تجویز کردہ نام لے کر پوتی کی پیدائش کے بعد
جب میں پہلی مرتبہ شیخ زید ہسپتال کے متعلقہ وارڈ پہنچا جہاں میری بہو ٬
بیگم ٬ بیٹا شاہد اور بہو کے گھر والے پہلے سے موجود تھے ۔سب مجھے دیکھ کر
بہت خوش ہوئے ۔ لیکن میں نے بیٹھتے ہی اپنی ننھی منی سی پوتی کو دیکھنے کی
خواہش کا اظہار کیا ۔ مجھے بتایا گیا کہ پیدائش کے بعد سے اب تک وہ نرسنگ
روم میں ہے ابھی چند ہی منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ نرس ہاتھوں میں ایک چاند سی
بچی اٹھائے وارڈ میں داخل ہوئی اور مبارک باد دیتے ہوئے میری بہو ( تحسین
بانو ) کی آغوش میں دے دیا ۔بہو نے ایک پیار بھری نظر اپنی اس شاہکار بچی
پر ڈالی اور بچی کو اٹھا کر میری آغوش میں دے دیا ۔آدھ کھلی آنکھوں والی اس
چاند سی سرخ و سفید رنگ کی بچی کو دیکھ کر سر سے پاﺅں تک خوشی کی لہر دوڑ
گئی میں نے پیار سے بوسہ لیتے ہوئے اس کے دو نام اپنی طرف سے تجویز کیے ۔
وہاں موجود بہو تحسین بانوکی چھوٹی بہن فرح نے بھی ایک دو نام بتائے ۔ لیکن
تحسین نے یہ کہتے ہوئے میرابتایا ہوا نام " شرمین فاطمہ" نہ صرف پسند کیا
بلکہ کہا کہ یہ انکل کی صوابدید ہے جو چاہیں میری بیٹی کا نام رکھیں ۔
چنانچہ متفقہ طور پر طے پایا کہ اس چاند سی بیٹی کا نام " شرمین فاطمہ
لودھی"ہوگا اور اسی نام کی پیدائشی پرچی بنوا لی گئی ۔
پھر میں نے ہی اللہ تعالی کی واحدنیت اورعظمت کا پیغام بچی کے کانوں میں
اذان کی صورت میں دیا ۔ ایک کان میں اذان دی اور دوسرے کان میں تکبیر
پڑھی۔علماکے بقول اس عمل میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ جب انسان دنیا میں آتا
ہے تو کان میں اذان اس لیے دی جاتی ہے کہ اللہ کی واحدانیت کا اظہار کرتے
ہوئے اس بچے کو بتایا جائے کہ تم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہے اورتم
مسلمان ہوجس کے ایمان کی پہلی بنیاد خدائے ذوالجلا ل کی وحدانیت کااقرار ہے
جبکہ دوسرے کان میں تکبیر پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ اذان او ر تکبیر ہوچکی ہے
اب صرف باجماعت نمازہونے والی ہے اور یہ نماز اس وقت ہوتی ہے جب انسان موت
کی صورت میں اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے ۔گویا اذان اور نماز کی تکبیر بھی
ہوچکی صرف جماعت کھڑی ہونے کا وقت ہی انسان کی زندگی قرار پاتا ہے۔
چند دنوں بعد شرمین اپنی والدہ کے ہمراہ گھر منتقل ہوگئی ۔ گھر میں اس کی
آمد کے ساتھ ہی ہر جانب خوشیوں کے پھوارے پھوٹ رہے تھے ۔بیٹا شاہد ( جو اب
باپ بن چکا ہے) بیٹی کی پیدائش پر بہت خوش تھا جبکہ ماں کی حیثیت سے میری
بہو( تحسین بانو )کی خوشیاں اپنی جگہ عروج پر تھیںکیونکہ وہ ایک تخلیق کار
کا درجہ حاصل کرچکی تھی ماں بننے کے بعد جس کی دعاﺅں میں ولی کامل کااثر
شامل ہوجاتا ہے۔دادی ( یعنی میری اہلیہ عابد ہ اسلم) اور نانی ( تحسین کی
والدہ)روایتی طریقوں سے بچی کی پرورش نگہداشت اور حفاظت کا فریضہ انجام دے
رہی تھی ۔
اسی دوران اچانک ایک سانحے نے سب کو سوگوار کردیا اور وہ سانحہ آنا فانا
شرمین کے نانا ( نثار احمد خاں ) کی اچانک موت تھی ۔وہ بھی شرمین سے اتنی
محبت کرتا تھا کہ پیدائش کے لمحات سے لے کر ڈسچارج ہونے تک وہ ہسپتال کے
باہر رات گئے تک موجود رہتا اور ملاقات کے وقفے میں اپنی بیٹی کو دیکھنے کے
لیے وارڈ میں پہنچ جاتا آخری بار جب میں بچی کو شرمین کا نام دے کر اور اس
کے کانوں میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دے کر ہسپتال سے گھر واپس آرہا تھا
تو شام کو سخت سردی کے عالم میں بھی نثار سیمنٹ کے ٹھنڈے بینچ پر بیٹھا
اپنی بیٹی اور نواسی کی بلائیں لے رہا تھا ۔پھر نجانے کیا ہوا کہ اسے بخار
نے آگھیرا اور یہی بخار چار پانچ دنوں کے بعد اس کی موت کا سبب بن گیا ۔افسوس
تو اس بات کا ہے کہ وہ اپنی نواسی کو نہ جی بھر کے پیار کرسکا اور نہ ہی اس
سے کھیلنے کی آرزو پوری ہو سکی۔قدرت کا بلاوا آنے پر وہ چپ چاپ اس دنیا سے
رخصت ہوگیا ۔اللہ کے کاموں میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا ہے ۔کسے خبرتھی کہ
بیٹی کے سکھ چین کے لیے گھنٹوں سردی کے عالم میں ہسپتال کے باہر برف جیسے
ٹھنڈے بینچ پر بیٹھنے والا نثار اس دنیا میں صرف چند دنوں کا مہمان ہے اور
موت سرکتے سرکتے اس کے تعاقب میں پہنچ چکی ہے ۔ بہو(تحسین بانو) کے لیے باپ
کی موت کا صدمہ ناقابل برداشت تھالیکن وہ بھی بے بس پنچھی کی طرح بہت تڑپی
اور تڑپتی ہی رہ گئی ۔قدرت کے سامنے کس کا زور چلتا ہے ۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب شرمین نے ہوش سنبھالنا شروع کردیا ۔وہ ابتدائی دنوں
سے ہی ہردلعزیز بن گئی اس کا چہرہ ہر لمحے مسکراہٹ سے لبریز ہوتا عام بچوں
کی طرح وہ بات بات پر رونے دھونے والی نہیں تھی اس نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے
ماں باپ کے ساتھ ساتھ میری توجہ بھی حاصل کرنا شروع کردی ۔جب بھی میںاسے
پیار سے اٹھاتا تو وہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے دامن کو لپٹ جاتی ۔نہ جانے
کیوں اس کے لپٹ جانے سے مجھے ایک منفرد سرسڑاہٹ کا احساس ہوتا جیسے کوئی
چیز میرے جسم میں سرایت کررہی ہے ۔اس لمحے میرے لاشعور سے آواز اٹھتی کہ
یہی وہ محبت ہے جو ہر دادا کو اپنے پوتے پوتیاں سے دور نہیں ہونے دیتی جن
کی موجودگی میں ہر انسان اپنے دکھ اور تکلیف بھول کر خوشی خوشی اس دنیا سے
رخصت ہوجاتا ہے ۔
دن ہفتوں اور مہینوں کی صورت میں گزرتے رہے ۔شرمین نے زمین پر رینگنا شروع
کردیا وہ رینگتے رینگتے قریب آکر اپنی موجودگی کا نہ صرف احسا س کرواتی
بلکہ آغوش میں اٹھا کر مجھے پیار کرنے پر مجبور بھی کرتی ۔یہ عام بچوں کے
برعکس بہت ذہین اور محبت کرنے والی تھی وہ بہت جلد گھرکے لیے لازمی قرار پا
گئی ۔ جب وہ اپنی والدہ کے ہمراہ نانی گھر جاتی تو پورا گھر ویرانے کی شکل
اختیار کرلیتا ۔بطور خاص میں اس کی کمی کو شدت سے محسوس کرتا ہوں اور میری
آنکھوں میں ہر وقت اس کی تصویر رقص کرتی دکھائی دیتی ہے۔بنک سے گھر پہنچتے
ہی میں بلند آوا ز سے شرمین فاطمہ پکارتا ہوں میری آواز سنتے ہی وہ دوڑی
چلی آتی ہے اور چند لمحوں میں ہی میری تھکاوٹ اور پریشانیوں کو رفع کرنے کا
فن اسے آتا ہے ۔
|
|
میں سمجھتا ہوں کہ ہر بچے کی نشو ونما میں ماں کا کردار سب سے نمایاں ہوتا
ہے بچی بھی تو ماں کے وجود کا حصہ ہوتی ہے اس لیے بہت سی خوبیاں اور
عاداتیںماں سے ملتی جلتی ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ بہو کی شکل میں میں نے تحسین
بانو کو ایک سلیقہ شعار ماں کے روپ میں بھی دیکھا ہے ۔اللہ تعالی نے اسے
جتنی سمجھ ٬ شعور اور عقل دی ہے وہ اپنی ان خوبیوں کو شرمین میں منتقل کرنے
کا مصمم ارادہ رکھتی ہے ۔اس عمل کا آغاز تو ہوچکا ہے لیکن عمر بڑھنے کے
ساتھ ساتھ سیکھنے اور سکھانے کا یہ عمل زیادہ رفتار سے جاری رہ سکے گا ۔
میں سمجھتاہوں اگر کوئی بچہ دنیا میں نامور ہوتا ہے تو اس کا سب سے
پہلاکریڈٹ اس کی ماں کو جاتا ہے جو اپنی تمام خوبیاں بچے میں ودیعت کرنے کا
جذبہ رکھتی ہے جبکہ زندگی کی شاہراہ پر کامیابی سے چلنے کا سلیقہ باپ
سیکھاتا ہے ۔شرمین فاطمہ کی عمر جب ایک سال ہوئی تو اس نے نہ صرف مجھ سمیت
گھر کے تمام افراد کو شرارتوں اور مسکراہٹوں سے اپنی موجودگی کااحساس دلانا
شروع کردیا بلکہ اس کی سب سے زیادہ توجہ اپنے والد ( شاہد ) پر مرکوز ہوگئی
۔اس وقت شرمین کی آنا جانیاں اور حرکتیں دیکھنے والی ہوتی ہیں جب اس کا
والد گھر کے دروازے پر موٹرسائیکل کا ہارن بچاتا ہے پہلے وہ ڈرائنگ روم میں
ایک طرف سے دوسری جانب بھاگتی ہے پھر کھڑکی میں سے باپ کو دیکھنے کی کوشش
کرتی ہے ۔ باپ کی شکل نظر آتے ہی بھاگ کر گھر کے مین دروازے پر پہنچے گی
اور دیکھتے ہی باپ کی ٹانگوں کو چمٹ جائے گی ۔شاہد بھی باپ کی حیثیت سے
شرمین کو جان سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ اپنی تھکاوٹ بھول کر اسے موٹرسائیکل
پر بٹھا کر سیر کروانے کے لیے نکل جاتا ہے اور کچھ دیر بعد دونوں باپ بیٹی
مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے گھر لوٹ آتے ہیں ۔اللہ میرے بچوں کی ان خوشیوں کو
سلامت رکھے ۔آمین
شرمین فاطمہ لودھی جو ں جوں بڑی ہورہی ہے اس کی شخصیت کے بے پناہ
پہلونمایاں ہونے لگیں وہ اپنی ماں کوکام کرتا دیکھ کر وہی کام خود کرنے کی
کوشش کرتی ہے کبھی وہ ماں کی طرح جھاڑو پکڑ کر گھر کی صفائی کرنے لگتی ہے
اور فرش پر ٹاکی پھیرنے لگتی ہے تو کبھی بستر کی چادر کو اپنے چھوٹے چھوٹے
ہاتھوں سے پکڑ کر ماں کی طرح اس طرح اچھالتی ہے کہ اس کی سلوٹیں دور ہوجاتی
ہیں گھر میں موجود کمپیوٹر پر جب میں کام کرنے لگتا ہوں تو وہ نہ صرف
کمپیوٹر کے کی بورڈ کو ہاتھوں سے دبانے اور ماﺅس کو استعمال کرنے کا جنون
کی حد تک شوق رکھتی تھی بلکہ مانیٹر کی سکرین پر لگی ہوئی اپنی تصویر کو
ہاتھ سے بوسہ لے کر ہونٹوں کو لگاتی ہے ۔کبھی اپنا چہرہ اپنی ہی تصویر پر
رکھ کر چومنا شروع کردیتی ہے وہ یہ سب کچھ اس قدر پیار سے کرتی ہے کہ اسے
یہ سب کچھ کرتا دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے ۔ایک دن ماں کے ہاتھ سے روٹی
پکانے والا بیلن چھین کر بھاگ کھڑی ہوئی ماں بیلن واپس لینے کے لیے پیچھے
پیچھے بھاگتی رہی لیکن شرمین کااصرار تھا کہ آج روٹی وہ پکائے گی اس کے
باوجود کہ ابھی وہ اس قابل نہیںلیکن ماں کی طرح کام کرنے کا جنون اس کے سر
پرہمیشہ سوار رہتا ہے ۔نماز پڑھنے کے لیے جب ہم تینوں باپ بیٹے کھڑے ہوتے
ہیں تو شرمین کا یہ اصرار ہوتا ہے کہ وہ بھی نماز پڑھے گی بلکہ سر پر موتی
لگا سیاہ دوپٹہ پہن کر مصلے پر ہم سے پہلے ہی سجدہ ریز ہوجاتی ہے ۔کبھی وہ
اپنے باپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر نقل اتارنے کی کوشش کرتی ہے تو کبھی
مجھے دیکھ کر دعا مانگنے کے انداز میں بیٹھ جاتی ہے ۔پھر ہاتھ میں تسبیح لے
کر اللہ اللہ کرتی ہوئی پورے گھر میں گھومتی ہے۔
گھر میں موجود ٹی وی کا ریموٹ اکثر شرمین کی دادی کے پاس ہوتا ہے کبھی
کبھار بیٹے شاہداور زاہد بھی ریموٹ پر کنٹرول حاصل کرلیتے ہیں لیکن شرمین
کی ہر ممکن یہ کوشش ہوتی ہے کہ ریموٹ پر قبضہ اس کا ہو جائے وہ آنکھ بچا
کرریموٹ پکڑکر بالکل بڑوں کی طرح ٹی وی کی جانب کرکے چینل بدلتی رہتی ہے ۔وہ
سب کچھ اس قدر پیار اور مہارت سے کرتی ہے جی چاہتا ہے کہ انسان اس کو
دیکھتا اور چومتا ہی رہے ۔ایک دن میں نے دیکھا کہ پنسل اور ربڑہاتھ میں لیے
چلی آرہی ہے جیسے کچھ لکھنے اور مٹانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔یہ جستجو اس بات
کی شاہد ہے کہ اللہ نے اگرچاہا تو شرمین تعلیمی میدان میں بھی اپنی
کامیابیوںکے جھنڈے گاڑے گی ان شااللہ ۔
میں نے بے شمار عظیم شخصیات کی سوانح عمریاں پڑھی اور لکھی ہیں لیکن ایک
بات پر میں مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ جن بچوں کے ہاتھ میں بچپن سے کتابیں
کاپیاں اور پنسلیں آجائیں وہ شعور کی حالت میں پہنچ کر بہت کامیاب انسان
ثابت ہوتے ہیں انسان جو کچھ دیکھتا ہے یا جو کرتا اس کے لاشعور میں وہ
چیزیں رچ بس جاتی ہےں۔ کبھی وہ شلیف میں سے میری کوئی کتاب اٹھا کر اسے
پڑھنے کے انداز میں زمین پر بیٹھ کر ورق گردانی شروع کردیتی ہے جب وہ یہ سب
کچھ کررہی ہوتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کتاب میں لکھے ہوئے لفظوں کو
بخوبی جان اور پہچان رہی ہے ۔ ابھی اس کی عمر صرف ڈیڑھ سال ہوئی ہے لیکن
میں نے بطور خاص انگلش اور اردو کے قاعدے اس کے لیے منگوا رکھے ہیں اور
اپنی بہو کو یہ تاکید کرتاہوںکہ وہ شرمین کو قاعدے دے کر اس کو تصویروں کی
پہچان کروائے ۔پھر انگلش اور اردو زبان میں بچوں کے میگزین لاکر باقاعدگی
سے شرمین کو دیتا ہوں اس بات کا مجھے علم ہے کہ وہ میگزین میں لکھی ہوئی
کہانیوںتو نہیں پڑھ سکتی لیکن اس کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کا یہ کامیاب
اور بہترین طریقہ ہے ۔میں اپنی بہو کو یہ تاکید بھی کرتا ہوں کہ وہ بچوں کی
کہانی پہلے خود پڑھے پھر آغوش میں لے کر وہی کہانی شرمین کو دن میں ایک دو
بار سنائے ۔ نبی کریم ﷺ کی بچوں کی تربیت کے حوالے سے پیاری پیاری باتیں ٬بزرگان
دین کے اقوا ل زریں اور چھوٹی چھوٹی انگلش اردو کی نظمیں (Poem)بھی پہلے
خود پڑھے پھر یہ سب کچھ شرمین کی شخصیت کا حصہ بنا دے ۔یہاں یہ عرض کرتا
چلوں انسان سو سال کا بھی ہوجائے تو ماں کی سنائی ہوئی کہانیاں ٬ لوریاں
اور نصیحتیں زندگی بھر نہیں بھولتی اور قدم قدم پر بچے کی رہنمائی کرتی ہیں
۔وہ مائیں ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں جو اپنے علم و دانش کو سن بلوغت تک پہنچنے
سے پہلے بچوں میں منتقل کردیتی ہیں اور بچے بھی ماں کی باتیں نہایت توجہ
اور دلچسپی سے سنتے ہیں ۔
|
|
اللہ کے فضل و کرم سے شرمین فاطمہ اتنی ذہین بچی ہے کہ وہ اپنے سامنے کئے
جانے والے ہر کام کو دوبارہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔حسن اتفا ق سے جب
شرمین پیدا ہوئی۔ انہی دنوں دنیا کی کم عمر ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی
سرٹیفیکشن حاصل کرنے بچی ارفع کریم ایک انجانی بیماری کا شکار ہوکر دنیا سے
رخصت ہوگئی۔ ارفع کریم کی ذہانت کے چرچے نہ صرف پاکستان کے طول و عرض میں
تھے بلکہ مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس جیسے عظیم شخص بھی اس کی ذہانت کا
اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ ارفع کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ جس کام کو
ایک مرتبہ کرتے ہوئے دیکھ لیتی وہ کام اس کے ذہن میں کچھ اس طرح پیوست
ہوجاتا کہ کسی دشواری کے بغیر وہ کام کرنے کی اہلیت رکھتی تھی اور جو تحریر
وہ ایک مرتبہ پڑھ لیتی اسے ازبر ہوجاتی تھی ۔سکول میں وہ اپنی کلاس سے دو
جماعتیں آگے ہوتی کسی کمپیوٹر کالج میں تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود اس نے
مائیکرو سافٹ انجینئر کا عالمی ریکارڈ کرکے دنیا بھر کو ورطہ حیرت میں ڈال
دیا تھا ۔اس کے والد کے بقول ایک مرتبہ وہ دوبئی کے فلائنگ کلب میں گئیں ۔
انجینئر نے جہاز اڑانے کے بارے میں زبانی بریفنگ دی پھر وہی بریفنگ ارفع نے
دوہرائی ۔ ارفع کی اس ذہانت کو دیکھتے ہوئے انجینئرنے کہا کہ اگر ارفع صرف
ایک ماہ کی تربیت حاصل کرلے تو وہ باقاعدہ بڑا جہازاڑاسکتی ہے ۔ارفع جیسی
ذہین بچے واقعی دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں لیکن ارفع کی ذہانت اور
کامیابیوںکو دیکھ کر جب میں اپنی پوتی ( شرمین فاطمہ )کو دیکھتا ہوں تو
مجھے ارفع کی تمام خوبیاں اس میں ودیعت دکھائی دیتی ہیں۔ڈیڑھ سا ل کی عمر
ہی کیا ہوتی ہے لیکن وہ اتنی کمسنی میں بھی ایسے ایسے کام کر گزرتی ہے کہ
حیرت سے ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ۔
شرمین کی نانی اس کا دل بہلانے کے لیے سیلوں سے چلنے والی ایک ایسی گڑیا لے
کر آئی جسے آن کیا جائے تو وہ ٹھمکے لگالگاکر بہت مزے سے نچانے لگتی ہے ۔
شرمین اس گڑیا کو ناچتا ہوا دیکھ کر بالکل ویسے ہی کرتی ہے پھر جب اس کی
دادی مخصوص انداز میںتالی بجاتی ہے تو وہ جہاں بھی ہوتی ہے معصومانہ انداز
میں ٹھمکے لگاتی ہوئی دادی کے پاس پہنچ جاتی ہے ۔ جب بھی اس سے پوچھا جاتا
ہے کہ شرمین تم چاچو ( زاہد ) کی شادی میں کیسے ناچو گی تو دونوں ہاتھوں کی
انگلیوں کو فضامیں بلندکرکے ناچنا شروع کردیتی ہے اور ناچتے ناچتے گھومنے
لگتی ہے ۔جب وہ یہ سب کچھ کرتی ہے تو اتنی اچھی لگتی ہے کہ اس کا ذکر الفاظ
میں نہیں کیاجاسکتا ۔
باتھ روم میں ہم جب جاتے ہیں تو دروازے کو اندر سے بند کرلیتے ہیںایک دن وہ
سب کی آنکھ بچا کر باتھ روم میں گئی اور کسی نہ کسی طرح دروازے کو اندر سے
بند کرلیا کچھ دیر تلاش کے بعد جب وہ گھر میں دکھائی نہ دی تو اس کی والدہ
دیوانہ وار تلاش کرتی ہوئی باتھ روم کے قریب سے گزری تو اندر سے شرمین
توتلی زبان سے آواز دے رہی تھی دروازہ کھولو ۔یہ جان کرکے ہم سب کو پریشانی
ہوئی کہ شرمین تو باتھ روم میں بند ہے ۔ نہ جانے اس نے کیسے کنڈی لگا لی ہے
لیکن اب اس سے وہ کنڈی کھل نہیں رہی تھی ۔پھر یہ خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں
وہ گبھرا کر بے ہوش نہ ہوجائے لیکن اس کی مسلسل آواز ہمیں حوصلہ دے رہی تھی
۔باتھ روم کے دروازے کے اوپر کچھ جگہ نکاسی ہوا کے لیے کھلی ہے جو خاصی
بلندی پر واقع ہے ۔بیٹا زاہد کسی نہ کسی طرح دروازے کے اوپر چڑھا پھر وہاں
سے اس نے کنڈی کھلی تب کہیں جاکر شرمین باتھ روم سے بخیر و عافیت باہر نکلی
۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ انسان کے اپنے بچے شاید اتنی محبت اور پیار نہیںلیتے
جتنی توجہ اور محبت پوتے اور پوتیاں لے جاتے ہیں ۔درحقیقت جب اپنے بچے
چھوٹے ہوتے ہیں تو انسان کو بے شمار معاشی ذمہ داریاں گھیرے رکھتی ہیں۔
تعلیمی اخراجات اور ان کی دیگر ضروریات کو پورا کرنا ہی سب سے اہم ذمہ داری
بن جاتا ہے پھر وقت یوں پر لگا کر اڑتاہے کہ اس وقت فراغت کے لمحات میسر
آتے ہیں جب اپنے بچے جوان ہوجاتے ہیں ۔لیکن ڈھلتی عمر کے اس پہر جب اپنے
بچوں کی اولاد ہوتی ہے تو وہ اپنی شرارتوں اور مسکراہٹوں سے تمام کمی پورا
کرنے کی جستجو کرتی ہے اور وہ تمام اصول و ضوابط جو انسان نے اپنی اولاد کی
تربیت کے لیے وضع کررکھے ہوتے ہیں پوتے اور پوتیاں ان تمام اصولوں کو نہایت
محبت سے کچھ اس طرح پامال کردیتے ہیں کہ دادا کی حیثیت سے انسان سب کچھ
دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں کہہ سکتا بلکہ اس پر شفقت پدری غالب آجاتی
ہے۔کتابوں کو پھاڑنا ٬ تصویروں کو پنسل سے خراب کرنا ٬کپڑوں کو مٹی سے
آلودہ کرنا ٬ گھر کی دیوار پر الٹی سیدھی تصویریں بنا کر مصورانہ خوبیوں کا
اظہار سب بچوں میں یکساں پایا جاتا ہے ۔اس کے برعکس اگر یہ سب کچھ نہیں
ہوتا تو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس گھر میں کوئی بچہ موجود نہیں ہے۔میری
نظر میں وہ بچہ ہی نہیں جو شرارتیں نہ کرتا ہو ۔یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ عمر
بڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان خود بھی اپنے بچپن کی طرف لوٹ جاتا ہے بچے اور
بوڑھے میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا ۔یوں اس طرح یہ ننھے فرشتے ایک طرح سے
دادا کے دوست اور ہم جولی قرار پاکر بڑھاپے کا سہارا بنتے ہیں ۔ میں سمجھتا
ہوں کہ وہ شخص بہت خوش نصیب ہے جو بڑھاپے میں پوتے پوتیوں سے کھیلتا ہوا
موت کی دہلیز تک ہنستا کھیلتا جا پہنچتا ہے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد جہاں انسان
کو بیماریاں گھیر لیتی ہیں وہاں وہ خود کو گھر میں بیکار تصور کرنے لگتا ہے
لیکن یہ سب کمی ہنستے مسکراتے اور شرارتیں کرتے ہوئے پوتے پوتیاں بہت
کامیابی سے پوری کردیتے ہیں ۔
میری شرمین فاطمہ کو اللہ تعالی نے ہر خوبی اور صلاحیت سے نوازرکھا ہے میں
ہر نماز کے بعد اس کے لیے بطور خاص دعا کرتا ہوں کہ مالک دو جہان میری
شرمین فاطمہ کو ارفع کریم جیسی ذہین اور باصلاحیت بنا اور اس کی ذہانت کے
چرچے پوری دنیا میں ہوں لیکن اس کو صحت اور درازی عمر بھی عطا فرمانا تاکہ
وہ اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کے جوہردکھاسکے اور کائنات میں خوبصورت
اضافوں کا باعث بن سکے ۔مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی میری اس دعا کو ضرور
شرف قبولیت عطا فرمائے گا اور میری شرمین فاطمہ لودھی ارفع کریم جیسی ذہین
اور باصلاحیت ثابت ہوگی ۔ ان شااللہ |