سن 760 کا ایک دن تھا جب سمندر
کنارے ایک چھوٹے سے گاﺅں میں ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ لوگ عجب اور خوف
سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ سہمی ہوئی عورتیں اپنے اپنے جھونپڑوں
میں اپنے قدرے قیمتی سامان کو اونچی جگہوں پر اکٹھا کررہی تھیں۔ بزرگ کبھی
مسکرا کر اُن سامان اکٹھا کرنے والوں کو دیکھتے تھے اور کبھی دور سمندر کے
اوپر اٹھتے ہوئے گہرے اور خوفناک کالے بادلوں کی طرف دیکھتے تھے۔ گوکہ
انہوں نے تمام عمر انہیں سمندروں میں مچھلیاں پکڑتے اورکشتیاں چلاتے گزار
دی تھی مگر انہوں نے کبھی ہوا اورسمندر کا مزاج اتنا خراب نہیں دیکھا تھا
جتنا آج نظر آ رہا تھا۔ آسمان کا رنگ بتارہا تھا کہ اگر یہ طوفان ساحل سے
ٹکرا گیا تو یہ عورتیں جن چیزوں کو دوسری چیزوں کے اوپر رکھ رہی ہیں وہ کس
قدر بے سود ہوگا ۔ نہ وہ چیزیں رہیں گی جن کے اوپر دوسری چیزوں کو
رکھاجارہا ہے شاید نہ ہی جھونپڑے۔ بلکہ خاکم بدہن ایسا لگ تھا کہ کچھ دیر
میں وہاں صرف سمندر کا ٹھاٹیں مارتا ہوا پانی ہوگا شاید ایک بھی انسان باقی
نہ بچے!
ان میں سے کچھ بوڑھوں کو عرب سے آئے ہوئے ایک بزرگ کا خیال آیا جومہینوں
پہلے بصرہ سے گھوڑے لے کر بغرضِ تجارت اُن کے گاﺅں میں آئے تھے اور وہیں کے
ہو رہے تھے۔ آپ سمندر کے کنارے ایک اونچی پہاڑی پر رہا کرتے تھے۔ نجب
الطرفین سیّد تھے۔ جب آپ ساحل سمندر کی اس بستی میں آئے تھے تو یہاں کے لوگ
میٹھے پانی کے لئے بہت پریشان رہا کرتے تھے۔ آپ کے کرشمے سے اُسی پہاڑی سے
ایک میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہوگیا اور عوام اُس سے فیضاب ہونے لگے۔ کچھ
بزرگ مل کر اُن کے پاس گئے اور دعا کی درخواست کی۔ وہ اپنی جھونپڑی سے باہر
آئے۔ سمندر کی طرف رخ کیا۔ عالم جلال سے سمندر کی لہروں کو دیکھا ہاتھ سے
سمندر کی طرف اشارہ کیا اور گرجدار آواز میں فرمایا ”.... بس وہیں رک جاﺅ
!....” یہ سننا تھا کہ سمندر گویا ٹھہرسا گیا۔ ہوا کے منہ زور گھوڑے کو
لگام لگ گئی۔ اور۔ اور کچھ ہی دیر میں عورتیں اونچی جگہوں پہ رکھا گیا سارا
سامان اُتار اُتار کر اپنی اپنی جگہ رکھ رہی تھیں۔
29اکتوبر2012ءکا دن تھا۔امریکہ کی گیارہ ریاستوں کے مکین ہری کین سینڈی کی
آمد کا خوف چہروں پر لئے اپنے گھر بارچھوڑ چھوڑ کرمحفوظ راستوں کی طرف رواں
دواں تھے۔ ساری ریاستی مشینری انتظار میں تھی اور انتظار صرف تباہی کا تھا۔
امریکہ کی 24 ریاستیں اس ہری کین سے متاثر ہوئیں۔ صرف نیو یارک میں چالیس
ہزار افراد بے گھر ہو گئے۔ بجلی جیسی ضروری چیز سے محروم امریکی بے چاروں
جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں ہری کین سینڈی اور اُس سے ہونے والی تباہی کا
ذکر کرنا نہیں چاہتی کیونکہ اس کے بارے میں سب کچھ ہم سب کے سامنے ہے۔
مجھے سہمے اور خوفزادہ امریکی شہریوں کے چہرے دیکھ کر اپنے شہر کراچی میں
سمندری طوفانوں کی پیشگوئی کے دوران کئے گئے ایک جاہل شخص کا انٹرویویاد
آرہا ہے جو سمندر پر تیز ہوا کے مزے لے رہا تھا۔ انٹرویو لینے والے نے
پوچھا کہ اِس وقت تو سمندری طوفان کی پیشگوئی ہے آپ سمندر کے ساحل پہ کیا
کررہے ہیں۔ اُس نے کہا ”یہاں کوئی طوفان نہیں آسکتا کیونکہ یہاں غازی بابا
رہتا ہے ! کاش ہری کین سینڈی سے بچنے کے انتظامات کرتے ہوئے امریکی ماہرین
کو پتا چل جائے کہ غازی بابا کون ہے ؟
760 کے اُس عرب بزرگ کو ہم عبداللہ شاہ غازی رحمة اللہ علیہ کے نام سے
جانتے ہیں جس نے سمندر کو اشارہ کرکے کہا تھا کہ بس وہیں رک جا ﺅ ! اُس دن
کے بعد سے کراچی کے ساحل پہ بہت سے طوفانوں نے حملہ کیا ۔ مئی1902ئ، جون
1907ئ، جولائی1944ء، جون 1964ئ، دسمبر1965ئ، مئی 1985ئ، نومبر 1993ئ، جون
1998ئ، مئی 1999ئ، مئی 2001ئ، اکتوبر2004ئ، جون 2007ءاو ر نومبر 2010ء یہ
وہ مہینے ہیں جب کراچی میں طوفان کی پیش گوئی ہوئی مگر کوئی طوفان ساحل سے
ٹکرانے سے پہلے ہی مر گیا۔ کسی نے اپنا رخ تبدیل کر لیا اور ٹھٹہ یا گجرات
کے ساحلوں سے جا ٹکرایا۔ کسی کی شدت کراچی سے ٹکرانے سے پہلے اتنی کم ہوگئی
کہ کراچی محفوظ ہی رہا۔ آج بھی ہر سال ذوالحج کی 20سے ۲۲ تاریخ کو اُن کا
عرس منایا جاتا ہے۔ جب ان کے دربار کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سمندر کی لہروں
کے شور کی آواز آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کوئی آواز آ رہی ہو بس وہیں رک جاﺅ!! |