وہ دوسری بھی لے گئی
امام شافعی(رح) فرماتے ہیں کہ ہم ملک یمن میں تھے، دوران سفر شام کا کھانا
کھانے کے لئے ہم نے اپنا دسترخوان بچھایا،ادھر نماز مغرب کا وقت بھی ہوگیا،
ہم نے سوچا کہ پہلے نماز پڑھتے ہیں پھر تسلی سے کھانا کھائیں گے، ہم نے
دستر خوان کو اسی حالت میں کھلا چھوڑا اور نماز کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے،
دستر خوان پر دومرغیاں رکھی ہوئی تھیں، دورانِ نماز لومڑی آئی اورایک مرغی
اُٹھاکرلے گئی، جب نماز ختم ہوئی توہم نے بڑاافسوس کیا اور کہا:’’ ہمارا
کھانا حرام ہو گیا‘‘ ابھی ہم آپس میں باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہی لومڑی
دوبارہ آئی اس کے منہ میں مرغی جیسی کوئی چیز تھی، ہم یہ سمجھے کہ شاید یہ
ہماری مرغی واپس کرنے آئی ہے، ہم اس کی طرف دوڑے، اس نے مرغی ایک طرف رکھی
اور گھوم کر دستر خوان پر آئی اور دوسری مرغی اُٹھا کر لے گئی ہم جب پہلی
مرغی کی طرف پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ مرغی نہیں بلکہ کھجورکی چھال
ہے۔﴿الدمیری:حیاۃ الحیوان ، ۱/۳۲۲﴾
انوکھا سوال
ایک مالکی عالم نے حضرت امام شافعی(رح) کو خط لکھا جس میں تحریر تھا:’’ اے
امام ! بتائیے .فرض،فرض کا فرض، تتمہ فرض اور بدوں فرض نماز کیا ہیں، نیز
ایسی نماز بتائیے جس کا چھوڑنا فرض ہے اور آسمان و زمین کے درمیان ہونے
والی نماز کی بھی کچھ وضاحت کیجئے۔
امام شافعی(رح) نے جواب لکھا:’’ فرض سے مراد تو پانچ نمازیں ہیں، فرض کا
فرض وضو ہے، تتمہ فرض درود شریف کا پڑھنا ہے، بدوں فرض نماز سے مراد قبل از
بلوغ بچے کی نماز ہے، جس نماز کاچھوڑنا فرض ہے اس سے مراد نشے کی حالت کی
نماز ہے ، زمین و آسمان کے درمیان نماز سے مراد حضرت سلیمان علیہ السلام کی
نماز ہے اور زمین و آسمان کے بیچ پڑھی گئی نمازسے مرادشب معراج میں نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نماز ہے۔﴿ المقری: المختار،ص۲۰۲﴾
ایک عقلی سوال
ایک مالکی عالم نے امام شافعی(رح) کو سوالنامہ بھیجا جس میں لکھا تھا:
’’ اے امام !میری ایک خالہ ہے میں اس کا ماموں ہوں اور میری ایک پھوپھی ہے
میں اس کا چچا ہوں، جس عورت کا میں چچا ہوں اس کی ماں میرے باپ کی ماں ہے
اور اس کا باپ میرا بھائی ہے اور اس کا بھائی عام رواج کے مطابق میراباپ ہے
اور جس خاتون کا میں ماموں ہوں اس کا دادا میری ماں کا باپ ہے، ہم مجوسی﴿
آتش پرست﴾ ہیں نہ مشرک، ہم سنت حق کے پیروکار ہیں، پس ہے کوئی ایسا امام جو
نکاح کی مختلف شکلوں سے واقف ہوا ور اس کے پاس گہرا علم ہو وہ ہمارا نسب
بتائے اور اس کے حکم سے بھی آگاہ کرے‘‘۔
امام شافعی(رح) نے جواب میں لکھا:سائل کی دادی﴿یعنی اس کے باپ کی ماں﴾ نے
سائل کے ماں شریک بھائی سے شادی کی اور اس ﴿سائل﴾ کی باپ شریک بہن نے سائل
کے نانے سے شادی کی،دونوں سے ایک لڑکی پیدا ہوئی، لہٰذا اس کی دادی کی بیٹی
سائل کی پھوپھی ہے اور وہ خود اس کا چچا ہے اور اس کی بہن کی بیٹی اس کی
خالہ ہے اور وہ اس کاماموں ہے‘‘۔﴿ المقری: نوادر،ص ۲۰۲﴾
علم کی شان
ہارون الرشید نے حج کیا، ارکان حج ادا کرنے کے بعد وہ مدینہ منورہ پہنچا،
وہاں حضرت امام مالک(رح) بن انس(رض) کی علمی شہرت سن کر اسے ان کی زیارت کا
شوق پیدا ہوا، چنانچہ اس نے امام مالک(رح) کو لانے کے لئے ان کی طرف ایک
آدمی روانہ کیا ،امام مالک(رح) نے قاصد سے کہا:
’’ امیر المومنین سے کہہ دو کہ علم کا طلبگار علم کے پاس چل کر آتا ہے ،علم
کسی کے پاس چل کر نہیں جاتا‘‘
چنانچہ بادشاہ ہارون الرشید نے ان کے گھر میں زیارت و ملاقات کا پروگرام طے
کیااور ان کی مجلس میں حاضر ہوا، اندر داخل ہونے سے پہلے اس نے امام
مالک(رح) کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنی مجلس سے لوگوں کو اُٹھادیں میں ان سے
تنہائی میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں امام مالک(رح) اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے
اور فرمایا کہ لوگ جیسے بیٹھے ہیں اسی طرح بیٹھے رہیں گے، انہوں نے مزید
فرمایا:
’’ جب علم کو عوام الناس سے روکا جائے تو خواص کیلئے اس میں کوئی خیر
﴿بھلائی﴾ باقی نہیں رہتی‘‘﴿ العابدی: انیس الجلیس،ص۰۴﴾
امام ابوحنیفہ(رح) کی ذہانت کاعجیب قصہ
امام ابو حنیفہ(رح) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ بیابان میں مجھے پانی کی شدید
ضرورت لاحق ہوئی، میرے پاس ایک اعرابی آیا، اس کے پاس پانی کا مشکیزہ تھا،
میں نے اس سے پانی مانگا، اس نے انکار کیا اور کہا کہ پانچ درہم میں دوں گا
میں نے پانچ درہم دئیے اور وہ مشکیزہ اس سے لے لیا، میرے پاس ستوتھا میں نے
کہا:’’ارے بدو! ستو کھائوگے؟‘‘ کہنے لگا:’’ لائو‘‘ میں نے اس کو ستو دیا جو
روغن زیتون سے چرب کئے گئے تھے، وہ خوب پیٹ بھر کر کھا گیا، اب اس کو پیاس
لگی تو اس نے کہا: ایک پیالہ پانی دیجئے‘‘ میں نے کہا:’’ پانچ درہم میں دوں
گا، اس سے ایک پائی کم میں نہیں دوں گا‘‘ اب بادل نخواستہ اس کو وہ پانچ
درہم دینے پڑگئے۔﴿ ابن حجۃ: ثمرات،ص ۰۲۱﴾
تیرے چپ رہنے میں ہی بہتری ہے
کہاجاتا ہے کہ ایک آدمی امام ابو یوسف(رح) کی مجلس میں چپ چپ بیٹھتا اور
زبان سے کبھی کچھ نہ بولتا تھا، ایک دن امام ابو یوسف(رح) نے اس سے فرمایا:
کیا آپ نہیں بول سکتے؟ اس نے کہا:’’ کیوں نہیں ،یہ بتائیے کہ روزے دار کب
روزہ افطار کرتے ہیں؟امام ابو یوسف(رح) نے فرمایا:’’ جب سورج غروب ہوتا
ہے‘‘ اس نے کہا:’’ اگر سورج آدھی رات تک غروب نہ ہوتو روز ے دار کیا کریں
گے؟ ‘‘ امام ابو یوسف(رح) ہنس پڑے اور فرمایا:’’ آپ اپنی جگہ چپ رہ کر درست
تھے، مجھ سے خطا ہوئی کہ میں نے آپ سے بولنے کی درخواست کی، پھر یہ اشعار
پڑھے:
۱﴾مجھے غبی﴿ کندذہن﴾ آدمی کے خود کو عیب لگانے اور قادرالکلام آدمی کے
خاموش رہنے سے تعجب ہونے لگتا ہے۔
۲﴾چپ رہنے میں غبی آدمی کا پردہ ہے﴿ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ﴾ آدمی کی عقل
کا نکھاراسی میں ہے کہ وہ بولے۔﴿ الدمیری: حیاۃ الحیوان، ۱/۸۰۲﴾ |