گُذشتہ(۱۲)۔ اقساط کا خُلاصہ۔۔۔
یہ کہانی ہے۔ ایک ایسے نُوجوان کامِل علی کی جِس کے سر سے اُسکے والد کا
سایہ بچپن میں ہی اُٹھ گیا۔۔۔ والدہ کی نوجوانی میں بیوگی سے بے شُمار
مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ ایک طرف گھر میں ایسے حالات پیدا ہُوجاتے ہیں۔ کہ،،
جسکی وجہ سے کامِل علی چُھوٹی چھوٹی خُوشیوں کیلئے ترس جاتا ہے۔ تُو دوسری
طرف معاشرے کے نکمے اُور گندگی سے لِتھڑے ذہن کے مالک اُوباش نوجوان اُسکی
والدہ کو حریص نِگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ آئے دِن کے مسائل کی وجہ ایک طرف
اُسکی والدہ ہِراساں رِہنے لگی تھی۔ تُو دوسری طرف محلہ کے مولوی صاحب کی
زُوجہ کا انتقال ہُوجاتا ہے۔ محلہ والوں اُور مولوی صاحب کی دُو بہنوں کی
کوشش سے کچھ عرصہ میں کامل علی کی بیوہ والدہ پھر سے مولوی رمضان کی دُلہن
بن جاتی ہے۔ ۔ کامِل علی کو اپنے ہمسائے چاچا ارشد کی بیٹی نرگس سے بُہت
دِلی لگاوٗ پیدا ہُوجاتا ہے۔ وُہ اس رشتہ کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ لیکن
جوانی میں قدم رکھتے رکھتے اُسے اِحساس ہُوجاتا ہے۔ کہ وُہ صرف دِلی لگاوٗ
نہیں ہے۔ بلکہ مُحبت کا رشتہ اُسکے دِل میں اپنی جڑیں کافی گہری بنا چُکا
ہے۔ مولوی رمضان صاحب کی اکلوتی بیٹی جلباب نے کبھی کامل علی کو احساس نہیں
ہُونے دِیا کہ وُہ اسکی سگی نہیں بلکہ سُوتیلی بہن ہے۔
کچھ ہی عرصہ بعد جلباب کی سفیہ پھپو اُسے اپنے بیٹے سے بیاہ کر جہلم لے
جاتی ہیں ۔لیکن قُدرت کو ابھی کامِل علی کے مزید اِمتحان مقصود تھے۔ مولوی
صاحب حد درجہ شفیق اِنسان تھے۔ اِس لئے اُنہوں نے بھی کامِل علی کو ہمیشہ
حقیقی والد کی طرح مُحبت دینے کی کوشش کی۔ اُور بڑی شفقت سے کامل علی کی
پرورش کی لیکن ایک دِن کامل علی کی والدہ بھی کامل علی کو سسکتا اُور تڑپتا
چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جامِلتی ہیں۔ اَماں کے انتقال کے بعد مولوی
صاحب بھی ذیادہ دِن نہیں جی پائے۔۔۔۔ کامل علی پھر سے اپنے پُرانے گھر میں
لُوٹ آیا۔ نرگس سے مُلاقاتوں کے سلسلے جاری تھے۔ کہ چاچا ارشد غلط فہمی کا
شِکار ہُوگئے۔ حالات کی ستم ظریفی کے باعث کامل علی نے اُستاد عبدالرشید کے
پاس مُلازمت اُور سکونت اِختیار کرلی۔ چاچا ارشد نے موقع پاکر سادگی سے
نرگس کی شادی کِسی دوسرے شخص سے کروادی۔ جسکی وجہ سے کامل علی مزید
دلبرداشتہ ہُوگیا۔
حالات اُور زمانے کے بار بار ستائے جانے پر کامل علی رُوحانی عملیات کی
جانب راغب ہُوجاتا ہے۔ اُسکا خیال ہے کہ اگر ایک مرتبہ اُسکے پاس کوئی
رُوحانی طاقت آجائے۔ تُو وہ تمام زمانے سے خاص کر چاچا ارشد سے بدلہ لے
سکتا ہے۔ لیکن بار بار چلہ کاٹنے کے باوجود بھی ناکامی اُسکا مقدر ٹہرتی
ہے۔ وُہ ایک بنگالی جادوگر کی شاگردی اِختیار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر بار
ایک مَجذوب اُسکے راستے میں دیوار کی مانند کھڑا ہُوجاتا ہے۔ اُستاد
عبدالرشید کے بار بار سمجھانے پر بھی جب کامل علی عملیات سے باز نہیں آتا۔
تب اُستاد عبدالرشید اُسے ایک اللہ کے ولی ،،میاں صاحب ،، کے پاس بھیجتا
ہے۔ لیکن یہاں بھی ناکامی کامل علی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اُور وہ خالی
ہاتھ ہی اپنے گھر لُوٹ آتا ہے۔
کامِل علی مجذوب کی تلاش میں ایک مُقام تک پُہنچتا ہے۔ جہاں اِسے ایک
نوجوان کے توسل سے معلوم ہُوتا ہے کہ،، اُس مجذوب کا نام ،، بابا صابر
،،ہے۔ اُور گُذشتہ دَس برس سے کِسی نے بابا صابر کو کسی سے گُفتگو کرتے
نہیں دیکھا ہے۔
اَب مَزید پڑھیئے۔۔۔
کامِل علی اُس نوجوان کو بتانے ہی لگا تھا،، کہ جِسے وُہ بابا صابر کے نام
سے جانتا ہے دَراصل وُہ بھی اُسی مَجذوب کی تلاش میں یہاں آیا ہے۔۔۔۔۔ اُور
وُہ کوئی گُونگا شخص نہیں ہے بلکہ میں نے خُود کئی مرتبہ اُسکی زُبان سے
نرم و گرم جُملے سُنے ہیں۔۔۔ البتہ یہ اُور بات ہے کہ،، وُہ باتیں اتنی
مُبہم اُور پیچدہ ہُوتی ہیں کہ اُنکی شرح کی تشنگی قلب و ذِہن کی بے مائیگی
کا افسانہ سُناتی ہیں۔۔۔
اِس سے پہلے کہ کامل علی کی زُباں اُسکے مُنتشر خیالات کی ترجمانی کرپاتی۔
کَامِل علی کی نِگاہ دُور کھڑے اُسی مجذوب پر پڑی۔ جُو اپنی اَنگلی ہُونٹوں
پر رکھے اُسے خَاموش رِہنے کا اِشارہ کر رہا تھا۔ مَجذوب کے چہرے پر ایسا
جلال تھا۔ کہ اگر وُہ اِشارہ نہ بھی کرتا تب بھی شائد کامِل علی اُس چہرے
کو دیکھنے کے بعد ایک بھی لفظ اپنی زُبان سے بَمشکل ہی نِکال پاتا۔ یکایک
اُس مَجذوب نے کامِل علی کو اپنے پیچھے آنے کا اِشارہ کیا۔۔۔۔ اُور خُود
وَہاں سے روانہ ہُوگیا۔۔۔۔
کامِل علی میکانکی انداز میں اُس مجذوب کے پیچھے چلتا رَہا۔ یہاں تک کہ وُہ
مَجذوب ایک سُنسان گلی میں دَاخِل ہُوگیا۔ کامل علی جُونہی اُس گَلی میں
دَاخِل ہُوا۔ وُہ مجذوب کامِل علی کا ہاتھ پکڑ کر ایک ویران مَکان میں
داخِل ہُوگیا۔ کامِل علی مکان کو دیکھ کر مزید وحشت زدہ ہُوگیا۔عجیب مکان
تھا وُہ ۔جِس کی دیواروں میں ایک بھی کھڑکی تھی اُور نہ ہی کِسی چوکھٹ میں
کوئی دروازہ سلامت تھا۔ شائد اِردگِرد کے رہنے والے مکین خالی گھر دیکھ کر
خُوب ہاتھ صاف کررہے تھے۔ چھت کا پلاستر بھی تقریباً اُکھڑ چُکا تھا۔ جِس
میں سے کہیں کہیں بُوسیدہ سریا جھانک کر اپنی موجودگی کا اِحساس دِلا رہا
تھا۔ اچانک مجذوب نے اُسکی محویت کو تُوڑتے ہُوئے کہا،، یاد رکھنا کبھی
کِسی سے یہ مت کہنا کہ میں تُم سے بات چیت کرتا ہُوں۔۔۔ کیونکہ اگر تُم سے
ایسا کیا تُو مجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ تُم ضرور لوگوں میں
تماشہ بن کر رِہ جاؤ گے۔۔۔۔ کیونکہ اَس تمام شہر میں کوئی تُمہاری اِس بات
کو نہیں مانے گا۔۔ کہ،، بابا صابر کِسی سے بات کرتے ہیں۔۔۔
لیکن آپ نے یہ بہروپ آخر کیوں سجا رکھا ہے۔۔۔؟ اُور آپ کیوں لوگوں سے بات
نہیں کرتے۔ اُور بھلا مجھ میں ایسی کیا خاص بات ہے جُو آپ نے اِس لاکھوں
افراد کے شہرمیں مجھی کو گفتگو کیلئے چُنا ہے۔۔۔؟ِ کامِل علی بے تکان
بُولتا چلا جارہا تھا۔ کہ مجذوب نے اُسکے ہُونٹوں پر انگلی رکھ کر اُسے
خاموش رہنے کا اِشارہ کیا۔ اُور خُود خَلاؤں میں گُھور کر کسی کو تلاش کرنے
لگا۔۔۔۔ چند لمحے یہاں وَہاں نِگاہیں گھمانے کے بعد اُس مجذوب نے صحن کی
منڈیر پر نظریں جماتے ہُوئے کِسی کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا،، ۔۔۔ ابے اُو
حَرامزدے مجھ سے تُو کیا کھیلے گا۔۔۔۔؟ کیا میں تُجھے بے خبر دِکھائی دیتا
ہوں۔۔۔؟ کیا میں نہیں جانتا کہ تُو کب سے اِس مُوقع کی تلاش میں ہے کہ،،
اِس حرامزادے کیساتھ مِل کر اپنی دھما چُوکڑیوں کا سامان پیدا کرے۔ مجذوب
نے کامِل علی کی جانب اِشارہ کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ پھر نجانے مجذوب کے دِل میں
کیا بات سمائی کہ ،، اُس نے زمین پر پڑی کنکریاں اُٹھا اُٹھا کر مُنڈیر کی
جانب اُچھالنی شروع کردیں۔۔۔۔ چند ایک کنکریاں منڈیر کی جانب اُچھالنے کے
بعد مجذوب اُسی نادیدہ ہستی کو گالیاں بکتا ہُوا وُہاں سے دُوڑتا ہُوا چلا
گیا۔۔۔ کامل علی آج اُس مجذوب سے اپنے بے شُمار سوالوں کے جوابات کی توقع
کررہا تھا۔ لیکن وُہ مجذوب تُو کِسی افلاطون کو گالیاں بکتا چلا جا رَہا
تھا۔۔۔۔۔
وُہ مجذوب اِس واقعہ کے بعد پھر شہر میں نظر نہیں آیا۔۔۔۔ کئی ماہ گُزر
چُکے تھے۔۔۔ اُور کامل علی نے اِس دوران کئی طرح کے وظائف کئے۔۔۔ دانہ
ثمانی کے موکل کو وُہ ابھی تک بُھلا نہیں پایا تھا۔۔۔ پہلی مرتبہ میں اگرچہ
کامِل علی کو کامیابی نصیب نہ ہُوسکی تھی۔ لیکن اِتنا تُو تھا کہ وُہ موکل
حاظر ضرور ہُوا تھا۔۔۔ لیکن اُسکے بعد دُو مرتبہ کامل علی اُس چلہ کی تجدید
کرچُکا تھا۔ لیکن اِس مرتبہ دُونوں چِلّے ہی ناکام رہے تھے۔۔۔۔ پھر اُستاد
عبدالرشید کے کہنے پر وُہ آج میاں صاحب کے آستانے پر بھی حاضر ہُوا تھا۔۔۔
لیکن میاں صاحب نے مُلاقات ہی ایسی بے رُخی اُور اِس بے اعتنائی کے انداز
میں فرمائی تھی،، گُویا مُلاقات سے پہلے ہی مُلاقات ختم ہُوگئی ہُو۔۔ کامل
علی کو زمانے سے زیادہ اپنے نصیب پر غُصہ آرہا تھا۔ پھر نجانے کب اِ سی غَم
و غُصہ کی حالت میں نیند نے اُسے اپنی آغوش میں چُھپا لیا۔۔۔ کامِل علی کو
سُوئے ہُوئے چند منٹ سے زائد نہ ہُوئے ہُونگے۔ کہ کسی نے دھیمے دھیمے
دروازے پر دستک دینی شروع کردی۔ اُور دستک دینے والے کے ہاتھ تب تک نہ
تھمے۔ جب تک کہ کامل علی کچی نیند سے جاگ کر بڑابڑاتا ہُوا دروازے پر نہ
آگیا۔
کامل علی نے آنکھ مَلتے ہُوئے دروازہ کھول کر دیکھا۔ تُو ایک نوجوان کو
اپنا منتظر پایا۔ وُہ کوئی چھبیس ستائیس برس کا نُوجوان تھا۔ جسکے چہرے پر
سادگی سے زیادہ بے وقوفی مترشح تھی۔ تیل میں تربتر بال جنکے دَرمیان میں سے
سیدھی مانگ نِکالی گئی تھی۔ اُور ہُونٹوں پر باریک سی تلوار جیسی مُونچھیں
دیکھ کر تُو کامل علی کی رات کے اِس پہر ہنسی نِکلتے نِکلتے رِہ گئی۔ کامِل
علی نے اپنی ہَنسی پر قابو پاتے ہُوئے نرم لہجے میں دریافت کیا۔ بھائی کُون
ہُو۔ اُور رات کے اِس پہر ایسی ٹِھٹرتی ہُوئی سردی میں کیوں میرا دروازہ
کھٹکھٹا رہے تھے۔
بھائی مُسافر ہُوں، اُور اِس بھرے پُرے شہر میں میرا کوئی شناسا نہیں ہے۔
رِیلوےاِسٹیشن سے نِکل کر اپنے لئے کوئی جائے پناہ تلاش کررہا تھا۔ نجانے
کیسے آپ کے گھر کے سامنے سے گُزرتے ہُوئے قدم ٹہر سے گئے۔ سُوچا آپ سے مدد
مانگ لُوں ہُوسکتا ہے اِسطرح میرے ساتھ ساتھ آپ کا بھی کُچھ بھلا ہُوجائے۔
ویسے میرا نام افلاطون ہے۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ اگر آپ مجھے اَبو شامِل کے نام سے
مُخاطب کریں گے تُو مجھے زیادہ اچھا لگے گا۔ اجنبی نوجوان نے اپنا تعارف
اُور مُدعا پیش کرتے ہُوئے کہا۔
افلاطون۔۔۔ یہ کیا نام ہُوا بَھلا۔۔۔۔؟ کامل علی نے بڑبڑاتے ہُوئے خُود سے
استفسار کیا۔۔۔۔ کامل علی کو یہ نام عجیب ضرور لگا تھا۔۔۔۔ لیکن اُسے بے
چینی اِس بات کی تھی۔۔ کہ،، اُسے ایسا کیوں مِحسوس ہُورہا ہے جیسے اُسکا
اِس نام سے کوئی رِشتہ جُڑا ہُو۔۔۔ یا اِس نام کے ساتھ اسکا کوئی خاص تعلق
ہُو۔۔۔! وُہ اِس نام کو قرطاس ذِہن کی لُوح پر تلاش کرنے کی کُوشش کررہا
تھا۔ لیکن کوئی سُراغ کوئی سِرا اُسکے ہاتھ نہیں آیا۔
کہاں کُھو گئے میاں کیا اندر آنے کیلئے نہیں کہو گے۔۔۔۔؟ اگر چند لمحے اُور
یُونہی باہر کھڑے رہے تُو شائد ہم دُونوں قلفیوں کی صورت اختیار کرجائیں
گے۔۔۔۔ افلاطون نے اپنے لہجے میں مِزاح کا عنصر پیدا کرتے ہُوئے کہا۔
لیکن میں ایک اجنبی شخص کو اپنے گھر میں کیسے داخل ہُونے کی اجازت دے سکتا
ہُوں۔۔۔۔۔ کامل علی نے دروازے کی چُوکھٹ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہُوئے ۔۔۔
گُویا اُسکی اندر آنے کی راہ مسدود کرتے ہُوئے جواب دِیا۔
اِس سے تُو بہتر تھا کہ میں تُم سے اندر داخل ہُونے کی اجازت طلب کرنے کی
بے وقوفی ہی نہیں کرتا۔۔۔۔ یہ کہتے ہُوئے وُہ اجنبی کامل علی کو دھکیلتے
ہُوئے اندر داخل ہُوگیا۔
کامِل علی نے اجنبی افلاطُون کی اِس بے باکی اُور دَراندازی پر تِلملاتے
ہُوئے افلاطون نامی اِس نُوجوان کا بازو سختی سے تھامتے ہُوئے اُسے واپس
دروازے سے باہر دھکیل دیا۔ جسکی وجہ سے وُہ نوجوان لڑکھڑاتے ہُوئے سڑک پر
گِر پَڑا ۔ اُسے شائد کامِل علی سے ایسے جارحانہ رَویئے کی اُمید ہر گز
نہیں تھی۔ کامِل علی نے غُراتے ہُوئے اُس نوجوان کو مُخاطب کرتے ہُوئے
کہا،، یہ میرا گھر ہے ۔ کُوئی سرائے خانہ نہیں ہے۔ جہاں جس ایرے غیرے نتھو
خیرے کا دِل چاہے۔ اُور وُہ دندناتا ہُوا داخل ہُوجائے۔ کامل علی نے حِقارت
سے زمین پر گِرے ہُوئے نوجوان کو دیکھا جُو کمالِ ڈھٹائی سے کامل علی کو
دیکھتے ہُوئے مُسکرا رہا تھا۔ کامِل علی نے دروازے کی کُنڈی لگا کر جُونہی
اپنی چارپائی کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔ اُسکی آنکھیں یہ دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رِہ
گئیں،، کہ وہ افلاطون نامی نوجوان جو ابھی ایک لمحے قبل سڑک پر گِر پڑا
تھا۔ اپنی ٹانگیں پسارے بڑے آرام سے چارپائی پر نیم دراز تھا۔ کامل علی
گھبرا ہٹ کے مارے چند قدم پیچھے کھسک گیا۔ بے خیالی میں اُسکا پاؤں گیس
سلنڈر سے ٹکرا گیا جسکی وجہ سے وُہ اپنا توازن قائم نہیں رَکھ پایا۔۔۔۔!
شہرِ اقبال نہ ہی جھنگ دیکھا
خَاک اُلفت کا تُونے رَنگ دیکھا
حُوصلہ پیار کا نہیں تھا اگر
کیوں خیالوں میں اُسکو سنگ دیکھا
دِل کو تُوڑا ہے تُو سزا بھی بُھگت
خاب میں خستہ دِل اُور جگر تنگ دیکھا
گرچہ نیت میں تیری کُھوٹ نہ تھا
ہم نے لہراتا تجھے پھر بھی اِک پتنگ دیکھا
عشرتِ وارثی بن جائے بات لُوگ اگر
دیکھ کر تجھ کو کہیں ہم نے اِک ملنگ دیکھا |