عامل کامِل اَبُو شامِل قسط 14 ۔ می رقصم

گُذشتہ(13)۔ اقساط کا خُلاصہ۔۔۔

یہ کہانی ہے۔ ایک ایسے نُوجوان کامِل علی کی جِس کے سر سے اُسکے والد کا سایہ بچپن میں ہی اُٹھ گیا۔۔۔ والدہ کی نوجوانی میں بیوگی سے بے شُمار مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ ایک طرف گھر میں ایسے حالات پیدا ہُوجاتے ہیں۔ کہ،، جسکی وجہ سے کامِل علی چُھوٹی چھوٹی خُوشیوں کیلئے ترس جاتا ہے۔ تُو دوسری طرف معاشرے کے نکمے اُور گندگی سے لِتھڑے ذہن کے مالک اُوباش نوجوان اُسکی والدہ کو حریص نِگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ آئے دِن کے مسائل کی وجہ ایک طرف اُسکی والدہ ہِراساں رِہنے لگی تھی۔ تُو دوسری طرف محلہ کے مولوی صاحب کی زُوجہ کا انتقال ہُوجاتا ہے۔ محلہ والوں اُور مولوی صاحب کی دُو بہنوں کی کوشش سے کچھ عرصہ میں کامل علی کی بیوہ والدہ پھر سے مولوی رمضان کی دُلہن بن جاتی ہے۔ ۔ کامِل علی کو اپنے ہمسائے چاچا ارشد کی بیٹی نرگس سے بُہت دِلی لگاوٗ پیدا ہُوجاتا ہے۔ وُہ اس رشتہ کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ لیکن جوانی میں قدم رکھتے رکھتے اُسے اِحساس ہُوجاتا ہے۔ کہ وُہ صرف دِلی لگاوٗ نہیں ہے۔ بلکہ مُحبت کا رشتہ اُسکے دِل میں اپنی جڑیں کافی گہری بنا چُکا ہے۔ مولوی رمضان صاحب کی اکلوتی بیٹی جلباب نے کبھی کامل علی کو احساس نہیں ہُونے دِیا کہ وُہ اسکی سگی نہیں بلکہ سُوتیلی بہن ہے۔

کچھ ہی عرصہ بعد جلباب کی سفینہ پھپو اُسے اپنے بیٹے سے بیاہ کر جہلم لے جاتی ہیں ۔لیکن قُدرت کو ابھی کامِل علی کے مزید اِمتحان مقصود تھے۔ مولوی صاحب حد درجہ شفیق اِنسان تھے۔ اِس لئے اُنہوں نے بھی کامِل علی کو ہمیشہ حقیقی والد کی طرح مُحبت دینے کی کوشش کی۔ اُور بڑی شفقت سے کامل علی کی پرورش کی لیکن ایک دِن کامل علی کی والدہ بھی کامل علی کو سسکتا اُور تڑپتا چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جامِلتی ہیں۔ اَماں کے انتقال کے بعد مولوی صاحب بھی ذیادہ دِن نہیں جی پائے۔۔۔۔ کامل علی پھر سے اپنے پُرانے گھر میں لُوٹ آیا۔ نرگس سے مُلاقاتوں کے سلسلے جاری تھے۔ کہ چاچا ارشد غلط فہمی کا شِکار ہُوگئے۔ حالات کی ستم ظریفی کے باعث کامل علی نے اُستاد عبدالرشید کے پاس مُلازمت اُور سکونت اِختیار کرلی۔ چاچا ارشد نے موقع پاکر سادگی سے نرگس کی شادی کِسی دوسرے شخص سے کروادی۔ جسکی وجہ سے کامل علی مزید دلبرداشتہ ہُوگیا۔

حالات اُور زمانے کے بار بار ستائے جانے پر کامل علی رُوحانی عملیات کی جانب راغب ہُوجاتا ہے۔ اُسکا خیال ہے کہ اگر ایک مرتبہ اُسکے پاس کوئی رُوحانی طاقت آجائے۔ تُو وہ تمام زمانے سے خاص کر چاچا ارشد سے بدلہ لے سکتا ہے۔ لیکن بار بار چلہ کاٹنے کے باوجود بھی ناکامی اُسکا مقدر ٹہرتی ہے۔ وُہ ایک بنگالی جادوگر کی شاگردی اِختیار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر بار ایک مَجذوب اُسکے راستے میں دیوار کی مانند کھڑا ہُوجاتا ہے۔ اُستاد عبدالرشید کے بار بار سمجھانے پر بھی جب کامل علی عملیات سے باز نہیں آتا۔ تب اُستاد عبدالرشید اُسے ایک اللہ کے ولی ،،میاں صاحب ،، کے پاس بھیجتا ہے۔ لیکن یہاں بھی ناکامی کامل علی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اُور وہ خالی ہاتھ ہی اپنے گھر لُوٹ آتا ہے۔

کامِل علی مجذوب کی تلاش میں ایک مُقام تک پُہنچتا ہے۔ جہاں اِسے ایک نوجوان کے توسل سے معلوم ہُوتا ہے کہ،، اُس مجذوب کا نام ،، بابا صابر ،،ہے۔ اُور گُذشتہ دَس برس سے کِسی نے بابا صابر کو کسی سے گُفتگو کرتے نہیں دیکھا ہے۔ بابا صابر مُلاقات کے دُوران اُسے بتاتے ہیں کہ فی الحال انکا یہ راز وُہ کسی پر بھی آشکار نہ کرے۔ اُور کسی نادیدہ ہستی کو پکڑنے کیلئے دُوڑ جاتے ہیں۔ افلاطون نامی ایک نوجوان کامل علی کے گھر میں گُھسنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن کامل علی دھکے دے کر اُسے گھر سے نِکال دیتا ہے۔ لیکن جب وُہ دروازے میں کنڈی لگا کر پلٹتا ہے۔ تُو اُسی نوجوان کو اپنے بستر پر دراز دیکھتا ہے۔ گھبراہٹ میں کامل علی کا پاوٗں رَپٹ جاتا ہے۔

اَب مَزید پڑھیئے۔۔۔

زَمین پر اُوندھے منہ گرتے ہُوئے کامِل علی کو گیس سِلنڈر سے باہر نِکلا ہُوا نُوزِل اپنی داہنی آنکھ کے بالکل مُقابل دِکھائی دیا۔ اِس سے پہلے کہ وُہ نُوزل کامل علی کی آنکھ میں پیوست ہُوجاتا۔۔۔۔۔ اَفلاطُون نے بڑھ کر کامل علی کو تھام لیا۔ جسکی وجہ سے کامل علی کی ایک آنکھ ضائع ہُوتے ہُوتے رِہ گئی۔ افلاطُون نے اُسے چارپائی پر بِٹھاتے ہُوئے ڈانٹا۔۔۔۔ کہاں تُو طاقت حاصِل کرنے کیلئے کیسے کیسے پاپڑ بیلتے رَہے۔۔۔ کبھی خطرناک چِلّوں میں خُود کُو جُھونک رہے تھے۔ تُو کبھی ہندو بنگالی کی شاگردی کیلئے پر تُول رہے تھے۔۔۔۔ اُور اب جبکہ میں خُود تُمہارا سہارا بننے کیلئے اُور تُمہیں دُنیا کا طاقتور انسان بنانے کیلئے آگیا ہُوں۔۔۔ تُو مجھ سے بھاگ رہے ہُو۔ بلکہ سچ کَہوں تُو حماقت دِکھا رہے ہُو۔ افلاطُون نے ناراضگی کا اِظہار کرتے ہُوئے کہا۔

کیا تُم دانہٗ ثمانی کے موٗکل ہُو۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔ کامل علی نے اپنے حَواس پر قابُو پاتے ہُوئے حیرانی سے استفسار کیا۔
یار دیکھو میں کُوئی دانہٗ ثمانی وَمانی کا موٗکل شُوٗکل نہیں ہُوں۔۔۔۔ البتہ یہ سچ ہے کہ میں تُمہاری مدد کرنا چاہتا ہُوں۔ اُور تُم سے دُوستی کا خُواہشمند ہُوں۔ تُمہاری تمام خُواہشات میں پُوری کردُوں گا۔ اُور کُچھ کام تُم میرے کردِیا کرنا۔۔۔ بس اتنی سے بات ہے۔

اگر تُم دانہٗ ثمانی کے موٗکل نہیں تُو پھر کُون ہُو۔ تُم بند دروازے کے باوجود گھر میں کیسے داخِل ہُوگئے۔۔۔؟ ۔۔۔اُور تُم میرے لئے کیا کرسکتے ہُو۔۔؟ کامل علی کا خُوف تجسس میں تبدیل ہُوچُکا تھا۔

دیکھو دُوست مجھ پر اعتماد کرو۔۔۔۔چلو ایسا کرتے ہیں میں پہلے چائے بنا لیتا ہُوں۔ اتنا کہنے کے بعد افلاطُون نے کامل علی کے جواب کا انتظار کئے بغیر چائے کی پتیلی چُولہے پر چڑھادی۔ حالانکہ ابھی کُچھ ہی گھنٹے قبل کامل علی دیکھ چُکا تھاکہ،، گیس کا سلنڈر بالکل خالی ہُوچُکا ہے۔ لیکن اب چولہے سے نکلتی ہُوئی آگ کی تیز لپٹیں کُچھ اُور ہی کہانی سُنا رہی تھیں۔۔۔۔ کامل علی سُوچ رَہا تھا کہ اگر یہ دانہٗ ثمانی کا موٗکِل نہیں تُو آخر یہ ہے کُون۔۔۔۔۔؟

اگلے ہی لمحے افلاطُون نے چائے کا گرما گرم مگ کامِل علی کے ہاتھوں میں تھماتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ اپنے پہلے سے پریشان دِماغ کو مزید نہ تھکاوٗ۔ اس سَرد رات میں گرم گرم چائے کا مزہ لُو۔ اُور سب کُچھ بُھول جاوٗ۔۔ میں نے کہا ہے نا۔تُم سے۔۔۔ کہ،، چائے پیتے ہُوئے تُم کو سب کُچھ سمجھاتا ہُوں۔

کامل علی چائے کی چُسکیاں لیتے ہُوئے سُوچنے لگا۔۔۔ واقعی افلاطُون کے ہاتھ میں جادو ہے۔ ورنہ ایسی مزیدار چائے کبھی وُہ خود کیوں نہیں بنا پایا۔

افلاطُون نے چائے کا خالی مَگ سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہُوئے کامل علی کو مُخاطب کیا۔۔۔ یہ چائے تُو کُچھ بھی نہیں ہے میرے یار۔۔ آگے آگے دیکھتے جاوٗ میرے دوست میں تُمہیں دنیا کی کیسی کیسی نعمتیں کِھلاتا ہُوں۔۔۔۔ دُنیا کی جو ڈِش کھانے کُو دِل چاہے مجھے بتادِینا۔ صرف چند منٹ میں حاضر نہ کردوں تُو میرا نام اَبو شامِل نہیں بلکہ گھن چکر رکھ دینا۔ ۔۔ دُوست ہُو یا دُشمن جِسے کہو گے تُمہارے سامنے پیش کرسکتا ہُوں۔۔۔ جہاں جانا چاہو۔ اِشارہ کردینا۔ وَہاں مِنٹوں میں پُہنچانا میرا کام ہُوگا۔ دُولت پیسہ جُو کہو گے سب کُچھ تُمہارے قدموں میں ڈھیر کردُونگا۔۔۔

لیکن تُم نے ابھی تک مجھے یہ نہیں بتایا کہ آخر تُم ہُو کُون۔۔۔۔؟ انسان ہُو تو کیا جادُو گر ہُو۔ ۔۔۔؟ یا کوئی جِن ہو۔۔۔؟ ایک طرف خُود کو میرا دُوست بھی کہتے ہُو۔۔۔ میری مدد بھی کرنا چاہتے ہُو۔۔ لیکن اپنی ذات کو معمہ کی طرح پُوشیدہ بھی رکھنے کی کُوشش کررہے ہُو۔۔۔ اُور ہاں کیا تُم مجھے لوگوں کی نظروں سے پُوشیدہ بھی کرسکتے ہُو۔۔ کامل علی نے گِلہ کرتے ہُوئے سوالات کی بُوچھاڑ کردی۔

دیکھو کامل میرے دُوست انسان اُور جنات سبھی کو ایک خُدا نے بنایا ہے۔ نہ کوئی اپنی مرضی سے انسان بنتا ہے اُور نہ کوئی اپنی خُوشی سے جِن بنتا ہے جیسے انسان اللہ تعالی کی مخلوق ہیں ویسے ہی جِنات بھی تُو اُسی پروردیگار کے بنائے ہُوئے ہیں۔ البتہ یہ اُور بات ہے کہ اِن دونوں کے درمیاں دُوری کی خلیج نے اِن دونوں کو ایک دوسرے سے خُوفزدہ کردیا ہے۔ انسان جنات سے ڈرتے ہیں۔ اُور جنات انسانوں سے عاجِز رِہتے ہیں۔۔۔ ویسے تُم چاہو تُو میں کبھی کبھار تُمہیں لوگوں کی نِگاہوں سے اُوجھل کرسکتا ہُوں ۔ اُور تُمہاری خُواہش پر میں تُمہیں پوشیدہ رِہنے کا عمل بھی سِکھاسکتا ہُوں۔

دیکھو۔۔۔ تُم پھر میرا سوال گُول کرگئے۔۔۔ تُم نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ آخر تُم کِن میں سے ہُو۔۔۔۔۔۔ انسانوں سے ۔۔۔۔ یا قومِ جنات سے۔۔۔ کامِل علی نے اپنا سوال دُھراتے ہُوئے افلاطُون کی بات درمیان سے اُچکتے ہُوئے کہا۔۔

دیکھو میرے دُوست میرا خیال ہے کہ ،، میری تمہید سے تُم نے اندازہ لگا لیا ہُوگا۔ کہ،، میں کُون ہُوں ۔ لیکن اگر تُم میرے مُنہ سے سُننا چاہتے ہُو تُو سُنو۔۔۔ میں انسان نہیں ہُوں بلکہ ایک جِن زادہ ہُوں۔ میرے دادا نے میرا نام افلاطُون رکھا تھا۔ لیکن میرے بیٹے شامل کی پیدایش کے بعد اکثر لُوگ مجھے میری کُنیت کے سبب اَبو شامِل کے نام سے پُکارتے ہیں۔ اُور مجھے بھی اب یہی نام سُننے میں بھلا محسوس ہُوتا ہے۔ افلاطُون نے دُوران گُفتگو کامل علی کے چہرے پر کئی رنگ گُزرتے دیکھے۔ جسکی وجہ سے افلاطُون کو یہ اندازہ لگانے میں بالکل دُشواری پیش نہیں آئی کہ۔ خُوف کی ایک لہر کامل علی کے چہرے پر رینگتے ہُوئے گُزر رہی ہے۔

افلاطُون کے خاموش ہُوتے ہی کامل علی نے سَرد رات کے باوجود اپنی پیشانی پر آئے پسینے کے قطرات سمیٹتے ہُوئے اپنا گلا کھنکارتے ہُوئے دُوسرا سوال داغا۔ میں نے تُمہیں قابو کرنے کیلئے کُوئی چِلّہ نہیں کاٹا۔ پھر تُم میری مدد کیوں کرنا چاہتے ہُو۔

دیکھو دُوست میری طاقت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ کہ،، میں خُود بھی ایک زبردست عامِل ہُوں۔ اُور اِسی طاقت کی وجہ سے کئی لُوگ مجھے اپنا غُلام بنانے کی ناکام کُوشش کرچکے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا کہ چُونکہ میں خُود بھی ایک عامِل ہُوں اسلئے کچھ نہ کُچھ بچت کا سامان پیدا ہُوجاتا ہے۔ لیکن اِس مرتبہ مجھے جس شخص سے خطرہ ہے۔ وُہ نہایت ہُوشیار اُور زیرک عامِل ہے۔ جسکو میں کوئی نقصان نہیں پُہنچا پایا ہُوں۔ نہ ہی میرا علم اُسکی استقامت کے سامنے کوئی بند باندھ پایا ہے۔۔۔۔جسکی وجہ سے میری آزادی کو خطرات لاحق ہیں۔ ۔
میں غلام بن کر نہیں رِہ سکتا۔ میں کوئی عام جِن نہیں ہُوں۔ بلکہ ایک ریاست کے سردار جن کا اکلوتا بیٹا ہُوں۔ اسلئے میں نے سُوچا ہے۔۔کہ،، میں تُمہاری مدد کرونگا اُور تُم مجھے اُس عامل کی دسترس سے دُور رکھو گے۔۔۔۔ اب فیصلہ تُمہارے ہاتھ ہے۔۔۔ چاہو تُو مجھے دُوست بنا کر اپنی اُور میری زندگی کو آسان بنادو۔۔۔۔ اُور چاہو تو اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی تکلیفوں کے ان لامتناہی ساگر میں دھکیل دُو۔۔۔۔۔ افلاطُون نے اُمید و یاس سے معمور لہجے میں گُفتگو کرتے ہُوئے اپنا ہاتھ کامِل علی کی جانب بڑھادِیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

یہ کالم اُن کے نام جو میری کوتاہیوں کے سبب مجھ سے نالاں رہے۔

اُن سے کہنا تُمہاری آمد سے
کِھل کے کَلیاں گُلاب مِہکے ہیں

اُن سے کہنا تُمہارے جَلوٗوں سے
ٹِمٹماتے ستارے چَمکے ہیں

اُن سے کِہنا کہ مسکراتے رہیں
جَاں بلب زِندگی کو پَلٹے ہیں

عِشرتِ وارثی بُہت خُوش ہُو
پِھر سے کیا میکدے کُو لوٹے ہیں

اُور یہ اشعار اُنکے نام جنہوں نے میری کوتاہوں کو مُعاف کردیا۔
 
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1095628 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More