سردیوں میں گرم شال لپیٹے رات
دیر تک چلتے رہنامجھے بہت پسند ہے ۔ اداسیوں کے موسم میں یونہی اپنے آپ میں
گم مال روڈ پر چلتے چلے جانا اب شاید میری عادت بن چکی ہے ۔ وہ بھی اداسیوں
کا موسم تھا جب ایک شام یونہی چلتے چلتے میں نے اپنے خود ساختہ خول سے سر
باہر نکال کر دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے سے چند قدم آگے آگے ایک شخص
سیاہ شال لپیٹے تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جا رہا ہے ۔ اسے دیکھ کر یوں لگا
جیسے میرا ہمزاد میرا ہمسفر بن کر مجھ سے آگے آگے چل رہا ہو۔ مال روڈ پر
کئی لوگ جا رہے تھے لیکن اسے دیکھ کر یہ احساس ہونے لگا کہ یہ اجنبی ہمارے
ہی قبیلے کا ہے ۔ پھر اکثر یونہی ہونے لگا ۔ وہ اجنبی مجھے سے چند قدم آگے
یونہی چلتا نظر آتا اور چیئرنگ کراس پہنچ کر کہیں غائب ہو جاتا ۔ میں نے
کئی بار کوشش کی کہ اس تک پہنچوں اور دیکھوں کہ یہ کون ہے لیکن ہر بار میں
چند قدم پیچھے رہ جاتا اور وہ اجنبی چیئرنگ کراس پہنچ کر نظروں سے اوجھل
ہوجاتا ۔کئی شامیں یونہی گزر گئیں اور پھر اچانک وہ شخص جیسے آیا تھا ویسے
ہی خاموشی سے غائب ہو گیا ۔ میں تنہا سرد راتوں میں مال روڈ پر گھنٹوں
ٹہلتا رہتا ۔ زندگی اپنی تمام تر اداسیوں کے ساتھ یونہی گزرتی رہی اور ہر
روز محبت کرنے والے جدا ہوتے رہے لیکن ایک کسک سی رہنے لگی کہ کم از کم اس
اجنبی سے اتنا تو پوچھ لیتا کہ وہ کون ہے جو جتنی خامشی سے آیا اتنی ہی
خاموشی سے لوٹ گیا ؟ کئی لوگ یونہی آتے ہیں اور اپنا احساس دلائے بنا لوٹ
جاتے ہیں لیکن اس اجنبی میں ایسی کیا خاص بات تھی جو اپنے پن کا احساس
دلاتی تھی؟ میں ایسے ہی لاتعداد سوالوں کواپنے دامن میں سمیٹے سرد ہوا سے
بچاتا مال روڈ پر ساری ساری رات ٹہلتا رہتا تھا ۔ پھر ایک دن اچانک ادبی
بیٹھک میں اونگھتے ادیبوں نے انگڑائی لی اور قاسمی صاحب نے مشاعروں اور
ادبی تقریبات کا باقاعدہ اہتمام شروع کیاتو مجھے وہی شخص ادیبوں ، شاعروں
اور دانشوروں کی تصاویر کھینچتا نظر آیا لیکن یہاں بھی اس کا انداز سب سے
الگ تھا ۔ وہ خاموشی سے کیمرہ کے ساتھ آنکھ لگاتا اور مختلف زاویوں سے
تصاویر کھینچتا چلا جاتا اور پھر اسی خاموشی سے لوٹ جاتا ۔ میں نے یہ
تصاویر کسی اخبار میں نہیں دیکھیں اور نہ ہی کبھی وہ دوسرے فوٹوگرافرز کی
طرح تصاویر کے بدلے پیسے لیتا نظر آیا ۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ
یہ تصاویر عقیدت اور محبت کی بنا پر کھینچتا ہے ۔ میں پھر سوچ میں پڑ گیا
کہ یہ کون دیوانہ ہے جسے ادیبوں اور شاعروں سے اس قدر عقیدت ہے ؟یہ تصاویر
کہاں جاتی ہیں ؟ آخر ایسی کیا بات ہے کہ ایک شخص خاموشی سے آتا ہے اور قلم
قبیلہ کے باسیوں کی تصاویر کھینچ کر اسی خاموشی سے لوٹ جاتا ہے ؟میں نے کئی
بار کوشش کی کہ اس سے مل کر یہ سب پوچھوں لیکن ہر بار عین وقت پر کوئی نہ
کوئی دوست مجھے روک کر کسی ادبی مسئلے پر بحث شروع کر دیتا یا پھر ایسا
ہوتا کہ میں اس کے قریب پہنچتا تو کوئی اسے آواز دے کر بلا لیتا۔ شاید کوئی
پردہ تھا جو کاتب تقدیر نے ہمارے درمیاں حائل کر رکھا تھا ۔ ادبی تقریبات
مانند پڑ گئیں تو وہ شخص ایک مرتبہ پھر منظر سے غائب ہو گیا ۔
یہ دسمبر کی آخری شام تھی ۔ میں انارکلی میں عباسی ٹی سٹال پر بیٹھا بیاض
کے آخری صفحے پرسال کی آخری غزل لکھ رہا تھا۔ ادبی بیٹھک کی پابندیوں اور
مصنوعی ماحول کی وجہ سے مجھ سے وہاں بیٹھ کر کبھی کچھ نہیں لکھا گیا ۔ پاک
ٹی ہاﺅس ابھی تک پاک ٹائر ہاﺅس بنا ہمارا منہ چڑایا کرتا تھا لہذا اس کے
متبادل کے طور پر عباسی ٹی سٹال پر مجھ سمیت کچھ شاعر ، ادیب اور کالم نگار
بیٹھا کرتے تھے ۔ وہاں ہم نے ایک چھوٹا سا پاک ٹی ہاﺅس یا ادبی بیٹھک بنا
رکھی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بعد میںجب اس ٹی سٹال کے مالک نے رنگ روغن
کرایا تو دیواروں پر اشعار لکھوا دیے۔ میں سال کی آخری غزل لکھ رہا تھا جب
کسی نے خاموشی سے چائے کا کپ میرے آگے سرکا دیا ۔ میں نے نظریں اٹھا کر
سامنے دیکھا تو میز کی دوسری جانب وہی اجنبی بیٹھا چائے کا کپ اپنے آگے
رکھے خیالوں میں گم کوئی غزل لکھ رہا تھا ۔ یقیناً میرے اور اپنے لیے چائے
اسی نے منگوائی تھی ۔ وہ اب میرے لیے اجنبی نہیں تھا البتہ پر اسرار ضرور
تھا ۔ اس وقت میں آخری مصرعہ میں الجھا ہوا تھا اس لیے خاموشی سے سر جھکائے
بیٹھارہا ۔ اس نے بھی کوئی بات نہ کی ۔ شاید وہ بھی سال کی آخری غزل لکھ
رہا تھا ۔ میرے لیے سال کی آخری غزل لکھنا بہت اذیت ناک مرحلہ ہے ۔ اس وقت
پرانی یادیں شوخ لباس اوڑھے چلی آتی ہیں مگر جب ہاتھ تھامنے لگتا ہوں تو
دسمبران کا خون کر دیتا ہے ۔ شاید یہی کیفیت میرے سامنے بیٹھے اس شخص کی
بھی تھی ۔غزل مکمل کرتے ہی بے دھیانی میں میرا ہاتھ لگا اور تھوڑی سی چائے
کپ سے چھلک گئی ۔ اس شخص نے چونک کر میری طرف دیکھا اور کہا” چائے کی نزاکت
کا خیال رکھیے ،خیال رہے یہ بھی محبوب کی مانند ہوتی ہے ۔روٹھ جائے تو پھر
عمر بھر اسکی چاشنی بھری تلخی سے محروم رہیں گے ۔ پھر بس پتی بھرے پانی کا
ہی دیدار ہو گالیکن وہ چائے ہرگز نہ ہو گی۔ ابھی میں معذرت کرنے ہی لگا تھا
کہ وہ بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا ” سرد ہاتھ اور سرد چائے بے رخی کی علامت ہیں
۔ آپ کی چائے سرد ہو چکی ہے “ میں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا ۔ اس کی
آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے وہ کہہ رہا تھا ” دسمبر جنوری کی بانہوں میں
دم توڑ رہا ہے اور آپ کو احساس تک نہیں ۔چائے بھی ٹھنڈی ہو گئی“ میں جیسے
اپنے ماحول سے کٹ گیا ۔ اداس ہوائیں جانے کس کا ماتم کرتی ہوئیں اندر چلی
آئیں ۔ عباسی ٹی سٹال کی دیواریں بین کرنے لگیں اور پھر ۔ ۔۔ پھر دسمبر
جنوری کی بانہوں میں دم توڑ گیا ۔
اس رات میں عباسی ٹی سٹال میں بیٹھا پرانی یادوں میں کھویا کاغذ پر آڑی
تڑچھی لکیریں کھینچتا رہا ۔ رات کے آخری پہر میں نے نظریں کاغذ سے ہٹائیں
اور سامنے دیکھا تو وہ شخص جا چکا تھا البتہ میز پر خشک ہونٹوں کا انتظار
کرتی سرد چائے دم توڑ چکی تھی ۔ میں باہر آیا تو کچھ دور مال روڈ پر وہی
شخص کتابوں کی دکان کے باہر اداس کھڑا نظر آیا ۔ دسمبر جدا ہو چکا تھا لیکن
جنوری مجھے ایک ایسا دوست دے چکی تھی جو ہجرکے قرب سے واقف تھا ۔ ایک بار
درویش نے کہا تھا کہ ہجر و وہشت کے کرب سے گزرا شخص کبھی آپ کو دھوکہ نہیں
دے سکتا ۔ اس اجنبی سے مل کر مجھے درویش کی اس بات پر یقین آ گیا۔ وہ اجنبی
وسیم عباس تھا ۔ اس کے ہماری اکثر شامیں مال روڈ پر آوارہ گردی کرتے یا
عباسی ٹی سٹال پر چائے پیتے گزریں ۔اس دیوانے نے دنیا بھر کے ادیبوں اور
شاعروں کے آٹوگراف جمع کر رکھے ہیں جو اب ایک قیمتی ادبی سرمایہ بن چکا ہے
کیونکہ ان میں سے کئی معروف و مقبول شاعر اور ادیب اب اس دنیا میں نہیں ۔مجھے
کبھی کبھی اس دیوانے پر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے پر آشوب دور میں کوئی وزیر
اس کے پاس کھڑا ہو تو یہ لاپروائی سے بیٹھا اپنا کام کرتا رہتا ہے لیکن
کوئی شاعر نظر آئے تو بھاگا جاتا ہے اور ہاتھ تھام کر پاس بیٹھا لیتا ہے۔
ادب کے ایسے دیوانے اب نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ انہی ملاقاتوں کے دوران مجھے
اس کی شاعری سننے کا موقع ملا ۔گزشتہ ماہ نوشی گیلانی کے اعزاز میں تقریب
ہوئی تو وہیں معلوم ہواوسیم عباس کی شاعری کی کتاب ”ابھی بھی دل دھڑکتا ہے“
منظر عام پر آ گئی ہے ۔ اس کتاب میں شامل اس کی کئی نظمیں اور اشعار میں
پہلے ہی اس کی زبانی سن چکا ہوں البتہ بعض ایسے اشعار بھی اس کی بیاض میں
موجود ہیں جنہیں اس نے اس کتاب میں شامل نہیں کیا لیکن میرے نزدیک وہ” زندہ
اشعار“ تھے ۔ میری طرح وسیم عباس بھی منافقوں کی بستی میں رہتا ہے ۔اس بستی
میں رہتے رہتے اس نے بھی منافقت سیکھ لی ہے ۔ یہ دوستوں کی محفلوں میں
قہقہے بکھیرتا چلا جاتاہے اور پھر تنہائی میں گھنٹوں روتا رہتا ہے لیکن اب
شاید منافقت کا یہ لبادہ وسیم عباس بھی زیادہ دیرنہ اوڑھ پائے کیونکہ اس کی
شاعری اس کی اندرونی کیفیت کو ظاہر کر رہی ہے
ًجدائی تو مقدر ہے مقدر سے نکلنا کیا
جدا ہو کر میری جاناں ابھی بھی دل دھڑکتا ہے
وسیم عباس کے جن دوستوں کا خیال ہے کہ ہر دم مسکرانے والا یہ ہنس مکھ شخص
کبھی رو نہیں سکتا وہ اس کتاب میں شامل نظمیں دیکھیں۔ یہ وسیم عباس کے رت
جگوں کی داستانیں ہیں ۔ میں مکمل بات شاید نہ کر پاﺅں لیکن یہ اشارہ ضرور
دے سکتا ہوں کہ ان نظموں کو ایک خاص ترتیب سے پڑھیں تو وسیم عباس کی کہانی
عیاں ہو جائے گی ۔وسیم نے کمال ہنر سے ان کی ترتیب بدل دی ہے لیکن دل والے
بہت جلد جان جائیں گے کہ ان نظموں کی اصل ترتیب کیا ہے اور انہیں کس ترتیب
میں پڑھنا ہے ۔عباس تابش کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں محبت اپنی اصل حالت میں
ملتی ہے۔ یہ ہجر و نارسائی کی داستان ہے جسے محبت کرنے والے بہت جلد کھوج
نکالیں گے۔ میں یہاں صرف چند ایک نظموں کا حوالہ دوں گا ، مکمل نظم نہیں
لکھوں گا ۔ اگر آپ بھی وسیم عباس کے مصرعوں کو اتنے ہی غور سے پڑھیں اور
سمجھیں تو آپ نہ صرف اس کی قلبی واردات سے واقف ہو جائیں گے بلکہ محبت کرنے
والوں کو یہ داستان اپنی کہانی ہی محسوس ہو گی ۔ اس کی چند نظموں کے مصرعوں
پر غور کیجیئے
یہ عشق تیرا مجھ کو
کھائے جا رہا ہے
رلائے جا رہا ہے
اسی طرح ایک نظم یوں مکمل ہوتی ہے :
بنا تمہارے
اک اور دسمبر بیت گیا
جب کہ ایک نظم کا آغاز یوں ہوتاہے :
دسمبر کے آخری لمحو
ابھی کچھ پل ٹھر جاﺅ
وسیم عباس محبت کی داستان یوں مکمل کرتے نظر آتے ہیں
کبھی تم نے یہ سوچا ہے
کہ محبت کا یہ تاج محل
جو تم نے اور میں نے
مل کر بنایا تھا
اچانک
دھڑام سے
زمیں بوس کیوں ہو گیا ہے؟
کبھی تم نے یہ سوچا ہے؟
میں بہت زیادہ اشارے نہیں دے سکتا ویسے بھی وسیم عباس خود بھی اس خیال کا
حامی ہے کہ
بیاں ہر لفظ کو کرنا
ضروری تو نہیں ہوتا
وسیم عباس محبتوں کا ترجمان ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس کی نظمیں زیادہ اچھی
لگتی ہیں شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی نظمیں میرا ہاتھ تھام کر مجھے
روک لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ میں ان کے اشارے سمجھ سکتا ہوں ۔ بظاہر
خاموش نظر آنے والی یہ نظمیں بہت کچھ کہہ دیتی ہیں ۔ اس کی غزل میں اتنی
پرتیں نہیں کھلتیں جتنی اس کی نظموں میں نظر آتی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ
بہت سے لوگ اس کی غزلوں کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ مجھے وسیم عباس کی نظموں
نے ہی بتایا ہے کہ اس کی محبت میں دسمبر کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ مال روڈ کے
فٹ پاتھ پر چلتے چلتے زرد پتوں کو پاﺅں سے روندنا اور اس آواز کو اپنے دل
کے چٹخنے کی آواز سے تشبیح دینا صرف اًسی دیوانے کا کام ہے جو زرد پتوں کے
درد سے آشنا ہو ۔ جدائی شاخوں سے ہو یا محبوب سے، عاشق کی قسمت میں چٹخنا
اور روندے جانا ہی لکھا جاتا ہے ۔ وسیم عباس بھی زرد پتوں کی طرح ہوا کے
دوش پر مجھ سے چند قدم آگے چلتا نظر آتا ہے ۔ جب جدائی کا کرب، برداشت کے
ہاتھوں سے ہاتھ چھڑا لیتا ہے تو وہ انہی زرد پتوں کو روند دیتا ہے اور میں
اس سے چند قدم پیچھے پیچھے ان زرد پتوں کو اکٹھا کرتا چلا آتا ہوں ۔ وسیم
عباس اور شاخ سے بچھڑے زرد پتوںکی ایک ہی کہانی ہے فرق بس اتنا ہے کہ زرد
پتے مٹی میں مل جاتے ہیں اور وسیم عباس دوستوں کی محفل میں قہقہے لگانے کے
بعد گھر جا کر گھنٹوں روتا رہتا ہے ۔ دسمبر اور وسیم عباس کا ایک گہرا رشتہ
ہے ۔ ہر سال دسمبر جنوری کی بانہوں میں آتے ہی دم توڑ دیتا ہے اور وسیم
عباس مال روڈ پر کتابوں والی دکان کے باہر کھڑا خلاﺅں میں جانے کسے تلاش
کرتا رہتا ہے۔ بظاہر یہ وسیم عباس کی داستان ہے لیکن غور کریں کہیں یہی آپ
کی کہانی تو نہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ لاکھ چھپائیں مگر ایک روز یہ بات
سامنے ضرور آجائے گی کہ آپ بھی محبت کرنے والوں کے اسی قافلے میں شامل ہیں
جس کے آگے آگے وسیم عباس تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جا رہا ہے ۔ محبت کے راہی
اپنے قافلے کے ہر مسافر کو پہچان لیتے ہیں ۔ اگر آپ کو وسیم عباس کی کتاب
پڑھنے کا اتفاق ہو تو کتاب پڑھ کر اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کیجئے گا کہ آپ
وسیم عباس کو پہچان پائے یا نہیں ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کتاب میں بیان
کیے گئے دکھ ، درد اور نارسائی کی کیفیت سے آپ بھی گزرے ہیں ؟اگر ایسا ہے
تو مبارک باد قبول کیجئے کیونکہ یہ کتاب صحیح حقدار تک پہنچ گئی ہے لیکن
اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کتاب اس قافلے کے کسی راہی کو دے دیجئے ۔ یہ محبتوں
کی داستان ہے جسے محبت کرنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں !!! |