سعادت حسن منٹو نے اپنی 42 سال ۸
ماہ اور ۹ دن کی زندگی میں بے شمار افسانے،خاکے،ڈرامے اور فلمی دنیا کے لیے
بھی بہت کچھ لکھا۔ انھوں نے اُردو ادب کو بہت کچھ دیا لیکن منٹو کی یہ
بدقسمتی تھی کہ جب اُس نے اپنا ادبی سفر شروع کیا تو اُس وقت ترقی پسندوں
کابول بالا تھا۔ وہ شور شرابے، ہنگامے، پروپگینڈے، فرسودہ عقائد و تصورات
سے کو سوں دور تھے۔ اُس دور میں گھن گرج اور چیخ و پکار نے فن کار کے باطن
کی کھڑکیاں بند کر دی تھیں۔ منٹو کسی بندھے ٹِکے نظریے کے قائل نہ تھے۔ وہ
آزادانہ طور پر اپنے باغیانہ خیالات کواپنے افسانوں کے ذریعہ پیش کر رہے
تھے۔ اِس ضمن میں پروفیسر ابولکلام قاسمی اپنے مضمون ’منٹو کے بعد اُردو
افسانہ : شخصیات اور رجحانات‘ میں فرماتے ہیں:
”منٹو کا زمانہ وہی ہے جو ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ ہے مگر زندہ
رہنے والے فنکار تحریکات کا کبھی شکار نہیں ہوتے۔ سو منٹو نہ ترقی پسند رہا
اور نہ غیر ترقی پسند۔ وہ ایک افسانہ نگار تھا اور صرف افسانہ نگار۔“
(”منٹو کے بعد اُردو افسانہ: شخصیات اور رجحانات“،رسالہ ’ادیب‘ص 96)
ترقی پسندی کے شور شرابے،نعرہ بازی، ہنگامے،پروپگینڈے اور فرسوودہ عقائد و
تصورات کا اثر منٹو کے ذہن پر نہیں پڑا۔ مارکسیت اُن کے دل و ماغ پر غالب
نہ تھی۔ اگر منٹو کی پوری ادبی زندگی کا احاطہ کیا جائے تو یہ بات صاف طور
پر نظر آتی ہے کہ منٹو کے خون میں گرمی تھی۔ اُن کے جسم میں حرارت تھی۔ وہ
انقلاب پرور تھے۔ وہ ایک باغی تھے۔ وہ سماج کے باغی تھے۔ ادب و آرٹ کے باغی
تھے۔ وہ Doxa یعنی روڑھی کے خلاف تھے۔ اُن کا مقصد اشرافیہ کو ننگا کرنا
تھا۔ اُن کے بغاوت کی چنگاری پوری زندگی اُڑتی رہی۔ انھوں نے اپنی ننگی
آنکھوں سے زندگی کی تلخ، بے رحم سچائی اور حقیقت کو افسانے کا موضوع بنا کر
ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی مائیہ ناز تصنیف
’جدیدیت کے بعد‘ میں سعادت حسن منٹو کے افسانوی ادب کے ضمن میں اپنے خیا
لات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”منٹو Doxa کی نقاب اسی لیے نوچ پھینکتا ہے کہ وہ اشرافیہ کو ننگا کر سکے۔
منٹو کا فن عورت کی گھائل روح کی کراہ اور درد کی تھاہ پانے کا فن ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر منٹو کے کردار گوشت پوست کے عام انسانوں سے کہیں
زیادہ سچّے، کہیں زیادہ پائیدار اور کہیں زیادہ درد انگیز بن جاتے ہیں۔ وہ
ہمیں صدمہ پہنچاتے،جھنجھوڑتے اور کچوکے لگاتے ہیں۔ ان کا جمالیاتی اثر
لازوال اسی لیے ہے کہ زندگی کے بھید بھرے سنگیت میں وہ الم، درد مندی،
کرونا اور ممتا کے کچھ ایسے سروں کے نقیب ہیں جو کارخانئہ قدرت کے بنیادی
آہنگ کا حصّہ ہیں اور جن کو کوئی نام دینا آسان نہیں۔“
(’منٹو کی نئی پڑھت: متن،ممتا اور خالی سنسان ٹرین‘،”جدیدیت کے بعد“ ص ۳۲۳)
سعادت حسن منٹو فرانسیسی ادیب ُموپاساں اور اُو۔ہینری سے متاثر نظر آتے ہیں۔
مُوپاسا ں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب وہ کسی غیر معمولی گرم اور شہوت
انگیز عورت کا ذکر کرتا ہے تو اُس کی تحریر کا کاغذ تک گرم گوشت کی طرح
پھڑکنے لگتا ہے۔ سعادت حسن منٹو نے ابتدائی دور میں فرانسیسی اور رُوسی شاہ
کاروں کا ترجمہ اُردو زبان میں خوب کیا۔
سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانہ ”تماشا‘ ‘ہے۔ جو سب سے پہلے امرتسر کے ہفت
روزہ ’خلق‘ مین آدم کے فرضی نام سے شایع ہوا۔ اس کے بعد یہ افسانہ
’عالمگیر‘ میں شایع ہوا۔ اِس افسانہ میں 1919ءکے مارشل لا کو چھ سال کے
بچّے کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ 1919ءکا مارشل لا جلیانہ والہ باغ کے خونیں
منظر اور جنرل ڈائر کے وحشیانہ مظالم کی یادگار ہے۔ اس افسانے کا تانا بانا
دو کردار کے اِرد گِرد بُنا گیا ہے۔ باپ اور بیٹا۔ بچّے کا نام خالد ہے۔ جس
کی عمر محض چھ برس کی ہے۔ اس افسانہ کو پڑھنے کے بعد اس بات کا پتہ چل جاتا
ہے کہ خالد کے کردار میں جس بچّے کو ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ وہ منٹو
ہیں۔ 1919ءمیں منٹو کی بھی عمر تقریباً چھ برس کی تھی۔اس افسانہ کا ایک
اقتباس ملاحظہ ہو :
”بازار آمد و رفت بند ہو جانے کی وجہ سے سائیں سائیں کر رہا تھا۔ دور فاصلے
سے کتّوں کی درد ناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ چند لمحات کے بعد ان چیخوں
میں انسان کی درد ناک آواز بھی شامل ہو گئی۔
خالد کسی کو کراہتے سُن کر بہت حیران ہوا۔ ابھی وہ اس آواز کی جستجو کے لیے
کوشش ہی کر رہا تھا کہ چوک میں اُسے ایک لڑکا دیکھائی دیا۔ جو
چیختا،چلّاتا،بھاگتا چلا آ رہا تھا۔
خالد کے گھر کے عین مقابل وہ لڑکا لڑکھڑا کر گر گیا اور گرتے ہی بیہوش ہو
گیا۔ اس کی پنڈلی پر ایک گہرا زخم تھا۔ جس سے فوارہ کے مانند خون نکل رہا
تھا۔
یہ سماں دیکھ کر خالد بہت خوف زدہ ہوا۔ بھاگ کر اپنے والد کے پاس آیا اور
کہنے لگا۔ ابّا ابّا ! بازار میں ایک لڑکا گر پڑا ہے۔ اُس کی ٹانگ سے بہت
خون نکل رہا ہے۔“
سعادت حسن منٹو کے ابتدائی افسانوں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
کہ منٹو کتنے بڑے باغی اور انقلابی تھے۔اُن کے سینے میں برطانوی سامراج کے
خلاف کیسا لاوا اُبل رہا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام اور طبقاتی استحصال سے ان
کو شدید نفرت تھی۔ غربت اور افلاس کے خاتمے کے خلاف اُن کے دِل و دماغ میں
کس کس طرح کے منصوبے تھے۔ وہ انسانیت کے بہت بڑے دوست تھے۔ اگر یہ کہا جائے
تو شائد یہ غلط نہ ہوگا کہ منٹو کے اندر ایک بھگت سنگھ چھپا ہوا تھا۔ فرق
صرف اتنا ہے کہ بھگت سنگھ انقلاب اور بغاوت کے جرم میں صرف ایک بار سولی پر
چڑھا دیے گئے جب کہ سعادت حسن منٹو پوری زندگی سولی پر لٹکے رہے۔
سعادت حسن منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ”آتش پارے‘ ‘ ہے۔ اس افسانوی مجموعہ
کو 1936ءمیں اُردو بُک اسٹال بیرون لوہاری دروازہ لاہور نے مجتبائی پرنٹنگ
پریس سے چھپوا کر شائع کیا ہے۔” آتش پارے“ میں کُل آٹھ افسانے ہیں۔ جو حسب
ذیل ہیں:
۱۔ خونی تھوک ۲۔ انقلاب پسند
۳۔ جی آیا صاحب ۴۔ ماہی گیر
۵۔ تماشا ۶۔ طاقت کا امتحان
۷۔ دیوانہ شاعر ۸۔ چور
”آتش پارے “کا دیباچہ سعادت حسن منٹو نے ۵ جنوری 1936ءکو لکھا ہے۔ جس میں
منٹو نے اپنے افسانوں کے متعلق اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے
فرماتے ہیں کہ:
” یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں۔ اِن کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے
والوں کا کام ہے۔“
اسی طرح کے خیالات و تاثرات کا اظہار انھوں نے’ ’نیا قانون“ اور’ ’شرابی“
وغیرہ افسانے میں کیا ہے۔ یہ تمام افسانے اُس دور کے سیاسی اور سماجی حالات
اور اُن حالات کے پیدا کیے ہوئے احساسات کی تصویر کشی ہے۔ جس میں ہمیں
ہندوستانیوں کے جنگ آزادی کا جذبہ، آزادی کے حصول کے لیے سیاسی تحریکوں کا
زور و شور، لوگوں کی تقریریں، اُن تقریروں کے بدلے جیل، مارشل لا اور سینوں
کو چھیدنے والی گولیاں، سیاسی جلسے، ان جلسوں پر گولیوں کی بوچھار اور خونی
مناظر کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے۔”نیا قانون“ سعادت حسن منٹو کا پہلا
شاہ کار افسانہ ہے۔ جس کا مرکزی کردار اُستاد منگو ہے۔ جس کے اِرد گرد
کہانی گھومتی ہے۔ منٹو کے دل و دماغ میں انگریزوں کے ظلم و ستم سے نفرت کی
جوآگ بھڑک رہی تھی ۔ اُس کو انھوں نے اُستادمنگو کے کردار میں مُجسّم کر
دیا ہے۔اُستاد منگو فوجی گوروں کے چہرے کی جو تصویر پیش کرتا وہ کس قدر
مکروہ اور گھناؤنی ہے۔ وہ صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
”اُن کے لال جھُرّیوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آ جاتی ہے۔ جس کے
جسم پر سے اُوپر کی جھلّی گل گل کر جھڑ رہی ہو۔“
جب اُستاد منگو کی نگاہیں گورے کی آنکھوں سے چار ہوئیں تو ایسا معلوم ہوا
کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں کی گولیاں خارج ہوئیں اور آپس میں ٹکراکر
ایک آتشِ بگولا بن کر اُوپر اُڑ گئیں۔ اُستاد منگو ”نیا قانون“ کی خبر سُن
کر اور یہ خبر دوسروں تک پہنچانے کے لیے بیقرار نظر آتا ہے۔ اتنے میں نتھّو
گنجا اڈے پر آتا ہے۔ اُستاد منگو بلند آواز میں نتھّو گنجا سے کہتا ہے:
”ہاتھ لا اِدھر ۔ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے۔ تیری اس گنجی کھوپری
پر بال اُگ آئیں۔“
اُستاد منگو مظلومیت کا شکار ہے۔ وہ ایک محنت کش غریب انسان ہے۔دن رات وہ
تانگا چلاتا ہے اور اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ اُس دور کے سیاسی اور سماجی
حالات نے اُس کو یہ کہنے کے لئے مجبور کر دیا کہ ”نیا قانون اُن کے لیے
کھولتا ہوا پانی ہوگا“۔ اُستادمنگو ہندوستان میں نافذ ہونے والے نئے قانون
کی خبر سن کر خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور اُس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ
’نیا قانون‘ نافذ ہونے کے بعد بھی وہ ایک انگریز سے لڑنے کے جرم میں حوالات
مین بند کر دیا جاتا ہے۔اس افسانے کا اختتام منٹو نے بڑے ہی پُر اثر انداز
میں کیا ہے:
”اُستاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر
وہ ’نیا قانون‘ چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
”نیا قانون“ نیا قانون کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پُرانا۔“
اور اُس کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔“
سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوںمیںزندگی کے تضاد کو بھی موضوع بنایا ہے۔
انھوں نے سیاسی ،معاشرتی اور اخلاقی زندگی کو بہت قریب سے دیکھاہے۔اس میں
انھیں جو حیرت انگیز تضاد نظر آتا ہے۔ وہ اُن کے دل و دماغ پر گہرا تاثر
چھوڑتا ہے۔ اس ضمن میں ”نعرہ“ اُن کا بہت ہی معروف افسانہ ہے۔جس میں طبقاتی
فرق کو منٹو نے بھرپور طور پر دکھانے کی کوشش کی ہے۔یہ ہمارے سماجی استحصال
کی کہانی ہے۔کیشو لال اِس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ کیشو لال حالات کا
مارا ہوا انسان ہے۔مفلسی اور غربت کی وجہ سے وہ سیٹھ کے مکا ن کی ساتویں
منزل پر رہتا ہے اور وہ اُس کا کرایہ ادا نہیں کر پاتا ہے تو سزا کے طور پر
سیٹھ اُس کودو گالیاں دیتا ہے۔ سیٹھ کی دو گالیاں کیشو لال کے دل و دماغ پر
شدید اثر ڈالتی ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”سیٹھ نے ایک گالی دی اور وہ کچھ نہ بولا۔ دوسری گالی دی تو بھی وہ خاموش
رہا۔ جیسے وہ مٹّی کا پتلا ہو۔ پر مٹّی کا پتلا کیسے ہوا؟ اُس نے ان دونوں
گالیوں کو اُس کے تھوک بھرے منھ سے نکلتے دیکھا،جیسے دو بڑے بڑے چوہے
موریوں سے نکلتے ہیں۔“
سیٹھ کے گالیوں والے واقعہ کی تکرار سے منٹو نے آہستہ آہستہ کیشو لال کے
ذہنی اور جذباتی ہیجان کو واضح کرنے میں مدد لی ہے اور اس تکرار اور بڑھتے
ہوئے ہیجان میں مکمّل ہم آہنگی پیدا کرکے اُس انجام کے لیے نفسیاتی جُواز
پیدا کیا ہے۔ جس میں کیشو لال کے دل کا درد و کرب ،ذہنی اضطراب اور تکرار
سمٹ کر ایک نعرہ بن جاتا ہے۔
”ٹوبہ ٹیک سنگھ“،”پھُندنے “،” سڑک کے کنارے“ اور” بانجھ“ وغیرہ منٹو کے
کامیاب ترین افسانے ہیں۔ جس میں منٹو کا فنّی شعور اُبھر کر ہمارے سامنے
آتا ہے۔” ٹوبہ ٹیک سنگھ “افسانے میں ہندوستان کے بٹوارے کا المیہ پیش کیا
ہے ۔جو سیاسی اور سماجی حالات کا آئینہ دار ہے۔ جس کا اثر بھولے بھالے
انسانوں کے ساتھ ساتھ پاگلوں کی زندگی پر بھی شدید طور پر پڑا۔ وہ پاگل جو
ہندوستان اور پاکستان کے پاگل خانوں میںبند تھے۔ اُن کاتبادلہ کرنے کا خیال
دونوں ملکوں میں پیداہوا۔ جب پاگلوں کے درمیان یہ خبر آگ کی طرح پہنچی تو
اُن کے اُوپر اس کا شدید طورپر اثر ہوا۔ اس افسانے کا سب سے اہم اور لافانی
کردار ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے۔ اس کا اصلی نام بشن سنگھ ہے۔ پچھلے پندرہ برس سے
پاکستان کے پاگل خانے میں بند ہے۔ اُس کے گھر والے مہینے میں ایک بار اُس
سے ملنے ضرور آتے تھے ۔ اُس کے لیے پھل اور مٹھائیاں لے کر آتے تھے۔ اِس دن
کا اُس کو بے صبری سے انتظار رہتا تھا۔ وہ کبھی نہیںنہاتا تھا لیکن جب ملنے
والے آتے تھے تو وہ خوب نہاتا تھا،سر میں تیل لگاتا تھااور صاف کپڑے نکلوا
کرپہنتا تھا۔بشن سنگھ کے ایک بیٹی روپ کور ہے۔ جو بچّی تھی لیکن ان پندرہ
برسوں میں وہ جوان ہو گئی ہے لیکن بشن سنگھ اُس کو پہچانتا نہیں ہے۔ بشن
سنگھ کو نیند نہ آنے کی بیماری تھی۔ وہ ہر وقت کھڑا رہتا ہے، جس کی وجہ سے
اُس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ جب بھی پاگلوں کے درمیان تبادلے پر گفتگو ہوتی
تھی وہ بڑے غور سے اُن کی باتوں کو سُنتا تھا اور اگر کوئی اُس کی رائے
جاننا چاہتا تھا کہ وہ ہندوستان میں ہے یا پاکستان میں تو وہ لوگوں پر برس
پڑتا تھا اور صرف ایک ہی جملہ کہتا تھا” اوپڑ دی گڑ گڑ دی انکس دی بے
دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ“۔ کیوں کہ اُس کا خیال تھا کہ
وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں۔ جہاں اُس کی زمین ہے۔اس افسانے کا خاتمہ
بہت ہی پُر اثر ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ تبادلہ کے دن جب واہگہ
بارڈر پر ٹوبہ ٹیک سنگھ لایا جاتاہے تو اُس کی ذہنی اور جسمانی کیفیت کو
منٹو نے بہت ہی حقیقت آگیںانداز میں بیان کیا ہے:
” اُسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا
ہے۔اگر نہیں گیا تو فوراً اُسے وہاں بھیج دیا جائے گا مگر وہ نہ مانا۔ جب
اُس کو زبردستی دوسری طرف بھیجنے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ
اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔ جیسے اب اُسے کوئی
طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی۔ اس کو وہیں
کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔
سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔
اِدھراُدھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن
رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا،اوندھے منھ لیٹا ہوا ہے۔ ادھر خار دار
تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ اُدھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔
درمیان میں زمین کے اُس ٹکڑے پر، جس کا کوئی نام نہیں تھا،ٹوبہ ٹیک سنگھ
پڑا ہوا تھا۔“
منٹو کے بغاوت کے عناصر جنس نگاری اور عریاں نگاری سے کہیں آگے ہیں۔ منٹو
کی یہ بغاوت کس قدر بُنیادی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ
اُردو کا سب سے بڑا معتوب ادیب بن گیا۔ سعادت حسن منٹو پر ہماری
سیاسی،سماجی اور تہذیبی اِدارہ بندی جس انداز سے ٹوٹ پڑی۔ اُس کی نظیر کہیں
اور نظر نہیں آتی ہے۔ منٹو پر بار بار مقدمے چلائے گئے۔ اُنھیں عدالت ،سیشن
کورٹ اور ہائی کورٹ تک میں گھسیٹا گیا۔ اُن پر جُرمانے ہوئے،تلاشیاں
ہوئیں،طلبیاں ہوئیں اور سمّن جاری کیے گئے اور اُن کو سزائیں ہوئیں۔ چاہے
وہ ہندوستان میں رہے ہوں اور چاہے پاکستان میں رہے ہوں۔ اس کی شدّت کچھ اس
طرح اذیت ناک صورت اختیار کر گئی کہ خود سعادت حسن منٹو کے اعصاب جواب دے
گئے اور انھیں دو مرتبہ ذہنی توازن سے محروم ہونا پڑا۔ انھوں نے اپنے مضمون
’کسوٹی‘ میں فکر انگیز خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
” ادب سونا نہیں جو اُس کے گھٹتے بڑھتے دام بتائے جائیں۔ ادب زیور ہے اور
جس طرح خوبصورت زیور خالص سونا نہیں ہوتا،اسی طرح خوبصورت ادب پارے بھی
خالص حقیقت نہیں ہوتے۔ ادب یا تو ادب ہے ورنہ ایک بہت بڑی بے ادبی ہے۔ ادب
اور غیر ادب میں کوئی درمیانی علاقہ نہیں،بالکل جس طرح انسان یا توانسان ہے
یا پھر گدھا۔“
(”افسانہ نگار اور اجنبی میلان“ص 15-50)
منٹو کا تخلیقی تصوّر اپنے عہد کے ادیبوں سے مختلف تھا۔ منٹو حقیقت نگاری
کے خالص تصوّر کو ردّ کرتا ہے۔ اُس کا ماننا ہے کہ زبان یا فن آلائش سے
بنتا ہے،نیز ادب کی ادبیت اپنی الگ نوعیت رکھتی ہے۔ منٹو نے ادب میں ایسے
بے لاگ تخلیقی تصوّر کو اُردو افسانے میں رائج کیا جو اس سے پہلے اُردو
افسانے کی تاریخ میں دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔ منٹو کے افسانے اُس دو
رکے سیاسی اور سماجی حالات کے پیداوار ہیں۔انھوں نے طوائفوں کی اصل زندگی
کی مظلوم تصویر اور مرد عورت کے جنسی تعلقات کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا
ہے۔ہتک،ٹھنڈا گوشت،بو،کالی شلوار،پانچ دن،دھواں،بلاﺅز،خوشیا،کبوتر اور
کبوتری اور وہ لڑکی وغیرہ افسانے میں منٹو نے جنس نگاری کوبہت ہی فکری
لطافت اور فنّی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان افسانوں کو اگر اُردو فِکشن
کا شاہ کار کہا جائے تو شائد غلط نہ ہوگا۔ منٹو کے عہد کے افسانہ نگاربیشتر
وقت کی ضرورت اور حالات سے بے نیاز تھے لیکن منٹو نے زمانے اور حالات سے
آنکھیں نہیں چُرائیں بلکہ انھوںنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کی ہیں۔
جنس نگاری اور عریاں نگاری کے ضمن میں سعادت حسن منٹو اپنے خیالات و تاثرات
کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”کہا جاتا ہے کہ (میرے) اعصاب پر عورت سوار ہے۔ مرد کے اعصاب پر عورت نہیں
تو کیا ہاتھی کو سوار ہونا چاہئے؟ جب کبوتروں کو دیکھ کر کبوتر گُٹکتے ہیں
تو مرد عورتوں کو دیکھ کر غزل یا افسانہ کیوں نہ لکھیں۔ عورتیں کبوتروں سے
کہیں زیادہ دلچسپ،خوبصورت اور فکر خیز ہیں۔“
(”ادب جدید“: دستاویز ص 51)
”بیسوائیں اب سے نہیں،ہزار ہا سال سے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کا تذکرہ
الہامی کتابوں میں موجود ہے۔ اب چونکہ کسی الہامی کتاب یا پیغمبر کی گنجائش
نہیں رہی،اسی لیے ان کا ذکر اب آیات میں نہیں بلکہ ان اخباروں اور رسالوں
یا کتابوں میں دیکھتے ہیں۔ جنھیں آپ عود اور لوبان جلائے بغیر پڑھ سکتے ہیں
اور پڑھنے کے بعد ردّی میں بھی اُٹھوا سکتے ہیں۔“
(”سفید جھوٹ“: دستاویز ص 72)
”کھول دو“ منٹو کا ایک شاہ کار افسانچہ ہے۔ ایک باپ اپنی بیٹی کو زندہ دیکھ
کر حقیقی مسرّت محسوس کرتا ہے۔سکینہ ایک ایسی مظلوم لڑکی ہے جو مُسلم رَضا
کاروں کے ہاتھوں اپنے لاشعور کی حد تک اس قدر سہم گئی ہے کہ ”کھول دو“ کے
الفاظ پر وہ صرف ایک ہی ردّ عمل کا غیر شعوری طور پر اظہار کرتی ہے اور
”کھڑکی کھول دو“ کے جو الفاظ کمرے میں تازہ ہوا داخل کرنے کے لیے کہے گئے
تھے۔ نیم مردہ حالت میں پڑی سکینہ پر اُس کا اثر یوں ہوتا ہے:
”ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اُس کی نبض ٹٹولی اور
سراج الدین سے کہا
’کھڑکی کھول دو‘۔سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اُس نے
اِزاربند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا۔
زندہ ہے۔ میری بیٹی زندہ ہے۔ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینہ میں غرق ہو گیا۔“
جس ہیبت ناک تصویر کو منٹو نے اپنے افسانے ”کھول دو“ میں پیش کیا ہے۔ وہ
تصویرجُنبشِ نشاط کی نہیں ہے بلکہ یہ روح کے شدید المیے کا اظہار ہے۔ یہ
تصویر جنس زدگی یا فُحاشی کا اشتہار نہیں ہے۔ دراصل یہ انسان کی اصلیت اور
اس کی مظلوم فطرت کی آئینہ دار ہے۔ منٹو نے اَن کہی (UNSAID) میں سب کچھ
کہہ دیا ہے۔
”بابو گوپی ناتھ‘ ‘سعادت حسن منٹو کا ایک لازوال افسانہ ہے۔ بابو گوپی ناتھ
کا کردار یوں تو مُتضاد باتوں کا مجموعہ ہے لیکن یہ منٹو کا فنّی کمال اور
نفسیاتی بصیرت ہے کہ اس میں حد درجہ انسانی معنویت پیدا ہو گئی ہے۔ بابو
گوپی ناتھ ایک نَو عمر طوائف زینت سے بے لوث محبّت کرتے ہیں اور وہ زینت کے
آرام و آسائش کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں۔ اُس کی ہر آرزو پوری کرتے ہیں ۔
بابو گوپی ناتھ طوائفوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔ بابو گوپی ناتھ کی
طوائف نوازی اور زینت کی سادہ لوحی اس افسانے کی جان ہے۔حالات کی ستم ظریفی
کی وجہ سے سماج میں جو گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا ہے اس کی تصویرسعادت حسن
منٹو نے اپنے اِس افسانے کے ذریعہ اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جہاں
دھوکہ دھڑی اور گندگی کے اس ماحول میں خلوص و محبّت اور ایثار و قربانی کا
جذبہ بھی پایا جاتا ہے۔ بابو گوپی ناتھ حقیقت آگاہ کردار ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
”رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار۔ یہی دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون
ملتا ہے۔ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکا ہی دھوکا ہے۔ جو
آدمی خود کو دھوکا دینا چاہے اس کے لیے ان سے اچھّا مقام اور کیا ہو سکتا
ہے۔ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور
تکیوں میں انسان اپنے خُدا سے۔“
اس بے رحم حقیقت سے واقف بابو گوپی ناتھ زینت کی معصومیت کو شدّت سے محسوس
کرتے ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ وہ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی
ایسا نوجوان مل جائے جس سے وہ زینت کی شادی کر دیں اور وہ پوری عمر زینت کے
لیے سائبان بن جائے اور وہ زندگی کی بے رحمیوں سے محفوظ رہے۔ جب وہ اُس کی
شادی کرا دیتے ہیں تو وہ شدّت سے محسوس کرتے ہیں کہ وہ زینت کو بہت زیادہ
چاہتے ہیں لیکن وہ صبر کا دامن نہیں چھوڑتے۔ زینت بھی اُن کی محبّت اور
قربانی کو محسوس کرکے نہایت احسان بھری شکر گزار آنکھوں سے اُن کو دیکھتی
ہے۔ جس سے افسانے میں جذباتی طَہارت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور افسانہ فنّی
بلندیوں کی معراج پر پہنچ جاتا ہے۔
”ہتک“ سعادت حسن منٹو کے کامیاب ترین افسانوں میں سے ایک ہے۔ اس افسانے کا
مرکزی کردار سوگندھی ہے۔ جس کے اِرد گِرد پوری کہانی گھومتی ہے۔ اس افسانے
میں سیٹھ،رام لال دلاّل اور مادھو کردار ہیں۔ ’ہتک‘ سوگندھی کی روح کا
زلزلہ پیما افسانہ ہے۔ جو سوگندھی کو دیکھ کر سیٹھ کے ”ہُونہہ“ کہنے سے
پیدا ہوا ہے۔ قاری سوگندھی کی روح کے بیکراں درد و کرب سے شدید طور پر
ہمدردی محسوس کرتا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نانگ ”ہتک“ کے ضِمن میں منٹو کے
تخلیقی ویژن کا اِ کسراتی (XRATIC)تجزیہ کرتے ہیں:
” جو چیز منٹو کے تخلیقی ذہن میں اضطراب پیدا کرتی ہے۔ وہ خریدی اور بیچی
جا سکنے والی جنس نہیں بلکہ انسانی روح کا وہ درد و کرب ہے جو جسم کو بکاؤ
مال بنانے سے پیدا ہوتا ہے یعنی انسانی عظمت کا سودا، اور بے بسی اور بے
چارگی کا گھاؤ جو وجود کو کھوکھلا اور زندگی کو لغو بنا دیتا ہے۔ مال کے
دام تو لگائے جا سکتے ہیں لیکن انسانی روح کی عظمت کے دام نہیں لگائے جا
سکتے۔“
(’منٹو کی نئی پڑھت:متن،ممتا اور خالی سنسان ٹرین‘،”جدیدیت کے بعد“ص 310)
آج اکیسویں صدی میں اُ ن کے بے مثال افسانے ”ٹھنڈا گوشت“،”کالی
شلوار“،”دھُواں“،”پھاہا“، ”جانکی شانتی“ اور ”بو“ وغیرہ زندہ ہیں اور ہمیشہ
زندہ رہیں گے۔ وہ ایک تاریخ ساز افسانہ نگار تھے۔ وہ اپنی قدر و قیمت کے
عارف تھے۔ اُن کو اپنے افسانوں میں بسی ہوئی صداقتوں کی معنویت اور ابدیت
کا حقیقی احساس و عرفان تھا۔ وہ اپنی بابت بہت پہلے پیش گوئی کر گئے تھے:
”یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو کبھی نہ مرے“ |