آنہ‘ دوآنہ‘ کھوٹا آنہ کے انوکھے کمالات

دینو ایک محنتی کسان تھا۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔ ان کی زندگی میں سوائے اولاد کے کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔دینو کو اولاد کی بہت خواہش تھی۔ آخر بڑی دعاؤں کے بعد ان کی مراد پوری ہوئی اور اللہ نے انہیں ایک بیٹا دیا مگر دونوں میاں بیوی اسے دیکھ کر حیران ہوگئے۔ بچہ بہت ہی چھوٹا سا تھا‘ ایک چھوٹی سی گڑیا کے برابر۔ جس نے بھی بچے کو دیکھا تو یہی کہا کہ بچہ بونا ہے۔ اس کا قد زیادہ سے زیادہ دو یا تین فٹ تک بڑھ سکے گا اور بس۔

دینو بہت مایوس ہوا اور اس نے بچے کا نام آنہ رکھ دیا۔ آنہ واقعی بہت آہستہ آہستہ بڑا ہونا شروع ہوا۔ کچھ عرصے بعد دینو کے گھرمیں ایک اور بچے کی آمد ہوئی لیکن وہ بھی پہلے کی طرح بونا نکلا۔ دینو نے بجائے اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنی قسمت کو کوسنا شروع کردیا اور چڑ کر دوسرے بیٹے کا نام دو آنہ رکھ دیا۔ گاؤں میں اس کے دوستوں نے دینو کو بہت سمجھایا کہ اولاد اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے اس کا شکر ادا کرو ناشکری نہ کرو‘ مگر دینو ہر وقت اپنی قسمت کو برا کہتا تھا۔

وہ اسی فکر میں تھا کہ اللہ نے اسے تیسرا بیٹا دیا وہ بھی اپنے بھائیوں کی طرح بونا تھا۔ دینو نے اپنا سر پیٹ لیا اور کئی دن تک وہ گھر سے باہر بھی نہیں نکلا۔

وہ اس قدر چڑچڑا ہوگیا تھا کہ کسی سے بات بھی نہیں کرتا تھا۔ غصے میں آکے اس نے اپنے تیسرے بیٹے کا نام کھوٹا آنہ رکھ دیا۔ وقت گزرتا گیا اور یہ تینوں آنہ‘ دو آنہ اور کھوٹا آنہ جوان ہوگئے۔ تینوں تین‘ تین فٹ کے تھے ان کے قد تو نہ بڑھ سکے مگر اپنی شرارتوں میں‘ ذہانت میں اور بے باکی میں وہ تینوں یکتا تھے۔ وہ اپنے باپ کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے‘ کھیتوں میں چوکیداری بھی کرتے تھے مگر دینو کسان ان سے خوش نہیں تھا۔ تینوں بونوں میں ایک ایک خصوصیت بھی تھی۔ آنہ جانوروں کی آوازیں بڑی عمدہ نکالتا تھا اور ان کی بولی بھی سمجھتا اور بولتا تھا۔ دو آنہ تیراندازی میں ماہر تھا اور آنکھ بند کرکے نشانے پر تیر مارتا تھا۔ کھوٹا آنہ ہوا میں اڑ کر چھلانگ مارتا تھا اور اس کی لات جسے پڑجاتی اس کا منہ ٹیڑھا کردیتی تھی۔ وہ بس ایک چھلاوا تھا۔

دینو کے کھیت میں فصل تیار تھی۔ اس نے فصل کٹوا کر منڈی میں بیچ دی اور خوشی خوشی رقم لے کر گھر آگیا۔چور دینو کی تاک میں تھے۔ انہوں نے رات کو کسان کے گھر میں ڈاکہ ڈالنے کا پروگرام بنایا اور آدھی رات کو کسان کے گھر میں داخل ہوگئے۔ کسان اور اس کی بیوی سورہے تھے کہ ڈاکوؤں نے انہیں لات مار کر اٹھا دیا۔ دونوں نے جب ڈاکوؤں کو سامنے پایا تو بہت گھبرائے۔ ایک ڈاکو بولا‘ نکالو وہ ساری رقم جو آج تم منڈی سے لائے ہو‘‘ دینو نے کہا بھائیو! میں بڑا غریب آدمی ہوں‘ اسی رقم سے پورے سال گزارا کرنا ہے‘ یہ ظلم نہ کرو۔ لیکن ڈاکو تو پھر ڈاکو تھے انہوں نے کسان کومارنا شروع کردیا۔ تینوں بھائی یعنی آنہ‘ دو آنہ اور کھوٹا آنہ یہ منظر چھپ کر دیکھ رہے تھے۔ آنہ کسان کی چھتری میں چھپا ہوا تھا۔ دوآنہ ایک بالٹی کو الٹی کرکے اس کے اندر بیٹھا تھا۔ کھوٹا آنہ اوپر مچان پر رکھے گدوں اور تکیوں کے درمیان گھسا بیٹھا تھا۔ اچانک آنہ نے اپنے منہ سے بھیڑیے کی آواز نکالی‘ ایک ڈاکو نے گھبرا کر کہا لو باہر بھیڑیے آگئے۔ کسان نے کہا: یہاں آدھی رات کو بہت خطرناک جانور آتے ہیں آپ لوگ بھاگ جائیں۔ ڈاکو بولے ہم سے چالاکی کررہا ہے نکال جلدی سے سارا مال اور زیور‘ یہ کہہ کرڈاکو نے دینو کسان کو ایک تھپڑمارا۔ یہ دیکھ کر آنہ نے شیر کی بڑی گرج دار آواز نکالی جسے سنتے ہی ڈاکوؤں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس لمحے کھوٹا آنہ جو مچان پر بیٹھا تھا جست لگا کر بندوق والے ڈاکو پر کودا اور ایک زور دار لات اس کے منہ پر رسید کی۔ ڈاکو کے ہاتھ سے بندوق چھوٹ گئی اور وہ اپنا جبڑا پکڑ کر دہرا ہوگیا۔ کسان نے بندوق اٹھالی اور چاروں ڈاکوؤں پر تان لی۔ کھوٹہ آنہ ایک بار پھر ہوا میں اڑتا ہوا آیا اور اپنی دونوں لاتیں اس نے ڈاکوؤں کے سردار کے منہ پر جمادیں وہ ایک کونے میں جاگرا۔ ایک ڈاکو نے آواز لگائی ’’بھاگو‘‘ اور وہ سب بھاگ نکلے۔ کسان نے اطمینان کا سانس لیا اور زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے بچوں کی طرف مسکرا کر دیکھا۔

بادشاہ کا اعلان اور کسان کی خوشخبری:کسان نے بچوں کو خوشخبری سنائی کہ بادشاہ نے اعلان کیا ہے کہ اس کی تین شہزادیوں کیلئے اچھے اور بہادر شوہر چاہئیں۔ وہاں بڑے زبردست مقابلے ہوں گے تم لوگ بھی جاکر قسمت آزمائی کرو‘ تم تینوں نے الٹے سیدھے کام سیکھ رکھے ہیں ممکن ہے کوئی بات بن جائے۔ تینوں بھائی صبح ہی روانہ ہوگئے۔جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو لوگ انہیں دیکھ کر ہنسنے لگے اور آپس میں باتیں کرنے لگے یہ تو شاید جوکر ہیں جو شاہی مسخرے بننے آئے ہیں مگر وہ سب سے بے نیاز چلتے رہے۔ جب وہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوئے تو بادشاہ نے انہیں دیکھ کر مسکرا کر پوچھا تم تینوں مل کر لڑوگے یا ایک ایک کرکے۔ وہ بولے ہم تو مقابلے میں شریک ہونے آئے ہیں جیسے آپ کی مرضی۔

دوسرے دن میدان میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی‘ چاروں طرف سے لوگ بھرے ہوئے تھے۔ کئی نامی گرامی پہلوان‘ تیرانداز اورتلوار باز وہاں موجود تھے۔ سب سے پہلے تیر اندازوں کامقابلہ ہوا۔ یہ مقابلہ دو آنے نے جیت لیا۔ پہلوانی اور زورزمائی کے مقابلوں میں جب کھوٹا آنہ میدان میں اترا تو چاروں طرف سے لوگ ہنسنے لگے۔ کئی شہ زور اور پہلوان اس کے مقابلے پرآئے مگر کھوٹہ آنہ کی لاتوں نے سب کے منہ توڑ کر رکھ دئیے۔ بادشاہ سلامت بھی ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔

اب بادشاہ نے اٹھ کر اعلان کیا کہ ایک انوکھا کھیل ہوگا ہم کچھ جانور چھوڑیں گے اور امیدواروں کو ان سے لڑنا ہوگا۔ اگر وہ جانوروں کو مار ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تو شہزادیوں کی شادی انہی بہادروں سے کی جائے گی۔ میدان خالی کرکے سپاہیوں نے پنجرے کھول دئیے۔ ان جانوروں میں بھیڑے‘ کتے‘ ریچھ اور خوفناک بڑے بڑے بندر شامل تھے۔ یہ دیکھتے ہی تمام امیدوار میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے اب میدان میں اترنے کو کوئی تیار نہیں تھا۔ پھر تینوں بھائی میدان میں آئے آنہ نے شیر کی گرج دار آواز نکالی جانور ٹھٹک گئے اور ڈر کے پیچھے ہٹنے لگے‘ دو آنہ نے تیر کمان نکالی اور اپنی بے مثال مہارت سے کئی جانوروں کو نشانہ بنایا‘ کھوٹا آنہ اچھل اچھل کر دولتیاں چلارہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میدان میں جانوروں کی لاشیں بکھری پڑی تھی۔ بادشاہ نے تینوں بونوں کی جیت کا اعلان کیا اور ان تینوں کے ساتھ تینوں شہزادیوں کا نکاح کردیا پھر شاہی پالکی میں سے تینوں شہزادیاں باہر نکلیں۔ حسن اتفاق کہ یہ تینوں بھی بونی تھیں۔ بادشاہ نے تینوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں تو خود یہ چاہتا تھا کہ آپ کامیاب رہیں کیونکہ ان چھوٹی چھوٹی گڑیوں جیسی شہزادیوں کیلئے آپ تینوں سے اچھا کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا۔

دینو کسان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اوراس نے اللہ سے معافی مانگی اور دل سے تسلیم کیا کہ اللہ کی دی ہوئی ہر چیز پر شکر ادا کرنا چاہیے اور کبھی ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔
Jaleel Ahmed
About the Author: Jaleel Ahmed Read More Articles by Jaleel Ahmed: 383 Articles with 1180481 views Mien aik baat clear karna chahta hoon k mery zeyata tar article Ubqari.org se hoty hain mera Ubqari se koi barayrast koi taluk nahi. Ubqari se baray r.. View More