ملک ملک کی کہانیوں کے سلسلے کی
یہ کہانی آئرلینڈ سے لی گئی ہے یہ کہانی آسکروائلڈ کی تحریر کردہ ہے۔
آسکروائلڈ(Oscar Walid 1900-1854) انگریزی ناول نگار اور ڈرامہ نویس ہے۔
اسکی تصانیف کے مجموعے ہمیشہ بہت مقبول رہے ہیں۔ اس میں نظموں اور ڈراموں
کے علاوہ اسکے خطوط بھی شامل ہیں۔ اس نے ٹرنٹی کالج میں تعلیم حاصل کی۔ (ترتیب
و انتخاب عبدالرزاق واحدی)
بھوت
قدیم گرجا گھر کی اونچی اونچی دیواروں پر بہت سے تراشیدہ پتھر رکھے ہوئے،
ان میں سے کچھ فرشتوں کے مجسمے تھے، کچھ پادریوں اور بادشاہوں کے اور کچھ
پاکیزہ شخصیات کے ۔ گرجا گھر کے ایک کونے میں ایک بدرنگ اور بے ڈھنکا پتھر
پڑا تھا ،جس پر نہ کوئی تاج بنا ہوا تھا ،نہ ہی اس کی کوئی شکل و صورت سمجھ
آرہی تھی۔ گرجا گھر میں رہنے والے موٹے نیلے کبوتروں نے سمجھا کہ شاید کوئی
بھوت ہے مگر مذہبی رسومات کے انچارج کوے نے انہیں بتایا کہ یہ ایک گم شدہ
رُوح ہے۔سردیوں کا کوئی دِن تھا،گرجا گھر کے چھت پر ایک سریلی آواز والے
پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی ،جو سخت سردی کے باعث دھوپ تلاش کرتا ہوا گرجا
گھر کی باڑ پر آبیٹھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ معصوم پرندہ ایک فرشتے کے
مجسمے پر آبیٹھا، وہ چاہتا تھا کہ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد یہاں گھونسلا
بنالے۔
گرجا گھر میں موجود چڑیوں اور کبوتروں نے اسے وہاں رہنے سے روک دیا اوراس
قدر شور مچایا کہ اسے وہ جگہ چھوڑنا پڑی۔معصوم پرندہ وہاں سے اڑکر، گم شدہ
رُوح کی تصویر والے بدصورت پتھر پر جابیٹھا اور اسے ہی پناہ گاہ بنالیا۔
گرجا گھر کے کبوتر اس پتھر کو محفوظ جگہ نہیں سمجھتے تھے ،کیونکہ ایک تو وہ
گمنام سے کونے میں پڑا تھا دوسرا ،اس پر ہر وقت گہرا سایہ موجود رہتا تھا۔
گم شدہ روح کا مجسمہ اگرچہ بدرنگ تھا اور اس کے بازو اس طرح کھلے ہوئے بنے
تھے جیسے وہ اپنے دشمن کو للکار رہا ہو، لیکن اس سے کسی کو کوئی تکلیف نہ
تھی، معصوم پرندہ وہیں رہنے لگا۔ وہ روزانہ خاموش مجسمے کے اوپر چڑھ جاتا
اور خوابوں میں کھوئے دوسرے مجسموں کو دیکھتا رہتا، معصوم اور کمزور پرندے
کے لیے یہ واحد محفوظ پناہ گاہ تھی اور وہ اس سے بہت محبت کرتا تھا، روزانہ
وقفے وقفے سے مجسمے کے اوپر بیٹھتا، کبھی قریبی ستون پر چڑھ جاتا اور مجسمے
کی محبت اور پناہ دینے کے لیے شکریہ کے طور پر گیت گاتا رہتا۔ یہ بدصورت
پتھر کے لیے خوشی کے دن تھے کیونکہ اس کا مہمان پرندہ روزانہ وہاں چہکتا،
ہر روز سریلی آواز میں گیت گاتا، شام کو گرجا گھر کی گھنٹی بجتی تو چمگادڑ
رینگتے ہوئے آہستگی سے اپنے گھروں سے نکل آتے اور پرندہ گیت گاتا رہتا۔
یہ موسم کی تبدیلی تھی یا طوفانی بارشوں کا اثر یا کوئی وجہ تھی کہ بدصورت
پتھر کی سختی اور اس کی شکل میں خوشگوار تبدیلی آرہی تھی۔گرجا گھر کی چھت
پر خوبصورت نغمے سناتے پرندے کی آواز سب کو پسند تھی مگر وہ اس پر افسوس
کرتے یہ آواز ہمیشہ رہنے والی نہیں، یہ خوبصورت گیت ختم ہوجائیں گے اور
گرجا گھر کی دیواریں معصوم پرندے کو بھول جائیں گی۔گرجا گھر کے مکینوں نے
،ایک دن معصوم پرندے کو پنجرے میں قید کرکے گرجا گھر کے باہر فروخت کرنے کے
لیے رکھ دیاتاکہ کچھ معاشی فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ وہ رات معصوم پرندے پر
بہت بھاری تھی ،جو اس نے اپنے ٹھکانے سے دور گزاری۔اِدھر بدصورت پتھر
پریشان ہوا کہ پرندہ واپس کیوں نہیں آیا، اس نے سوچا شاید اسے بلی کھاگئی
ہے یا پھر کسی نے پتھر مارکے زخمی کردیا ہے، مہمان پرندے کے بغیر گم شدہ
رُوح کے بدصورت مجسمے کو پہلی تنہائی کا شدید احساس ہوا۔
صبح سویرے جب گرجا گھر کی چڑیوں کا شور اٹھا اور لوگوں کی چہل پہل شروع
ہوئی تو اسے معصوم پرندہ بہت یاد آیا، جب کبوتر گرجا گھر کو اونچی دیواروں
کے کنگروں پر بیٹھتے اور چڑیاں چہکتیں تو اس کے کانوں میں معصوم پرندے کے
گیت گونجنے لگتے۔
گم شدہ رُوح کا مجسمہ بہت اُداس او رغمزدہ تھا۔ کبوتر کھاتے وقت ہمیشہ اس
معصوم پرندے کا ذکر کرتے اور کہتے کہ وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ شدید
سردی کے ایک دن اور کبوتر چڑیوں کے ساتھ گرجا گھر کی چھت خوراک کے لیے
پریشان بیٹھے تھے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کوئی اپنا بچا ہوا کھانا چھت پر
پھینکے تاکہ ان کی بھوک مٹ سکے، وہ اکثر سردیوں میں اسی طرح گزارہ کرتے
تھے، اس دوران میں ایک کبوتر نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ کیا کچرے کے ڈھیر
پر کوئی کھانے کی چیزپھینکی گئی ہے، جواب میں کبوتر کو بتایا گیا کہ نہیں،
وہاں صرف ایک مردہ پرندے کو پھینکا گیا ہے۔
رات گئے گرجا گھر کی چھت پر کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تو مذہبی رسومات کے
انچار ج کوے نے کہا کہ گرجا گھر کے کنکرے مدتوں سے موسم سرما کی شدت برداشت
کررہے ہیں ، برفباری اور کہرے کے سبب ان کی حالت خراب ہے، شاید کوئی حصہ
ٹوٹ گیا ہو۔ اگلی صبح گم شدہ رُوح کا مجسمہ اپنی جگہ موجود نہ پا کر
کبوتروں نے اطمینان کا سانس لیا انہوں نے فیصلہ کیاکہ اب یہاں کسی اور
فرشتے کا مجسمہ نصب کیا جائے گا، گم شدہ رُوح کے مجسمے کوکسی نے توڑ کر
باہر پھینک دیاتھا۔ (ترجمہ:خورشید ربانی) |