ایک گاؤں میں جھمرو اور منگلو
نام کے دو دوست رہتے تھے۔ دونوں بہت غریب، جاہل اور سیدھے سادھے تھے۔ دونوں
میں بڑی گہری دوستی تھی دونوں اپنے اپنے خاندان کے ساتھ آپس میں مل جل کر
رہتے تھے ۔دونوں فرصت کے وقت مندر کی صاف صفائی بھی کر لیا کرتے اور بیٹھ
کر بھجن کیرتن کرتے تھے۔ یہی ان کا روزمرہ کا معمول تھا ۔ دونوں اپنی غریبی
کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان تھے ۔ ایک دن مندر میں دونوں کی ملاقات ایک
پنڈت جی سے ہوئی دونوں نے اُن سے اپنی پریشانیاں بتائیں۔ دونوں کی باتیں
سُن کر پنڈت جی مسکرائے اور کہا : ’’ تم اس ترقی یافتہ دور میں اپنی بے
وقوفی کی وجہ سے بے روزگار ہو۔ ‘‘ وہ دونوں پنڈت جی کی باتیں چپ چاپ سُنتے
رہے ۔ پنڈت نے ان کی حالت بھانپ کر دونوں سے کہا: ’’تم دونوں شہر جاکر اپنے
لیے روزگار ڈھونڈ سکتے ہو یہاں پڑے پڑے تمہیں کچھ نہیں ملنے والا۔ بغیر
محنت و مشقت کے دینے والا کچھ بھی نہیں دیتا۔‘‘ان دونوں کو پنڈت کی بات
سمجھ میں آگئی۔
یہ دونوں کبھی بھی گاؤں سے باہر نہیں گئے تھے۔ اس لیے شہر جانے سے ڈرتے
تھے۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ اب کی بار گاؤں کی جاترا میں جب شہر کے لوگ
آئیں گے تو ہم دونوں ان کے ساتھ شہر چلے جائیں گے۔
جھمرو اور منگلو شہر آگئے ۔ شہر کی چکا چوندھ سے وہ بھونچکے رہے گئے ۔ کام
کی تلا ش میں دونوں کئی دنوں تک بھٹکتے رہے وہ جہاں بھی کام کی تلاش میں
جاتے تو لوگ ان کے بارے میں پوچھتے اور کیا کام کر سکتے ہو یہ پوچھتے ۔ وہ
دونوں شہر کے لوگوں کے سامنے کچھ ڈھنگ سے بول بھی نہیں پاتے تھے۔ اور لوگ
انھیں دھتکار کر اپنے پاس سے بھگا دیتے۔
ایک دن ہمت کرکے کام ڈھونڈنے نکلے تو اناج کے گودام میں کام مل گیا ۔ کام
تھااناج کی بوریاں ڈھونا، جھمرو اور منگلو محنتی تو تھے ہی، اپنی محنت اور
لگن سے کام کرنے لگے اب دھیرے دھرے ان کی تکلیفیں دور ہونے لگیں۔ جھمرو اور
منگلو اپنی کمائی کے پیسے اکٹھے ہی رکھتے اور تھوڑی بہت بچت بھی کرتے ۔ دن
گذرتے گئے اب ان کے رہنے کا مسئلہ بھی دور ہوگیا ، انھوں نے کرایے پر ایک
کمرہ لے لیااور گاؤ ں جاکر اپنے اپنے خاندان کو شہر لے آئے دونوں کی
بیویاں چمیلی اور بیلا بھی کام کرنے لگیں اور اپنی کمائی ساتھ ہی رکھنے
لگیں اُن دونوں کے بچّے پڑھنے کے لیے اسکول بھی جانے لگے۔
جب کمائی بڑھنے لگی تو جھمرو کی بیوی چمیلی کے دل میں لالچ پیدا ہوا اور وہ
کمائی کے پیسوں میں سے کچھ پیسے الگ نکال کر اپنے اور اپنے بچوں کا شوق
پورا کرنے لگی اور منگلو کی بیوی بیلا اور اس کے بچوں سے بھید بھاؤ کرنے
لگی ۔ بیلا اس کی ان حرکتوں کو سمجھ گئی ، چمیلی فضول خرچ اور لالچی تھی وہ
چالاکی سے اپنے داو پیچ چلاتی جب کہ بیلا سمجھ دار اور اچھی عادتوں کی مالک
تھی۔ ایک دن بیلا نے چمیلی سے کہا کہ کیوں نہ ہم دونوں اپنا کام الگ الگ
کریں اوراپنی اپنی کمائی بھی اپنے پاس رکھیں چمیلی کو یہ بات پسند آئی اور
وہ مان گئی۔
کچھ دنوں بعد جھمرو اور منگلو بھی اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ الگ الگ رہنے
لگے ۔ چمیلی کی لالچی طبیعت اور فضول خرچی کی خراب عادتوں کی وجہ سے جھمرو
اور اس کے خاندان کے لوگ پریشان رہنے لگے ۔ جب کہ بیلا کی سمجھ داری اور
کفایت شعاری سے منگلو ترقی کرنے لگا۔ بیلا تھی تو سمجھ دار لیکن پڑھی لکھی
نہیں تھی اس نے پڑھنا لکھنا سیکھا اور منگلو کو بھی سمجھایا کہ علم سیکھنے
کی کوئی عمر نہیں ہوتی ، جب جاگے تب سویرا ، منگلو نے بھی پڑھنا سیکھ لیا
اورترقی کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اعلا تعلیم دلوائی آج منگلو اور بیلا کے
بچے ڈاکٹر اور انجینئر بن گئے ہیں، جب کہ جھمرو اور چمیلی اپنی خود کی
حرکتوں سے گاؤں سے بھی نچلے درجے کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے ۔ہوا یوں
کہ اس دوران چمیلی بھی مر گئی ۔
یہ بات منگلو کو پسند نہ آئی کہ اُس کا دوست جھمرواس طرح پریشان رہے اُس
نے بڑھ کر اپنے دوست کی مدد کی اور اُس کے بچوں کی تعلیم کے لیے اچھا
انتظام کیا اورنائٹ اسکول میں ان کا داخلہ کرادیا۔ دھیرے دھیرے ایک دوست کی
مدد سے دوسرا دوست بھی ترقی کرنے لگا ۔اب جھمرو کے بچے بھی ٹیچر بن کر محنت
سے پڑھانے کا کام کررہے ہیں ۔ سچ ہے کہ فضول خرچی سے ہمیشہ نقصان اٹھانا
پڑتا ہے جب کہ کفایت شعاری سے ترقی ہوتی ہے۔ |