گوپال نے جھوٹ کیوں بولا

گوپال بہت پیارا بچہ ہے ۔ اس کے ماں باپ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اس کی ہر مانگ پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے ہنس کر بات کرتے ، نہ کبھی ڈانٹتے نہ پھٹکارتے۔ مارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جب کبھی گوپال کوئی غلط کا م کرتا تو وہ اسے غلطی بتاتے اور لاڈ پیار سے اس کو سمجھاتے بجھاتے۔ ہاں! کبھی کبھی مارنے کی نوبت آتی تو وہ مارنے کے بعد بہت زیادہ دکھی ہوجاتے ۔ ان کا دکھ ان کے چہرے سے ظاہر ہوجاتاتھا ۔ گوپال اپنے ماں باپ کو دکھ کی حالت میں دیکھ کر خود بھی دکھی ہوجاتا اور سوچنے لگتا کہ میری وجہ سے ماں باپ کو تکلیف پہنچی ہے۔

آج وہ بہت زیادہ خوش تھا موسم میں معمولی گرمی تھی لیکن جلن اور گھٹن نہیں تھی ۔ وہ جلدی جلدی اسکول جانے کے لیے اپنا بستہ ٹھیک ٹھاک کررہاتھابستہ ٹھیک کرنے کے بعد وہ ڈرائنگ روم میں اپنے والد کے پاس گیا اور بولا:’’ ابوجان! ؤج اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد میں سوئمنگ پول میں تیرنے کے لیے جانا چاہتا ہوں ، مجھے بیس روپے چاہیے۔‘‘

اس کے ابّا نے جیب سے بیس روپے نکالے اور گوپال کو دیتے ہوئے کہا کہ:’’ بیس روپے کیوں ، کیا اتنا زیادہ ٹکٹ لگتا ہے۔؟‘‘

گوپال یہ سُن کر ہڑبڑا گیا ۔ بولا:’’ ہاں! ابو جان۔‘‘

گوپال روپے لے کر چل دیا لیکن وہ دل ہی دل میں پریشان ہورہا تھا ۔ کیوں کہ اس نے اس کے ابا جان کو جھوٹ بولا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اس کا جھوٹ پکڑا گیا تو کیا ہوگا؟

گوپال کے گھر سے نکلتے ہی اُس کے ابا جان کو ذہنی دھکا لگا وہ جانتے تھے کہ گوپال نے جھوٹ بولا ہے۔ انھیں ڈر ہونے لگا کہ کہیں گوپال غلط صحبت میں تو نہیں پڑ گیا ہے؟

سوچتے سوچتے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے ، جوتے پہنے اور گوپال کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ تھوڑی دیر میں اُنھیں گوپال دکھائی دیا۔ وہ ایک پھل والے کی دکان سے پھل خرید رہا تھا۔ اس نے پھل خریدکر اپنے بستے میں ڈالے اور پھر چل دیا۔ گوپال کے والد کچھ سمجھ نہ سکے کہ گوپال نے پھل کیوں خریدا ہے۔ اب معاملہ اور زیادہ اُلجھ گیا تھا۔ وہ پھر گوپال کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ گوپال ایک گلی میں مڑگیا اور ایک پُرانے مکان میں گھس گیا۔

گوپال کے والد دَم سادھے کھڑے رہے، تھوڑی دیر میں گوپال مکان سے نکلا اور اپنی اسکول کو چل دیا۔ اس کے والد گھر واپس آگئے وہ الجھن میں تھے کہ گوپال نے پھل کیوں خریدا ؟ اور وہ سیدھا اسکول میں جانے کی بجائے اُس پُرانے مکان میں کیوں گیا؟ وہ طرح طرح کے اندیشے کررہے تھے کہ شام ہوگئی۔

گوپال اسکول سے واپس آیاتھکن کے آثار نمایاں تھے، وہ بھی حیران تھا کیوں کہ وہ تو سوئمنگ پول نہیں گیا تھا۔ وہ جیسے ہی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا تو سامنے اس کے والد صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔انھوں نے گوپال کو اپنے پاس بلایا اور صوفے پر بٹھا کر پوچھا:’’ کہو کیسا رہا آج کا دن؟ ‘‘ گوپال گھبرااُٹھا اور بولا:’’ اچھا رہا پاپا۔‘‘

اس کے والد نے کہا :’’ تم جلدی آگئے کیا سوئمنگ پول نہیں گئے؟‘‘

گوپال بولا:’’ ہاںپاپا! پلان بدل گیا تھا۔‘‘اس کے والد نے کہا:’’ لیکن تم نے تو وہاں کے ٹکٹ کے لیے بیس روپے لیے تھے، ٹکٹ کی فیس تو اتنی زیادہ نہیں ہوتی، تم نے جھوٹ بولا ہے سچ بتاؤ تم نے اُن بیس روپیوں کا کیا کِیا؟‘‘

گوپال بولا:’’ ابوجان ! وہ… در…اصل… میرے… دوست کی امّی جان… بیمار تھیں ان کے پاس پیسے نہیں تھے …اور ڈاکٹر نے اُن کو سیب کھانے کے لیے کہا تھا اس لیے میں نے بیس روپے لے کر سیب خریدے اور ان کو لے جاکر دے دیے۔‘‘

گوپال کے والد صاحب سمجھ گئے کہ وہ سچ بول رہا ہے وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ :’’دوسروں کی مدد کرنا اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے ، اگر تم سچ سچ بتاتے تو ہم اور بھی زیادہ رقم سے پھل فروٹ خرید کر لے جاتے اور دوا گولی وغیرہ کے لیے بھی اُن کی مدد کرتے۔‘‘

گوپال نے کہا :’’ پاپا! میں ڈرا ہوا تھا کہ کہیں آپ منع نہ کردیں۔‘‘اس کے والدصاحب نے کہا کہ :’’ بیٹا! اچھے کام کے لیے ڈرنا کیسا؟ اگر کبھی کوئی غلطی ہو بھی جائے تو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ ہمیشہ سچ بولنا چاہیے ۔‘‘ گوپال کا سر شرمندگی سے جھک گیا اور اس نے اپنے ماں باپ سے معافی مانگی ۔
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 646923 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More