ایک گاؤں میں ایک کسان تھا، جسے
جانوروں کی بولی سمجھ میں آتی تھی۔ ایک شام کسان اپنے باڑے میں چارا ڈالنے
گیا ۔ اس وقت کسان کا بیل اور گھوڑاآپس میں باتیں کررہے تھے ۔ کسان کان
لگا کر اُن دونوں کی بات چیت کو دھیان سے سننے لگا۔
بیل اُداسی سے گھوڑے سے کہہ رہا تھا:’’ واہ گھوڑے بھائی! تمہارے تو جب
دیکھو ٹھاٹ ہی ٹھاٹ ہیں۔ دونوں وقت کی مالش سے تمہارا جسم چم چم کرتا رہتا
ہے۔ کھانے کے لیے چنے بھی تمہیں خوب ملتے ہیں ، پھر مالک کو پیٹھ پر بیٹھا
کر اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے بھی جاتے ہو۔ ایک میں ہوں کہ دن بھر کھیت میں
لگے رہتا ہوں ۔ ذرا بھی سُستایا نہیں کہ مالک کے کوڑے پیٹھ پر دَنا دَن
برسنے لگتے ہیں اور شام کو واپس آؤ تو یہ روکھا سوکھا چارا کھانے کو ملتا
ہے۔‘‘ گھوڑے نے یہ سُن کر اِتراتے ہوئے کہا:’’ اداس کیوں ہوتے ہو بیل بھائی
! مَیں جیسا کہوں ، تم ویسا کرو تو تم بھی میری طرح شان و شوکت سے رہ سکتے
ہو۔ ‘‘
بیل نے بے تابی سے کہا:’’ جلدی جلدی بتاؤ نا گھوڑے بھائی کہ مجھے شان و
شوکت سے جینے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ گھوڑے نے ہنستے ہوئے بیل سے کہا:’’
آسان کام ہے، کل جب مالک کے نوکر تمہیں لینے کے لیے آئیں تو اُنھیں خودکو
چھونے نہ دینا، اُنھیں سینگ دکھانا ، ایک دم عجیب و غریب حرکتیں کرنا، زمین
پر لیٹ جانا، کچھ مت کھانا اور منہ سے سفید جھاگ نکالنے لگنا، بس پھر تو
تمہارا عیش ہی عیش ہوگا۔‘‘
سیدھے سادھے بیل کو غلط مشورہ دیتے ہوئے گھوڑے کو دیکھ کر کسان نے یہ ٹھان
لیا کہ وہ ایک نہ ایک دن گھوڑے کو ضرور بہ ضروراچھا سبق سکھائے گاکہ وہ
آیندہ کبھی بھی کسی جانور کو غلط مشورہ دینے کی کوشش نہیں کرے گا۔ دوسرے
دن جب کسان کے نوکر بیل کو لینے گئے تو بیل نے گھوڑے کے دیے ہوئے غلط مشورے
پر عمل کرتے ہوئے ایسی اُودھم مچائی کہ نوکروں کے چھکے چھوٹ گئے اور وہ ڈر
کر بھاگے بھاگے کسان کے پاس پہنچے اور ساراماجرا کہہ سنایا۔
کسان نے بیل کی حالت جانچنے کا ناٹک کرتے ہوئے کہا کہ :’’ لگتا ہے بے چارا
بیل بہت زیادہ محنت و مشقت کرنے سے بیمار پڑ گیا ہے اس لیے آج سے یہ آرام
کرے گااور بیل کی جگہ آج سے گھوڑے کو ہل میں جوتا جائے گا اور جب تک بیل
اچھا نہیں ہوجاتا کھیت میں گھوڑا ہی کام کرے گا۔‘‘
اب تو گھوڑے کی شامت آگئی ۔ دن بھر کھیت میں کوڑے کھا کھا کر گھوڑے کی
ساری شان و شوکت ہَوا ہو گئی ۔ وہ من ہی من میں پچھتانے لگا کہ اس نے بیل
کو غلط مشورہ دے کر اچھا نہیں کیا۔
ایک ہفتے بعد کسان نے جان بوجھ کر گھوڑے اور بیل کے لیے ایک ہی جگہ پر گھاس
ڈالی تاکہ وہ جان سکے کہ دونوں کے درمیان کیا بات ہوتی ہے؟ گھوڑے کو دیکھ
کر بیل چہکتے ہوئے بولا:’’ واہ دوست! کیا مشورہ دیا تم نے ! مَیں توقسمت سے
راجا ہوگیا اب تو کچھ کام نہیں کرنا پڑتا اور وقت وقت پر ہرا ہرا تازہ چارا
کھانے کو ملتا ہے۔‘‘
یہ سُن کر گھوڑا بھانپ گیا کہ بیل کی نیت اب کام پر جانے کی نہیں ہے ۔
گھوڑے نے دل میں سوچا اگر بیل اپنے کام پر نہیں جائے گا تو اسی طرح کچھ دن
اور کھیت پر کام کرتے کرتے وہ تو پر لوک سدھار جائے گا، اس نے کچھ سوچتے
ہوئے بیل سے کہا:’’ دوست! بڑے دکھ کے ساتھ تمہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ مالک نے
تمہیں ایک قصائی کو بیچ دیا ہے ، کیوں کہ مالک کی نظر میں اب تم کسی بھی
کام کے نہیں رہے ۔ یہ دیکھ بھال اور دو وقت کا ہرا ہرا چارا اس لیے دیا
جارہا ہے کہ تم صحت مند ہوجاؤ اور قصائی سے اُس حساب سے اچھی رقم وصول کی
جاسکے ۔‘‘ یہ سنتے ہی بیل سوکھے پتّے کی طرح تھر تھر کانپنے لگا اور
گھبراتے ہوئے اس نے گھوڑے سے کہا کہ :’’ گھوڑے بھائی ! اب تم ہی مجھے بچانے
کی کوئی ترکیب نکالو، میں اس طرح ناٹک کرکے مرنا نہیں چاہتا۔‘‘
گھوڑے نے تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر کہاکہ :’’ کل سے بیمارہونے کا ناٹک مت
کرنا ، مالک کو تم بھلے چنگے لگو گے تو وہ تمہیں نہیں بیچے گا۔‘‘ گھوڑے کی
چالاکی دیکھ کر کسان زور سے ہنس پڑا ۔ دوسرے دن بیل کو بھلا چنگا دیکھ کر
کسان نے اُسے پھرسے کھیت پر بلوالیا۔ اور گھوڑے نے ہمیشہ کے لیے کان
پکڑلیاکہ اب کسی بھی جانور کو غلط مشورہ نہیں دے گا۔ |