احکام شریعت(مسائل اور جوابات) نکاح دوم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال نمبر۱: کیا ٹیلیفون یا انٹر نیٹ پر نکاح ہوجائے گا۔
جواب :اس مسئلہ کی دو صورتیں ہیں
یا تونکاح کی مجلس(یعنی جہاں نکاح منعقد ہورہا ہے) میں نکاح کا ایجاب و قبول لڑکی اور لڑکے نے براہ راست خود فون وغیرہ کے ذریعے کیے ہونگے یا اپنے وکیل کے ذریعے نکاح کیا ہوگا یعنی ایجاب و قبول کے الفاظ نکاح کے وکیل نے اپنے موکل کی جانب سے گواہوں کے سامنےاد ا کیے ہونگے

تو اگر لڑکی اور لڑکے نے خود براہ راست فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے بغیر نکاح کے وکیل کے ایجاب و قبول کیا ہے تو ایسی صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوا ہے کیونکہ نکاح منعقد ہونے کے لئے عاقدین (یعنی جن کے مابین نکاح ہو رہا ہے)کی مجلس کا ایک ہونا شرط ہے اور جب لڑکا اور لڑکی دو مختلف مقام پرہیں تو نکاح نہیں ہوا کیونکہ مجلس مختلف ہیں

اور اگر دوسری صورت ہے کہ لڑکی نے یا لڑکے نے پہلے کسی کو فون یا انٹر نیٹ یا خط کے ذریعے یا کسی اور ذرائع سے اپنے نکاح کرنے کا وکیل بنا دیا تھا اس معنی میں کہ اس وکیل کو اپنے نکاح کرنے کااختیار دیاکہ وہ اس لڑکی کی جانب سے (اور اگر لڑکے نے نکاح کرنے کا کسی کو وکیل بنایاہے تووہ اس لڑکے کی جانب سے)اس نکاح کی مجلس میں اپنی مؤکلہ یا اپنے موکل کی طرف سے نکاح کا ایجاب و قبول کرئےاور پھر نکاح کی مجلس میں اس وکیل نے اپنے موکل (یعنی لڑکا یا لڑکی) کی جانب سے نکاح کاایجاب وقبول گواہان کے سامنے کر لیا تو یہ نکاح درست ہو گیا

سوال نمبر ۲: پیپر میرج سے شرعا نکاح منعقد ہوجاتا ہے یانہیں
جواب : اگر عاقدین(یعنی جن کے مابین نکاح ہو رہا ہے) ایک مجلس میں ہوتونکاح کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ عاقدین اسی مجلس میں گواہان کے سامنے ایجاب و قبول کے الفاظ زبان سے ادا کریں اگر فقط دونوں جانب یا ایک جانب سے تحریر ہو اور زبان سے نکاح کے الفاظ ادا نہیں کیے تو نکاح منعقد نہیں ہوگا

اور اگر دونوں نے گواہوں کے سامنے زبان سے نکاح کےالفاظ ادا کیے تھے تو نکاح منعقد ہوگیا اگرچہ کہ اپنے گمان میں یہ خیال کریں کہ یہ تو پیپر میرج ہے جبکہ اس کے علاوہ کوئی ممانعت نکاح نہ ہو
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے
ثلاث جدهن جد وهزلهن جد : النکاح والطلاق والرجعة.
تین چيزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت بھی حقیقت ہی ہے اور مذاق بھی حقیقت ہے ، نکاح ، طلاق ، اوررجوع کرنا
ترمذی، ابوداؤد

سوال نمبر۳: والدین کی اجازت کے بغیر کیے گئے نکاح کی شرعی حیثیت
جواب : بالغ لڑکے نے والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو نکاح ہوجائے گا اگرچہ کہ لڑکا اپنے سے عرفا کم درجہ لڑکی سے نکاح کرئے کیونکہ کفائت کا اعتبار لڑکے کی طرف سے ہے لڑکی کی طرف سے معتبر نہیں ہے مگر والدین کا نافرمان ضرور ہوگا

اور اگر لڑکی نے اپنے اولیا (یعنی والد ۔دادا وغیرہ) کی رضا مندی کے بغیر نکاح کیا تو اگر لڑکی نے کفو(یعنی ہم پلہ افراد) میں نکاح کیا تو نکاح درست ہے مگر والدین کی نافرمان ضرور ٹھہرے گی

اور اگر لڑکی نے اپنے اولیا (یعنی والد ۔دادا) کی رضا مندی کے بغیر غیر کفو (یعنی جو ہم پلہ نہ ہو)میں نکاح کیا تو نکاح سر ے سے ہوگا ہی نہیں

کفو کے یہ معنی ہیں کہ مرد عورت سے نسب وغیرہ میں اتنا کم نہ ہو کہ اس سے نکاح عورت کے اولیا کے ليے باعثِ ننگ و عار ہو، کفاء ت صرف مرد کی جانب سے معتبر ہے عورت اگرچہ کم درجہ کی ہو اس کا اعتبار نہیں۔

کفاء ت میں چھ چیزوں کا اعتبار ہے:
1 نسب، 2 اسلام، 3 پیشہ، 4 حریت(آزاد ہونا)، 5 مال 6دیانت، ۔

البحرالرائق میں علامہ ابن نجیم المصری علیہ الرحمہ ترمذی شریف سے ایک حدیث پاک نقل کرتے ہیں کہ ’’ ایما امراۃ نکحت بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل‘‘
یعنی ،’’ جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر ( غیر کفؤ میں ) نکاح کرے و ہ نکاح باطل ہے ‘‘۔
[ البحرالرائق ،کتاب النکاح ،باب الاولیا والاکفاء،ج:۳، ص:۱۹۳،مکتبہ ،رشیدیہ ،کوئٹہ]۔

الدرالمختار میں ہے
’’یفتٰی فی غیرالکفؤبعدم جوازہ اصلاوہوالمختارللفتویٰ لفسادالزمان‘‘
یعنی،’’ غیرکفؤمیں عدم جوازکافتوی دیاجائے گااوریہی فتوی کے لئے مختارہے کیونکہ زمانہ میں فسادآگیاہے‘‘۔
[تنویرالابصارمع درمختار،کتاب النکاح،باب الولی،ج:۴،ص: ۱۵۶ ،مکتبہ امدادیہ ملتان] ۔

اگرنکاح سے پہلے سرپرست(والد ،دادا ،بھائی ،چچا) راضی نہیں تھے تو نکاح کے بعد ان کے راضی ہونے سے نکاح درست نہیں ہوگا۔ مذکورہ عبارت کے تحت علامہ ابن عابدین المعروف شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
’’ ھذہ روایۃ الحسن عن ابی حنیفہ وھذا اذا کان لھا ولی لم یرض بہ قبل العقد فلا یفید الرضا بعدہ ‘‘
یعنی،’’ یہ روایت حضر ت امام حسن بن زیادرضی اللہ عنہ کی امام اعظم رضی اللہ عنہ سے ہے اور یہ اس وقت ہے جب لڑکی کا کوئی ولی ہو اور وہ نکاح سے پہلے راضی نہ ہو تو بعد میں ولی کا راضی ہو جانا کو ئی فائدہ نہیں دے گا ‘‘۔
[ ردالمحتار ،ج:۴،ص:۱۵۶،مکتبہ امدادیہ ملتان] ۔

اسی ردالمحتار میں دوسری جگہ پر ہے
’ ’ لو تزوجت غیر کفؤ فالمختار للفتوی روایۃ الحسن انہ لا یصح العقد‘‘
یعنی،’’ اگر لڑکی نے غیر کفؤ میں اپنا نکاح خود ولی کی اجازت کے بغیر کرلیا تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی روایت پر فتوی ہے کہ وہ نکاح نہ ہو گا ‘‘۔
[ ردالمحتار ،ج:۴،ص:۲۰۹،مکتبہ ، رشیدیہ کوئٹہ]

اور البحرالرائق میں ہے ’’ المختار للفتوی فی زماننا روایۃ الحسن وفی الکافی والذخیرہ وبقولہ اخذ کثیر من المشائخ‘‘
یعنی ،’’ ہمارے زمانے میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی روایت پر فتوی ہے اور کافی اور ذخیرہ میں ہے کہ اس قول پر اکثر مشائخ نے فتوی دیا ہے ‘‘۔
[ البحرالرائق ،کتاتو ب النکاح ،باب الولی ،ج:۳،ص:۱۹۴،مکتبہ ،رشیدیہ ،کو ئٹہ]

سوال نمبر۴: کیا سید زادی کا نکاح غیر سید سے ہوجائے گا
جواب:اگر اولیا(یعنی والد یا دادا وغیرہ) نے سیدزادی کا نکاح غیر سید سے کیا ہے تو نکاح درست ہے اور اگر لڑکی نے اولیا (یعنی والد یا دادا وغیرہ)کی اجازت و رضامندی کے بغیر غیر سید سے نکاح کیا ہے تو غیر کفو میں اولیا کی رضامندی کے بغیرنکاح کرنے کی وجہ سے یہ نکاح باطل ہے۔

سوال نمبر۵: کیا نکاح نامہ میں ولدیت کے خانہ میں پرورش کرنے والے کا نام لکھوانے سے نکاح نہیں ہوتا ہے؟
جواب: نکاح کے صحیح ہونے کے لئے لڑکے اور لڑکی (دولہا اور دلہن )کا متعارف ہونااورپہچاناجانا شرط ہے خواہ وہ اپنے حقیقی والد کے نام سے معروف ہو یا پرورش کرنے والے کے نام سے معروف ہوجس نام سے بھی معروف ہو اس کا نام لے کر لڑکی کو نکاح کے وقت متعارف کرایا جائے یا لڑکی نکاح کی مجلس میں ہو تو اشارہ کے ساتھ متعین کیا جائے تاکہ گواہوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں لڑکی کا نکاح ہو رہا ہے تو نکاح ہو جائے گا اور اگر لڑکی ایسی مجہولہ ہو کہ جس کی نکاح کے وقت کسی طرح پہچان نہ ہو سکے اور وہ نکاح کی مجلس میں موجود بھی نہ ہو کہ اس کی طرف اشارہ کیا جاسکے تو اس کا نکاح صحیح نہیں ہو گا کیونکہ عاقدین(یعنی جن کا نکاح ہو رہا ہے) کا معلوم ہونا ضروری ہے

حقیقی والد یا پرورش کرنے والے کا نام لینا نکاح کے صحیح ہونے کے لئے شرط نہیں ہے

البتہ ہر شخص کو اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی منسوب کیا جانا چاہیے غیر باپ کی طرف منسوب کرنے والے کے لئے حدیث مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے

’’ من ادعی الی غیر ابیہ او انتمی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملئکتہ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ یوم القیمۃ صرفا ولا عدلا‘‘
یعنی ،’’جو اپنے باپ کے سوا دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے اس پر خود اللہ تعالی اور سب فرشتوں اور آدمیوں کی لعنت ہے ،اللہ تعالی قیامت کے دن اس کا نہ فرض قبول کرے گا نہ نفل‘‘۔
[صحیح مسلم شریف حدیث نمبر ۳۸۶۷]

حدیث پاک میں ہے کہ ’’من ادعی الی غیر ابیہ وھو یعلم فالجنۃ علیہ حرام ‘‘‘
یعنی : جو جانتے ہوئے اپنے باپ کے سوا دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے پس اس پر جنت حرام ہے
[صحیح بخاری شریف حدیث نمبر۴۰۷۱]

لہذا نکاح نامہ میں ولدیت کے خانہ میں حقیقی والد کا نام تحریر کریں لیکن اگر ولدیت کے خانہ میں پرورش کرنے والے کا نام مندرج کردیا جائے تو فقط اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے مگر ایسا فعل کرنا حرام ہے اور سرپرست کے خانہ میں پرورش کرنے والے کا نام لکھ سکتے ہیں۔

والسلام مع الاکرام
mufti muhammed bilal raza qadri
About the Author: mufti muhammed bilal raza qadri Read More Articles by mufti muhammed bilal raza qadri: 23 Articles with 71708 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.