صدرِ باوقار رونقِ اسٹیج مہمانانِ
کرام اور باذوق سامعین !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
آج میری تقریر کا عنوان ہے ’’کی محمد(ﷺ) سے وفا تو نے تو ہم تیرے
ہیں‘‘آئیے سب سے پہلے ہم اپنی وفاشعاری اور عقیدت و سرمستی کا ثبوت پیش
کرنے کے لیے انتہائی احترام و عقیدت کے ساتھ اپنے اور ساری کائنات کے مرکزِ
عقیدت مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ کی مقدس ترین بارگاہ میں کہ جن پر جنّ و فرشتے
اور خود خدائے وحدہٗ لاشریک بھی درود و سلام بھیجتا ہے ،ہم بھی اس بابرکت
وصف سے متصف ہونے کے لیے درود پاک کا نذرانہ پیش کریں… اللہم صل علیٰ سیدنا
محمدو وبارک وسلم صلاۃ وسلاماً علیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم…
سامعینِ محترم ! خدائے وحدہٗ لاشریک قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے
واطیعوااللہ واطیعواالرسول ْ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ۔اورکہیں
ارشاد فرماتا ہے استجیبواللہ ولرسول اذا دعاکم ْ اے ایمان والو!اللہ اور
اسکے رسول جب بلائیں فوراً دوڑ پڑو۔اور اسی طرح جگہ جگہ ارشادِ ربّانی ہوتا
ہے کہ اے ایمان والو!میرے رسول کی اطاعت اور اس کی محبت والفت ہی دراصل
ایمان ہے بلکہ ایمان کی جان ہے ۔گویا محبت واطاعتِ رسول ہی اصلِ ایمان ہے
اور جس کے دل میں یہ جذبۂ والہانہ نہیں و ہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ،اسی
کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتیِ اعظم علامہ شاہ
محمد مصطفیٰ رضا نوری بریلوی نغمہ سَنج ہیں کہ ؎
جانِ ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہوگا
کسی مفکر کا قول ہے کہ’’اگر تم کسی قوم کو تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہو تو
اسکی تاریخ کو ملیامیٹ کردو وہ قوم خود بخود نیست و نابود ہوجاے گی
‘‘۔کیونکہ تاریخ کسی بھی قوم کا ماضی ہوتی ہے۔گزرا ہوا کل تاریخ کہلاتا ہے
اور آج گزرے ہوئے کل کی بنیاد پر ہے اور آنے والے کل کی بنیاد آج پر
رکھی جائے گی۔ہم آج وفا کی تلاش میں نکلے ہیں ہمارا کارواں آج جفاوں کی
منزل سے دور وفاشعاروں کی آماجگاہ کا متمنی ہے یہ کتنی بڑی ستم ظریفی کی
بات ہیکہ ہم آج وفا تلاش کررہے ہیں تو ہیر رانجھا ،لیلیٰ مجنوں اور شیریں
فرہاد میں …جبکہ ہم کو لفظِ وفاکی تفسیر صحابۂ کرام کی روشن و تابندہ
زندگیوں میں دیکھنی چاہیے ۔جو اسلامی تاریخ کا ایسا درخشندہ و تابندہ باب
ہے جسکی مثال کسی اور مذہب کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر و مجبور ہے۔
حاضرینِ کرام!پرچمِ اسلام کیوں کرسربلند ہو ا ؟ہماری عزت و حشمت کو کیوں
چار چاند لگ گیا؟ہمارا کارواں نیل کے ساحل سے لیکر کاشغر کی خاک تک کیوں
کامیابی و سرفرازی کے جھنڈے گاڑتا ہوا بڑھتا ہی رہا؟ہماری شان و شوکت کیوں
نقطۂ عروج تک پہونچ گئی؟کیا سبب تھا ان عظمتوں اور رفعتوں کا ؟کیا وجہ تھی
ان سربلندیوں اور کامیابیوں کی؟صرف ایک سبب تھا صرف ایک وجہ تھی…اور وہ تھی
…صحابۂ کرام کی رسولِ عربی (ﷺ) سے بے پناہ محبت و الفت اور انکی بارگاہ کے
تئیںکامل وفاشعاری …
وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی پامردی اور استقلال تھا،جو صحرا کی تپتی ہوئی
ریت پر ننگی پیٹھ اور سینے پر پتھر رکھے ہوئے مجسم زبان سے اشہدن محمد
الرسول اللہ کی گردان جاری رکھے ہوئے تھے…وہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا
شبابِ وفا ہی تھا، جو جلتے ہوئے انگاروں پر محمد الرسول اللہ کا ورد جاری
رکھے ہوئے تھا…لبینہ (رضی اللہ عنہا ) نامی لونڈی کا وہ عشقِ صادق ہی تھا،
جواپنے آقا کے نت نئے مظالم کے بعد بھی مزید شدت اختیار کرتا جارہا تھا…وہ
رسولِ مقبول (ﷺ) کی ایک فرمائش پر حضرت ابوبکر(رضی اللہ عنہ) کا گھر کا
ساراسامان لے آنا…وہ حضرتِ عمر (رضی اللہ عنہ) کا فیصلۂ سرکار نہ ماننے
والے کا تلوار سے فیصلہ فرمانا…وہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کا رسیوں سے
باندھ کر مارا جانا،پھر بھی محبتِ رسول میں سرشار رہنا…وہ حضرت علی کرم
اللہ وجہہ الریم کا درِ خیبر اُکھاڑپھینکنا…یہ تھا ان کا عشقِ صادق …اور یہ
تھی انکی وفاکی تصویر …جس کی وجہ سے اسلام سربلند ہوا… اسلامی حکومت کی
توسیع ہوئی …تین سو تیرہ بے سروسامان سرفروشانِ اسلام کافروں کے جملہ
اسلحوں سے لیس لشکرِ جرّار کو شکستِ فاش دی تھی… اور کون کون سے واقعات کی
یاد تازہ کروں؟
وفاکی کی اس عظیم تصیور سے آپ کا تعارف نہ کرواوں؟… وہ جاں باز جیالا اور
بہادر ،جری محبِ رسول (ﷺ) سرفرروش مجاہد جس کی آج شادی ہوئی ہے وہ شبِ
وصال اور حجلۂ عروسی کو ٹھوکر مار کررسولِ عربی(ﷺ) کی ایک آواز پر لبیک
کہہ کر جنگِ اُحد میں کود پڑا اور شہادت کے مرتبۂ عظمیٰ پر فائز ہوگیا جس
کا غسل ملائکہ نے دیا ۔کیا اُس جاں باز صحابی کانام لے کر میں مزید شرمندہ
کروں؟
اُنکی عظمت،اُنکا مرتبہ،اُنکا دبدبہ شان و شوکت،اُنکا جاہ وجلال مرہون ِمنت
تھا وفاے مصطفوی کا…اور آج؟ …ہم ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہیں کیوں؟…کیوں
کہ ؎
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
ہم میں وہ صدیق سی صداقت نہیں،عمر سا استقلال نہیں،عثمان سی سخاوت نہیں،علی
سی شجاعت نہیں ،بلال سے مؤذن نہیں،سعد سی جرأت نہیں،زبیر سا ایثار، خالد
سی سپہ سالاری اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سا عشقِ رسول اور
وفاے پیغمبری نہ رہی ۔قرآنِ حکیم میںواضح طور پر خدا کا فیصلہ سامنے آتا
ہے اور وہ خدا جو جھوٹا نہیں ہے ،صاف صاف اعلان فرماتا ہے’’تم ہی غالب
رہوگے اگر تم مومن ہو‘‘…تو کیا جذبۂ ایمانی کی روح،عشقِ رسول(ﷺ)،اطاعتِ
نبوی اور وفاے مصطفوی نہیں ہے،وہ قلت میں …بے سروسامانی میں…غربت و فاقہ
کشی میںبھی دشمنانِ اسلام کے لیے شمشیرِ بے نیام تھے،مگر آج قومی اور بین
الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی حالت ِ زار اظہر من الشمس ہے…قومی سطح پر
مسلماں ذلیل و خوار ہیں،تعصب وتنگ نظری کا شکار ہیں،اُنکا مذہب،اُنکی زبان
،اُنکاتمدن،اُنکی معیشت،اُنکی عزت،اُنکی عصمت اور اُنکی عفت کو تاراج کیا
جارہا ہے …تو بین الاقوامی سطح پر بیت المقدس چھن چکا ہے،دشمنانِ اسلام
نعوذ باللہ اب مکۂ معظمہ اور مدینۂ منورہ کی تاک میں
ہیں،ایتھوپیا،کمبوڈیا،کمپوچیاسامراج کے پنجۂ استبدا میں تلملا رہے
ہیں،فلسطین، لبنان،اردن، مصر اور شام اسرائیل سے لرزہ بر اندام ہیں۔عراق
،افغانستان امریکی اور برطانوی فوج سے لہو لہان ہے،جنوبی افریقہ بین
الاقوامی سیاست کا شکار ہے،برِّ اعظم افریقہ کے بیشتر مسلم ممالک عظیم قحط
کی صورت میں قہرِ خداوندی کے ہدف ہیں۔جبکہ اکثر مسلم ممالک خانہ جنگی کے
دہانے پر ہیں…
آج قومِ مسلم سائنس ،ٹیکنالوجی، تعلیم ، ترقی،سیاست،معیشت گویا ہر چیز میں
پیچھے ہے مگر غربت جہالت اور اخلاقی گراوٹ میں سرِ فہرست ہے۔چند ممالک اگر
پٹرول کی دولت سے مالامال ہیں تو وہاں شیوخ تفریحاً عیاشیوں کے عادی
ہیں،مسلم قوم تباہ ہوتی ہوتو ہو،مہاجرین بے گھر سڑتے ہوں تو سڑتے رہیں
،افغانستاو عراق کے پناہ گزین کیمپ میں پڑے رہیں،سری لنکا اور جنوبی افریقہ
کے مسلمان علاقائی سیاست اور لسانی تعصب کے شکار ہوتے رہیںتو ہوتے
رہیں،قبلۂ اوّل اور فلسطین کے مظلوم مسلمان سسک سسک کر آواز دیتے رہیں
لیکن ہم صرف یہی کہتے ہیں کہ ؎
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
لیکن ہم کسی کو الزام کیوں دیں ؟جنگِ بدر میںٹوٹے پھوٹے ہتھیاروں ہی سے تین
سو تیرہ سر بکف مجاہدینِ اسلام نے دشمنانِ اسلام کے لشکرِ جرّار کو ہزیمت
دی اور اسلام کو سر بلند کیا،اس دنیامیں، اس ملک میں ،اس شہر میں یا اس
پنڈال میں ہیں ایسے تین سو تیرہ مجاہد؟… اگر ہیں… تو آج پھر تاریخ اپنے
آپ کو دہرانے کے لیے بے قرار ہے مگر شرط یہ ہے کہ ؎
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
خدا حافظ! |