چیف جسٹس کی تاریخی بحالی اور مستقبل

پاکستانی غیور وکلاء، سول سوسائٹی اور پیپلز پارٹی سمیت عدلیہ بحالی کے لئے قربانیاں دینے والی سیاسی جماعتوں کی تحریک پاکستانی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ اور کریک ڈاﺅن کے باوجود کامیاب ہوگئی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور 3 نومبر کو معزول کئے گئے تمام ججز کو بحال کردیا گیا۔ بالآخر پاکستانی قوم ایک ایسے بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی جس نے پچھلے دو سال میں ان کو جکڑ رکھا تھا۔ 16 مارچ سے قبل جس طرح کے انتظامات کئے گئے تھے اور جیسے لانگ مارچ کے شرکاء کو پورے ملک میں روکا گیا، بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس سے مشرف کی آمریت بھی شرما گئی تھی اور یوں لگتا تھا کہ فسطائی ہتھکنڈوں کی وجہ سے موجودہ حکومت بس چند دن کی مہمان ہے اور نوزائیدہ جمہوریت کی بساط ایک مرتبہ پھر ”مجبوراً“ لپیٹ دی جائے گی۔ لیکن شکر کا مقام ہے کہ پاکستان کے وہ معتبر ادارے جن کی ساکھ کو ماضی قریب کی فوجی آمریت نے ملیا میٹ کردیا تھا، انہوں نے نہ صرف عوام کے جائز مطالبہ کو منوایا بلکہ ساری صورتحال سے کسی قسم کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش نہ کی جس کے لئے اپنے کیانی صاحب کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔

عدلیہ بحالی تحریک میں 15 مارچ کو جس طرح مسلم لیگ (ن) کے قائد نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوام کی قیادت کی اس سے وہ وطن عزیز کے سب سے بڑے رہنما کے طور پر ابھرے ہیں۔ اگر نواز شریف وہ تاریخی لمحہ ضائع کردیتے تو اسلام آباد پہنچنے والے وکلاء اور دیگر لوگوں کے ساتھ تو جو ہوتا سو ہوتا لیکن نواز شریف بھی اس طرح پورے پاکستان کے عوام کے دلوں پر راج نہ کررہے ہوتے۔ بس ایک لمحے کی بات تھی کہ نواز شریف نے وہ فیصلہ کیا جس کی امید بہت کم لوگوں کو تھی، راقم نے کچھ روز پیشتر اپنی معروضات میں نواز شریف کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی کہ ”پنجاب حکومت آنی جانی چیز ہے، اگر لوگوں کے دل کی آواز سن کر فیصلہ کیا گیا تو پنجاب حکومت کیا، پاکستان کی حکومت بھی زیادہ دور نہیں“ ۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ جس طرح نواز شریف کی قیادت میں عوام نے عدلیہ کی بحالی کا قلعہ فتح کیا وہ نواز شریف کا ایک نیا کردار ہے۔ اب جبکہ عدلیہ بحالی کا معرکہ سر کر لیا گیا ہے اور تمام معاملات اپنے منطقی حل کی جانب گامزن ہیں، وہ کیا کردار ہے جو قوم کے سنجیدہ حلقوں کے مطابق مسلم لیگ اور خصوصاً نواز شریف کو ادا کرنا چاہئے ؟ یقیناً نواز شریف کو بھی اس کردار کا ادراک ہوگا جو قوم ان سے چاہتی ہے۔

لانگ مارچ کے دوران بعض جماعتوں اور ان کے رہنماﺅں کی جانب سے صوبائی تعصب اور بغض کا برملا اظہار کیا گیا، اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے نواز شریف کو فوری طور پر پورے ملک، خصوصاً لاڑکانہ سمیت اندرون سندھ اور بلوچستان کا طوفانی دورہ کرنا چاہئے۔ انہیں ممتاز بھٹو سمیت دوسرے قوم پرست لیڈروں ، غنویٰ بھٹو اور فاطمہ بھٹو سے بھی رابطہ کرنا چاہئے بلکہ فاطمہ بھٹو کے سر پر ایک پاکستانی بزرگ کے طور پر ہاتھ رکھنا چاہئے۔ انہیں طلال بگٹی سمیت بلوچستان کے حقیقی رہنماﺅں سے بھی از سر نو رابطے شروع کرنے چاہئیں ۔ نواز شریف کو حقیقی معنوں میں ایک ”بزرگ“ کا کردار ادا کر کے ایم کیو ایم سمیت ملک کی ان تمام قوتوں سے بھی رسم و راہ بڑھانے چاہئیں جو عدلیہ بحالی تحریک کی مخالف سمجھی جاتی تھیں۔ تاکہ انہیں قومی دھارے میں واپس شامل کیا جائے۔ انہیں چاہئے کہ وہ جماعتیں جو اس وقت پارلیمنٹ سے باہر ہیں ان سے بھی مسلسل رابطے میں رہیں اور ان جماعتوں سے بھی رابطہ رکھیں جو اس وقت حکومت میں ہیں۔ نواز شریف کو اس وقت قدرت نے ایک بہترین موقع عنائت فرمایا ہے، پوری قوم کو امید ہے کہ جس طرح انہوں نے عدلیہ بحالی تحریک میں اس عظیم لمحہ سے فائدہ اٹھایا ہے اسی طرح وہ پوری قوم کو جمع کرنے کا موقع بھی ہرگز ضائع نہیں کریں گے، اس وقت نواز شریف بجا طور پورے پاکستان کا لیڈر اور بزرگ ہے، پوری قوم ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے، اس وقت موقع ہے کہ سیاستدانوں سے ماضی میں جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان کا کفارہ ادا کیا جائے۔ اگر مسلم لیگ (ن) مرکزی حکومت میں دوبارہ شامل نہ بھی ہو تب بھی موجودہ حکومت کو پورے پانچ سال کا وقت ملنا چایئے۔ البتہ اگر موجودہ حکومت خدانخواستہ دوبارہ سے غیر آئینی و غیر قانونی کام کرے یا کرنے کی کوشش کرے تو اسے اسمبلی اور اسمبلی کے باہر، ہر جگہ سمجھانا بھی ہو گا اور روکنا بھی ہوگا۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں صرف اور صرف پاکستان اور اس کے عوام کے مسائل کو سلجھانے پر آجائیں اور اپنا ایجنڈا اس کے مطابق بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ پاکستان بھی ترقی نہ کرسکے، یہاں کے عوام خوشحال نہ ہوں اور امن و امان نہ ہو!

سپریم کورٹ جو اس وقت صحیح معنوں میں آزاد ہوچکی ہے اس کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا اور نہ صرف آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے بلکہ عوام نے جو توقعات سپریم کورٹ اور خصوصاً جسٹس افتخار چودھری سے وابستہ کی ہیں ان کو بھی کماحقہ پورا کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ کو اپنی غیرجانبداری بھی ثابت کرنا ہوگی اور اپنے حلف کی پاسداری بھی کرنا ہوگی۔ سپریم کورٹ سمیت تمام اعلیٰ و ادنیٰ عدلیہ کی نہ صرف تطہیر کی جائے بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے بنیادی ڈھانچوں میں اصلاحات کی جائیں، اگر حکومت اور اس کے ادارے اپنے فرائض آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پوری طرح ادا کریں تو سپریم کورٹ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ از خود اختیارات کے تحت کارروائی کرے؟ اگر ایک غریب کو اس کی دہلیز پر انصاف مہیا ہواور پولیس کے پاس ہی اس کی شنوائی ہوجائے تو اسے صرف ایف آئی آر درج کروانے کےلئے عدالتوں میں تو نہ جانا پڑے۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ نواز شریف سمیت تمام سیاستدانوں اور عدلیہ کو پرویز مشرف کو ہرگز معاف نہیں کرنا چاہئے، پرویز مشرف کو اس ملک کے آئین اور یہاں کے عوام کو روندنے کے جرائم میں زیادہ سے زیادہ سزا دینا از حد ضروری ہے، تاکہ دوبارہ کسی آمر کو آئین اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور شبخون مارنے کا حوصلہ نہ ہو اور ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لئے کوئی اچھی روایات بھی چھوڑ جائیں
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206908 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.