(گزشتہ سے پیوستہ) جموں و کشمیر
ہائی کورٹ کے فاضل جج حسنین مسعودی نے اپیل محمد نسیم بھٹ بنام بلقیس اختر
میں اپنے اس موقف کی تائید میں کہ شریعت نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا جو
اختیار اس کے شوہر کو دیا ہے وہ ’ مطلق ‘ (absolute) نہیں ہے، سورہ طلاق کی
ابتدائی دوآیات سے یہ استدلال کیا ہے کہ طلاق کےلئے قرآن کچھ شرائط عائد
کرتا ہے۔ اپنے فیصلے میں وہ اس استدلال کو مزید مستحکم کرتے ہوئے کتب
احادیث سے ایک صحیح روایت کا حوالہ دیتے ہیں اورلکھتے ہیں:
طلاق کو قانوناً درست اورقرآن و سنت کے مطابق ہونے کےلئے یہ ضروری ہے کہ وہ
مدَّت طُہر (ماہواری ختم ہونے کے بعد بغیر اس کے کہ اس کے بعد خلوت کی ہو)
دی جانی چاہئے۔ علاوہ ازیں یہ کہ اگر شوہر ایام ماہواری کے بعد بیوی سے ہم
بستری کرلیتا ہے تو اس کےلئے اس مُدَّت طُہر میں طلاق دینا ممنوع ہے۔ اب
اگر وہ اپنے طلاق کے ارادہ پر قائم ہی رہتا ہے تو اسے اگلی ماہواری کے ختم
تک رکنا پڑیگا۔ اس قانونی پوزیشن کی تائید حضرت عبد اللہ بن عمرؓکے کیس سے
ہوجاتی ہے جس کوسبھی کتب احادیث نے نقل کیا ہے۔روایت کیا گیا ہے کہ حضرت
عبداللہ بن عمر ؓنے اپنی زوجہ محترمہ امینہ بنت غفارؓ کو ایام ماہواری کے
دوران طلاق دیدی۔حضرت عبداللہؓ کے والد جناب عمربن خطاب رضی للہ تعالیٰ عنہ
نے جب اس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو دی تو آپ نے فرمایا کہ
وہ اپنی بیوی سے رجوع کریں، اگر طلاق دینے کے ارادے پر مصر ہیں تو اگلی
مُدَّت طُہر کے دوران دیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایام ماہواری کے
دوران طلاق دینا سختی سے منع ہے اور اس حکم کی خلاف ورزی یا اندیکھی کرنے
سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ قرآن یہ حکم کیوںدیتا
ہے کہ طلاق ایام طُہر میں ہی دی جانی چاہئے اور سنت نبوی اس حکم پر عمل
کرنے پر اصرار کیوں کرتی ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓکے واقعہ سے ظاہر
ہے۔قرآن کے احکامات کے مطابق ایام ماہواری میں شوہر کو بیوی سے قربت نہ
کرنے کا حکم ہے۔ ایسی صورت میں کہ بیوی تک اس کی رسائی نہیں ہے ، عین ممکن
ہے کہ خود اپنے اوپر اور اپنے خاندان کے اوپر پڑنے والے طلاق کے اثر ات کا
صحیح تناظر میں ادراک نہ کرسکے۔ جب کہ وہ ایسی صورت میں بیوی کی اہمیت کو
زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کا اہل ہوگا جب بیوی تک اس کی رسائی ہوگی اوروہ
ازدواجی رشتہ سے لطف اندوز ہونے اور بیوی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی پوزیشن
میں ہوگا۔ یہ صورت شوہر کے طلاق دینے کے ارادے کو کمزور کردیگی۔ ایام طُہر
کے دوران ایسی صورت میں جب کہ زوجین کے درمیان خلوت ہوگئی ہو، طلاق دینے سے
روکنے کی حکمت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ طلاق دینے میں جتنی ممکن ہو تاخیر ہو
جائے تاکہ شوہر کو اپنے ارادے پراز سر نو غور کرنے کا موقع مل جائے۔ ایک
مُدَّت طُہر میں جنسی تعلق کے بعد اگر عورت کو مقررہ وقت پر ماہواری
نہیںہوتی تو یہ استقرار حمل کی علامت سمجھی جائیگی اور ہوسکتا ہے یہ علم
ہوجانے کے بعد کہ وہ بچے کا باپ بننے والا ہے،شوہر طلاق کے ارادے کو ترک
کردے۔حتمی مقصد یہ ہے کہ ایسی صورت پیدا کی جائے کہ جس سے رشتہ ازدواج
برقرار رہے اور خاندان ٹوٹنے سے بچ جائے۔
طلاق کے قانوناًدرست ہونے کےلئے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ طلاق دو گواہوں
کی موجودگی میں دی جائے، بلکہ قرآن یہ متعین کرتا ہے کہ گواہ کیسے ہوں۔قرآن
اس بات پر زور دیتا ہے گواہ انصاف پسندہوں۔اس شرط کی مصلحت یہ ہے کہ عدل کے
تقاضوںکو محسوس کرتے ہوئے وہ زوجین کو ہر ممکن حد تک سمجھائیں بجھائیں، ان
کو طلاق کے ارادے سے بازرہنے کی تقلین کریں،ان سے گزارش کریں ، ان کو شانت
کریں، ان کے درمیان وجہ اختلاف کو دور کرائیں تاکہ وہ پرامن ازدواجی زندگی
بسر کرسکیں۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ بشمول نان و نفقہ شادی کے بعد
شوہر پر بیوی کی جتنی بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہےں ان سے بچنے کا حیلہ
تلاش کرنے کےلئے یہ دعوا کرنا یا یہ ثابت کردینا کہ اس نے بیوی کو طلاق
دیدی ہے ،کافی نہیںہے۔ بلکہ بیوی کی ذمہ داریوں سے برات حاصل کرنے کےلئے اس
کو لازماً یہ حجت پیش کرنی ہوگی اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ (الف)شوہر اور
بیوی کی طرف سے مقرر (ایک ایک منصف مزاج) حَکَم نے زوجین کے درمیان
اختلافات دور کرانے اور تنازعہ کو حل کرانے کےلئے (مشترکہ طور سے ) مداخلت
کی تھی اور کوشش کی تھی اورپھر ایسی وجوہ سے جن کو شوہر کی طرف منسوب نہیں
کیا جاسکتا، کوشش مصالحت و رفع اختلاف کی مساعی کامیاب نہیں ہوئی۔ (ب) بیوی
کو طلاق دینے کی اس کے پاس کوئی معقول وجہ تھی۔(ج) طلاق ایام طُہر میں دی
گئی اور اس مُدَّت طُہر کے درمیان شوہر نے بیوی سے ہم بستری نہیں کی تھی۔
شوہر کی طرف سے مندرجہ بالا نکات پر حجت پیش کرنے اور ان سب کو ثابت کرنے
کے بعد ہی طلاق نافذ ہوگی اور شادی ٹوٹے گی۔ اسی کے بعد شوہر اپنی بیوی کی
جملہ ذمہ داریوں، بشمول ادائیگی نان نفقہ سے سبکدوش ہوسکے گا۔ اس طرح کے
تمام کیسوں میں عدالت شوہر کی طرف سے پیش دلائل کو سختی سے جانچ کریگی اور
قاطع ثبوتوںپر زور دیگی۔
ہمارے سامنے جو کیس ہے اس میں اپیل کنندہ مذکورہ بالا عناصر (نکات) کو ثابت
کرنے میں ناکام رہا ہے جن کے ثابت ہوجانے کے بعد ہی ،اس کے بیان کے مطابق
اس نے جو طلاق دی ہے وہ نافذ ہوتی اور رشتہ ازدواج منقطع ہوجاتا۔ اگرچہ
ایسا لگتا ہے کہ اس کی طرف سے یہ ثابت کرنے کی ایک کمزور سی کوشش کی گئی ہے
کہ طلاق دئے جانے سے پہلے فریقین کے خاندانوں کے بڑے بزرگوں نے مصالحت
کرانے کی کسی طرح کی کوشش کی تھی ، لیکن یہ دلیل اس کےلئے کسی کام کی نہیں
کیونکہ طلاق کے نافذ ہونے کےلئے مذکور مندرجہ بالا تمام شرطوں کا پورا ہونا
ثابت نہیں کیا گیا ہے۔
چنانچہ مذکورہ بالا وجوہ سے اپیل کنندہ کی درخواست کو خارج کیا جاتا ہے اور
رویزنل کورٹ (Revisional) کے حکم کو برقرار رکھا جاتا ہے اور مجسٹریٹ کی
عدالت کو حکم دیا جاتا ہے کہ فریقین کو نوٹس جاری کرکے اس کیس پر از نو غور
و خوض کرے ۔ ٹرائل کورٹ سب سے پہلے فریقین کی جانب سے پیش دلائل کی بنیاد
پر نان و نفقہ کی عبوری رقم طے کریگا جو اپیل کنندہ مدعیہ کو ادا کریگا ۔
عدالت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ راحت کی مقررہ رقم اس تاریخ سے جو عدالت
طے کرے ، حکم صادر کرنے کے چار ہفتوں کے اندر اندر مدعیہ کوادا کردی جائے۔
دستخط حسنین مسعودی، جج سرینگر، مورخہ 30.04.12
جیسا کہ اس مضمون کے ابتدای حصہ میں عرض کیا گیا تھا کہ بعض حلقوں نے اس
فیصلے کو ”شریعت مطُہرہ میں عدالت کی مداخلت “ قرارددیا اور اس کے خلاف
سرگرم ہونے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔اس حکم کے خلاف نظر ثانی کی دو درخواستیں
عدالت نے سماعت کےلئے منظور کرلی ہیں۔ توقع ہے کہ سماعت دسمبر کے پہلے ہفتہ
میں ہوگی۔ ایک درخواست جسٹس (ریٹائرڈ) بشیر احمد کرمانی کی جانب سے اور
دوسری بارکونسل جے اینڈ کے ہائی کورٹ کی جانب سے دائر ہوئی ہے۔ بشمول جماعت
اسلامی جموں و کشمیر کئی تنظیموں نے نظر ثانی اپیل کا خیر مقدم کیا ہے اور
دلیل دی ہے کہ اگرچہ اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک نشست میں طلاق ثلاثہ سخت
گناہ ہے ،مگر اس طرح طلاق مغلظہ نافذ ہوجاتی ہے۔ جماعت کے ترجمان ایڈوکیٹ
زاہد علی نے ۹ نومبر کو اس فیصلے کے سلسلے جو تفصیلی بیان دیا ہے اس میں
کہا گیا ہے کہ جسٹس مسعودی نے قران اور حدیث کو جو تشریح کی ہے اور ان سے
جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ درست نہیں ہےں۔ اب یہ معاملہ ا یک نئے زاویہ ساتھ
عدالت میں پہنچ گیا ہے۔ اس لئے اس پر کوئی تبصرہ کرنا یا رائے دینا مناسب
نہیں۔البتہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر بھی کیونکہ طلاق بدعی کی پیروی میں
سرگرم ہوگئی ہے ،اس لئے مناسب معلوم دیتا کہ ان کی توجہ طلاق کے معاملے میں
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی رائے کی جانب مبذول کرائی جائے، جس کی
روشنی میں یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے تائید و حمایت کس چیز کی کی جارہی ہے؟
کھلی ہوئی معصیت کی یا قرآن و سنت میںمذکور طریقہ کار کی؟ ”تفہیم القرآن“
میں سورة البقرة کی آیت 229 کی تشریح (نمبر 250) میں مولانا مودودی ؒفرماتے
ہیں:
” طلاق کا صحیح طریقہ جو قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے، یہ ہے کہ عورت کو
حالتِ طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے۔ اگر جھگڑا ایسے زمانے ہو جبکہ عورت
ایام ماہواری میں ہے ،تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں ہے۔ ایام سے
فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہئے۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے تو
دوسرے طُہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دےدے، ورنہ بہتر یہ ہے کہ پہلی ہی طلاق
پر اکتفا کرے۔ اس صورت میں شوہر کو یہ حق حاصل رہتا ہے کہ عدّت گرزنے سے
پہلے پہلے جب چاہے رجوع کرلے اور اگرعدّت گزر بھی جائے تو دونوں کےلئے موقع
باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرلیں ۔ لیکن تیسرے طُہر
میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کو رجوع کرنے کا حق باقی رہتا
ہے اور نہ اس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے۔ رہی یہ
صورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں ، جیسا کہ آج کل جہلا کا
عام طریقہ ہے، تو یہ شریعت کی رو سے سخت گناہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے اس کی بڑی مذمت کی ہے اور حضرت عمر ؓسے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک
وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتاتھا آپ اس کے کوڑے لگاتے تھے“۔
بہر حال اب یہ معاملہ عدالت کے زیر غور ہے اور توقع ہے کہ نظر ثانی اپیلوں
کی سماعت کے دوران تمام پہلوﺅں پر سیر حاصل بحث ہوگی۔امید ہے کہ یہ
ہندستانی عدالتی تاریخ کاایک اہم کیس بنے گا اور ان مسلم خواتین کے حقوق
نان نفقہ کےلئے ایسی نظیر سامنے آجائےگی جوشوہروں کے جوش غضب کا شکار ہوکر
گھر بدر کردی جاتی ہیں اور پھر کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور
ہوتی ہیں اور اس کرب کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوتی ہےں کہ دین رحمت کے سائے
میں ان کو ظلم اور ناانصافی کا شکار بنادیا گیا۔ اس ستم ظریفی کایہ پہلو
بڑا ہی عبرت ناک ہے کہ طلاق بدعی کا گناہ تو سرزد ہوتا ہے دین سے بے بہرہ
مردسے ،مگرطلاق بدعی کو سند جواز عطا کئے جانے کے نتیجہ میں زندگی
اصلاًعذاب ہوتی ہے عورت کی۔(ختم) |