وطنِ عزیز پاکستان میں آج کل ڈر
خوف اور پریشانی کا موسم ہے۔محرم کا ماہِ مقدس ہے۔مسلمان عشرہ فارق و حسین
رضی اللہ عنھما منا رہے ہیں ۔اس میں عدلِ فاروقی کی واعظین بات کرتے ہیں
اور اس کے ساتھ عزادارانِ کربلا نواسہ رسول ﷺ کی عزت و تکریم ان کی لازوال
قربانی اور ان کی سیرت،ان کے اہل خانہ پہ توڑے جانے والا وحشیانہ مظالم کا
ذکر کرتے اور عوام کو فکرِ حسینی اختیار کرنے کی دعوت دیتے نظر آتے
ہیں۔تاریخِ اسلام کے یہ دونوں عظیم کردار شہید کیے گئے۔وطن عزیز میں
مسلمانوں کے متحارب گروہوں کی قتل و غارت دیکھ کے مجھے تو یوں محسوس ہوتا
ہے کہ شاید ہمی لوگ ان ہستیوں کی شہادت کے ذمہ دار ہیں کہ قدرت آج تک ہم سے
اس کا انتقام لے رہی ہے۔ہمارے اندر ہی سے لوگ اٹھتے ہیں اور اپنے ہی
بھائیوں کو خاک و خون میں ڈبو کر رکھ دیتے ہیں۔تشدد ہماری رگوں میں سرایت
کر گیا ہے۔دلیل کارگر ہی نہیں رہی۔ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کی بات سننے کو
تیا رنہیں۔بس ہم خنجر بکف ہیں اور جہاں کہیں ہمیں کوئی ایسی جگہ نظر آتی ہے
جہاں یہ خنجر گھس سکے ہم اس کے استعمال میں دیر نہیں کرتے۔
ہم غیروں کو الزام دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک میں بد امنی اور قتل و غارت کا
باعث ہیں لیکن کلہاڑی کے دستے کے طور پہ خود لکڑی کا دستہ کلہاڑے کے ساتھ
مل کے درخت کاٹ رہا ہے۔غیر مسلم تو چھوڑئیے خود مسلمان ممالک بھی پاکستان
میں اپنا اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہمارے ہاں چونکہ پاکستانی بھی کوئی
نہیں اور مسلمان بھی کم ہی ہیں ۔یہاں سندھی ہیں ۔بلوچی ،پٹھان اور پینجابی
ہیں۔یہاں مہاجر کشمیری اور گلگتی ہیں۔پھر یہاں سنی ،وہابی، بریلوی ،دیوبندی
،اہل حدیث ،شیعہ اور پھر آگے شیعہ میں بھی بہت سارے گروہ، کوئی آغا خانی تو
کوئی اثنا ءعشری،غرض یہ کہ خدا جانے کون کون ہے جو اس آ گ پہ پٹرول چھڑک
رہا ہے۔آئے روز لاشیں گرتی ہیںلیکن مجال ہے جو کوئی اس بارے میں فکر مند
ہو۔اب تو یہ عالم ہے کہ اس معاملے نے ہر ایک گھر سے اپنا حصہ وصول لیا ہے
لیکن اس کے باوجود مجال ہے کہ جو کوئی اس کے بارے میں سوچنا چاہتا ہو۔بس
لوگ خنجر بکف ہیں اور ان کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے اور دماغ بہتری کا
راستہ تلاش کرنے سے عاری ہیں۔
دوسری طرف ایک اور ڈرامہ جاری ہے۔کوئی فوجی شب خون کی نوید سنا سنا کے
لوگوں کو مایوس کر رہا ہے۔کسی کو عدلیہ کی حکمرانی کے خواب آ رہے ہیں اور
کوئی پاکستان کو خاکم بدھن صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھائی دے رہا ہے۔چونکہ
قیادت کا نہ تو کوئی فہم ہے اور نہ ہی وہ مستقبل بین ہے ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ
باہر کچھ کہتے ہیں اور اندر بیٹھ کے منصوبے کسی اور چیز کے بناتے ہیں۔سچ
بولنا عنقا ہو گیا ہے۔چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت پہ انعام الرحیم کی
رٹ کو بنیاد بنا کے پیالی میں طوفان کھڑا کیا جا رہا ہے۔کوئی کیا ڈرامہ کر
رہا ہے کوئی کیا بحث کر رہا ہے اور کوئی مقدمے کے دوران ہی ٹی وی شو کر کے
عدلیہ پہ اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔قانون موجود ہے۔اگر یہ تعیناتی
غیر قانونی ہے تو خود بخود ختم ہو جائے گی اور اگر قانونی ہے تو عدالت اس
کا فیصلہ کر دے گی۔مقدمے کے دوران اس پہ رائے کے اظہار پہ پابندی ہے تو
عدالت پھر ان ٹی وی اینکرز اور ان کی انتظامیہ کے خلاف قانونی کاروائی کر
کے انہیں روکتی کیوں نہیں۔آخر ہم ایک ادارے پہ اعتبار کیوں نہیں کر
لیتے۔قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں۔بالفرض اگر جنرل کیانی عمر کی زیادتی
کی بناءپہ ریٹائر ہو بھی جاتے ہیں تو کیا ان کی جگہ کوئی ٹی وی اینکر لے
گا۔یا کسی جیالے کو یا جج کو چیف آف آرمی سٹاف بنایا جا سکے گا۔اگر ایسا
نہیں تو پھر واویلا کس بات کا۔یہ بھی کیا ضرور ہے کہ نیا آنے والا جنرل
کیانی کی طرح جمہور کی حکمرانی ہی کا حامی ہو گا۔کیا یہ ضروری ہے کہ وہ بھی
فوج کے مزاج کے بر عکس فوج کو ان ساری خرافات سے دور ہی رکھے گا جن کے لئے
جنرل کیانی نے اپنے دور قیادت میں مسلسل محنت کی۔
ایک تھیوری اور بھی ہے کہ الیکشن ملتوی کر کے سخت احتساب کیا جائے۔بات دل
کو لگتی ہے۔دل بھی یہی چاہتا ہے۔پبلک بھی یہی ڈیمانڈ کرتی ہے کہ بلا لحاظ
احتساب ہو۔چوروں ڈاکوﺅں اور لٹیروں کے پیٹ چیر کے انہیں چوکوں میں لٹکایا
جائے لیکن یہ تو خون رنگ انقلاب کا منظر نامہ ہے۔اس کا ابھی شاید ہمارے ہاں
وقت نہیں آیا۔قدرت انسان کے سدھرنے کے تمام مواقع دیتی ہے اور اس کے بعد ہی
پھر وہ لمحہ آتا ہے جب لوگ سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔اس طرح کا
احتساب کرے گا کون؟ سیاست دان تو سب سے زیادہ گردن زنی ہیں۔بیرو کریٹ تو
خود چوروں کی نانیاں ہیں۔عدلیہ ابھی خود ہی اتنی بالغ نظر نہیں کہ غیر
متنازعہ ہو۔اس کے کل کے ڈرائیور آج اس کے سب سے بڑے ناقد ہیں۔فوج خود کٹہرے
میں کھڑی ہے تو ایسے میں بقول عمران خان فرشتے کہاں سے آئیں گے جو بلا لحاظ
احتساب کریں گے۔
اس لئے بہتر یہی ہے کہ مسلمان بنیں۔فرقہ واریت کے جن پہ قابو پائیں اور پھر
پاکستانی بنیں اور قانون کو اپنی راہ لینے دیں۔اداروں کو مضبوط کریں۔دھونس
اور دھاندلی کو ترک کریں اور ہر ایک کو قانون کے سامنے جوابدہ کر دیں تو
معاملات خود بخود بہتر ہو جائیں گے۔قوموں اور معاشروں پہ یہ وقت آیا کرتے
ہیں جب راست تاریک ہو جاتے ہیں جب روشنی کی کوئی کرن کہیں سے نظر نہیں آتی
لیکن اس وقت بھی قدرت ایسے لوگوں کا ہاتھ تھام لیتی ہے جنہیں بھلے کی آس
اور امید نے زندہ رکھا ہوتا ہے۔جب تک بادشاہ اور مزدور کے لئے قانون برابر
نہ ہو گا ڈر خوف اور پریشانی کا یہ موسم قہر بن کے وطنِ عزیز پہ سایہ فگن
رہے گا- |