احوال مولائے کائنات

نام کتاب:احوال مولائے کائنات
مصنف :حضرت مولاناسید شاہ بدرالدین مجیبی قادریؒ
تخریج وتحشیہ:مولانا سید شاہ محمد آیت اللہ مجیبی قادری
صفحات:۲۴۶قیمت:۱۴۰روپے
ناشر:دارالاشاعت،خانقاہ مجیبیہ،پھلواری شریف،پٹنہ
مبصر:نورین علی حق،دہلی

مولائے کائنات اسد اللہ الغالب حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذات والا صفات ہر زمانہ میں موثر اور مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل رہی ہے اور رہے گی۔ البتہ ہندستان میں مولائے کائنات کی عظمت کا سکہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ نے رائج کیا اور ان کے بعد ہر زمانہ کی خانقاہیں ہندستانی عوام کو در علی تک پہنچانے میں ممد ومعاون ثابت ہوتی رہی ہیں۔ اور اہل بیت اطہار کی عظمت، رفعت، سربلندی، اعلی مرتبت کو اس طرح ہندستانیوں کے دلوں میں پیوست کیا کہ عرصہ دراز سے جاری جمہور اکثریت سے کٹ کر گم گشتہ راہ اقلیت کا اہل بیت اطہار مخالف فیشن بھی ہندستانیوں کے دلوں سے اہل بیت اطہار کی عظمتوں کونکال نہ سکا۔

خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف پٹنہ اپنی خدمات، سرگرم نمائندگی اور بے شمار نابغہ روزگار شخصیات کا مولد ومدفن ہونے کی وجہ سے محتاج تعارف نہیں ہے ،یہاں سے ہر زمانہ میں ملت اسلامیہ کی ناقابل فراموش راہ نمائی کی جاتی رہی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، البتہ قلیل عرصہ سے چند جاہلین ملت اسلامیہ کے ایک گروہ نے اس کے خلاف بھی پروپیگنڈہ شروع کر رکھاہے مگر میں جب جب خانقاہ مجیبیہ، اس کے ذریعہ شائع تصانیف، وہاں کی عبقری شخصیات پر اپنی کمزور نظر ڈالتا ہوں تو ہمیشہ ہی وہ پوری طرح غیر متاثرصوفیت کا منبع اور آداب ورسوم خانقاہی کا سرچشمہ اور طالبان راہ سلوک کی سیرابی کا ذریعہ نظرآتی ہے۔ اسی خانقاہ عالی شان کے ایک معروف ومشہور اور پایہ کے عالم ومدبر حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین مجیبی قادری رحمۃ اللہ علیہ ، سجادہ نشین گزرے ہیں ،جن کی تائید وحمایت سے بہار کے کئی اہم ادارے پروان چڑھے۔

حضرت مولائے کائنات کے حوالہ سے معارف، پھلواری شریف میں بالاقساط ان کے شائع شدہ مضامین کا مجموعہ بہ مسمی ’’احوال مولائے کائنات‘‘ ناچیز کے پیش نظر ہے، جسے ۲۰۱۲ میں پہلی بار دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف پٹنہ سے موجودہ سجادہ نشین حضرت مولانا الحاج سید شاہ محمد آیت اللہ مجیبی قادری کی تخریج و تحشیہ کے ساتھ شائع کیاگیا ہے۔ صاحب کتاب کا اسلوب انتہائی سادہ وسلیس اورد لچسپ ہے۔ عرصہ پہلے بھی حضرت نے مضامین لکھنے کے لیے گہرا و عمیق مطالعہ کیا۔ اور تصوف وصوفیہ کے طریق کار کو پیش نگاہ رکھ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی سوانح عمری اور حالات درج فرمائے، کتاب میں شامل مضامین کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ صاحب کتاب نے اپنی تمام تر مصروفیات، بے شمار امور خانقاہی وامارت کی ادائیگی اور اس دور میں سرگرم ومتحرک ہونے کے باوجود تحریری ثقاہت، تحقیقی ندرت اور اسلوبی کشش کو بحال رکھا۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے صوفیانہ مشرب کو بھی وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ اپنے ممدوح کا حق بھی ادا ہوجائے اور بے جا اختلاف وانتشار بھی نہ پھیلے۔ میں یہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کے بیان کے بعد کا ایک اقتباس نقل کررہاہوں۔ جسے پڑھ کر مصنف کے مطمح نظر کو سمجھا اور محسوس تو کیا جاسکتا ہے البتہ اپنی زبان بند رکھنے میں ہی بھلائی ہے کہ بصورت دیگر خود خانقاہ مجیبیہ کے مفتی صاحب آپ کو گرفت میں لے لیں گے، جوان کا حق ہوگا۔

’’ازواج مطہرات واہل بیت و عترت اطہار حضرت خاتم رسالت اور عموما کل دوستوں کی آنکھوں میں آفتاب فلک چہارم خلافت راشدہ کے دفعتاً غروب ہوجانے سے دنیائے اسلام پر تاریکی چھاجانا تو ضروری ہی نظرآنا چاہئے تھا۔ آپ کی وفات سے آپ کے خلاف رہنے والے بھی متاثر ہوئے۔ حضرت معاویہ جن سے آپ کی خلافت کے زمانے میں جنگ وجدال رہا ان کو جب آپ کی وفات کی خبر پہنچی تو کہا کہ ابن طالب کی وفات سے فقہ وعلم چلا گیا۔ عتبہ نے (جو اس وقت موجود تھے) کہا کہ آپ کا یہ کہنا کہیں اہل شام نہ سن لیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا تم اپنی نصیحت رہنے دو۔ جب انہوں نے آپ کے علم وفقاہت کا اعتراف اور آپ کی وفات سے اس نقصان عظیم پر افسوس کا اظہار کیا توآپ کی جدائی میں دوستوں کاحال اوران کے حزن وملال اورمتحسرانہ اقوال کو اس پر قیاس کرلینا چاہئے۔‘‘(۱۵۶)

اس اقتباس سے حضرت کے اسلوب کا بھی پتہ چلتا ہے اور مطالعہ کا بھی۔ جملوں کی ساخت، الفاظ کی نشست وبرخاست اور تراکیب بہت ہی دلچسپ اور کسی طرح معاصر اسلوب سے کم نہیں ہے۔ حالانکہ اسی زمانہ میں بعض اہم اور دقاق علمافتاویٰ نویسی کررہے تھے اور اپنی دیگر تحریر میں بھی فتویٰ نویسی کی ہی زبان استعمال کررہے تھے ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج خود انہی کے چاہنے اور ماننے والے ان کی تصانیف کے متن کی قرأت سے عاجز ہیں۔ جب کہ مصنف احوال مولائے کائنات، انتہائی شستہ اور شگفتہ زبان استعمال کررہے تھے ،چونکہ خانقاہیت تصنع اور بناوٹ کوپسندنہیںکرتی۔ مرید ومراد، مرشد و مسترشد اوراسلام ومسلمین میں تفہیم کی راہ ہموار کرتی ہے۔ وہاں ہم پلہ نہیں نچلے پائیدان پر کھڑے عوام کی صلاحیت پر خصوصی توجہ اور ان کی افہام وتفہیم کو اہمیت دی جاتی ہے۔

حضرت مولانا بدرالدین قادری پھلواروی رحمۃ اللہ علیہ نے اختصار وایجاز اورعظمت وتقدس کی بقا کے ساتھ حضرت مولائے کائنات کی زندگی کو سمیٹا ہے۔ پوری ذمہ داری کے ساتھ حالات زندگی بیان کیے ہیں۔ کہیں بھی تحقیقی سطح پر غیر ذمہ دارانہ رویہ یا تساہلی کی بنیاد پر سنی سنائی بات نقل نہیں کرتے ان کے پاس ہر واقعہ اورحالات کے لیے کئی کئی حوالہ جات موجود ہیں۔کتاب میں حضرت مولائے کائنات کی ولادت، پرورش وپرداخت، قبول اسلام، اسلام کی اشاعت کے لیے آپ کی جانفشانی، غزوات میں شرکت، سریر آرائے خلافت ہونا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مواخاۃ، شہادت وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اور اخیر میں حضرت مولائے کائنات کے حکیمانہ اقوال حروف تہجی کی رعایت کے ساتھ درج فرمایا ہے ۔ان اقوال کودرج فرمانے سے پہلے کئی کتابیں پڑھی ہیں اور پوری تحقیق وجستجو کے بعد اقوال مولائے کائنات کو درج فرمایا ہے۔ البتہ تخریج وتحشیہ اس میں حضرت مولانا آیت اللہ مجیبی قادری نے درج فرمایا ہے اورانہوں نے بھی حضرت والا کے مقاصد اور تحقیقی رویوں کو پیش نظررکھا ہے۔ اس دور میں جب حضرت مولانا بدرالدین مجیبیؒ مضامین لکھ رہے تھے اس وقت حوالہ جات اور حاشیہ ٓارائی کا آج کی طرح رواج نہیں تھا۔ جب کتاب چھپ رہی تھی تواس کا رواج ہوگیاتھا جسے محسوس کرکے حاشیہ نگار نے بھرپور محنت کی ہے اور صرف تخریج وتحشیہ کے اندراج کے لیے کئی کئی سو صفحات کا مطالعہ کیا ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے قارئین کی اس فکر کو مزید تقویت ملی ہے کہ خانقاہ مجیبیہ کے موجودہ سجادہ نشین ،موجودہ سجادہ نشینی کے غالب رجحان سے کٹ گئے ہیں۔ اور نئی نسل کے چند سجادہ نشیں اور ولی عہد میں پڑھنے لکھنے کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جس کے شکار ہندستان گیر سطح پر مولانا اسید الحق محمد عاصم قادری ازہری، ولی عہد خانقاہ قادریہ، بدایوں، مولانا آیت اللہ مجیبی، سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری، مولانا سیف الدین اصدق، خانقاہ بشیریہ اصدقیہ ،نالندہ ، مولانا حسن سعید ازہری، ولی عہد خانقاہ عارفیہ سید سرواں الہ آباد خاص طور پر ہیں۔

کتاب کی ابتدا میں مولانا آیت اللہ مجیبی کا حدیث ’’من کنت مولاہ… ‘‘کی تحقیق پر کافی مبسوط اور محقق مضمون بھی ہے۔ جوتقریبا۶۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اور جہاں جہاں یہ حدیث پائی جاتی ہے۔ تقریبا سب کی تخریج موصوف نے کی ہے۔ یہ مضمون کافی اہم ہے۔ جس سے موصوف کی علم حدیث سے دلچسپی بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد پر وثوق انداز میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ بھی خانقاہ مجیبیہ کے ذخیرہ سے عوام مسلمین مستفید ہوتے رہیں گے اور علمی کام تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے گا۔

حضرت مولائے کائنات کے احوال کے مطالعہ کے لیے یہ کتاب کافی ووانی ہے اور اس کے مطالعہ سے دیگر کتابوں کے در بھی قارئین کے لیے وا ہوتے چلے جائیں گے۔ اتنی اہم کتاب کی اشاعت پر خانقاہ مجیبیہ کے تمام اکابر کو پرخلوص مبارک باد پیش کرنے کے ساتھ میں یہ کہنے کی جرأت بھی کروں گا کہ الفاظ کی ساخت کی تبدیلی سے تحریف نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ بزرگوں کی بارگاہ میں جرأت ہے۔ اگرآج خود حضرت مولانا بدرالدین مجیبیؒ ہوتے تو وہ بھی’’ اون کی بجائے ان ،’ان نے‘کی بجائے’ انہوں نے‘ لکھتے اور اسی طرح دیگرالفاظ کی ساخت بھی وہی ہوتی جو موجودہ زمانہ میں رائج ہے۔ بہرحال طباعت، کاغذ، کمپوزنگ، ٹائٹل بھی عمدہ اور جاذب نظر ہیں۔
noorain ali haque
About the Author: noorain ali haque Read More Articles by noorain ali haque: 6 Articles with 9488 views apne andar ki talkhian bikherna aur kaghaz siyah karne ka shaoq hai.. View More