آپ نے صرف کتابوں میں ہی پڑھا
ہوگا کہ اس انسان کا پیدا ہونا اور زندہ رہنا بے کار ہے جو صرف اپنے لئے
جیتا ہے اور جو دوسروں کے کام نہیں آتا ۔ لیکن جب کوئی ایسا انسان نظر آئے
جو اپنے لئے کم اور دوسروں کے لئے زیادہ جیتا ہے مطلب یہ کہ اپنے کام چھوڑ
کر دوسروں کے دُکھ درد کو بانٹنے میں مگن ہو جائے وہی انسان کہلانے کے قابل
ہے۔ جن کا آج کے دور میں ملنا نہ صرف دشوار ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اور خاص
کر ہمارے یہاں تو ایسے انسان کا ملنا ایسا ہے جیسے کسی پر قسمت کی دیوی
مہربان ہو گئی ہو۔ہمارے یہاں ایسے لوگ نہیں بلکہ انتہائی اہم نوعیت کی گرم
بازاری ملے گی۔ ہمارے یہاں رشوت ستانی ملے گی، دھونس دھمکی ملے گی، رشوت
ستانی کے میدان میں افسران ملیں گے، دہشت گردی ملے گی، اور ہر عفریت ملے گی
جس سے انسان (اشرف المخلوقات) پریشانی میں مبتلا ہو نگے۔
ملک و ملت کا قیمتی سرمایہ نئی نسل ہے، جس پر آنے والے دنوں میں ملک و ملت
کی کشتی کو چلانے کی ذمہ داری ہوگی۔اگران میں کچھ بھی خرابی پیدا ہو گئی ،
ان کی دینی ، اخلاقی اصلاح کی فکر نہ کی گئی اور صحیح تعلیم و تربیت کا
انتظام نہیں کیا گیا تو کشتی کے مسافر، غرقِ آب ہو جائیں گے، لیکن افسوس ہے
کہ نئی نسل کو ہم کیا دے رہے ہیں۔ مردہ سماج، بے ہودہ اور اخلاق سے گرے
ہوئے فلم اور ڈرامے ، معاشرے کی ہر سطح پر برائیاں، افسوس ہے کہ نئی نسل
غلط رسوم و رواج کی گندگیوں سے لیس، بد اخلاقی و بد کرداری کا سر چشمہ بن
کر رہ گئی ہے، جس سے دنای کے مسافر خطرہ میں پھنس چکے ہیں۔ دینی تعلیم و
تربیت کی بات تو چھوڑ ہی دیجئے اس سلسہ میں مسلمانوں کا کیا رجحان ہے ، وہ
تو عیاں ہے۔
مغربی طاقتیں ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ وہ مشتعل کرکے ہم سے
ایسے کام لینا چاہتی ہیں کہ دنیا ہمیں متشدد کہے۔ مقدس مقامات کی بے حرمتی،
برگزیدہ اور لائقِ احترام شخصیات کی اہانت ، ایسے معاملات پر لبوں کو سی
لیا جاتا ہے۔ احتجاج اور مظاہرے نہ ہوں ،ناگواری اور برہمی کا اظہار بھی نہ
کیا جائے تو یہ بڑے خسارے کی بات ہے۔آج دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسلم
ملکوں اور اسلام کے خلاف جو بھی سازشیں ہو رہی ہیں ان میں یہودیوں کے سازشی
ذہنوں کی کار فرمائی ہے۔ مسلمانوں کو کمزور کرنے اور انہیں دنیا کی دیگر
اقوام کے ساتھ متصادم کرنے کے لیے صہیونی خفیہ ایجنسیوں کے شاطر دماغوں نے
سازش رچی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں کی یہ دو رُخی پالیسی ہے جس کا تجربہ اور
مشاہدہ اہلِ دانش کو خوب ہے۔ مرد و زن کے حقوق کے تعلق سے ڈنمارک نے اسلامی
اخلاق تو بعد کی بات ہے انسانی اخلاق کو بھی مات دے دی ہے۔
مسلمانوں کو ان کے رسول ﷺ نے جس قدر سچ اور حق پسندی کی تعلیم دی تھی، ان
کو ماننے والے مسلمان اتنا ہی اپنے رسول ﷺ کی روش سے کوسوں دور ہوتے جا رہے
ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ جھوٹ، کذب اور لازام تراشی کا بازار بھی گرم ہے۔
ملک میں نہ صرف عام لوگ،بلکہ اپنے کوصاحب حیثیت کہنے والے لوگ بھی جو روز
حق کی آواز اٹھانے کا دم بھرتے ہیں سچائی اورحق پسندی بھول گئے ہیں اس کا
نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ صحیح اور غلط میں، سفید و سیاہ میں اور حق اور باطل
میں تمیز کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔راقم تو ایسے گمبھیر حالات اور ایسے
نفسا نفسی کے عالم کو اس شعر میں پِرونے کی کوشش کر سکتا ہے اور آپ کو شعر
کے صرف دو لائنوں سے سمجھانے کی سعی کر سکتا ہے۔
چاند سا چہرہ، اٹھتی جوانی، لب پہ تبسم، جگمگ روپ
کس کی قسمت جاگ رہی ہے، اس بیدار خزینے سے
ہم اور ہماری قوم تو دو وقت کی روٹی سکون سے کھانے کے بعد جی بھر کر سونے
اور پھر صبح سویرے اٹھ کر روزی روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتے ہیں۔ بس
یہی ہے ہماری زندگی کے دو تین مراحل، حالانکہ اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہیں
جو عالیشان محل، بنگلے بناتے ہیں اور غریبوں کو بھول کر انہی کا خون نچوڑ
کر اپنا محل تعمیر کر لیتے ہیں ۔ انہیں شاید یہ ظلم اللہ کے دربار میں بہت
مہنگا پڑنے والا ہے۔ اس لئے ہو سکے تو اپنے معاشرے کے چاروں طرف نظر ڈالیئے
اور حالات کو بہتر بنایئے تاکہ آپ کے بچے سمیت اس ملک کے غریب عوام کے بچے
بھی بے راہ روی سے بچ کر اعلیٰ اقدار سیکھیں اور مستقبل میں ملک کی اور
ملکی اداروں کی باگ دوڑ سنبھال سکیں۔حدیث شریف ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:”
حضرت داﺅد علیہ السلام کی دعاﺅں میں سے ایک دعا یہ ہے کہ مفہوم: اے اللہ!
میں طالب ہوں تیری محبت کا اور ان کی محبت کا جو تجھ سے محبت کرتے ہیں اور
اس عمل کا جو تیری محبت تک رسائی بخشے۔“ (ترمذی شریف)
ہمارے یہاں تو دستور ہی نرالا دیکھا گیا ہے کہ کرپشن پر توجہ نہیں دی جاتی
بلکہ صرف اس پر ٹاک شو ہی کیا جاتا ہے۔ یوں لوٹ مار کرنے والے اپنی
کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کرپشن پر توجہ دینے کے بجائے اب ذاتیات
اور شخصیات کو نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی محسوس ہونے لگا
ہے کہ اب الزامات محض الزام تراشی تک محدود ہوگئے ہیں اور ان کو منطقی
انجام تک پہنچانے کی خود الزامات عائد کرنے والے ضرورت نہیں سمجھتے ہیں۔ اس
وقت ملک میں وقتی اور شخصی فائدوں کے حصول کو ترجیح دی جارہی ہے۔ یہ ایسا
طرزِ عمل ہے جس کے نتیجہ میں ملک اور قوم کا مستقبل ایک بار پھر داﺅ پر لگ
جائے گا اور کرپشن کی لعنت ہماری جڑوں کو کھوکھلی کرتی رہے گی۔ یہ سارا
ڈرامہ جمہوریت اور جمہوری نظام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اور یہ مذاق وہی
لوگ اڑاتے ہیں جو اسی جمہوریت کی مرہونِ منت اعلیٰ ترین عوامی عہدوں تک
پہنچتے ہیں۔ یہ انتہائی قابلِ افسوس اور شرمناک عمل ہے۔ کرپشن کے الزامات
عائد کر دینا آج کل ایک فیشن کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
آج ضرورت ہے اس امر کی کہ اپنے آنے والے مستقبل کے ہونہاروں کیلئے ایک اچھی
، طاقتور، اور قابلِ فخر پاکستان میں مضبوط جمہوری نظام دیا جائے تاکہ اس
نسل کو محسوس ہو کہ ہمارے لوگوں نے بھی نوجوانوں کیلئے کچھ کیا ہے۔میں تو
یہاں پر بھی اس نوخیز نسل جو آئندہ چند برسوں میں باگ دوڑ کی ذمہ داریاں
سنبھالنے کیلئے تیار ہوگی صرف یہ شعر سے ہی آپ کو اس کا پرچار کرا سکتا ہوں۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا سا نم ہو یہ مٹی، تو بڑا زرخیز ہے ساقی
اسلامی ماحول میں اچھی تعلیم وتربیت کا انتظام کرنا ہوگا اور ان کے اخلاق و
کردار کو صالح بنانے کے لیے مضبوط قدم اتھانے ہوں گے، کیونکہ معاشرہ کی
صالحیت کی عمارت ان پر توجہ کیے بغیر نہیں کھری کی جا سکتی اور ان کو
بااخلاق، باکردار، باادب بنا کر ہی معاشرے کی اصلاح کے خواب کو شرمندہ
تعبیر کیا جا سکے گا۔ یہ نئی نسل آپ کی طرف امید لگا کر دیکھ رہی ہے جن کے
کندھوں پر آنے والے وقتوں میں ذمہ داریاں ہوں گی ۔ |