نادرا کی نادر کارکردگی

غلطی کرنا اور اسے تسلیم کرنا بہت بڑی بات ہے لیکن ہمارے ہاں یہ تصور ہی کوئی نہیں کرسکتا کہ کوئی غلطی کرکے اس کی معافی مانگ لے - اگر کوئی انفرادی طور پر بھی غلطی کرتا ہے تو یہ شان کے منافی خیال کیا جاتا ہے کہ اس غلطی کو مان لیا جائے جس طرح ہم لوگ انفرادی طور پر اپنی غلطیوں کو نہیں مانتے اسی طرح ہمارے ہاں ادارے بھی اپنی غلطیاں نہیں مانتے اب تو لوگوں کیساتھ ادارے بھی اپنی غلطیوں پر ڈٹ جاتے ہیں -گذشتہ دنوں ایک پولیس اہلکار سے ملاقات ہوئی موصوف نے دو سال قبل اپنے بیٹے کیلئے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنوانے کیلئے اپلائی کیا تھا لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس کے بیٹے کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نہیں بن سکا کیونکہ نادرا نے نادر کارروائی کرتے ہوئے پولیس میں ڈیوٹی انجام دینے والے اہلکار کے بیٹے کو افغان مہاجرین کی فہرست میں ڈال دیا ہے اس کے باپ کی 23سال کی نوکری بھی دو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک افغان مہاجرین کی فہرست سے اسے نہیں نکلوا سکی -متعلقہ پولیس اہلکار شریف آدمی ہے ورنہ تو یہاں پر ایسے پولیس اہلکار موجود ہیں جو افغان مہاجرین کی کارڈ بنوا گئے تھے-خیر دو سال سے خوار ہونے والے پولیس اہلکار اپنی ڈیپارٹمنٹ کی تمام ریکارڈ نادرا تصدیق کرکے لے گیا ہے تاہم نادرا کی تسلی نہیں ہورہی اور وہ غریب پولیس اہلکار رو رہا ہے کہ میں اپنے بیٹے کی روزگار کیلئے اس کاکمپیوٹرائزڈ کارڈ بنوا رہا تھا لیکن نادرا کی نادر کارروائی نے مجھے ذہنی تنائو کا شکار کردیا ہے بقول پولیس اہلکار کے تاریخ پر تاریخیں دے رہی ہیں لیکن ہاتھ کچھ نہیں آرہا میں نے اس پولیس اہلکار کو دم دلاسہ تو دیا لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ باپ 23سال تک "اسلامی جمہوری عوامی اور فلاحی"پاکستان میں خدمات انجام دے اور بیٹا افغان مہاجرین کی فہرست میں شامل ہو-ویسے مجھے تو لگ رہا ہے کہ وفاقی ادارہ "مردان"سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پولیس اہلکار کیساتھ اظہار محبت کررہا ہے کیونکہ مردان آکسی زمانے میں "پیڑوں"کیلئے مشہور تھا آج کل ایزی لوڈ کی وجہ سے مشہور ہے اور لگتا ہے کہ نادرا کے نادر نمونے اس شریف پولیس اہلکار سے "ایزی لوڈ"مانگ رہے ہوں متعلقہ پولیس اہلکار کو اب یہ کہا جارہا ہے کہ کچھ کرسکتے ہوں تو کرلو ہم تو ویسے کارڈ نہیں بنوا کر دینگے-ایک طرف یہ حال ہے کہ نادرا کارڈ نہیں بناکر دے رہا جبکہ دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے دو دو کارڈ بنا رکھے ہیں اور مختلف شہروں سے اسی کارڈ پر پاسپورٹ بھی بنائے ہوئے ہیں لیکن چونکہ "ایلیٹ کلاس"اور بیلٹ والی سرکار کی سرپرستی میں ہے اس لئے ان کی شکایت کرنے پر بھی نادرا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہایہ وہ امتیازی سلوک ہے جواسلامی فلاحی جمہوری اور عوامی "ریاست میں "قانون سب کیئے برابر ہے "کا نعرہ لگانے والوں کیلئے بھی چیلنج ہے کاغذوںمیں قانون تو سب کیلئے برابر ہے لیکن حقیقت میں "تاجے" نائی کا بیٹا اگر فرسٹ کلاس ماسٹر بھی کرلے تو اس کی اوقات نہیں لیکن اگر مخصوص طبقے کا طبقہ اگر بی اے بھی" جھٹکوں سے "گوری چمڑی والوں کے اداروں سے پاس کرے تو وہ "ڈی ایٹ "اجلاس میں بھی بیٹھ سکتا ہے اور ملک کی نمائندگی کرسکتا ہے -

آج کل کے دور میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنانے والے خوش قسمت ہیں جو صرف ایک مرتبہ خوار ہوتے ہیں ہم نے تو وہ دن بھی دیکھے ہیں جب ہم 18سال کی عمر میں اپنے لئے شناختی کارڈ بنانے گئے تھے اس وقت کمپیوٹرائزڈ کا دور نہیں تھا ہم نے وپرانا شناختی کارڈ بنوانے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلے ہیں وہ ہمیں پتہ ہے اس لئے اس لئے ہم نے "تبرک" کے طور پر پرانے شناختی کارڈ اپنے ساتھ گھر میں رکھ چھوڑے ہیں کہ کیا پتہ ہمیں یہ افغان مہاجر کی فہرست میں شامل نہ کرے اور ہمیں پتہ بھی نہ ہوںاور کسی افغان مہاجر کو ہمارے خاندان میں ڈال کر ہمارا بھائی کردیا ہو پاکستانیوں کی َخاندانوں میں افغان مہاجرین کو بیٹے کی فہرست میں شامل کرنے کا "شوڑا"تو نادرا ملازمین کو ملتا ہے لیکن اس کا عذاب ان لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے جنہیںبعد میں پتہ چلتا ہے اور ان کے خاندان کے تمام افراد فہرست بلاک کردی جاتی ہیں-نادرا کے آغا ز میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ "دو ٹکے" کے عوام کی بہتری کیلئے یہ کام کیا جارہا ہے اور اب کمپیوٹرائزڈ کام ہوگا اور یہاں پر "ایز ی لوڈ"کا چکر نہیں ہوگا لیکن اللہ بچائے ایسے پاکستانیوں سے جو نادرا کا کمپیوٹر بھی " ایزی لوڈ"پر چلاتے ہوں-ہم لوگ تو اللہ بخشے اداکارہ نادرا کے نام پر دھوکہ کھا گئے تھے یہ الگ بات کہ کمپیوٹرائزڈ کارڈ بنانے والے غریب اب کارڈ بنوانے کیلئے ادارے کے سامنے "ٹھمکے "لگاتے نظر آتے ہیں -کچھ عرصہ قبل نادرا کے ملازمین کو نکالنے کا پروگرام شروع ہوا تھا اور خدا گواہ ہے کہ اس ادارے کے ملازمین کوسڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے مجھ سمیت ہر شہری کو بہت خوشی ہوئی تھی کیونکہ جس طرح یہ لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ان کی "کرتوتوں"کی وجہ سے لوگ بہت خوش تھے کہ یہ بازاروں میں اپنے لئے احتجاج کرتے پھرے - پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے میں نے ان کے رہنما کو بھی کہا تھا کہ تم لوگ ابھی "انسان کے بچے "بن گئے ہو ورنہ تم لوگوں کا رویہ صحافیوں کیساتھ بھی بدمعاشوں والا ہوتا ہے عام لوگوں کیساتھ رویہ بھی اس سے بدتر ہوتا ہے -ان دنوں ان سب کا رویہ سب کیلئے "آپ جناب"والا تھا کیونکہ بیروزگار ہونے کا ڈر تھا اور صحافیوں کیساتھ تو خصوصی طور پر بہت اچھے تعلقات بنائے تھے کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ ہماری "بک بک" یہی لوگ آگے پہنچا سکتے ہیں -ان کی " بک بک"کام آگئی اور روزگار کا سلسلہ ٹھیک ہوا تو اب یہ پھر اپنی اوقات بھول گئے ہیں-

سب سے عجیب بات کہ نادرا کے نادر اہلکاروں اور افسران بالا پرشکایات کا کوئی اثر بھی نہیں ہوتا کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک ساتھی نے لوگوں کی شکایات شہر کے ایک بڑے پلازہ میں واقع نادرا دفتر کا دورہ کیا اور لوگوں کی شکایات ریکارڈ کی جس پر نادرا کے "نادر"ملازمین نے "بے حیثیت صحافی"کی وہ دھنائی کردی جس طرح ہمارے ہاں لوگ اپنے کھیت میں کسی دوسرے کی گدھے کی موجودگی کی اطلاع پر " گدھے " کا کرتے ہیںبعد میں جب مسئلہ بنا تو یہاں کا سربراہ آگیا اور یقین دہانی کرادی کہ اس کی انکوائری ہوگی انکوائری چھ ماہ گزرنے کے بعدبھی نہ ہوسکی اور آج ہم اپنے ساتھی کو تنگ کرنے کیلئے اس کی "دھنائی "یاد کراتے ہیں -سچی بات یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس "ایزی لوڈ"کیلئے پیسہ نہیں یا اس کے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں تو یقین جانئیے کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنوانے کیلئے بھی آپ کو مہینوں خوار ہونا پڑے گا روزانہ لائنوں میں کھڑے ہونے کا عمل کہنے میں تو آسان ہے لیکن جب آپ سارا دن لائن میں رہتے ہیں اور نادرا کے اہلکار اپنی "مشروٹی "دکھاتے ہوئے "ایزی لوڈ"دینے والے افراد کو لائن میں سب سے آگے لے جاتے ہیں تو کیا حال ہوتا ہے کاش کسی دن نادرا کے افسران بالا جن میں بہت بڑے بڑے نام شامل ہیںوہ خود اور ان کے اپنے خاندان کے لوگ "لائن میں کھڑے"ہو اور انہیں اس عذاب کا پتہ چلے کہنے کو تو ہم آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ پاکستانی لوگ لائن میں کھڑے نہیں ہوتے لیکن لائن میں کھڑے ہونے والوں کیساتھ جو ڈرامے ہوتے ہیں وہ لائن میں کھڑے ہونے والے ہی جانتے ہیں-

یہاں ہم نادرا میں بیٹھے ہوئے "نادر" ملازمین سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارالوگوں کی عزت نفس کا خیال کرو اور ان کی مشکلات کم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ورنہ پھر جس طرح آج کل لوگ ڈنڈے اور بیلٹ والی سرکار کو "شہید"بنانے کیلئے اپنے ساتھ بارود رکھ کر اڑاتے ہیں لگتا یہ ہے کہ پھر ستائے ہوئے لوگ ان کیلئے سپیشل طور پر آئیں گے اور نادرا کے نادر ملازمین کو "شہدائ" کے عہدوں پر سرفراز کرینگے کیونکہ ہمارے پاس کچھ نہ ہو شہید اور ان کیلئے پیکج بہت ہیں-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498240 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More