فضیلت سیدنا امام حسین علیہ السلام و شہادت عظمیٰ

نہ وسعت علم دارم نہ خامہ طاقت نوشتن غم داستان دارد۔ وہ سید الشہدا امام عاشقاں، تفسیر ما سوا اللہ را مسلماں بندہ نیست ۔ پیش فرعونش سرش افگندہ نیست ، اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیئے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ صحرا میں انکی تکبیر سے ۔ تار ما از زخمہ اش لرزاں ہنوز ۔ زندہ از تکبیر او ایماں ہنوز۔ اس راز کو اس امت کا مرد قلندر حضرت اقبال خوب سمجھا۔ یہ ذات والاءصفات کی نسبت کس ہستی سے ہے؟ کوئی سمجھے تو۔ بڑے عرصے سے بات چل رہی تھی کہ ذبح عظیم کا راز کھلے گا۔ یہ تھا سر ابراہیم و اسمٰعیل کچھ اجمال کی ابتداءمنیٰ کے میدان میں ہوئی تھی۔ جنتی مینڈھا وقتی طور پرذبح ہوگیا۔ مگر اس اجمال کی تفصیل تقریبا اڑھائی ہزارسال بعد نینوا کے میدا ن میں ظہور پذیر ہوئی۔ اللہ کے دین کے استحکام اورقرآن و سنت کا نور تاقیامت قائم رکھنے کے لیئے وجہ قرار دوجہاں سیدالعالمین ﷺ کے عظیم نواسے کی پیدائش ہوئی۔ باپ حیدر کرار علامہ فرماتے ہیں اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر ۔ معنی ذبح عظیم آئیدپسر۔ باپ بسم اللہ کی بے اور بیٹا عظیم قربانی بن کر آتا ہے۔ باپ کے بارے عالم ماکان و مایکون ﷺ فرماتے ہیں انا مدینة العلم وعلی بابھا۔ میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہیں۔ رسول عالمین ﷺ نے فرمایا : اے علی (کرم اللہ وجہہ)تم سے مسلمان ہی محبت رکھے گا اور منافق ہی تمہارا دشمن ہوگا (کتاب الشفاءبحوالہ مسلم شریف کتاب الایمان)

فضائل کا طویل سلسلہ ہے ۔ مادر جگر گوشہ رسول امین ﷺ ہیں کہ جن کے بار ے آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ فاطمة (سلام اللہ علیہا ) میرے جسم سے گوشت کا ٹکڑا ہیں۔ اس دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل اپنی اسی بیٹی سے فرماتے ہیں کہ ہم پردہ کرنے والے ہیں یہ سنتے ہی بیٹی پر غم کی تاریکی طاری ہوجاتی ہے، سرور عالمین ﷺ فرماتے ہیں کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو، یہ سنتے ہی آپ مسکرا پڑتی ہیں ۔ گھر میں فاقے ہیں، چکی خود پیستی ہیں، گود میں یہ عظیم فرزند لوریوںکے مزے لوٹ رہے ہیں۔ عالم ماکان و مایکون رحمة للعلمین ﷺ کو اللہ رب العالمین کی جانب سے آپ کے اس نواسے کی اخبار شہادت آنی شروع ہوجاتی ہیں۔ پہلے تو نواسے کی محبت تھی اب اسکے ساتھ محبت اور عشق حسین میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اب حسین کے راہ حق کے نظریہ کی تشکیل ہوگئی۔ بقول علامہ ۔ موسی و فرعون و شبیر و یزید ۔ ایں دو قوت از یات آید پدید موسی علیہ السلام بمقابلہ فرعون ملعون اور حضرت شبیر علیہ السلام بمقابلہ یزید ملعون کیونکہ دونوں اللہ کے باغی ہیں۔ سو اب یہ اسلام اور کفر کی تحریکیں بن چکیں جو تا قیامت ایک دوسرے کے مدمقابل رہیں گی۔ سیدالکونین ﷺ کے حضور جبریل امین علیہ السلام تشریف لاتے ہیں، حضرت امام حسین علیہ آپکی گود میں ہیں ، جبریل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ آپکا یہ صاحبزادہ آپکی امت کے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوگا۔ حضرت ام المﺅمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور سیدالعالمین ﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو جبریل امین نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین میرے بعد زمین طف میں قتل کردیا جائے گا اور جبریل میرے پاس اس زمین کی یہ مٹی لائے ہیں اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہی ان کے لیٹنے (مدفن ہونے) کی جگہ ہے( سرالشہادتین و خصائص کبری) ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز میں حضور ﷺ کی خدمت میں حضرت حسین کو لے کر حاضر ہوئی تو میں نے حسین کو آپ ﷺ کی گود میں رکھدیا پھر جو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ عنقریب میری امت میرے اس بیٹے کو قتل کردے گی اور انہوں نے مجھے اس زمین کی سرخ مٹی میں سے کچھ مٹی لاکر دی۔ (خصائص کبری۔ سرالشہادتین، المستدرک)حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول آخرالزماں ﷺ نے فرمایا کہ میرے گھر میں ایک فرشتہ آیا جو اس سے پہلے کبھی میرے پاس نہ آیاتھا تو اس نے مجھ سے کہاکہ آپ کا یہ بیٹا حسین قتل کیا جائے گا اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمین کی مٹی دکھاﺅں جہا ں یہ قتل کیا جائے گا پھر اس نے تھوڑی سی سرخ مٹی نکالی(خصائص کبری۔سرالشہادتین)حضرت انس رضی عنہ فرماتے ہیں کہ بارش پر موئکل فرشتہ نے اللہ تعالی سے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو اللہ تعالی نے اسے اجازت دی وہ آیا تو حسین بھی آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ ﷺ کے کندھوں پر چڑھ گئے ۔ آپ ﷺ نے ان سے پیار کیاتو فرشتے نے کہا کیا آپ اس کو محبوب رکھتے ہیں؟ فرمایا ہاں فرشتہ نے کہا؛ بے شک آپ ﷺ کی امت اس کو قتل کردے گی اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ مکاں دکھادوں جہاں یہ قتل کیئے جائیں گے۔ پس اس نے اپنا ہاتھ مارا اور آپ ﷺ کو سرخ مٹی دکھائی تو حضر ام سلمہ نے وہ مٹی لے لی اور اپنے کپڑے کے کونے میں باندھ لی راوی فرماتے ہیں کہ ہم سنا کرتے تھے حسین کربلا میں شہید ہونگے۔ (خصائص کبری۔ سرالشہاتین۔ صواعق محرقہ)ایک اور حدیث میں حضرت ام المﺅمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے گھر میں حضور ﷺ کے سامنے حسن اور حسین کھیل رہے تھے کہ جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد ! ﷺ بے شک آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین کو آپ کے بعد قتل کردے گی اور آپ ﷺ کو وہاں کی تھوڑی سی مٹی دی۔ آپ ﷺ نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایااس میں رنج و بلا کی بو ہے۔ پس آپ ﷺ نے حسین کو اپنے سینہ مبارک سے چمٹالیا اور روئے۔ پھر فرمایا اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون ہوجائے تو جان لیجیو کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا۔ حضر امسلمہ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیاتھا۔ اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں جس دن یہ مٹی خون ہوجائے گی وہ دن عظیم دن ہوگا(تہذیب التہذیب۔ خصائص کبری۔ سرالشہادتین) حضرت انس بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا فرمایا: بے شک میرا بیٹا حسین قتل کردیا جائے گااس زمین میں جس کا نام کربلا ہے سو جو شخص تم لوگوں میں سے وہاں موجود ہو تو اس کو چاہیئے وہ انکی مدد کرے تو انس بن حارث کربلا گئے اور حضرت امام حسین کے ساتھ شہید ہوئے(خصائص کبری، دلائل النبوت ابونعیم اور سرالشہاتیں)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہمیں اور اکثر اہل بیت کو اس بات میں کوئی شک شبہ نہ تھا کہ حسین زمین طف کربلا میں شہید ہونگے۔ (المستدرک۔ خصائص کبری۔ سرالشہادتین)

ارشاد باری تعالی ہے: لا اسلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربیٰ( اے محبوب ! تم فرماﺅ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتامگر قرابت کی محبت۔ سورة الشوریٰ آیت نمبر 23) اللہ تعالی نے اپنے محبوب پاک ﷺ کو فرمایا کہ لوگوں سے فرما دو کہ میں (دولت دین دینے کے بدلے) تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا البتہ اپنے اقربا کی دلی محبت چاہتا ہوں۔ اس آئت مبارک میں حضور ﷺ کے اقربا یعنی بنو ہاشم کی عزت و احترام سب مسلمانوں پر واجب ہے۔ کیونکہ اس میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی خوشنودی مقصود ہے۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام اس مودت میں سرفہرست ہیں۔ بلاشبہ حضور ﷺ کے کندھوں پر سوارہونا، بحالت سجدہ سیدالانبیاء ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہونا اور نبی پاک ﷺ کا آپکے سوار ہونے کا خیال رکھتے ہوئے ستر مرتبہ تک تسبیحات جاری رکھنا غیرمعمولی اور بڑے راز کی بات ہے۔ آپ ﷺ کا فرما نا کہ ان الحسن والحسین ھما ریھانتای من الدنیا (مشکوة شریف) کہ بے شک حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ روایات میں ہے کہ سیدنا حضرت امام حسن علیہ السلام سینے سے لے کر سر تک اور امام حسین علیہ السلام سینے سے لے کر نیچے تک اپنے نانا جان ﷺ سے مشابہ ہیں۔

جتنے بڑے درجے ہوتے ہیں اتنے بڑے مشکل اور انوکھے کام انکے سپرد ہوتے ہیں۔ قابل غور امر تو یہ ہے کہ کربلا کی مصیبت پوری طرح سے نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوچکی مگر آپ نے اپنے نواسے اور انکے ساتھ شریک بلا افراد پر سے مصیبت کے ٹلنے کی اللہ رب العالمین سے التجا نہیں فرمائی۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ جس دین کو لائے اور خلفائے راشدین نے اسے مستحکم کیا اسے مٹانے اور مسخ کرنے کا منظر بھی آپکے سامنے آچکا تھا۔ لھذا دین اسلام کے تاابد استحکام کے لیئے بے مثل قربانی کی ضرورت تھی اور وہ سوائے آپکے نواسے کے کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ سیدنا ابو ھریرة رضی اللہ عنہ اللہ پاک سے دعا فرماتے تھے کہ یا اللہ مجھے سن ساٹھ ہجری کے چھوکروں کی حکومت سے پہلے اٹھا لینا اور آپ رضی اللہ عنہ کی دعا قبول ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے سن انسٹھ ہجری میں وصال فرمایا۔ خلافت راشدہ کا خاتمہ اس وقت ہوا جب سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی جانوں کا تحفظ کرتے ہوئے خلافت سے دستبرداری اختیار فرمائی اور حضور سیدالعالمین ﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ میرا یہ بیٹاسید ہے اور اللہ تعالی مسلمانوں کے دو گروہوں میں اس کے سبب سے صلح کرادے گا جب وہ ایک دوسرے کی خونریزی کے لیئے تیار ہونگے۔ چونکہ حضرت معاویہ کا انتخاب شورائی نہ تھا انہوں نے خلیفہ برحق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنی بادشاہت قائم کرلی تھی۔اور اب حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی دستبرداری سے ان کا میدان صاف ہوگیا۔ اکناف عالم میں انہیں بادشا ہ صرف اس لیئے تسلیم کیا گیا کہ وہ تخت و تاج کی خاطر سبھی کچھ کر نے پر تلے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے افتراق و انشقاق کے بجائے اتحاد امت کی خاطر خلافت کی جگہ بادشاہت کو اضطراری طور پر قبول کرلیاگیا۔ یہ صرف اس لیئے کہ انہیں صحابی ہونے کی نسبت تھی۔ لیکن انہوں نے حکومت کو موروثی بناتے ہوئے اپنے نااہل بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد مقر کردیا اور اس پر بھرپور کام کیا۔یزید کا کردار کیا تھا؟سید الشہداءحضرت امام عالی مقام علیہ السلام کی شہادت کے بعد یزید کا کردار معلوم کرنے کے بارے اہل مدینہ طیبہ نے اشراف پر مشتمل ایک وفد دمشق بھیجا تاکہ وہ یزید کے احوال سے آگاہ کریں۔ اس وفد میں سیدنا عبد اللہ بن حنظلہ انصاری رضی اللہ عنہ ما غسیل الملئکة بھی تھے۔ یزید اراکین وفد کے ساتھ بڑے احسان و اکرام سے پیش آیا۔ اور سبھی کو انعامات و اکرامات دیئے تاکہ یہ لوگ اس کے بارے تعریفیں کریں۔ جب یہ لوگ واپس مدینہ طیبہ پہنچے تو مسجد نبوی میں تمام لوگو ں کو اکٹھا کرکے انہوں نے یہ بتایا : کہ یزید نے ہمارے بڑی عزت افزائی کی اور مال بھی خوب دیا مگر اس کا یہ عمل ہمیں حق بیان کرنے سے نہیں روک سکتا ۔وہ ایسا شخص ہے کہ جس کا کوئی دین نہیں۔ شراب پیتا ہے،طنبورہ بجاتا ہے، اس کی صحبت میں گانے والیاں گانا بجانا کرتی ہیں۔ لچوں اور لونڈیوں سے صحبت رکھتا ہے تم سب لوگ گواہ رہو ہم نے اسے خلافت سے معزول کیا ۔ تاریخ الخلفا میں امام جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ کہ واللہ ہم نے یزید پر جب تک خروج نہیں کیا جب تک ہمیں یہ یقین نہیں ہوا کہ آسمان سے اب پتھر برسیں گے۔سخت تعجب ہے کہ لوگ ماﺅں ، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کریں اور کھلم کھلا شراب پئیں اور نماز چھوڑدیں۔ یہ سن کر سب لوگوں نے بھی ان کا اتباع کیا۔ اللہ کے حرام کو حلال کرنے والا مرتد ہے۔ جبھی تو اہل مدینہ نے یزید کی بیعت توڑ دی ۔ پھر یزید نے ایک بڑی فوج مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے کو بھیجی اور انہیں تین دن تک مدینہ پاک کو لوٹنے کا اختیار دیا۔ واقعہ حرہ انسانیت سوز ہے۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے، یزیدی لشکر نے مسجد نبوی علی صاحبہاالصلوة والسلام میں گھوڑے باندھے ، یزیدی سپاہیوں نے مدینہ پاک کی پاکیزہ لڑکیوں کی عصمت دری کی۔ ظلم کی انتہا کردی۔ پھر یزیدی لشکر مکہ بلد امین پر حملہ آور ہوا۔ اللہ قاتلین حسین اور حرمین شریفین پر حملہ کرنے والوں پر لعنت فرمائے کہ نبی ﷺ کے شہر کے لوگوں پر ظلم کیا۔ ایسے خبیث شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنا دین اسلام سے انحراف ہے۔ جبھی حضرت امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار فرمایا۔اور عظیم قربانیاں دیں۔ ہر دور میں حسین کو یزیدکا مقابلہ کرنا ہے۔ ہر دور میں انسانیت کے دشمن، ظالم ، خواہشات نفس کے بندے، اللہ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے والوں کا وجود باقی رہتا ہے۔ حسین علیہ السلام کا اسوہ پاک ہے کہ دین کے دشمنوں ، انسانیت کا استحصال کرنیوالوں اللہ اور رسول کے عملا باغیوں کا مقابلہ کرنا ہے خواہ اس مقصد کے لیئے جان ،اولاد اور مال کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ اس دور کا فرعون امریکہ اور اسکے ساتھی، وہ جو امریکی پالیسیوں کی حمائت کرتے ہیں۔ امریکہ اور اسکے اتحادی مسلمانوں کا استحصال کررہے ہیں ۔ کشمیر، فلسطین میں مسلمانوں کا خون یہودی امریکہ کی سرپرستی میں بہا رہے ہیں۔ جبکہ افغانستان اور عراق امریکی حملوں کے خلاف نہ بولنا بھی یزیدیت ہی ہے۔ آج اسلام کی سربلندی کے لیئے امریکہ اور اسکے ساتھیوں کے خلاف اسوہ حسینی پر عمل کیا جائے۔

صبر حسین علیہ السلام
قربانی اور صبرسے اعلی درجات ملتے ہیں۔ قرآن حکیم میں اللہ کے پیارے نبی حضر ت ایوب علیہ السلام کے صبر بارے بیان آیا ہے کہ آپکی اولاد اور مال اللہ نے لے لیا ۔آپ علیہ السلام شکر الہی بجالائے۔ پھر آپ ایک جسمانی بیماری میں مبتلا کیئے گئے کہ جس میں کیڑے بھر گئے، گوشت باقی نہ رہا مگر اللہ کی قدرت سے خالی ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیاپھر آخر اللہ تعالی سے دعا کی ( اور ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکاراکہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مہر والوں سے بڑھ کر مہر والا ہے۔ سورة الانبیاءآئت نمبر 38) تو اللہ تعالی نے خوبصورت جسم عطاکیا اور اولاد مال سبھی کچھ پہلے کی طرح عطا فرمایا۔ مگر میدان کربلا میں حضر امام علیہ السلام نے بلا ٹالنے کی درخواست اللہ تعالی سے نہیں فرمائی کیونکہ یہ معاملہ استحکام دین اور تاقیامت اصول دین کی حکمرانی اور نسل انسانی کی فلاح و بہبود کا تھا۔ جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کی مکمل تیاری کرلی تو بیٹے نے باپ سے عرض کی کہ میری آنکھوں پر پٹی باندھ دیجیئے تاکہ میں آپ کو نہ دیکھ سکوں ۔ باپ نے بیٹے کو منہ کے بل لٹایا تاکہ کسی صورت میں انکے اس عمل میں کمزوری نہ آئے مگرکربلا کے میدان میں امت کے امام اب تک توانصار کی لاشیں اٹھاتے رہے مگر اب نوبت بنو ھاشم پر آئی۔ بھتیجے بھائی کی نشانی ہوتے ہیں، بھانجے بہن کی امانت اور وہ بہن خیمے کی اوٹ سے اپنے لخت جگر خاک و خون میںتڑپتے دیکھتی ہے، ماموں انکی لاشیں اٹھاتا ہے۔ زبان پر ذکر الہی جاری ہے۔ بھائی بازو ہوتے ہیں لیکن وہ بھی راہ حق میں جنت سدھارتے ہیں۔

خلیل و ذبیح تو یقینا اس منظر پر نازاں ہونگے کہ اٹھارہ سال کا مسیں بھیگتا جوان ، ہمشکل مصطفے کریم ﷺ اپنے باپ سے قتال کی اجازت چاہتا ہے۔ امام علیہ السلام کو یقین ہے کہ جب پہلے واپس نہیں آئے بیٹاواپس نہیں آئےگا۔ یہ کیسا حوصلہ اور ہمت ہے، یہ کیسی قوت بر داشت ہے ، یہ کیسا عجیب صبر ہے، ایسا منظر تو اس بوڑھے آسمان نے کبھی نہیں دیکھا، فرشتے بھی دنگ ہیں کہ اللہ کی رضا کے لیئے بڑی بڑی قربانیا دیں، یوسف علیہ السلام کے فراق میں باپ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی چلی گئی۔ سیدالکونین ﷺ اپنی قبر اطہر سے یہاں موجود ہیں اپنے نواسے اور اہلبیت پر ظلم و ستم کی روئیداد خود ملاحظہ فرمارہے ہیں ، اپنے دوش مبارک کے سوار اور اپنے پھول کو مرجھاتا دیکھ رہے ہیں مگر ان حوادث کے ٹلنے کی دعا نہیں کرتے اگر آپ معمولی سا ارادہ ظاہر فرمائیں تو اللہ رب العالمین یزیدی ظالموں کو تہس نہس کردے مگرآپ ایسا نہیں فرماتے ۔ پھر باپ اپنے نوجوان بیٹے کی لاش بھی اٹھاتا ہے۔

آخری نذرانہ چھ ماہ کا فرزند اپنی گود میں اللہ کے حضور پیش کرکے جھولی جھاڑتا ہے کہ اے اللہ! حسین کے پاس جو تھا تیرے دین کی خاطر قربان کردیا۔اب یہ جان عزیز بھی بصد اشتیاق شہادت تیار ہے۔ اس قدر غم و اندوہ سے چورچور ہو کرابن بتول الزہرا و ابن حیدر کرار ، ذوالجناحین کا بھتیجا جنت کے نوجوانوں کا سردار جہاد کے لیئے گھوڑے پر یوں سوار ہوتا کہ جیسے کوئی ساونت جوان کہ جس نے کوئی پریشانی دیکھی نہیں۔ یہی تو ہے صبر حسین کہ تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اب حملہ کرتے ہیں اشقیاءبدبخت کئی ہزار ہوکر بھی بھاگتے ہیں۔ قرطاس عالم میں نواسہ رسول کے اس حملے کو انفرادیت حاصل ہے۔ اس سے قبل آپ نے دنیاوی لذتوں کے طلب گاروں کو بڑے موئثر انداز میں تبلیغ بھی فرمائی۔ مگر سمجھا تو حر بن یزید ریاحی کہ یکم محرم کو آپ کا راستہ روکا۔ مگر اسکی قسمت میں جنت لکھی تھی آج عاشورہ کے دن نواسہ رسول کے حضور حاضر ہوکر معافی کا طلبگار ہوتا ہے۔ بلا توقف لشکر یزید پر حملہ کرکے کئی خبیثوں کو واصل جہنم کرکے رب کی رحمت میں داخل ہوتا ہے۔

آہ پھر ذبح عظیم کی صداقت سامنے آتی ہے۔ سیدالمرسلین دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کے دوش مبارک کا سوار خاک خون میں غلطاں ہے، یزید کی دادی ہندہ نے پہلے بھی بڑا صدمہ پہنچایا تھا کہ جب سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش مبارک کی بے حرمتی کی۔ وہ بھی تو رسول پاک ﷺ نے برداشت کی اور ہندہ سے بدلہ نہیں لیا آج اس کا پوتا میدان کربلا میں پہلے سے بڑا صدمہ دے چکا۔ تا قیامت امت کو سوگوار کردیا۔

شہادت امام عالی مقام کے فورا بعد کے عجائبات کا ظہور
سیدنا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں تھے فرماتے ہیں کہ ایک روز میں دوپہر کے وقت سویا ہوا تھا کہ خواب میں رسول پاک ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کے بال بکھرے ہوئے گرد آلود ہیں دست مبارک میں خون بھرا شیشہ ہے ۔میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا ہے؟ فرمایا یہ حسین اور اسکے رفیقوں کا خون ہے میں اسے آج صبح سے اٹھاتا رہاہوں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے اس تاریخ اور وقت کو یاد رکھا جب خبر آئی تو معلوم ہوا کہ حضرت حسین اسی وقت شہید کیئے گئے تھے۔ (بہیقی، المستدرک، مشکوٰة شریف صفحہ 572) اسی حدیث کو کچھ اضافہ کے ساتھ حجة الاسلام حضرت امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب احیاءالعلوم میں لکھا کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ اے ابن عباس تمہیں نہیں معلوم کہ میری امت نے میرے بعد کیا کام کیاہے؟ میرے بیٹے حسین کو قتل کر دیا ہے یہ اس کا اور اسکے دوستو ں کا خون ہے جس کو اللہ تعالی کے پاس لے کر جارہا ہوں۔ اس خواب کے چوبیس روز بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبرآئی۔ حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ام المﺅمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تو وہ رو رہی تھیں۔ میں نے کہا آپ کیوں رورہی ہیں ؟فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں روتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ ﷺ کے سر مبارک اور ریش اقدس پر گردوغبار ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا میں ابھی حسین کی شہادت گاہ پر گیا تھا۔( المستدرک۔ مشکوة شریف) حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے جنوں کو حضرت حسین پر روتے اور نوحہ کرتے سنا ہے وہ کہتے تھے اے حسی کے نادان قاتلو تمہارے لیئے سخت عبرت ناک عذاب کی بشارت ہے، تمام اہل آسمان تم پر بد دعائیں کرتے ہیں اور سب نبی و مرسل بھی ۔ قد لعنتم علی لسان داود ۔ و موسی و صاحب الانجیل۔ حضرت حبیب بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت حسین کی شہادت پر جنوں کو روتے سنا اور وہ کہتے تھے۔ مسح النبی جبینہ ۔ فلہ بریق فی الخدود ابواہ فی علیا قریش ۔ وجدہ خیرالجدود
اس جبیں کو نبی نے چوما تھا تھی کیا ہی چمک اس کے چہرے پر
اس کے ماں باپ برترین قر یش اس کا نانا جہاں سے بہتر۔

حضرت بصرہ ازدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب حضرت امام علیہ السلام قتل کیئے گئے تو آسمان سے خون برسا صبح کو ہمارے مٹکے اور گھڑے سارے خون سے بھرے ہوئے تھے (بہیقی، ابو نعیم، سرالشہادتین ) حضرت زہری فرماتے ہیں کہ مجھے خبر پہنچی : کہ جس دن حضرت حسین شہید کیئے گئے اس دن بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے سے تازہ خون پایاجاتا تھا۔ حضرت ام حبان فرماتی ہیں کہ جس دن حضر حسین شہید کیئے گئے اس دن سے ہم پر تین روز تک اندھیرا رہا اور جس شخص نے منہ پر زعفران(غازہ) ملا اس کا منہ جل گیا اور بیت المقدس کے پتھروں کے نیچے تازہ خون پایا گیا۔حضرت امام جلاالدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب حضرت حسین شہید کیئے گئے تو سات دن تک دنیا تاریک رہی دیواروں پر دھوپ کا رنگ زعفرانی رہا اور ستارے ایک دوسرے پر ٹوٹ کر گرتے رہے اور آپ کی شہادت یوم عاشور میں ہوئی اس دن سور ج کو گہن لگ گیا چھ ماہ تک برابر آسمان کے کنارے سرخ رہے پھر وہ سرخی تو جاتی رہی مگر افق کی سرخی اب تک برابر موجودہے جو اس واقعہ سے پہلے نہیں دیکھی جاتی تھی۔ (تاریخ الخلفائ)حضرت علامہ ابن جوزی رحمة اللہ علیہ فتح ملیہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کا آسمان کو سرخ کرنااور خون کی بارش برسانا اس کے بہت زیادہ ناراض اور غضبناک ہونے کی علامت ہے کیونکہ جب کوئی غصہ و غضب میں آتا ہے تو اس کا خون جوش کرتا ہے اور چہرہ سرخ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی بلا شبہ جملہ عوارض جسمانی سے پاک اور منزہ ہے لیکن اس نے اپنی ناراضی اور غضب کا اظہار اس طرح کیا کہ آسمان کو سرخ کردیا اور اس سے خون برسایا اور اس علامت کو قیامت تک کے لیئے باقی رکھا۔ حضرت امام ابن سیرین رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے شک آسمان پر شفق کے ساتھ جو سرخی ہوتی ہے وہ حضرت حسین علیہ السلام کے قتل سے پہلے نہیں ہوتی تھی(صواعق محرقہ) حضرت جمیل بن مرہ کہتے ہیں کہ یزید کے لشکریوں نے لشکر امام حسین کے اونٹ آپ کی شہادت کے روز پکڑلیئے پھران کو ذبح کیا اور پکایا تو وہ اندرائن کے پھل کی طرح کڑوے ہوگئے اور کوئی انکو نہ کھا سکا۔ اسی طرح کی بے شمارکرامات شہادت عظمیٰ ہیں۔ قاتلین حسین کا کیا انجام ہوا؟ اس بارے علیحدہ مضمون انشاءاللہ لکھوں گا۔ پروفیسر اکبر حسین ھاشمی پڑھنے والوں سے دعا کی التجا کرتا ہے کہ حضرت امام سیدالشہدا علیہ السلام ہم سب کے شفیع ہوں اور ایک بار پھر انکے روضہ اقدس کی زیارت نصیب ہوآمین۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128845 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More