نَیزہ پر سرِ اقدس کی تِلاوت(کرامات امامِ حُسین )۔

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔

نَیزہ پر سرِ اقدس کی تِلاوت
حضرتِ سیِّدُنا زَید بن اَرقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے: جب یزیدیوں نے حضرتِ ا مامِ عالی مقام ، سیِّدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرِ انور کو نیزے پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا اس وَقت میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا۔ جب سرِ مبارَک میرے سامنے سے گزرا تو میں نے سنا کہ سرِپاک نے (پارہ 15 سورةُ الکَہف کی آیت نمبر ۹ )تِلاوت فرمائی:
اَم حَسِبتَ اَنَّ اَصحٰبَ الکَھفِ وَالرَّقِیمِ کَانُوا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً ( پ15 الکہف ۹)

ترجَمہ کنزالایمان: کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ(غار) اور جنگل کے کَنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے ۔
(شَواہِدُ النُّبُوَّة ص231)

اِسی طرح ایک دوسرے بُزُرگ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایاکہ جب یزیدیوں نے سرِ مبارَک کو نیزہ سے اُتار کر ابنِ زِیادِ بد نِہاد کے مَحَل میں داخِل کیا، تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدَّس ہونٹ ہل رہے تھے اور زَبانِ اقدس پر پارہ 13 سورہ ابراھیم کی آیت نمبر 42 کی تلاوت جاری تھی۔
وَلَاتَحسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعمَلُ الظّٰلِمُو ±نَ ط (پ 13ابراھیم42 )

ترجَمہ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ عزوجل کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے ۔
(روضة الشھداءمُترجَم ج۲ص385)
عبادت ہو تو ایسی ہو تلاوت ہو تو ایسی ہو
سرِشَبّیر تو نیزے پہ بھی قراٰں سناتا ہے

منہال بن عَمرو کہتے ہیں: واللہ میں نے بچشمِ خود دیکھا کہ جب امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرِ انورکو لوگ نَیزے پر لیے جاتے تھے اُس وَقت میں ” دِمِشق “میں تھا۔ سرِ مبارَک کے سامنے ایک شخص سورةُ الکَہف پڑھ رہا تھا جب وہ آیت نمبر 15 پر پہنچا:
اِنَّ اَصحٰبَ الکَھفِ وَالرَّقِیمِ کَانُوا مِن اٰیٰتِنَا عَجَباً
( پ15 الکہف ۹)

ترجَمہ کنزالایمان: پہاڑ کی کھوہ(غار) اور جنگل کے کَنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے ۔

اُس وَقت اللہ تعالیٰ نے قُوّتِ گویائی بخشی تو سرِ انورنے بزبانِ فصیح فرمایا : اَعجَبُ مِن اَصحَابِ الکَھفِ قَتلِی وَ حَملِی” اصحابِ کہف کے قتل کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کو لیے پھرنا عجیب تر ہے۔“ (شرح الصدور ص ۲۱۲)
سر شھید انِ مَحَبَّت کے ہیں نیزوں پر بُلند
اور اونچی کی خدا نے عِزّو شانِ اہلبیت

محترم قارئین کرام!صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی علیہ رحمة اللہ الھادی اپنی کتاب سوانِحِ کربلا میں یہ حِکایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: در حقیقت بات یِہی ہے کیونکہ اَصحابِ کَہف پر کافِروں نے ظلم کیا تھا اور حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہکو ان کے نانا جان صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کی اُمّت نے مہمان بنا کر بلایا، پھر بیوفائی سے پانی تک بند کر دیا! اٰل واَصحاب علیہم الرضوان کو حضرتِ امامِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہکے سامنے شہید کیا۔ پھر خود حضرتِ امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا، اہلبیتِ کِرام علیہم الرضوان کو اَسیر(یعنی قیدی) بنایا،سرِ مبارَک کو شہر شہر پھرایا۔ اَصحابِ کہف سالہا سال کی طویل نیند کے بعد بولے یہ ضَرور عجیب ہے مگر سرِ انور کا تنِ مبارک سے جدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے۔
(سوانحِ کربلا ص 118)

فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349661 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.