شہادت کے میدان کا بے دریغ سپاہی

امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راہ میں ایک خواب دیکھا ،جاگے تو ''انا للہ وانا الیہ راجعون والحمد للہ رب العالمین''کہتے ہوئے اٹھے ۔امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:'' اے میرے والد! میں آپ پرقربان ،کیا بات ملاحظہ فرمائی ؟'' فرمایا: ''خواب میں ایک سوار دیکھا،کہہ رہا ہے، لوگ چلتے ہیں اور ان کی قضائیں ان کی طرف چل رہی ہیں میں سمجھاکہ ہمیں ہمارے قتل کی خبردی جاتی ہے۔''حضرتِ عابد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ''اللہ عزوجل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوکوئی برائی نہ دکھائے کیا ہم حق پر نہیں۔ '' فرمایا: ''ضرورہیں۔'' عرض کی: ''جب ہم حق پر جان دیتے اور قربا ن ہوتے ہیں،توکیا پرواہ ہے۔''فرمایا: ''اللہ تعالیٰ تم کو ان سب جزاؤں سے بہتر جزادے جو کسی بیٹے کوکسی باپ کی طرف سے ملے۔'' (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃاحدی وستین...)

نواسہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شب میں روانگی
اب مشرقی کنا روں سے اندھیرا بڑھتا آتا ہے اور بزمِ فلک کی شمعیں روشن ہوتی جاتی ہیں، فضائے عالم کے سیاح اور خداعزوجل کی آزاد مخلوق پرند چہچہا چہچہا کر خاموش ہوگئے ہیں ،زمانے کی رفتار بتانے والی گھڑی اور عمروں کا حسا ب سمجھانے والی جنتری حد تک پہنچادیا ہے ،کچھ اپنی دلکش ادائیں دکھا کرروپوش ہو گئی ،تاریکیوں کا رنگ اب اور بھی گہرا ہو گیا ہے ۔نگاہیں جو الجھتی بلکہ ناکام رہ جاتی ہیں اوراگرکچھ نظر بھی آجاتا ہے تو رات کی سیاہ چلمن اسے صاف معلوم ہونے سے روکتی ہے۔ وقت کے زیادہ گزرنے اور بول چال کے موقوف ہوجانے نے سناٹا پیداکر دیا ہے رات اور بھی بھیانک ہو گئی ہے ۔شب بیدارستاروں کی آنکھیں جھکی پڑی ہیں ، سونے والے لمبیاں تانے سورہے ہیں ،نیند کا جادوزمانے پرچل گیا ہے،حرکے لشکر سے نفیرِ خواب بلند ہوئی ہے ۔امام جنت مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے اتنی رات اسی موقع کے انتظار میں جاگ جاگ کر گزاری ہے ،کوچ کی تیاریاں فرما رہے ہیں اسباب جو شام سے بندھا رکھا تھا بار کیا گیا اور عورتوں بچوں کو سوار کرا یاگیاہے۔اب یہ مقدس قافلہ اندھیری رات میں فقط اس آسرے پر روانہ ہو گیا ہے کہ رات زیادہ ہے دشمن سوتے رہیں گے اورہم ان سے صبح ہونے تک بہت دور نکل جائیں گے ،باقی رات چلتے اور سواریوں کو تیز چلاتے گزری ۔

میدانِ کربلا میں آمد
اب تقدیر کی خوبیاں دیکھئے کہ مظلوموں کو صبح ہوتی ہے تو کہاں ،کربلا کے میدان میں ،یہ محرم ٦١ھ؁ کی دوسری تاریخ اور پنج شنبہ کا دن ہے ۔عمروبن سعد اپنا لشکر لے کر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلے پر آگیا ہے ۔ اس کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ نے کہا : ''اے ماموں! میں تجھے خداکی قسم دیتاہوں کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقابلہ کرکے گناہ گارنہ ہو ، اللہ کی قسم! اگرساری دنیا تیری سلطنت میں ہو تواسے چھوڑنا اس سے آسان ہے کہ تُو خداعزوجل سے حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کاقاتل ہو کرملے۔''کہا: ''نہ جاؤں گا امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پانی بندہونا

عمرو بن سعد نے فرات کے گھاٹوں پر پانسو سواربھیج کر ،ساقی کوثر صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پانی بند کیا۔ایک رات امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بُلا بھیجا، دونوں لشکروں کے بیچ میں حاضر آیا ۔دیر تک باتیں رہیں ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھایا کہ'' اہلِ باطل کا ساتھ چھوڑ۔'' کہا'' میراگھرڈھایا جائے گا ۔'' فرمایا :''اس سے بہتر بنوادوں گا ۔'' کہا ''میری جائیدادچھن جائے گی ۔'' ارشاد ہوا: ''اس سے اچھی عطا فرماؤں گا ۔ '' (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃاحدی وستین...)

ابن سعدکاابن زیاد کو مصلحت آمیز خط اور شمر کا امام کے خلاف ورغلانا
تین چارراتیں یہی باتیں رہیں ۔جن کااثر اس قدر ہوا کہ ابن سعدنے ایک صلح آمیز خط ابن زیا د کو لکھاکہ'' حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاہتے ہیں یاتومجھے واپس جانے دوایزید کے پاس لے چلو یا کسی اسلامی سرحد پر چلا جاؤں۔اس میں تمہاری مراد حاصل ہے ۔'' حالانکہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید پلید کے پاس جانے کو ہرگزنہ فرمایا تھا۔ابن زیاد نے خط پڑھ کر کہا:''بہتر ہے۔''شمر ذِی الْجَوْشَن خبیث بولا :''کیا یہ باتیں مانے لیتاہے ؟خداکی قسم! اگر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے تیری اطاعت کئے چلے گئے توان کے لئے عزت وقوت ہوگی اور تیرے واسطے ضعف وذلت،یوں نہیں بلکہ تیرے حکم سے جائیں ۔اگرتُوسزا دے تو مالک ہے اور اگرمعاف کرے تو تیرا احسان ہے ،میں نے سنا ہے کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن سعد میں رات رات بھر باتیں ہوتی ہیں ۔'' ابن زیاد نے کہا:''تیری رائے مناسب ہے تُومیرا خط ابن سعد کے پاس لے جا اگروہ مان لے تو اس کی اطاعت کرنا ورنہ تُوسردارِ لشکرہے اور ابن سعد کاسرکاٹ کر میرے پاس بھیج دینا ۔''پھر ابن سعدکولکھا کہ ''میں نے تجھے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اس لئے بھیجا تھا کہ توان سے دست کش ہو یاامیددلائے اورڈھیل دے یا ان کا سفارشی بنے،دیکھ! حسین سے میری فرمانبرداری کے لئے کہہ،اگرمان لیں تومطیع بنا کر یہاں بھیج دے ورنہ انہیں اوران کے ساتھیوں کو قتل کر ،اگرتو ہمارا حکم مانے گا توتجھے فرماں برداری کا انعام ملے گا ورنہ ہمارالشکر شمر کے لئے چھوڑدے ۔ ''

شمر کی ابن سعد کے پاس آمد
جب شمر نے ابن سعدکو ابن زیاد بدنہاد کا خط دیا ،اس نے کہا: ''تیرا برا ہو ، میرا خیال ہے کہ تونے ابن زیاد کو میری تحریرپرعمل کرنے سے پھیر کرکام بگاڑدیا ،مجھے صلح ہوجانے کی پوری امیدتھی ۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ توہرگزاطاعت کوقبول کریں گے ہی نہیں خداکی قسم! ان کے باپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل ان کے پہلو میں رکھا ہواہے ۔'' شمرنے کہا:''اب توکیا کرنا چاہتا ہے ؟''بولا:''جو ابن زیاد نے لکھا ۔'' شمر نے عباس اور ان کے حقیقی بھائیوں کو بلا کر کہا:''اے بھانجو!تمہیں امان ہے ۔'' وہ بولے: ''اللہ کی لعنت تجھ پراور تیری امان پر ماموں بن کر ہمیں امان دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیٹے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوامان نہیں ۔ '' (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃاحدی وستین...)

نومحرم الحرام اورخواب میں جدِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تشریف آوری
یہ پنجشنبہ کی شام اور محرم ٦١ ؁ہجری کی نویں تاریخ ہے اس وقت سردارِجوانانِ جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں جہنمی لشکرکوجنبش دی گئی ہے اوروہ مے شہادت کا متوالا ،حیدری کچھارکا شیر ،خیمہ اطہر کے سامنے تیغ بکف جلوہ فرماہے۔آنکھ لگ گئی ہے ،خواب میں اپنے جدِکریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کودیکھا ہے کہ اپنے لختِ جگر کے سینہ پردستِ اقدس رکھے فرمارہے ہیں ''اَللّٰھُمَّ اَعْطِ الْحُسَیْنَ صَبْراًوَّاَجْراً'' الٰہی!عزوجل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صبرواجرعطا کر۔ اورارشادہوتاہے کہ'' جوشِ مسرت میں امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھل گئی ،ملاحظہ فرمایاکہ دشمن حملہ آوری کا قصد کررہے ہیں ۔جمعہ کے خیال اور پسماندوں کووصیت کرنے کی غرض سے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک رات کی مہلت چاہی۔ابن سعد نے مشورہ لیا۔ عمروبن حجاج زبیدی نے کہا: ''اگر دیلم کے کافر بھی تم سے ایک رات کی مہلت مانگتے تودینی چاہے تھی ۔'' غرض مہلت دی گئی ۔(الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃاحدی وستین...)

جواں ہمّت مردِحق شیرخداکے شہزادے کی بدبختوں کی سرکوبی کے لیے تیاری
یہاں یہ کارروائی ہوئی کہ سب خیمے ایک دوسرے کے قریب کردئیے گئے۔خیموں کے پیچھے خندق کھود ی ۔ خشک لکڑیوں سے بھردی۔اب مسلمان ان کاموں سے فارغ ہوکر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں اورامام رضی اللہ تعالیٰ عنہاپنے اہل اور ساتھیوں سے فرما رہے ہیں:''صبح ہمیں دشمنوں سے ملنا ہے ،میں نے بخوشی تمام تم سب کواجازت دی ،ابھی رات باقی ہے جہاں جگہ پاؤچلے جاؤ اورایک ایک شخص میرے اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے ایک ایک کو ساتھ لے جاؤ ،اللہ عزوجل تم سب کو جزائے خیر دے،دیہات وبلادمیں متفرق ہوجاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بلا ٹالے ،دشمن جب مجھے پائیں گے ،تمہاراپیچھا نہ کریں گے ۔''یہ سن کرامام کے بھائیوں،صاحبزادوں ،بھتیجوں اورعبداللہ ابن جعفر کے بیٹوں نے عرض کی: ''یہ ہم کس لئے کریں اس لئے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد زندہ رہیں، اللہ عزوجل ہمیں وہ منحوس دن نہ دکھائے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ ہوں اور ہم باقی ہوں۔ ''

مسلم شہیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائیوں سے فرمایاگیا:''تمہیں مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہہی کا قتل ہوناکافی ہے۔ میں اجازت دیتا ہوں ،تم چلے جاؤ۔ ''عرض کی: اور ہم لوگوں سے جاکرکیا کہیں ؟یہ کہیں کہ'' اپنے سردار،اپنے آقا،اپنے سب سے بہتر بھائی کو دشمنوں کے نرغے میں چھوڑآئے ہیں۔ نہ ان کے ساتھ تیر پھینکا ،نہ نیزہ مارا،نہ تلوارچلائی اور ہمیں خبر نہیں کہ ہمارے چلے آنے کے بعد ان پرکیا گزری ۔خداکی قسم! ہم ہرگز ایسا نہ کریں گے بلکہ اپنی جانیں ،اپنے بال بچے تمہارے قدموں پر فداکر دیں گے، تم پر قربان ہو کر مر جائیں گے اللہ اس زندگی کا براکرے جو تمہارے بعد ہو ۔ ''

اسی طرح اورسب ساتھیوں نے بھی گزارش کی ۔اللہ عزوجل ان سب کو جزائے خیر دے۔ (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃاحدی وستین...)

اللہ اکبر! آج مالک کوثرکے گھر میں اتنا پانی بھی نہیں کہ بے ہوش بہن کے منہ پر چھڑکا جائے ۔جب ہوش آیا توفرمایا: ''اے بہن! رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ عزوجل سے ڈرو اور صبر کرو ، جان لو سب زمین والوں کو مرنا اور سب آسمان والوں کوگزرنا ہے ،اللہ تعالیٰ کے سوا سب کو فنا ہے ، میرے باپ،میری ماں ،میرے بھائی رضی اللہ تعالیٰ عنہم مجھ سے بہترتھے۔ ہرمسلمان کو رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی راہ چلنی چاہیئے۔ (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃاحدی وستین...)

دس محرم الحرام اور اہلبیت پر ظلم وستم کا آغاز
روزِعاشورا کی صبح جانگزا آتی اورجمعے کی سحر محشر زامنہ دکھاتی ہے ۔امام عرش مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ،خیمہ اطہرسے برآمدہوکر اپنے بَہتّرساتھیوں، بتیس سواروں ، چالیس پیادوں کا لشکر ترتیب دے رہے ہیں ۔ خندق کی لکڑیوں میں آگ دے دی جائے کہ دشمن ادھر سے راہ نہ پائیں ۔

امام جنت مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر تشریف لائے اور ناقہ پر سوارہوکراتمامِ حجت کے لئے اشقیا کی طرف تشریف لے گئے قریب پہنچ کر فرمایا: ''لوگو! میری بات غور سے سنو اورجلدی نہ کرو اگرتم انصاف کروتوسعادت پاؤ ورنہ اپنے ساتھیوں کوجمع کرواور جو کرنا ہے کرگزرو،میں مہلت نہیں چاہتا ،میرا اللہ جس نے قرآن اتارااور جو نیکوں کو دوست رکھتا ہے' میرا کارسازہے ۔''

امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ آواز ان کی بہنوں کے کان تک پہنچی بے اختیار ہو کر رونے لگیں امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خاموش کرنے کے لئے بھیج کر فرمایا:'' خدا کی قسم!انہیں بہت رونا ہے۔'' پھر اشقیاکی طرف متوجہ ہوکرفرمانے لگے: ''ذرا میرانسب توبیان کرواورسوچوتو میں کون ہوں؟۔۔۔۔۔۔اپنے گریبان میں منہ ڈالو ،کیا میرا قتل تمہیں روا ہوسکتاہے ؟۔۔۔۔۔۔ میری بے حرمتی تم کوحلال ہوسکتی ہے؟۔۔۔۔۔۔کیامیں تمہارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کانواسہ نہیں؟۔۔۔۔۔۔کیا تم نے نہ سُناکہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے اور میرے بھائی کوفرمایا: تم دونوں جوانانِ اہل جنت کے سردار ہو؟۔۔۔۔۔۔کیا اتنی بات تمہیں میری خوں ریزی سے روکنے کے لئے کافی نہیں؟۔۔۔۔۔۔''

زہیربن قین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہتھیارلگائے گھوڑے پرسوارآگے بڑھے اورکہنے لگے: '' اے اہلِ کوفہ !عذابِ الٰہی عزوجل جلد آتاہے ۔مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ نصیحت کرے ،ہم تم ابھی دینی بھائی ہیں ،جب تلوار اٹھے گی تم الگ گروہ ہو گے ہم الگ۔ ہمیں تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اولادکے بارے میں آزمایا ہے کہ ہم تم ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔میں تمہیں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدد کے لئے بلاتا اور سرکش ابن سرکش ابن زیاد کی اطاعت سے روکنا چاہتا ہوں، تم اس سے ظلم وستم کے سوا کچھ نہ دیکھو گے ۔''

اب شقی ابن سعد نے اپنے ناپاک لشکر کو امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف حرکت دی۔ حرنے کہا: ''تجھے اللہ کی مار، کیا تو ان سے لڑے گا ؟''کہا: ''لڑوں گا اورایسی لڑائی لڑوں گا،جس کا ادنٰی درجہ سروں کا اڑنا اور ہاتھوں کا گرنا ہے ۔''کہا:''وہ تین باتیں جو انہوں نے پیش کی تھیں تجھے منظور نہیں ؟''کہا: ''میرا اختیارہوتاتومان لیتا۔'' (الکامل فی التاریخ،انضمام الحر...)

حضرت حررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معذرت
حر مجبورانہ لشکر کے ساتھ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بڑھے مگریوں کہ بدن کانپ رہا ہے اور پہلو میں دل کے پھڑکنے کی آوازبغل والے سن رہے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر ان کے ایک ہم قوم نے کہا :''تمہارا یہ کام شبہ میں ڈالتا ہے ،میں نے کسی لڑائی میں تمہاری یہ کیفیت نہ دیکھی، مجھ سے اگر کوئی پوچھتاہے کہ تمام اہلِ کوفہ میں بہادرکون ہے ؟تو میں تمہارا ہی نام لیتاہوں ۔''بولے: ''میں سوچتاہوں کہ ایک طرف جنت کے خوش رنگ پھول کھلے ہیں اور ایک جانب جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے بلند ہورہے ہیں اور میں اگر پرزے پرزے کر کے جلا دیا جاؤں توجنت چھوڑنا گوارانہ کروں گا۔'' یہ کہہ کر گھوڑے کو ایڑی دی اورامام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ پھر عرض کی:''اللہ عزوجل مجھے حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قربان کرے ۔۔اب میں تائب ہو کر حاضرآیا ہوں اوراپنی جان حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ پر قربان کرنی چاہتا ہوں

مقابلے کا باقاعدہ آغاز
اس کے جواب میں ان خبیثوں نے حضرتِ حررضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پتھر پھینکنے شروع کئے، یہ واپس ہو کر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آگے کھڑے ہوگئے ۔لشکر اشقیا سے زیاد کاغلام یساراورابن زیاد کا غلام سالم میدان میں آئے اور اپنے مقابلہ کے لئے مبارز طلب کرنے لگے

حر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد سخت لڑائی شروع ہوئی۔دشمن کٹتے جاتے اور آگے بڑھتے جاتے ،کثرت کی وجہ سے کچھ خیال نہ لاتے ،یہاں تک کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب پہنچ گئے اور تشنہ کاموں پرتیروں کامینہ برسانا شروع کردیا،یہ حالت دیکھ کر حضرت حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی پیٹھ کے پیچھے لے لیا اوراپنے چہرے اور سینے کو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپر بنا کر کھڑے ہوگئے۔ دشمن کی طرف سے تیر پرتیر آرہے ہیں اوریہ کامل اطمینان اور پوری خوشی کے ساتھ زخم پرزخم کھارہے ہیں ۔اس وقت اس شرابِ محبت کے متوالے نے اپنے معشوق ،اپنے دلربا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہکو پیٹھ کے پیچھے لے کر جنگِ احد کا سماں یاد دلا یا ہے ۔ غرض حضرت حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہاں تک تیر کھائے کہ شہید ہو کرگرپڑے،حضرت زہیربن قینرضی اللہ تعالیٰ عنہ لڑکر شہید ہوگئے ۔حضرت نافع بن ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شہید ہوگئے ۔
اب اعدا نے چارطرف سے نرغہ کیا ۔اس نرغے میں عون بن عبداللہ بن حضرت جعفر بن طیاراور عبدالرحمن وجعفر ،پسرانِ عقیل نے شہادتیں پائیں ۔ پھر حضرتِ قاسم، حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حملہ آورہوئے اورعمروبن سعد بن نفیل مردودکی تلوارکھاکر زمین پرگرے ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوچچا!کہہ کرآوازدی،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیرِغضبناک کی طرح پہنچے، اور عمرومردودپرتلوار چھوڑی ،اس نے روکی ،ہاتھ کہنی سے اڑ گیا ۔وہ چلایا ،کوفے کے سوار اس کی مدد کو دوڑے اور گردوغبارمیں اسی کے ناپاک سینے پر گھوڑوں کی ٹاپیں پڑگئیں۔

جب گردچھٹی تو دیکھا ،امام حضرت قاسم کی لاش پر فرما رہے ہیں:''قاسم! رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیرے قاتل رحمتِ الٰہی عزوجل سے دور ہیں، خداکی قسم! تیرے چچا پرسخت شاق گزراکہ تُو پکارے اور وہ تیری فریاد کو نہ پہنچ سکے ۔'' پھر انہیں بھی اپنے سینے پر اٹھا کر لے گئے اور حضرتِ علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر لٹادیا۔اسی طرح یکے بعد دیگرے حضرت عباس اوران کے تینوں بھائی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے صاحبزادے حضرت ابو بکر اور سب بھائی بھتیجے رضی اللہ تعالیٰ عنہم شہید ہو گئے ۔اللہ عزوجل انہیں اپنی وسیع رحمتوں کے سائے میں جگہ دے اور ہمیں ان کی برکات سے بہرہ مند فرمائے ۔

اب امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تنہا رہ گئے ،خیمے میں تشریف لا کر اپنے چھوٹے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو(جو عوام میں علی اصغر مشہور ہیں)گودمیں اٹھاکرمیدان میں لائے، ایک شقی نے تیر مارا کہ گودہی میں ذبح ہوگئے ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا خون زمین پرگرایا اوردعا کی:''الٰہی!عزوجل اگرتونے آسمانی مدد ہم سے روک لی ہے تو انجام بخیر فرما اور ان ظالموں سے بدلہ لے۔'' (الکامل فی التاریخ،...)

آج صبح سے ہمراہیوں اوررفیقوں بلکہ گود کے پالوں کو ایک ایک کر کے جدا کر لیا گیا ہے۔کلیجے کے ٹکڑے خون میں نہائے آنکھوں کے سامنے پڑے ہیں ،ہری بھری پھلواڑی کے سہانے اورنازک پھول پتی پتی ہو کر خاک میں ملے ہیں اور کچھ پرواہ نہیں ،پرواہ ہوتی توکیوں ہوتی؟ کہ راہ دوست میں گھر لٹانے والے اسی دن کے لیے مدینہ سے چلے تھے۔

امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاجوقدم آگے پڑتا ہے، ''یتیمی ''بچوں اور''بے کسی''عورتوں سے قریب ہوتی جاتی ہے۔ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلقین ، امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہنیں جنہیں ابھی صبر کی تلقین فرمائی گئی تھی ،اپنے زخمی کلیجوں پر صبر کی بھاری سل رکھے ہوئے سکوت کے عالم میں بیٹھی ہیں
اب چارطرف سے امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر، جنہیں شوقِ شہادتہزاروں دشمنوں کے مقابلے میں اکیلا کر کے لایا ہے، نرغہ ہوا ۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ داہنی طرف حملہ فرماتے تودورتک سواروں اور پیادوں کا نشان نہ رہتا ،بائیں جانب تشریف لے جاتے تودشمنوں کو میدان چھوڑ کربھاگنا پڑتا ۔

خداکی قسم!وہ فوج اس طرح ان کے حملوں سے پریشان ہوتی جیسے بکریوں کے گلہ پرشیر آپڑتا ہے ،لڑائی نے طول کھینچا ہے ،دشمنوں کے چھکے چھوٹے ہوئے ہیں، ناگاہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھوڑابھی کام آگیا ،پیادہ ایسا قتال فرمایا کہ سواروں سے ممکن نہیں ۔

ٍ جب شمر خبیث نے کام نکلتا نہ دیکھا ،لشکرکو للکارا:''تمہاری مائیں تم کو پیٹیں کیا انتظار کر رہے ہو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کرو ۔''اب چارطرف سے ظلمت کے ابراور تاریکی کے بادل فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چاندپر چھا گئے ۔زرعہ بن شریک تمیمی نے بائیں شانہ مبارک پر تلوار ماری ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھک گئے ہیں ....زخموں سے چور ہیں....زخم نیزے کے گھاؤ تلواروں کے لگے ہیں ....تیروں کا شمار نہیں....اٹھنا چاہتے ہیں اورگرپڑتے ہیں ....اسی حالت میں سنان بن انس نخعی شقی ناری جہنمی نے نیزہ مارا کہ وہ عرش کاتارا زمین پرٹوٹ کر گرا....سنان مردودنے خولی بن یزید سے کہا:سرکاٹ لے ۔اس کا ہاتھ کانپا۔ سنان ولد الشیطان بولا:''تیراہاتھ بےکارہو'' اور خودگھوڑے سے اترکر محمد رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جگر پارے ،تین دن کے پیاسے کوذبح کیا اورسرمبارک جداکرلیا ۔شہادت جو دلہن بنی ہوئی سرخ جوڑا،جنتی خوشبوؤں سے بسائے اسی وقت کی منتظر بیٹھی تھی ،گھونگھٹ اٹھا کربے تابانہ دوڑی اور اپنے دولھا حسین شہیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گلے میں باہیں ڈال کر لپٹ گئی ......

اس پربھی صبر نہ آیا ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لباس مبارک اتارکر آپس میں بانٹ لیا۔ عداوت کی آگ اب بھی نہ بجھی ،اہل بیت علیہم الرضوان کے خیموں کو لوٹا ،تمام مال اسباب اورمحمد رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صاحبزادیوں کا زیور اتارلیا ،کسی بی بی کے کان میں ایک بالی بھی نہ چھوڑی۔
اللہ عزوجل واحد قہارکی ہزارہزار لعنتیں ان بے دینوں کی شقاوت پر ،زیوردرکنار اہل بیت کے سروں سے ڈوپٹے تک ........،اب بھی مردودوں کے چین نہ پڑا ،ایک شقی ناری جہنمی پکارا:''کوئی ہے کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم کو گھوڑوں سے پامال کردے ؟'' ..... فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گودکے پالے ،مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے سینے پرکھیلنے والے ،کے تن ِمبارک کو سموں سے روندا کہ سینہ و پشتِ نازنین کی تمام ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو گئیں .....(الکامل فی التاریخ)

آہ صد آہ!!!جب جب ذکر حسین آتاہے آنکھیں چھلک جاتی ہیں ۔حزن و ملاکی بدلیاں چھاجاتی ہیں ۔کربلاکانام سنتے ہیں انگ انگ جاگ اُٹھتاہے رواں رواں کھڑاہوجاتاہے ۔

یوں داستان حق اختتام کو پہنچی ۔عہد و وفا کے پیکر نے ناناجان ؐکے دین سے وفا کاوہ عظیم کارنامہ سرانجام دیاکہ جب جب اسلام کے لیے شہادتیں ہوتی رہیں گیں ۔جب جب اسلام کو فتح و نصرت نصیب ہوتی رہے گی ۔فلسفہ حسینیت ،جرت حسینیت ،شجاعت حسینیت کی کتاب ہی رہبر و رہنماہوگی ۔

آج اس سربلند ہستی حضرت امام حسین کا مزار مبارک عراق کے شہر کربلا میں ہے۔ کربلا جانے کے دو راستے ہیں ایک تو بغداد سے براستہ موصل اور دوسرے نجف سے کربلا کیلئے سڑک آتی ہے۔ جونہی کربلا شہر کے قریب پہنچتے ہیں تو دور سے ہی مزار کے مینار نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ موجودہ مزار کی بلندی 27میٹر ہے جبکہ 1.25میٹر کے فاصلے پر نیچے سے اوپر تک12کھڑکیاں ہیں۔ یہ دیواریں مکمل سونے کی اور بہت سے دروازے ہیں۔ جبکہ مزار کے اندر جہاں پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آرام فرمارہے ہیں ۔ وہ جگہ75میٹر طویل اور59میٹر چوڑی ہے اور اس کے10دروازے ہیں۔ بیرونی دیوار میں دو مرکزی دروازے ہیں جن کے اندر65کمرے بنے ہوئے ہیں۔واقعہ کربلا کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کے مزار مبارک کی تاریخ بھی نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت و عقیدت رکھنے والوں نے آپ کے مزار کو کب اور کن حالات میں تعمیر کروایا اور اس کی تزئین و آرائش کی یہ سلسلہ مختلف ادوار میں جاری رہا۔صدیاں بیت جانے کے بعد بھی آج بھی زبان ِ حال سے بے اختیار جاری ہوجاتاہے ۔
کربلا کے جاں نثاروں کو سلام
فاطمہ زھراء کے پیاروں کو سلام
یاحسین ابن علی مشکل کشا
آپ کے سب جانثاروں کو سلام
اکبر و اصغر پر جاں قربان ہو
میرے دل کے تاجداروں کو سلام
جو حسینی قافلے میں تھے شریک
کہتے ہیں عطار ساروں کو سلام
بے بسی میں حیاء باقی رہی
سب حسینی پرداروں کو سلام

محترم قارئین :کردار و گفتار سے ثابت کردیں کہ حسین کے ماننے والے حسینی کردار کے پاسبان بھی ہیں ۔پھر دیکھیں شرق و غرب ہمارا ہوگا۔ظلم کی یہ کالیاں بدلیاں چھٹ جائیں گیں ۔کامیابی و کامرانی کاسورج طلوع ہوگا۔فرحت و شادمانی ،رحت و سکوں بھری زندگی اور ایمان افروز موت ،رشک بھری آخرت ہمارا مقدر ہوگی ۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 548054 views i am scholar.serve the humainbeing... View More