سیکھئے نئے سال 2013 میں
بقول ابّا!”سعد میاں سردیوں میں سُرخ سوئٹر ، ٹوپے ،جاگرز میں کسی اور ہی
سیّارے کی حسین مخلوق لگاکرتے ہیں اور حسن کی مارکیٹ ویلیو ڈاؤن کردیتے ہیں
!“ یہ بات حسن اور سعد میاں کے تو سروں پر سے گزر جاتی لیکن ابّا سمیت گھر
بھر کے تمام افراد اس بات سے خُوب مزے لیتے اور نتیجتاً پیار حسن میاں اور
سعد میاں ، دونوں ہی کو ملتا۔اب چونکہ سعد میاں بھی ہوشیار ہونے کی کوششوں
میں مصروف تھے تو اِن دنوں اُن کا پسندیدہ موضوع تھا ” میجک ، جادو، اَنتر
، مَنتر ، چُھو ، کَلنتر !“ کوئی بھولا بھٹکا مہمان آجائے بس اُس کی خیر نہ
ہوتی ،سعد میاں باورچی خانے یا فریج میں سے کوئی نہ کوئی لیمو (نِیبو) لے
آتے اور اسے مہمانوں کے سامنے اُن کی نظروں سے غائب کرنے کی اداکاری کرکے
خوب خوش ہوتے ۔
اُس روز شاید سعد میاں کی جادوئی قسمت نے وفا نہ کی کیونکہ ہوا یوں کہ
سردیوں کی ایک شام میں ابّا مقامی کالج سے پڑھا کر آئے ۔وہ بُری طرح تھک
چکے تھے۔حسن اور سعد نے اُن کو دیکھ کر ادب سے سلام کیا اور حسن ہاتھ دھو
کر اُن کے لیے پانی لانے چلے گئے۔سعد میاں سمجھ چکے تھے کہ ابّا تھکے ہوئے
ہیں اور اس وقت اُن کے لیے ”میجک یعنی جادو “ سے بہتر کوئی چیز تو ہو ہی
نہیں سکتی جو اُن کی تھکن اُتار سکے چنانچہ فوراً سبزیوں کی ٹوکری سے ایک
ننھا سا لیمو (نیبو) لے آئے اور اُسے اپنی ننھی سی مُٹھی میں دبا کر ابّا
کو دکھایا :”ابّا دیکھیں مِیلو !!!“
ابّا چونکے :”مِیلو ؟؟؟“
”ہاں ابّا مِیلو !“ سعد میاں خوب ہنسے ،غالباً انھوں نے لفظ ”لیمو“ کو اپنے
”توتلائی اِملے “کی آسان ادائیگی کے لیے ”مِیلو“ کرلیا تھا ۔ابّا کا ابھی
زار زار ہنسنے کاکوئی پروگرام نہ تھا اس لیے کہا : ”تو ہوگا ، ہم کیا کریں
!“
سعد میاں کی مُسکراہٹ میں کوئی کمی نہ آئی ، بولے : ”ابّا میجک ، میلو غائب
، وہاں !“(یعنی ابّا اب میں جادو دکھاؤں گا ،لیمو کو وہاں دُور غائب کردوں
گا )۔اتنا کہہ کر سعد میاں نے لیمو اپنی دوسری مُٹھی میں دابا اور پہلی
خالی مُٹھّی ابّا کے سامنے کردی ”ابّا جے میلو نئیں !“(ابّا یہ دیکھیں لیمو
نھیں ہے )
اب تو ابّا چونکے اور غور سے سعد میاں کو دیکھا جو خوب خوش ہو رہے تھے ۔ اس
کے بعد سعد میاں نے لیمو اپنی پہلی مُٹھّی میں چُھپا کر ہاتھ پیچھے کرلیا
اور دوسرا ہاتھ سامنے کھولا اور خالی ہاتھ داد طلب نظروں سے ابّا کو دکھایا
۔اب تو ابّا کو خوب مزا آیا۔سوچ کر بولے :” ہر چند اسلام میں جادو ٹونا بہت
سخت گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ کو ناپسند بھی ہے لیکن کیا کریں کہ ہمیں تو اس
سے بھی بڑا والا میجک آتا ہے ۔۔جاؤ ایک ٹماٹر لے کر آؤ،صاف سُتھرا ، دُھلا
دُھلایا ، اُسے کوئی گندا مند انہ کرے اور رکابی (پلیٹ ) میں رکھ کر لائے ،
پھر ہم بتادیں گے تم لوگوں کو یہ میجک ویجک کیا ہوتا ہے ،ہاہاہاہا،ٹھا ٹھا
ٹھا ٹھا ، ہو ہوہوہو،ہی ہی ہی ہی ،خی خی خی خی ، !!!“ حسن میاں آچکے تھے
اور پوری بات بھی سُن چکے تھے ،پانی کا گلاس ابّا کو دے کر وہی پلیٹ لے کر
بھاگے اور ماما سے دو تین ٹماٹر لے کر آگئے۔تینوں ٹماٹر سائز میں ایک دوسرے
سے مختلف تھے ،کوئی چھوٹا تو کوئی بڑا اور کوئی بہت ہی بڑا ۔اب تو سعد اور
حسن میاں کے مزے آگئے ۔”ابّا جے والا میجک !“ سعد میاں نے لپک کر ایک بڑا
سا ٹماٹر اپنی مٹھّیوں میں جکڑنے کی کوشش کی ۔ ابّا نے کہا :” بھئی ہم ہاتھ
سے تو جادو کرتے نھیں ہیں ، تم لوگ کسی طرح یہ ٹماٹر ہمارے منھ میں فِٹ
کردو ، پھر دیکھو جادو !“اتنا کہہ کر ابّا نے اپنا منھ کھول دیا ۔”پھاہ ہ ہ
۔۔۔“اب تو محمد حسن نوید اور محمد سعد نوید میاں خوب ہنسے اور سعد میاں نے
ایک ننھا سا سُرخ رنگ کا پکا ہوا ٹماٹر ابّا میاں کے منھ کے اوپر رکھ دیا
۔سردیوں کی وجہ سے ٹماٹر اچھے کڑک کڑک سُرخ سُرخ آئے تھے اور ابّا کتنے ہی
دن سے حسن اور سعد سے کہہ رہے تھے کہ تم لوگ دوپہر کے کھانے میں کچّے ٹماٹر
ماما سے کٹوا کر نمک پِسی ہوئی کالی مرچ چھڑک کر کھایا کرو ،اس سے گورے
چِٹّے ، سُرخ سفید ہوجاؤ گے مگر امّاں کہا کرتیں کہ کوئی ضرورت نہیں ہے
،میرے شاہ زادے اسی طرح سے گورے چٹے ہیں ۔سعد میاں ٹماٹر ابّا کے منھ کے
اوپر رکھ کر ڈر کر دُور جاکھڑے ہوئے تھے اور اب کسی تماشے کے منتظر تھے
۔ابّا نے اپنا منہ آسمان کی جانب اُٹھایا ہوا تھا اور ٹماٹر آدھا اُن کے
منہ میں اور آدھا باہر حسن اور سعد میاں کے سامنے تھا ۔ابّا نے اپنے ہاتھ
کسی جادوگر کی طرح خوب فضا میں ادھر اُدھر چلائے اور یکدم لپک کر ٹماٹر نگل
لیااور پلک جھپکتے میں کھا لیا ۔۔۔اوہو کمال ہوگیا ، بھئی واہ ، مزا آگیا
۔۔۔۔سعداور حسن میاں تو خوشی سے اُچھلنے لگے اور خوب خوب تالیاں بجیں ۔اوہو
ابّا نے کمال کردیا تھا ۔
”ابّا ایک اور ، میں بھی کروں گا پھر میجک !“ حسن میاں نے ہنستے ہوئے التجا
کی ۔ابّا نے کچھ سمجھانا چاہا مگر ابھی وقت نہیں آیا تھا ، لہٰذا کچھ سوچ
کر خاموش ہوگئے اور منہ کھولتے ہوئے کہا :” چلو بھئی اب کون آئے گا ٹماٹر
رکھنے ؟“ حسن اور سعد میاں دونوں کی بھرپور کوشش تھی کہ یہ ”سعادت “ اُن کے
حصہ میں آئے لیکن چونکہ سعد میاں پہلے ٹماٹر رکھ چکے تھے چنانچہ قرعہ حسن
میاں کے نام کُھلا اور حسن میاں نے ہنستے ہوئے خوب بڑا سا ٹماٹر ابّا کے
کُھلے ہوئے منھ کے اوپر رکھ دیا ۔حسن میاں نے دیکھا کہ بوڑھے ہوجانے کے
باوجود ابّا کے سارے دانت ٹھیک تھے ، کوئی بھی نہیں ٹوٹا تھا اور سارے کے
سارے دانت صاف سُتھرے چمکتے ہوئے تھے اور ابّا کے منہ سے بد بو بھی نہیں
آرہی تھی ۔حسن کو اپنے ابّا بہت ہی اچھے لگے اور خود اُن کے اور سعد کے
دانت بھی تو صاف سُتھرے تھے نا۔اچانک حسن میاں اُچھلتے ہوئے ابّا کے پاس
آئے اور بولے :”ابّا ،ابّا آپ بندوق کی طرح فائر کریں نا ٹماٹر سے ،ٹھاہ
کرکے تو جھوٹ موٹ کا ٹماٹر والا خون نکلے گا ۔۔یو(جو) ۔۔۔یو(جو)۔۔۔وہ ٹی وی
پر دکھا رہے تھے نا کہ بم پھٹ گیا !“ ابّا نے ایک نظر اپنے روشن مستقبل
پوتے کو دیکھا اور بڑے افسوس ناک لہجہ میں خود سے کہا:”افسوس یہ قوم ننھے
کچّے ذہنوں کو کیا تعلیم دی رہی ہے ،ہمارا ٹی وی اور اخبار، تمام میڈیا،
ننھے ذہنوں کی کیسی تربیت کررہا ہے ؟یہ کیسا دور ہے کہ بچّے کتابوں قلم سے
دُور اور اسلحہ سے کھیلنا پسند کررہے ہیں، اُن کی نفسیات میں یہ انتہائی
گندی چیز اچھی بن کر سما گئی ہے ،توبہ ہے الٰہی توبہ۔۔۔توبہ !!!“ بے خیالی
میں ابّا نے زور زور سے توبہ کی تو حسن میاں سہم گئے کہ یقیناً انہوں نے
غلط بات کی ہے ۔انھیں پتا تھا کہ ابّا کو گولی ، گالی اور بندوق کس قدر
ناپسند ہے اور ابّا کہتے ہیں دنیا کی سب سے بُری ایجاد بندوق اور موبائل
فُون ہے اگر ان کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو ۔میں نے ابّا کو ناراض
کردیا ،یہ سوچ کر حسن میاں اُداس ہونے لگے کہ ابّا نے معاملہ بھانپ لیا اور
کہا :” لو بھئی گولی اور فائرنگ کی باتیں تو چھوڑو ،اللہ ہم سب کو نئے سال
میں اور آنے والے ہر سال میں ان بلاؤں سے محفوظ اور دُور رکھے ، آمین !
ٹماٹر کا کھیل دیکھو !“ اتنا کہہ کر ابّا ذرا خاموش ہوئے اور حسن اور سعد
میاں نے اُن کے منھ کے اوپر ٹماٹر دیکھنا چاہا مگر یہ کیا؟؟اوہو!!! ابّا
میاں وہ بڑا سا سالم سموچا ٹماٹر بھی نگل چکے تھے ،ارے واہ ، کمال ہوگیا ،
یہ تو جادو ہوگیا ، اے ون میجک ہوگیا ،مگر ابّا تو کہتے ہیں کہ جادو اسلام
میں گناہ ہے ، گندی بات ہے ، اللہ تعالیٰ کو پسند نھیں پھر ، پھر ابّا نے
یہ جادو کہاں سے سیکھا ۔۔۔ارے کما ل ہوگیا ، غضب ہوگیا ۔ ابّا بیٹھے بٹھائے
دو سالم سموچے ٹماٹر غائب کرچکے تھے ،ایک سعد میاں کا اور دوسرا حسن دھو
دُھلا کر لائے تھے ۔افوہ !!!اب تو امّاں اور ماما اور بابا کے لیے گرما گرم
رپورٹ تیار کرنا تھی ۔سعد تو قَہقَہے لگا رہے تھے لیکن حسن میاں کو ایک بات
سوجھی ،وہ ابّا کی جانب بڑھے لیکن ابّا میاں پہلے ہی کسی گہری سوچ میں گُم
تھے ۔محمد حسن نوید میاں ڈر گئے کہ کہیں ابّا کی شوگر کم نہ ہورہی ہو ۔کل
سے کم نھیں ہورہی تھی نا !یہ سوچ کر وہ ابّا کی طرف بڑھتے ہوئے بولے :
حسن: ابّا آپ کیا سوش(سوچ)رہے ہیں؟
ابّا(چونکتے ہوئے ) آں ۔۔۔ہاں ۔۔کک۔۔کچھ نھیں ۔۔ہاں ہاں ۔۔۔یہ سو چ رہا ہوں
کہ ابھی جو مزے دار واقعہ ہوا ہے اور جو تم جا کر اپنے بابا،ماما اور امّاں
کو سُناؤ گے اور میں تمہارے پسندیدہ ترین رسالے میں اسے کس نام سے لکھوں
اور اور اس میں بچوں کو کیا سبق دوں؟مجھے تو اس بے کار سے فضول واقعہ میں
کوئی سبق ڈھونڈے نھیں ملتا ۔یہی سوچ رہا ہوں ۔۔۔اور تم تو جانتے ہو کہ فِکر
سے میری شوگر۔۔۔۔“اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوئے لیکن سعد میاں اور حسن میاں
اُچھل پڑے کہ اب پھر ابّا کی ڈاڑھی چُبھے گی۔اوہو۔۔۔۔اچانک حسن بلبلا کر
بولے :”نئیں نئیں (نھیں نھیں ) ابّا ۔۔۔یہ ۔۔یہ تو بہت مزے کا ہوا ہے ابھی
نا ۔۔۔آپ اس کا نام تعلیم و تربیت میں مِیلو کا جادو رکھ دیں اور یو یو
(جوجو) بابا بھی لاتے ہیں ہمارے اسکول کی لائبریری میں بھی آتا ہے نا ، وہ
والا ،اس میں مِیلو کا جادو لکھ دیں اور سارے بچوں کو سبق دیں کہ جادو گندی
چیز ہے ،لیکن ٹماٹر غائب کرنے والا اچھا ہے ۔اس سے تو اچھا ہے کہ ہم ٹماٹر
دھو دھو کر کاٹ کاٹ کر نمک کالی مرچ لگا کر کھائیں ،تاکہ ہم لوگ گورے گورے
ہوجائیں اور خوب خون بن جائے ۔۔۔آپ بچوں کو یہ سبق بھی دے دیں کہ بچّے صرف
گوشت نھیں کھایا کریں ،سبزی ،ٹماٹر اور آلو بھی کھایا کریں اور سعد بھی
قیمہ آلو کھایا کرے ۔۔۔ابّا ۔۔۔۔!!!“ابھی حسن میاں فرار ہونے کا سوچ ہی رہے
تھے اور اُن کی تجاویز اور فرمائشوں کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک فائرنگ
شروع ہوگئی !”ٹھا ٹھا ٹھا ٹھا ۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔۔خی خی
خی۔۔۔ہوہوہو۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔!!!“ارے بھئی بچو! شاید ابّا کو محمد حسن نوید
میاں کی باتیں اچھی لگ چکی ہیں کیونکہ قہقہوں کی فائرنگ نئے سال کی خوشی
میں شروع ہوچکی ہے ۔ ہم بھی بھاگنے کی سو چ رہے ہیں کہ ابّا کی قہقہی گولی
ہمیں بھی گدگدی نہ کرے ، جاتے جاتے ایک بات اور کہ ہم مسلمانوں کا نیا سال
تو پچھلے ماہ ”محرم الحرام “ سے شروع ہوچکا ہے ،ہے نا !!! تو بس ”ہیپی نیو
ایئر !!!“ سالنامہ بھی مبارک ہو ! |