کندن کی واپسی

بچوں کا کھیلنے میں ذرا بھی دل نہیں لگ رہا تھا۔ کندن ان کی ٹولی کا سب سے خاص ممبر تھا۔ وہ پچھلے کئی ہفتے سے کھیلنے نہیں آ رہا تھا ۔ آج بھی جو وہ نہیں آیا تو بچے دکھی ہو کر گھاس پر بیٹھ گئے۔

جمپی نے کہا :’’ مجھے نہیں لگتا کہ کند ن اب کبھی ہمارے ساتھ کھیلنے کے لیے آئے گا، رامو کاکا بتا رہے تھے کہ اس کے پاپا کا پروموشن ہوگیا ہے ، وہ ایک بڑے آفیسر بن گئے ہیں بھلا کندن اب یہاں ہم جیسے عام لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کیوں آئے گا؟‘‘

’’لیکن اس سے کندن کا کیا لینا دینا؟‘‘اسلم نے پوچھا۔

اس پر بے بی نے کہا:’’ لینا دینا کیوں نہیں ہے؟ کندن کے پاپا نے ایک کار خرید لی ہے ۔ کندن اب اچھے اچھے کپڑے پہنتا ہے ۔ یہاں ہمارے ساتھ کھیلنے سے اس کے کپڑے میلے ہوجائیں گے۔ بھلاوہ کیوں آنے لگا؟‘‘

ببلو بڑی دیر سے گھاس نوچ رہا تھا ۔ اس نے اپنی خاموشی توڑی اور کہا:’’ یہ سب ٹھیک ہے لیکن گھر کے اندر وہ کس کے ساتھ کھیلتا ہے ؟‘‘

سریندر نے ببلوکی بات کا جواب دیا:’’ کندن کے لیے ایک اچھی سی گیند آگئی ہے ، اس کے پاس کمپیوٹر بھی ہے وہ طرح طرح کے کمپیوٹر گیم کھیلتا ہے ۔ اور ہاں! اس کے پاس رحمانی پبلی کیشنز کی چھپی ہوئی کامکس کی ڈھیر ساری کتابیں بھی ہیں ،اتنا سب کچھ رہتے ہوئے اسے یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا ہے، کیوں ہم خود کسی دن اس کے گھر چلیں ؟‘‘

ہاں ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘سریندر کی بات پر سب نے اتفاق کیا۔

دوسرے دن موقع پاکر وہ سب کے سب کندن کے گھر جادھمکے۔ اس وقت وہ گھر میں اکیلا ہی تھا ۔ رامو کاکا باہر پھولوں کو پانی دے رہے تھے ۔ اپنے دوستوں کو دیکھ کر کندن پھولا نہ سمایا۔ لیکن اگلے ہی پل وہ اداسی سے کہنے لگا:’’ مَیں روز تم سب کے ساتھ کھیلنے آنا چاہتا ہوں لیکن میرے ممی پاپانے مجھے اس کے لیے منع کردیا ہے ، انھیں پارٹیوں میں جانے سے فرصت نہیں ہے اورمَیں یہاں اکیلا پڑا بور ہوتا رہتاہوں ۔ پلیز! تم سب میرے لیے کچھ کرو۔‘‘یہ کہتے کہتے کندن کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ رونے لگا۔

کندن کی بات سن کر بچوں کا شک و شبہ دور ہوگیا۔ وہ سبھی سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ جمپی کے دماغ میں ایک ترکیب سوجھی۔ جب اس نے اپنی راے ظاہر کی تو سب خوش ہوگئے ۔ پھربچوں نے مل کر اس پر مشورہ کیااور کندن کو’ باے باے‘ کہتے ہوئے سب لوٹ گئے ۔دوسرے دن کندن نے دیکھا کہ اس کے ممی پاپا جلدی جلدی تیار ہو رہے تھے اس نے قریب جاکر ممی سے کہا:’’ ممی! آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘

’’ایک پارٹی میں جارہے ہیں بیٹا!تم اپنا خیال رکھنا اور باہر نہیں جانا چپ چاپ گھر میں ہی کھیلنا اور ہاں! راموکاکا کو تنگ مت کرنا۔‘‘ کندن کی ممی نے ایک ہی سانس میں سب کہہ ڈالا۔

کندن نے پھر پوچھا:’’ کیا پارٹی میں جانا ضروری ہے؟‘‘

یہ سُن کر اس کے پاپا نے جواب دیا :’’ ہاںبیٹے! ایک ضروری پارٹی ہے، اس میں ہمارے سارے دوست آرہے ہیں ہمیں سب کے ساتھ ملنا جلنا ہے باتیں کرنی ہے۔ اس لیے ہمارا جانا ضروری ہے۔‘‘

کندن نے پھر پوچھا:’’ پاپا آپ دونوں یہاں گھر میں ہی پارٹی کیوں نہیں کرلیتے ؟ وہاں جانے کیا کیا ضرورت ؟‘‘

یہ سُن کر اس کے پاپا کو بڑی حیرانی ہوئی۔ انھوں نے اسے لاڈ کرتے ہوئے کہا:’’ ارے! یہ تُو کیسی باتیں کررہا ہے بیٹا؟ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ بھلا ہم گھر میں اکیلے پارٹی کیسے کرسکتے ہیں ؟اس کے لیے ہمارے سبھی دوستوں کا ہونا ضروری ہے اس لیے تو ہم وہاں جارہے ہیں ۔‘‘

موقع پاتے ہی کندن نے اپنی بات کہہ دی:’’ پاپا! جب آپ دونوں گھر میں اکیلے پارٹی نہیں کرسکتے تو میں بھلا یہاں اکیلا کیسے کھیل سکتا ہوں؟ میرے بھی تو دوست ہیں جن سے مَیں ملنا چاہتا ہوں ان کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں اور خوب ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ لیکن آپ تو مجھے باہر نکلنے ہی نہیں دیتے ۔ مَیں گھر میں بند ہوکر نہیں رہنا چاہتا۔‘‘

اتنا کہتے کہتے کندن کا گلا رندھ گیا اور وہ سسکنے لگا۔ اس کے ممی پاپا کو اپنی غلطی کا احساس اور انھیں گہر اپچھتاوا ہوا۔

اس کی ممی اس کے پاس آئیں اور کندن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں:’’ہم سے بڑی بھول ہوگئی بیٹا! ہمیں معاف کردو ، آج سے تم روز اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلو گے ۔ ہم تمھیں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے اور ملنے جلنے سے کبھی منع نہیں کریں گے ۔‘‘

ممی نے کندن کے آنسو پونچھے اور پیار سے اس کی پیشانی کو بوسا دیا۔

تبھی رامو کاکا نے آکر کہا:’’ کندن کندن! آپ کے دوست لوگ باہر کھڑے آپ کا انتظار کررہے ہیں ۔‘‘

اتنا سُن کر کندن باہر کی طرف دوڑ پڑا ۔ بچے دوہری خوشی کے ساتھ کھیل رہے تھے کیوں کہ آج ان کی ٹولی کا خاص ممبر کندن ان کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi
About the Author: Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi Read More Articles by Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi: 409 Articles with 597137 views

Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi

Date of Birth 01/06/1979
Diploma in Education M.A. UGC-NET + Ph.D. Topic of Ph.D
"Mufti e A
.. View More