سوال:سجدے میں جانے کے وقت اول
ہاتھ زمین پر رکھے یا زانو،اوراُٹھنے کے وقت کس کو پہلے اُٹھائے؟
جواب: پہلے زانورکھے اس کے بعد ہاتھ اور اٹھنے کے وقت اول ہاتھ اُٹھائے
پھرزانو۔
حدیث:حضرت وائل بن حجر(رح) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں سے پہلے زانوزمین پررکھتے اور جب اُٹھتے تو ہاتھوں
کو زانو سے پہلے اُٹھاتے۔﴿ ترمذی و نسائی وابو دائود﴾
سوال:جیسے مرد کو فرض نماز باجماعت پڑھنے سے پچیس یا ستائیس نماز کا ثواب
حاصل ہوتا ہے عورتوں کے لئے بھی یہی ہے یا کچھ کم ہے؟
جواب: عورتوں کے لئے بالکل اس کے بر عکس معاملہ ہے، ان کو جماعت سے نماز
پڑھنے میں جس قدر ثواب ملتا ہے علیحدہ اور تنہا پڑھنے میں اس کا پچیس گنا
ثواب دیا جاتا ہے وہ جہاں تک تنہائی اور مکان کے گوشہ میں نماز پڑھیں زیادہ
اجر ہوگا یہانتک کہ مکان کے صحن میں نماز اداکرنے سے اتنا ثواب اور فضیلت
نہ ہوگی جس قدر مکان کے دالان اور کوٹھے میں حاصل ہوتی ہے اور اگر دالان کے
بھی کونے اور گوشہ میں گھس کر پڑھیں تو اور بھی زیادہ اجر اور فضیلت پائیں۔
حدیث: عورت جس نماز کو تنہا پڑھے بہ نسبت جماعت میں پڑھنے کے اس﴿ بلاجماعت
پڑھی ہوئی﴾ نماز کی فضیلت پچیس درجہ زیادہ ہے۔ ﴿مسند الفردوس للد یلمی﴾
حدیث:حضرت ابن مسعود(رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایاہے کہ عورت کی نماز مکان کے اندر﴿ یعنی دالان وغیرہ میں﴾ بہتر ہے بہ
نسبت صحن میں پڑھنے کے اور اس کی نماز مکان کے گوشہ میں بہتر ہے بہ نسبت
مکان﴿یعنی دالان وغیرہ﴾ کے﴿مطلب یہ ہے کہ جس قدر اندر اور پردے میں ہوتی
جائے ثواب بڑھتا جائے گا﴾﴿ ابو دائود﴾
سوال: فقہ کی کتابوں میں نابینا کی امامت کو مکروہ لکھا ہے یہ کراہت ہر ایک
نابینا کی امامت میں ہوگی یا بعض میں؟
جواب:کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اکثر نابینا لوگوں سے پاکی نا پاکی میں پوری
تمیز اور احتیاط نہیں ہو سکتی، پس جو نابینا پورا احتیاط رکھنے والا اور
پاک صاف ہو اس کی امامت مکروہ نہ ہوگی اور اگر عالم اور پرہیزگار بھی ہو تو
اس کی امامت اولیٰ اور افضل ہوگی اگرچہ نابینا ہو۔
حدیث:حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
غزوئہ تبوک میں تشریف لیجانے کے وقت عبداللہ بن ام مکتوم(رض) ﴿ نا بینا﴾کو
مدینہ میں نماز پڑھانے کیلئے اپنا قائم مقام بنا دیا تھا۔﴿طبرانی فی
الکبیرو ابو یعلیٰ وابو دائود ازانس(رض)﴾
حدیث:حضرت عبداللہ بن عمیر(رض) جو بنی حطمہ کے امام تھے وہ فرماتے ہیں کہ
رسو ل اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ ہی میں میں بنی حطمہ کا امام
تھا حالانکہ میں نابینا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ
جہاد میں بھی گیا تھا حالانکہ نابینا تھا۔﴿ طبرانی فی الکبیر﴾
سوال:امام نے اس ارادہ سے نماز شروع کی کہ بہت بڑی سورت پڑھ کر نہایت
اطمینان سے نماز ادا کروں گا،نماز کی حالت میں کوئی سخت ضرورت پیش آگئی
مثلاً بڑے زور سے بارش ہوگئی یا جس گاڑی میں مسافروں کو سوار ہونا ہے اس کے
آنے کی آواز آگئی تو نماز کو مختصر کر دینا یا شروع کی ہوئی سورت کو درمیان
میں چھوڑ دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:اس قسم کی ضرورتوں میں جائز بلکہ مسنون یہی ہے کہ قرأت کو کم اور
نماز کو جلد ختم کردے ورنہ خود اس کااور مقتدیوں کا دل نماز میں نہ رہے گا
نمازپڑھنا گراں ہوجائے گا بلکہ بعض کو نمازچھوڑ کر بھاگنے کی نوبت آئے گی۔
حدیث:حضرت ابو قتادہ(رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ میں نماز کو دراز پڑھنے کے ارادے سے شروع کرتا ہوں ﴿ اور نماز کے
درمیان میں﴾ بچہ کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو چونکہ مجھ کو اس کی ماں کے
دل کی پریشانی کا خیال ہوتا ہے لہٰذا نماز کو مختصر کر دیتا ہوں﴿کہ کبھی
ایسانہ ہوکہ فتنہ میں پڑجائے یعنی صبر نہ کر سکے اور نماز کو چھوڑ
دے۔﴿بخاری و ترمذی ﴾
سوال:اگر نماز پڑھتے ہوئے امام کی آواز رک جائے یا کھانسی وغیرہ کوئی عذر
پیش آجائے یا قرآن شریف بھول جائے اور یاد نہ آئے تو شروع کی ہوئی سورت کو
درمیان میں چھوڑ کر رکوع کر دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اگر بقدر تین آیت الحمد کے بعد پڑھ چکا ہے تو اس قسم کے عذر میں
مناسب یہی ہے کہ درمیان میں چھوڑ کر رکوع کر دے۔
حدیث:حضرت عبداللہ بن سائب(رض)کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے صبح کی نمازمیں سورئہ مومنوں پڑھنی شروع فرمائی، پڑھتے پڑھتے جب موسیٰ
اور ہارون علیہما السلام﴿ یا عیسیٰ﴾ علیہ السلام کے ذکر پر پہنچے تو آپ کو
کھانسی آگئی آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ﴿وہیں﴾ رکوع کر دیا﴿ بخاری شریف﴾
سوال:فجر کے وقت جب جماعت کی نماز شروع ہوگئی ہو سنتیں پڑھنا جائز ہے یا
نہیں اور اگر جماعت جاتی رہنے کے خوف سے ان سنتوں کو چھوڑ دیا تو کس وقت
ادا کرے؟
جواب:چار وقت میں تو نماز فرض جماعت سے ہوجانے کے بعد کسی نفل یا سنت کو
شروع کرنا نہ چاہئے بلکہ جماعت میں شریک ہوجانالازم ہے صرف صبح کی سنتوں
میں اس قدر اجازت ہے کہ اگر امام بڑی بڑی سورتیں پڑھتا ہے اور اس شخص کو
امید ہے کہ سنت پڑھنے کے بعد بھی بالکل جماعت نہ چھوٹے گی بلکہ دوسری رکعت
مل جائے گی تو مسجد کے کسی گوشہ میں امام سے دور یا مسجد کے آس پاس﴿جیسے
وضو کی جگہ یا حجرہ وغیرہ﴾سنت پڑھ سکتا ہے لیکن امام متصل جماعت کے برابر
پڑھنا مکروہ ہے اور اسی طرح جماعت بالکل چھوٹ جانے کا خوف ہو تو سنت نہ
پڑھے جماعت میں شریک ہوجائے اور آفتاب نکلنے کے بعد سنت کو قضا پڑھ لے اگر
کسی کام یا ضرورت کی وجہ سے آفتاب نکلنے تک انتظار نہیں کر سکتا تو اپنے
کام میں لگ جائے جب آفتاب بلند ہوجائے دورکعت پڑھ لے اور اگر موقعہ ہی نہ
ملے یا بھول گیا تب بھی گنہگار نہ ہوگا لیکن سر سے بار ٹالنے کے لئے فرض کے
بعد فوراً ہی اس کو پڑھ لینا اور طلوع آفتاب کا انتظار نہ کرنا سخت مکروہ
ہے اس سے تو نہ پڑھنا بہتر ہے۔
حدیث:رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب جماعت شروع
ہوجائے تو فرض نماز کے سوا کسی نماز کو نہ پڑھنا چاہئے لیکن فجر کی سنتیں
پڑھ سکتا ہے۔﴿بیہقی﴾
حدیث:حضرت ابو ہریرہ(رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا کہ جس نے صبح کی سنتیں نہ پڑھی ہوں اس کو چاہئے کہ آفتاب طلوع ہونے
کے بعد پڑھے﴿ ترمذی و ابن ماجہ﴾ |