|
محترم ساتھیو چند پہلے میں نے جناب کامران عظیمی صاحب کے سامنے ایک خود ساختہ کا تزکیہ نفس کا طریقہ پیش کیا تھا اور ان سے دریافت کیا تھا کہ یہ بتادیں کہ یہ طریقہ سنت نبوی کے مطابق ہے کہ نہیں۔ یہ میں جانتا ہوں کہ وہ صاحب یہ بخوبی جانتے ہیں اس طریقہ کا تعلق اسلامی شریعت سے قطعا نہیں ہے۔ مگر مجھے ہٹ دھرمی کا طعنہ دینے والے دراصل خود ہی اس ہٹ دھرمی کا شکار ہو کر صحیع بات کو تسلیم کرنے سے معذور ہیں پہلے قران کریم کریم سے رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ قران ہماری عورتوں کو اس بارے میں کیا حکم دیتا ہے۔ يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّؕ ذٰلِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ يُّعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ﴿۵۹﴾ اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے کہ وہ پہچان لی جائيں اور ستائی نہ جائیں اللہ غفور و رحیم ہے ( سورہ الاحزاب 59) یہ ہے ساتھیو پردہ کی اہمین قران کی رو سے۔ اور یہ بھی آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں محرم کون ہے اور نا محرم کون۔ یہاں میں آپ کی خدمت میں ایک ایسے محرم کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جسے شریعت نے تو محرم قرار نہیں دیا مگر طریقت کے قانوں شریعت کی رو سے یہ رشتہ بھی ایک محرم کا ہے۔
کتاب کا نام " کلام المرغوب ترجمہ کشف المحجوب ص۔ 255-256 مصنف علی ہجویری صاحب) " حتیٰ کہ ایک بار حضرت احمد خضرویہ (امیر بلخ) کو حضرت با یزید بسطامی کی زیارت کا شوق ہوا۔ ان کی بیوی حضرت فاطمہ بھی حضرت بایزید کے دربار میں ہمراہ حاضر آئیں۔ جب دونوں حضرت بایزید کے سامنے آگئے تو حضرت فاطمہ نے نقاب ہٹا دیا اور حضرت با یزید سے بے حجابانہ گفتگو شروع کر دی۔ حضرت احمد خضرویہ کو ان کی اس حرکت پر تعجب ہوا اور غیرت زوجیت آپ پر مستولی ہوئی۔ فرمانے لگے جس بے حجابی سے تم با یزید سے باتیں کر رہی ہو مجھے اس کی وجہ بھی معلوم ہونی چاہیے۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا کہ تم محرم طبعیت ہو اور بایزید محرم طریقت۔
دوستو بات سمجھ میں آئ کہ نہیں۔ احمد خضرویہ تو فاطمہ کا شریعی شوہر اور با یزید بسطامی اس کا طریقت میں شوہر۔ اب کوئ ان سے پوچھے کہ آپ اس شریعت کے پابند ہیں جو کہ ہمارے نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آۓ یا اس طریقت پر جس کہ ایک باپردہ خاتون کو نا محرم کے سامنے بے پردہ کردے
|
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Feb, 14 2013
|
|
0
|
|
|
|
|
|
مسٹر بابر تنویر ،
اتباع سنت لفظی جکھاو سے نہیں بلکہ عمل سے ثابت ہوتا ہے ، دوسرے یہ کہ اگر ہر شخص دین اسلام پر خود کو اتھارٹی سمجھنے لگ جائے تو امت شیرازہ میں بکھر جائے گی۔ قرآن پاک میں اللہ عزوجل ہمیں نیک لوگوں کا راستہ ھدایت پانے کے لئے ارشاد فرماتا ہے۔ جبکہ دین کے علم اور معرفت اسلام کے لئے اہل علم کی جانب قدم بڑھانے کا حکم دیتا ہے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی سمجھ اولیائے امت کو کسی بھی چودھویں صدی کے نام نہاد مُلا یا توحیدی سے زیادہ تھی۔ لہذا اپنی ناقص آراء کو اسلاف پر نشتر چلانے مین استعمال نہ کیجئے۔ بایزید بسطامی و دیگر بزرگان دین جیسا علم و تقوی تو لاو۔ لفاطی ھیر پھیر سے ھدایت نہیں ملتی۔ |
|
By:
Kamran Azeemi,
Karachi
on
Jan, 12 2013
|
|
2
|
|
|
|
محترم جناب کامران عظیمی صاحب، لگتا ہے کہ آپ نے یہ کمنٹس اپنے سامنے آينہ رکھ کر تحریر کیۓ ہیں۔ کیونکہ یہ تمام کمنٹس آپ ہی کہ ذات مقدسہ پر صادق آتے ہیں۔ اب کچھ ہی دیر پہلے تو آپ مجھ سے گفتگو جاری نہ رکھتے کا اعلان کر رہے تھے اور پھر دوبارہ تبصرہ آور ہوگۓ۔ 1- آپ نے درست فرمایا کہ اتباع سنت الفاظ سے نہیں عمل سے ابھی میں نے آپ کی خدمت میں خود ساختہ اولیاء اللہ کا صرف ایک ہی عمل اور قول پیش کیا ہے۔ مجھے صرف یہ بتا دیجیۓ کہ کیا یہ اتباع سنت کی نشانی ہے۔ 2- اولیاء اللہ کون ہین ان کی مکمل تفصیل بندے نے قران کریم فرقان حمید کی روشنی میں پیش کر دی ہے۔ اس پر کوئ اعتراض ہو تو بتائیے۔ 3- آپ بات با یزید بسطامی کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ شوہر تو بیوی کے لیۓ شریعت کی رو سے محرم ہے۔ اسے دوسرے الفاظ مین محرم شریعت کہہ سکتے ہیں۔ مجھے یہ بتا دیجیۓ کہ یہ محرم طریقت کیا ہوتا ہے۔ آپ کو جواب کا انتظار رہے گا |
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Jan, 13 2013
|
0
|
|
|
|
|
|
|
|
محترم بابر بھائی ، جزاک اللہ شمع حق وہی اندھیروں میں جلاتے ہیں جو اتباع مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹ جاتے ہیں۔ میرے دل سے دعا ہے اللہ آپ کی سعی اپنی بارگاہ میں قبول کرے۔ آمین۔ |
|
By:
tariq mehmood,
Karachi
on
Dec, 27 2012
|
|
0
|
|
|
|
برادر عزیز طارق محمود السلام علیکم آپ کی کمنٹس کا شکریہ۔ بھائی اتباع قران و سنت ہی میرا نصب العین ہے۔ بھائی کامران عظیمی اور عبد العظیم سے میرا اختلاف بھی اسی اتباع کتاب و سنت کے حوالے سے ہے۔ اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرماۓ اور ہم سب کی خطاؤں کو معاف فرماۓ۔ بھائی میری ترجیح تو ہمیشہ سے ہماری ویب ہی رہی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی چند ایک دوسری سائٹس ہیں جہاں پر میں باقاعدہ حاضری دیتا ہوں۔ اکر ممکن ہو تو urduvb.com پر رجسٹرہو جائیں وہاں آپ کو بہت سے صحیع العقیدہ بھائی ملیں گے۔ رجسٹر ہوتے وقت میرا ریفرنس دے دیجۓ گا۔ والسلام اخوک فی اللہ |
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 29 2012
|
0
|
|
|
|
|
|
|
|
جناب عبدالعظیم صاحب، محترم یہاں بات ہو رہی ہے۔ تصوف کی اور وسیلہ کا دکھڑا لے کر بیٹھ گۓ۔ اور وسیلہ کے بارے میں آپ حضرات سے پہلے بھی گفتگو ہو چکی ہے۔ آپ نے اس بارے میں ایک ضعیف حدیث تحریر کی ہے۔ آئیے اس بارے میں قران سے رہ نمائ حاصل کرتے ہیں۔ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٣٦﴾ فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿٣٧﴾قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٣٨﴾۔ لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا ہی دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائده اٹھانا ہے (36) (حضرت) آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بےشک وہی توبہ قبول کرنے واﻻ اور رحم کرنے واﻻ ہے (37)ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف وغم نہیں (38) ۔ جب آدم حضرت آدم سے لغزش ہوگئ تو ان آیات کے مطابق اللہ تعالی نے انہیں معافی کے الفاظ تعلیم فرماۓ۔ اور وہ کون سے الفاظ تھے اس بارے میں سورہ اعراف میں تفصیل درج ہے۔
فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٢﴾قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٢٣﴾ قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٢٤﴾۔ سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پرده ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے؟ (22)دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے (23) حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک (24) آیت نمبر 23 میں دعا کے الفاظ ذکر ہیں جن کے ذریعے حضرت آدم نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں معافی کی التجا کی۔ اور پھر اگلی ہی آیت میں اللہ تعالی نے انہیں زمین پر اترنے کا حکم دے دیا۔ ان آیات کی رو سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنی والی روایت غلط ثابت ہوتی ہے۔ ایک اور بات پر غور کر لیجیۓ۔ یہ آیات تو اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہیں کہ دعا کے الفاظ اللہ تعالی نے سکھاۓ اور آپ کی روایت تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ حضرت آدم کا اپنا اجتہاد تھا۔ جبھی تو اللہ تعالی نے ان سے آپ صلی اللہ کے وسیلے سے دعا مانگنے کی وجہ دریافت کی۔ امید ہے کہ بات آپ کی سمجھ میں آگئ ہوگی۔ |
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 25 2012
|
|
0
|
|
|
|
ان کمنٹس کو دوبارہ پوسٹ کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔ دراصل پچھلی پوسٹ دو دن پہلے روانہ کی تھی مگر اس پوسٹ کے بھیجنے تک وہ یہاں پر ظاہر نہیں ہوئ تھی۔ |
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 26 2012
|
0
|
|
|
|
|
|
|
|
جناب عبد الغظیم صاحب مجھے آپ سے دلی ہمدردی ہے۔ الحمد للہ آپ کے دامن میں تصوف کے دفاع کے لیۓ کوئی ٹھوس دلائل نہیں ہیں۔ اور انشاء اللہ آپ میرے اٹھائے گۓ سوالوں کا جواب نہیں دے سکیں گے۔ موضوع یہاں تصوف ہے اور آپ کو اور کچھ نہیں سوجھا تو وسیلہ پر ہی لکھنے بیٹھ گۓ۔ آپ کی پیش کی گئی ضعیف روایت پر میرے خیال میں آپ حضرات سے پہلے بھی گفتگو ہو چکی ہے۔ آیۓ اس بارے میں قران سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 35 اور 36 وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٣٥﴾ فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٣٦﴾۔ ور ہم نے کہا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو بے روک ٹوک کھاؤ (پیو) لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے (35) پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس (عیش ونشاط) میں تھے، اس سے ان کو نکلوا دیا۔ تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں سے) چلے جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کر دیا گیا) ہے (36)۔
آپ کی پیش کردہ روایت کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے دعا مانگنا حضرت آدم کا اپنا اجتہاد تھا۔ جبھی تو اللہ تعالی نے ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنے کا سبب دریافت کیا۔ لیکن اس بات کو سورہ بقرہ کی آيت نمبر 36 غلط ثابت کرتی ہے۔ فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿٣٧﴾ پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا بے شک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحبِ رحم ہے (37)۔ اور وہ کون سے الفاظ تھے جو کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کو سکھائے تھے۔ آئیے پھر قران سے رہنمائ حاصل کرتے ہیں۔ سورہ اعراف کی آيت نمبر 22 ،23اور24 دیکھیۓ فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٢٢﴾۔قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٢٣﴾ قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٢٤﴾۔ غرض (مردود نے) دھوکہ دے کر ان کو (معصیت کی طرف) کھینچ ہی لیا جب انہوں نے اس درخت (کے پھل) کو کھا لیا تو ان کی ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ بہشت کے (درختوں کے) پتے توڑ توڑ کر اپنے اوپر چپکانے لگے اور (ستر چھپانے لگے) تب ان کے پروردگار نے ان کو پکارا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت (کے پاس جانے) سے منع نہیں کیا تھا اور جتا نہیں دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے (22)۔دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے (23) (خدا نے) فرمایا (تم سب بہشت سے) اتر جاؤ (اب سے) تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے ایک وقت (خاص) تک زمین پر ٹھکانہ اور (زندگی کا) سامان (کر دیا گیا) ہے (24)۔ اگر اللہ تعالی نے تھوڑی سی بھی عقل دی ہے تو ذرا فرما لیجیۓ۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہم نے آپ کو الفاظ سکھائے جن کے ذریعۓ حضرت آدم نے دعا مانگی اور پھر سورہ اعراف آیت نمبر 22 میں اللہ تعالی نے اس دعا کے الفاظ کا بھی ذکر کردیا اور پھر اللہ تعالی نے انہیں ژمین پر اترنے کا حکم دے دیا۔ اس بات سے تو آپ اتفاق کریں گے کہ اللہ تعالی کا فرمان کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ آپ کی روایت ہی غلط ہے۔ باقی باتوں کا جواب انشاء اللہ جلد ہی دوں گا۔
|
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 23 2012
|
|
0
|
|
|
|
|
|
612 / 64. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ عليه السلام الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهُ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَي الْعَرْشِ فَقَالَ : أَسَأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَّا غَفَرْتَ لِي فَأَوْحَي اﷲُ إِلَيْهِ : وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ : تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَي عَرْشِکَ فَرَأَيْتُ فِيْهِ مَکْتُوْبًا : لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَأَوْحَي اﷲُ عزوجل إِلَيْهِ : يَا آدَمُ، إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِيْنَ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَهُ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَلَوْلَاهُ يَا آدَمُ مَا خَلَقْتُکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم 64 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 182، الرقم : 992، وفي المعجم الأوسط، 6 / 313، الرقم : 6502، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 253، والسيوطي في جامع الأحاديث، 11 / 94.
’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (یا اﷲ!) اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ محمد مصطفیٰ کون ہیں؟ پس حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ لکھا ہوا دیکھا لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل کی آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘ |
|
By:
azeem,
rwp
on
Dec, 21 2012
|
|
0
|
|
|
|
|
|
آخری بات ، جب آپ یا آپ کی قبیل کے دیگر افراد منہ کھول کھول کر اولیاءاللہ پر کفر و شرک کے فتوی کی توپ چلائیں ۔۔۔۔۔۔ تو آپ لوگوں کے لئے رب تعالی کی بارگاہ میں دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ ہی آپ کو ھدایت عطا فرمائے۔ ورنہ آپ جیسے افراد کے شر سے تمام اہل اسلام کو محفوظ رکھے۔ --------------------------------------------------------------------------------------------------------------- جی جناب کامران عظیمی صاحب آپ نے مجھ پر اوالیاء اللہ سے دشمنی کا بہتان بھی لگا دیا۔ محترم عرض ہے کہ قران پاک میں اولیاء اللہ کی نشانیاں نہایت مفصل انداز میں بیان کر دی گئیں ہیں اور الحمدللہ ان تمام خصوصیات کے حامل انسان یقینا اولیاء اللہ ہیں۔ اور میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں یا آپ یا کوئ شخص بذات خود یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ ولی اللہ ہے۔ اس بات کو صرف اور صرف اللہ تعالی عزوجل جانتے ہیں کون اس ذات باری تعالی کے کتنا نزدیک ہے۔ اور جو شخص داڑھی منڈانے کو تزکیہ نفس جانے آپ اسے بھی ولی اللہ کہیں تو بھائ میری بھی آپ کے لیۓ دعا ہے کہ وہ آپ کو ھدایت دے۔ اور ایسے نظریات کے شر سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین! آج آپ مجھے ایک بات جواب دیے دیجیۓ کہ کوہ قاف کو کتنے بیلوں نے سینگوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ یہ میرا نہیں ایک مشہور زمانہ ولی کا دعوی ہے۔ |
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 19 2012
|
|
0
|
|
|
|
|
|
محترم جناب کامران عضیمی صاحب بھائی آپ اب بھی اپنی روش پر قائم ہیں، سب سے پہلے یہ بتا دیجیۓ کہ یہ سلف کا سلسلہ کب سے شروع ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر آپ تزکیہ نفس کے میرے پیش کردہ طریقے کو شریعت کے مطابق سمجھتے ہیں تو یہ شریعت آپ ہی کو مبارک ہو۔ میں نے آپ کی خدمت میں ابن عربی کے چند اشعار پیش کیۓ تھے لیجیۓ ان کا اردو ترجمہ بھی پیش خدمت ہے۔
آج سے پہلے میں اپنے دین کا انکار کرتا تھا، جب میرا دین اس کے دین کے مطابق نہ تھا اب میرا دل ہر تصویر کا آئینہ بن گیا ہے، وہ ہرنوں کی چراگاہ بھی ہے اور راہبوں کا دیر بھی وہی کعبہ ہے اور صنم خانہ بھی، وہی تورات بھی ہے وہی قران بھی میں محبت کے دین کا تابعدار ہوں، خواہ وہ کہیں بھی ملے،محبت ہی میرا دین ہے اور ایمان ہے
مجھے ذرا یہ بتا دیجیۓ کا کیا یہ ہمارے پیار نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی تعلیمات ہیں۔ اگر ہیں تو ثابت کیجیۓ ورنہ ان باطل عقائد سے توبہ کجییۓ۔ میں پھر آپ دونوں حضرات سے درخواست کرتا ہوں کے میرے کمنٹس میں اگر کوئ بات خلاف شریعت ہو تو اس کی نشاندھی کجییۓ۔ اور انشاء اللہ میں تصوف کو خلاف شریعت ثابت کرنے کے لیۓ تمام حوالہ جات صوفیاء کی کتابوں سے ہی دوں گا۔ دو حوالہ جات میں آپ کی خدمت میں پیش کرچکا ہوں۔ باقی کا انتظار کیجیۓ۔انشاء اللہ۔ |
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 19 2012
|
|
0
|
|
|
|
|
|
|
|
محترم جناب عبد العظیم صاحب۔ بھائ آگے بات ضرور چلیے گی مگر پہلے بھائ طارق محمود کے 3 دسمبر کو اٹھاۓ گۓ سوال کا جواب تو دے دیجیۓ۔ اس کے بعد میں نے اپنی پوسٹ میں اولیاء اللہ کی نمایاں خصوصیات قران کریم کی آیات کی روشنی میں پیش کیں تھیں۔ آپ مجھے بتا دیجیۓ کہ وہ باتیں درست ہیں اور اگر نہیں تو وضاحت کیجیۓ کہ ان میں کیا بات غلط ہے۔ تیسری بات میں نے آپ سے لفظ تصوف کی تفصیل بتانے کی درخواست کی ہے۔ مجھے بتا دیجیۓ کہ کیا تصوف کس زبان کا لفظ ہے اور محھے یہ بھی بتا دیجیۓ کہ کیا نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی مسلمان کو صوفی یا ولی اللہ کہا جاتا تھا۔ ایک اور بات آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ صحیح مسلم کے دیباچے میں لفظ "صالحین" کی اصطلاح استعمال ہوئ ہے کہ ان کی زبانوں سے جھوٹ بلا ارادہ نکل جاتا ہے چاہے ان کا ارادہ جھوٹ بولنے کا نہ بھی ہو۔ یہ بتائیۓ کہ یہ صالحین کون لوگ تھے۔ بھائ آپ کا میرے اور بھائ طارق محمود پر ذاتی تبصرے کا شکریہ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جنت میں بھی اسی طرح ایک دوسرے کا اور اپنے انعام یافتہ لوگوں کا ساتھی بناۓ۔ آمین۔ یا رب العالمین إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا ﴿٣٠﴾ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۚ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا ﴿٣١﴾۔ (اور) جو ایمان لائے اور کام بھی نیک کرتے رہے تو ہم نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے (30) ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن میں ان کے (محلوں کے) نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ باریک دیبا اور اطلس کے سبز کپڑے پہنا کریں گے (اور) تختوں پر تکیئے لگا کر بیٹھا کریں گے۔ (کیا) خوب بدلہ اور (کیا) خوب آرام گاہ ہے (31)۔ یہ سورہ کہف کی آیات ہیں۔ میرے رب نے ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے۔ کسی گوہر نایاب کے تلاش آپ کو مبارک ہو۔ میری تو دعا ہے کہ وہ مجھے ایمان کے ساتھ نیک اعمال کی توفیق دے اور میرے اچھے اعمال کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر مجھے کامیاب لوگوں میں شامل فرما دے۔ آمین! |
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 16 2012
|
|
0
|
|
|
|
|
|
سورہ یونس کی اور اس موضوع کی حامل 12 آیات کے بارے میں میں نے آپ کی خدمت میں اس سے پہلے مکمل تفصیل فراہم کر دی ہے۔ براے مہربانی مجھے بتائیے کہ اس میں کیا بات غلط ہے۔ آخر میں ایک بات اور بتا دیجیے کہ تصوف کس زبان کا لفظ ہے اور نبئ کریم کی حیات مبارکہ تصوف اور صوفی کی اصطلاح کن لوگوں کے لیۓ استعمال ہوتی تھی۔
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 12 2012
|
|
0
|
|
|
|
محترم بابر بھائی، اب عظیم صاحب پہلے کی طرح پھر رفوچکر ہو جائیں گے۔ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل ہے ہی مٹنے والا |
|
By:
tariq mehmood,
Karachi
on
Dec, 13 2012
|
0
|
|
|
|
|
|
|
|
سورہ انباء کی آیت نمبر 37 اور 38 کا ترجمہ ملا کر پڑھیۓ۔ وہ جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے رحمن کہ اس سے بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے (37) جس دن جبریل کھڑا ہوگا اور سب فرشتے پرا باندھے (صفیں بنائے) کوئی نہ بول سکے گا مگر جسے رحمن نے اذن دیا اور اس نے ٹھیک بات کہی (38) بھائ یہان بات روز محشر کی ہو رہی ہے۔ اور آپ نے اپنے ترجمے میں مستقبل کا صیغہ استعمال کرنے کے بجاۓ ماضی کا صیغہ استعمال کرکے آیت کی معنوی تحریف کردی |
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 12 2012
|
|
0
|
|
|
|
میں نے ترجمہ خود نہیں بلکہ آن لائن عرفان القرآن سے لیا ہے آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں۔ باقی جیسے جیسے وقت ملتا جائے گا گفتگو چلتی رہے گی ویسے آپ لوگوں کی جوڑی بڑی اچھی چل رہی ہے۔ سدا آباد رہیں۔ |
|
By:
azeem,
rwp
on
Dec, 14 2012
|
0
|
|
|
|
|
|
|
|
محترم آپ سورہ ق کی آیت نمبر 37 کے ساتھ ساتھ آيت نمبر 36 کا ترجمہ بھی پیش کردیتے تاکہ بات مکمل ہو جاتی۔ لیجیۓ میں پیش کردیتا ہوں۔
ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جو ان سے بہت زیادہ طاقتور تھیں اور دنیا کے ملکوں کو انہوں نے چھان مارا تھا پھر کیا وہ کوئی جائے پناہ پا سکے؟ (36) اِس تاریخ میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو، یا جو توجہ سے بات کو سنے
|
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 12 2012
|
|
0
|
|
|
|
|
|
ترجمہ آیت پاک)الْفَتْح(: 10. (اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo
بات آپ سے بعیت کی ہو رہی ہے۔ ذرا بتائیۓ کہ یہ کس بات کی بیعت تھی |
|
By:
Baber Tanweer,
Karachi
on
Dec, 12 2012
|
|
0
|
|
|
|
|