طالبان کے پیچھے کون ہے ؟

افغانستان میں روسی فوج کے قبضے کے خلاف افغان عوام کی مسلح مزاحمت شروع ہوئی تو امریکہ اور یورپ سمیت تمام دنیا روس کے خلا ف لڑائی لڑنے والے افغان عوام کی پشت بان بن گئی۔انہوں نے نہ صرف افغانوں کو روس کے خلاف ہرقسم کا اسلحہ فراہم کیا بلکہ دنیا بھر میں مقیم مسلمانوں کو ترغیب دی کہ افغانستان میں روس کے خلاف لڑائی جہاد ہے لہذا مسلمان اس میں شامل ہوں۔ مختلف ملکوں سے مسلمان اس جہاد میں شامل ہونے کے لئے پاکستان کا رخ کرنے لگے جہاں کے قبائلی علاقے روس کے خلاف جنگ کا تربیتی مرکز اور بیس کیمپ بن چکے تھے۔خاص طور پر اسلامی اور عرب ملکوں سے مسلم نوجوان امریکی ترغیب پر جہاد افغانستان کا رخ کرنے لگے،انہی میں ایک نوجوان اسامہ بن لادن بھی شامل تھا۔

مجھے یاد ہے کہ جب افغانستان میں روسی فوج کے انخلاءکے بعد امن و امان کا مسئلہ سنگین ہوا تو طالبان تحریک سامنے آئی اور انہوں نے افغانستان کے راستوں کو محفوظ بنانے پر توجہ دی۔یہی وہ وقت تھا کہ جب اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی طرف سے طالبان میں شامل ہونے والوں کو شامل ہونے کے موقع پر مخصوص رقم دیتے ہوئے ماہوار وظیفہ بھی ملنا شروع ہوا۔افغانستان سے روسی انخلاءکے بعد یورپ میں یہ مطالبہ سامنے آیاکہ ”سرد جنگ “ کے خاتمے کے بعد اب” نیٹو“ کے قیام کا کوئی مقصد باقی نہیں رہا ،یورپ کو اب نیٹو کے لئے دیئے جانے والے گراں اخراجات کی رقم اپنے ملکوں کے عوام کے لئے صرف کرنی چاہئے۔اس کے ساتھ ہی افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہو گئی اور اسلام کے نام پر اس حکومت کے سخت اقدامات نے یورپ میں یہ خوف پیدا کر دیا کہ اگر ایسا ہی اسلام افغانستان سے باہر نکل آیا تو کیا ہو گا،یوں ’نیٹوفورسز ‘ کو برقرار رکھنے کا جواز پیدا ہو گیا۔

نائن الیون کے واقعہ کے بعد افغانستان پر امریکی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔امریکہ کی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے عالمی اتحاد وجود میں آیا۔افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد عالمی اتحاد کی آشیر باد میں افغانستان میں نئی حکومت قائم کی گئی۔اسی دور میں پاکستانی طالبان کی اصطلاح عام ہونے لگی اور پھر اس پاکستانی طالبان نے پاکستان میں دہشت گرد حملوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا جس سے اب پاکستان کی حکومت ہی نہیں بلکہ عوام بھی عاجز آ چکے ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ افغانستان میں روس کے خلاف جنگ عالمی اتحاد کی پشت پناہی سے ہی ممکن ہو سکی،کسی بھی ملک کے خلا ف کوئی بھی مسلح مزاحمت کسی ملک کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں ہے،پھر تحریک طالبان پاکستان کے پیچھے کون سا ملک یا ممالک ہیں کہ وہ پاکستان میں حساس ترین مقامات پر بھی دہشت گرد حملے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ افغانستان اور امریکہ کا کہنا ہے کہا افغان طالبان کو پاکستان سے مدد مل رہی ہے اور وہ افغان علاقوں میں حملے کرنے کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔دوسری طرف اب میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان احسان اللہ احسان پشاور کے پوش علاقے میں ایک غیر ملکی سفارتی مشن کے سیف ہاﺅس میں موجود ہے۔دریں اثناءوفاقی وزیر داخلہ نے طالبان ترجمان کے بارے میں اطلاع پر بیس کروڑ روپے انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت تحریک طالبان مختلف گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے جس میں ولی الرحمان گروپ،حکیم اللہ محسود گروپ اور دیگر چھوٹے گروپ شامل ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ وہ جلد تحریک طالبان کے ترجمان کی حقیقت عوام کے سامنے پیش کریں گے۔وزیر داخلہ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ عوام ترجمان کی حقیقت ہی نہیں بلکہ تحریک طالبان کی حقیقت کے اس رازسے بھی آ گاہ ہونا چاہتے ہیںجسے چھپا کر رکھا گیا ہے، اور تحریک طالبان کے مختلف گروپ کس کس کے ہاتھوں میں ہیں؟

لوگ حیران و پریشان ہیں کہ آخر تحریک طالبان کے پیچھے کون ہے جو انہیں ہر طرح کی مدد فراہم کر رہاہے جس کی بدولت وہ پاکستان کی فوج،تمام حکومتی مشنری کو للکار رہے ہیں۔یہ صورتحال عوام کو ”کنفیوز “ کرتی ہے کہ ملک میں’ ’ دوست ہی دشمن اور دشمن ہی دوست“ کی پالیسیاں چل رہی ہیں۔اسی حوالے سے ہماری حکومت اور افواج پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ اہل قلم کو ان اہم امور کے چھپے ہوئے گوشوں کے بارے میں بریف کریں جو ملک اور عوام کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بن چکا ہے۔اگر اہل قلم کے ساتھ اہم قومی امورسے متعلق سوال و جواب کے اجلاس منعقد نہیں کئے جا سکتے تو پھر اہل قلم حالات و واقعات کی روشنی میں اپنی ”انڈر سٹینڈنگ“ کے مطابق اپنے اظہار کو تحریر کی صورت ہی عوام کے سامنے لا سکتے ہیں۔اس وقت تو اہل قلم کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار پاکستان کو کس سمت لے کر جا رہے ہیں اور دنیا کے امور کے ”کرتا دھرتا“ پاکستان کو کس نتیجے پر پہنچانے کے متمنی ہیں؟
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699385 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More