امریکی صدارتی الیکشن سے پہلے
اوبامہ کی ملاقات اِسرائیلی وزیراعظم نیتن ےاہو سے ہوئی جس میں اُوبامہ نے
درخواست کی کہ اِسرائیل ایران پر کسی بھی قسم کی مُہم جوئی سے باز رہے یہ
دونوں سربراہوں کے درمیان خاموش معاہدہ تھا۔اُبامہ کے دوبارہ صدر منتخب ہو
جانے کے بعد فوراً اِسرائیل نے اپنے ایجنڈہ پر عمل کرتے ہوئے غزہ سے اپنی
کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔
اِسرائیل کا منصوبہ کچھ اِس طرح ہے کہ مشرقِ وُسطیٰ میں جنگ کو اِیران تک
لے جانے سے پہلے غزہ میں حماس کی اعلیٰ عسکری قیادت کو ختم کیا جائے تاکہ
مُستقبل میں اِسرائیل کو حماس سے کوئی خطرہ باقی نہ رہے غزہ پر اِسرائیلی
جارحیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جنوری 2013میں اِسرائیل میں الیکشن ہونے والے
ہیں ،اور اسرائیلی وزیراعظم کو الیکشن میں کامیابی کے لیے ایک بڑے پتے کی
ضرورت ہے جس طرح اُوبامہ نے ایبٹ آباد اپریشن کو اپنی جیت کے لیے استمعال
کیا ہے۔
اور جہاں تک امریکہ کا افغانستان میں رہنے کا تعلق ہے تو امریکا نے
افغانستان سے بھاگنے کی تیاری شُروع کر دی ہے امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان
امریکا کی بھاگنے میں مدد کرے اور طالبان کے ساتھ بات چیت میں بھی پاکستان
اپنا کردار ادا کرے،جس طرح امریکا نے افغان مصالحتی کونسل کو اسلام آباد
بھیجا اور اُس کی مکمل حمایت کی اُس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکا
افغانستان سے جلدی بھاگناچاہتا ہے-
امریکا تیزی کے ساتھ اپنا جنگی سامان افغانستان سے باہر نکال رہا ہے ۔نیٹو
کے کنٹینر جو پہلے سامان لے کر افغانستان جاتے تھے اب وہ خالی افغانستان
جاتے ہیں اور جنگی سامان کے بھر کے واپس آتے ہیں امریکا طالبان سے
مذاکرات کر کے کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہتا ہے مذاکرات کے لیے وہ پاکستان کو
درمیان میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔
جبکہ پاکستان اِس معاملے میں بہت سوچ سمجھ کے آگے بڑھ رہا ہے،کیونکہ
پاکستان اور افغانستان کے حالات کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے افغانستان میں
جب بھی کوئی تبدیلی آتی ہے تو پاکستان پر اُس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے
ہیں،جب بھی کوئی عالمی قوت جارحیت کر کے کسی خطے میں داخل ہوتی ہے تو نکلتے
ہوئے زیادہ تباہی کر کے جاتی ہے جس طرح سویت یونین افغانستان سے نکل رہا
تھا تو پاکستان کے شہروں میں بم دھماکوں نے قیامت برپا کر دی تھی اِس
وقت بھی یہی حالات پیش آسکتے ہیں، امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان شُمالی
وزیرستان میں آپریشن کرے جبکہ امریکا کو اچھی طرح علم ہے کہ پاکستان کو
بلوچستان میں کن حالات کا سامنا ہے بلکہ یہ سب امریکا اور اُس کے اِتحادیوں
کا کیا دھرا ہے-
پاکستان کو کبھی بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن نہیں کرنا چاہے کیونکہ یہ
پاکستان کے لیے نقصان دہ اور امریکا اور صیہونی پالیسیوں کے لیے فائدہ مند
ہے۔پاکستان کی مُحبِ وطن اعلیٰ عسکری اورسیاسی قیادت کو چاہیے کہ پاکستان
کے مُفاد کو سامنے رکھ کے فیصلے کرے کیونکہ پاکستان پہلے ہی امریکی جنگ میں
شامل ہو کے اپنی معیشت کو تباہ کروا چکا ہے-
اور جو بلوچستان کے حالات ہیں اُس سے نہ صرف پاکستان بلکہ خلیجی ریاستوں کو
بھی فِکرمند ہونا چاہیے، نائن الیون کے بعد جب امریکا نے افغانستان کا رُخ
کیا تو اُس سے پاکستان براہ راست مُتاثرہوا ۔پاکستان اور افغانستان کی
سرحدی پٹی بائیس سو کلومیٹر لمبی ہے جس پر نا ئن الیون سے پہلے ایک بھی پاک
آرمی کا جوان تعینات نہیں تھا امریکا جب افغانستان آیا تو اپنے ساتھ
پاکستان کے درینہ دُشمن بھارت کو بھی ساتھ لے آیا جس نے افغانستان میں
پاکستانی بارڈر کے قریب اپنے قونصلیٹ قائم کیے جو کہ پاکستان میں ہونے والی
دہشتگردی میں مُلوث ہیں جس سے پاکستان کو اپنی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ فوج پاک
افغان بارڈر پر لگانا پڑی۔
امریکا کا افغانستان آنے کا مقصد پاکستان کے جوہری پروگرام کوختم کرنا
ہے،امریکا جانتا ہے کہ جب تک پاک فوج موجود ہے اور فوج اور پاکستانی عوام
میں محبت کا تعلق ہے تو وہ کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا فوج
اور عوام میں دوری پیدا کرنے کے لیے فوج کو مُختلف آپریشن میں اُلجھایا گیا
تاکہ فوج اور عوام کو آپس میں لڑوایا جائے اور فوج کو کمزور کیا جائے۔
جب پاکستان نے شمالی وزیرستان میں آپریشن سے اِنکار کر دیا تو کوئٹہ اور
کراچی میں فرقہ ورانہ فسادات کو بھڑکا کر پاکستان کی فوج کو آپریشن کے
بہانے پھنسانے کی بھر پور کوشش کی گئی ۔امریکی اعلیٰ قیادت جو پاک فوج کو
مختلِف آپرشن میں پھنسانا چاہتی ہے یہ چاہتی ہے کہ فوج آپریشن میں اُلجھ
جائے اور یہ اپنا کام آسانی سے کر جائیں۔
پاکستان کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے کبھی جمہوریت کے نام پر مفاد
پرست سیاستدانوں کو اِستعمال کیا تو کہیں پاکستانی میڈیا کوخرید کر ریٹائرڈ
جرنیلوں کی کرپشن کے نام پر پاک فوج کی کردارکُشی کی گئی،جس میں
امریکا،برطانیہ،اِسرئیل اور بھارت قابلِ ذِکر ہیں، لیکن اس سب کے باوجود
پاکستان کا جوہری پروگرام محفوظ ہے اس بات کا تمام تر کریڈٹ پاکستان آرمی
کو جاتا ہے جس نے اِن نا مساعد حالات کے باوجود جوہری پروگرام کو محفوظ
رکھا ہوا ہے۔
امریکا اور کرزئی کی حمایت سے جو وفد پاکستان آیا اُس کی قیادت سابق افغان
صدر بُرہاالدین ربانی کے بیٹے صلاح الدین ربانی کر رہے تھے اس وفد نے
پاکستان سے درخواست کی کہ پاکستان اپنی جیلوں میں قید افغان طالبان قیدیوں
کو رہا کرے اور اُن کو پاکستان تا قطر محفوظ راہداری دے تاکہ وہ امریکن
سنٹرل کمانڈ سے مذاکرات کر سکیں،یاد رہے کہ امریکن سنٹرل کمانڈ کا
ہیڈکوارٹر قطر کے شہر دوحہ میں ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ افغان طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے اِنکاری ہیں اور
اُن کا کہنا ہے کہ رہا شدہ قیدی اُن کے نمائندے نہیں ہیں اور اُس وقت تک
امریکا سے مذاکرات نہیں ہو سکتے جب تک امریکا افغانستان سے نکل نہیں جاتا۔ |