جسم اور روح

انسان مجموعہ ہے جسم اور روح کا جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جسم کا تعلق دنیا سے ہے اور روح کا آخرت سے۔ جسم فنا ہو جاتا ہے روح فنا نہیں ہوتی، جسم کو تقسیم کیا جا سکتا ہے روح کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ جسم کے لیے جو فائدہ مند، روح کے لیے وہی نقصان دہ۔ جسم کی پرورش کچھ لینے سے ہوتی ہے اور روح کی کچھ دینے سے۔ روٹی خود کھالی جائے تو جسم پروان چڑھتا ہے اور کسی دوسرے ضرورت مند کو کھلا دی جائے تو روح پروان چڑھتی ہے۔ جسم و روح کی تفریق نے نوع انسانی کو شروع دن سے ہی دو طبقاتِ فکر میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک طبقے کا نظریہ ہے کہ انسانی جسم ہی اصل شے ہے روح کی کوئی حقیقت و اہمیت نہیں۔ دنیا ہی سب کچھ ہے آخرت کچھ بھی نہیں۔ انسان کا فائدہ کھانے میں ہے کھلانے میں نہیں۔ لہذا انسان کو لینا تو سب کچھ چاہیے لیکن دینا کچھ بھی نہیں چاہیے اور دوسرے طبقے کا نظریہ ہے کہ انسانی روح ہی اصل شے ہے انسانی جسم کی کوئی حقیقت و اہمیت نہیں۔ آخرت ہی سب کچھ ہے دنیا کچھ بھی نہیں۔ انسان کا فائدہ کھلانے میں ہے کھانے میں نہیں۔ لہٰذا انسان کو دینا تو سب کچھ چاہیے لیکن لینا کچھ بھی نہیں چاہیے۔ یہ دونوں عقائد اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ اول الذکر کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے ۔ اسی میں ہم پیدا ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں اور ہماری موت زمانے کی گردش سے واقع ہوتی ہے ۔ ان کا یہ خیال علم پر مبنی نہیں۔ محض ظن و قیاس کا اتباع ہے (/24الجاثیۃ نیز دیکھیے/29الانعام)۔ اور ثانی الذکر کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ مسلک رہبانیت ان لوگوں کا خود تراشیدہ ہے۔ ہم نے انہیں اس مسلک کا حکم نہیں دیا تھا۔ (ان کے پاس اس مسلک کی کوئی خدائی سند نہیں بلکہ) انہوں نے اپنے طور پر ہی اسے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا تھا (/27الحدید)۔قرآن چاہتا ہے کہ انسان اپنے جسم اور روح دونوں کی پرورش کرے یعنی دنیا اور آخرت دونوں کو بیک وقت نگاہ میں رکھے (/45یسین) کیونکہ قرآن کی رو سے دنیا اور آخرت ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔اسی لیے تو قرآن کے بقول دنیا کا اندھا آخرت کا بھی اندھا ہوتا ہے (/72بنی اسرائیل) اور اسی لیے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کے لئے دنیا و آخرت دونوں کے فوائد ہیں (مسلم) ۔اب تک کی بات سے یہ تو طے ہو گیا کہ انسان نام ہے جسم اور روح کے مجموعے کا اور پرورش دونوں کی ضروری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں کی پرورش بیک وقت کس طرح کی جائے؟ کیونکہ جسم کی پرورش کچھ لینے سے ہوتی ہے اور روح کی پرورش کچھ دینے سے ۔ یعنی جسم کو پروان چڑھایا جائے تو روح پروان نہیں چڑھ سکتی اور روح کو پروان چڑھا یا جائے تو جسم پروان نہیں چڑھ سکتا۔ یہ ہے وہ راز ہے جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا۔ لیکن اس انتہائی پیچیدہ مسئلے کو قل العفو کے دو لفظوں سے یکسو کر کے قرآن نے گویا کوزے میں سمندر کو بند کر دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کتنا مال اللہ کی راہ میں (یعنی معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے)خرچ کریں۔ (قل العفو) ان سے کہہ دو کہ انکے پاس انکی ضرورت سے زیادہ جتنا (مال) بھی ہے (سب خرچ کر دیں) اسطرح خدا اپنے احکام تمہارے لیے کھول کھول کر (وضاحت سے) بیان کرتا ہے تاکہ تم غورو فکر کرو اور سوچو کہ تمہیں کس طرح دنیا اور آخرت دونوں کی خوشگواریاں مل سکتی ہیں (/219,220البقرۃ)۔ یعنی انسان کو اپنے مال کا اتنا حصہ خود لے لینا چاہیے جتنا اسے جائز طور پر ضرورت ہو تاکہ اسکے جسم میں تعمیر و ترقی پیدا ہو اور اسکی دنیا اچھی ہو جائے۔ اور اپنے مال کا باقی حصہ فلاحِ عامہ میں دے دینا چاہیے تاکہ اسکی روح میں تعمیر و ترقی پیدا ہو اور اسکی آخرت بھی اچھی ہو جائے۔ آسان لفظوں میں یوں کہیے کہ نہ یہ اچھا ہے کہ اب کچھ خود کھا لیا جائے اور نہ ہی یہ کہ سب کچھ دوسروں کو کھلا دیا جائے۔کچھ خود کھا لینا چاہیے کچھ دوسروں کو کھلا دینا چاہیے۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو کچھ مریضوں کو فیس لے کر دیکھ لیا کریں اور کچھ ایسوں کا علاج بھی کر لیا کریں جو فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اگر استاد ہیں تو کچھ شاگردوں سے پیسے لے لیا کریں اور کچھ ایسوں کو مفت بھی پڑھا دیا کریں جو غریب ہیں، آپ کوئی بھی ہیں اور کچھ بھی کر رہے ہیں لیکن کچھ اپنے لیے کیجئے اور کچھ دوسروں کے لیے تاکہ جسم کے ساتھ ساتھ روح کی پرورش بھی ہو اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی اچھی ہو جائے، یہی ہے قل العفو کے دو لفظوں میں چھپی انسان کی سچی کامیابی۔اقبال نے یونہی تو نہیں کہا کہ

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
جو حرفِ قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

Courtesy
By Israr Ayub
H/Dr. Shahzad Shameem
About the Author: H/Dr. Shahzad Shameem Read More Articles by H/Dr. Shahzad Shameem: 242 Articles with 364105 views H/DOCTOR, HERBALIST, NUTRITIONIST, AN EDUCATIONISTS, MOTIVATIONAL TRAINER, SOCIAL WORKER AND WELL WISHER OF PAKISTAN AND MUSLIM UMMAH.

NOW-A-DAYS A
.. View More