وفاقی وزیر ا طلاعات قمر زمان
کائرہ نے گذشتہ روز لاہور میں سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں سے ملاقات کی
اور اس موقعہ پر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اصغر خان کیس میں ماضی سے
سبق سیکھنے کی ضرورت ہے نوازشریف کو سیاسی عمل سے باہر کرکے ملک کی خدمت
نہیں ہوسکتی حکومت نے اصغرخان کیس کی تحقیقات کے لئے کام شروع کردیا ہے
اوروزارت داخلہ نے سپریم کورٹ سے دستاویزات کے لئے درخواست اور وزارت قانون
سے رائے مانگ لی ہے اس کیس میں صدر کے علاوہ کسی کے خلاف فیصلہ نہیں آیا
عدالت قصوروار ٹھہرائے گئے فوجی افسران کو سزا بھی سنا دیتی تو بہتر ہوتا
نوازشریف وزیراعظم بنے تو نہ صرف خیرمقدم کریں گے بلکہ ان کے گھر جا کر گلے
میں ہار ڈالیں گے امید ہے شہبازشریف چودھری نثار کی بجائے بڑے بھائی کی بات
سنیں گے صدر آصف علی زرداری ایوان صدر میں سازشوں یا لڑائی کے لئے نہیں
بلکہ سیاسی مفاہمت کو پروان چڑھانے کے لئے بیٹھے ہیں ایوان صدر کو سیاسی
سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نہیں روکا جاسکتا آئندہ انتخابات وقت پر اور صاف
شفاف ہونگے التوا کی کوئی صورت نہیں نگران سیٹ اپ پر اپوزیشن اور حکومت میں
اتفاق نہ ہوا تو فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا بلوچستان کے عوام کو خودمختاری
اور وسائل پر حق دیا اب ان کا وفاق سے کوئی سوال نہیں بچتا احتساب صرف
سیاستدانوں کا نہیں سب کا ہونا چاہئے حامد میر کی گاڑی میں دھماکہ خیز مواد
قابل مذمت ہے۔
ہم صحافتی برادری کو ان کی تنظیموں کی مشاورت سے مکمل سیکیورٹی فراہم کریں
گے۔ چیف جسٹس کو حامد میر کے لئے گلدستہ نہیں بھیجنا چاہئے تھااس بات پر
خوشی ہے کہ نوازشریف نے ماضی سے سبق سیکھا ہے جبکہ دیگر اداروں اور سیاسی
جماعتوں نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب شہبازشریف کو چاہئے کہ چودھری نثار
علی خان کی بجائے نوازشریف کی بات سنیں اصغرخان کیس میں ماضی سے سبق سیکھنے
کی ضرورت ہے۔ ہم نوازشریف کو نقصان پہنچانے کے لئے اس کیس کو نہیں کرید رہے
بلکہ ماضی کی غلطیوں کو سامنے لا رہے ہیں اصغرخان کیس میں بعض سیاستدانوں
اور ایجنسیوں کا نام سامنے آیا ہے۔ ماضی میں سیاسی عمل کو مجروح کرکے
قائداعظم کے خواب سے نظریں چرائی گئی ہیں لوگوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا۔
جعلی الیکشن سے مینڈیٹ چرایا گیا جس سے عوام کا سیاسی نظام پر اعتماد ختم
ہوا ہے اور حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ پاکستان کو ناکام ریاست کے طور
پر دیکھا جا رہا تھا اس کیس میں سابق فوجی افسران سمیت سب کے خلاف تحقیقات
ہوں گی جبکہ عدالت نے بعض فوجی افسران کو قصوروارتو ٹھہرایا ہے بہتر ہوتا
سزا بھی دے دی جاتی۔ ہم نے ماضی کو بھول کر آگے بڑھنا ہو گا اس سے قبل جب
پیپلزپارٹی کی حکومت آتی تھی تو مسلم لیگ کے لئے ملک تنگ ہو جاتا تھا اور
جب مسلم لیگ کا دور آتا تو ہمارا پاکستان میں رہنا مشکل ہو جاتاتھا انہوں
نے کہاکہ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ صدر آصف علی زرداری جو پارلیمنٹ کا
حصہ اور سیاسی عمل کی پیداوار ہیں انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ سیاست نہ کریں
صدر کوئی جج جرنیل یا بیوروکریٹ نہیں ہیں منتخب ہو کر آئے ہیں۔ ایوان صدر
سیاست نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ پارلیمان میں سیاست نہیں ہوگی تو کیا
ہو گا۔ ایک سیاسی شخص کو کہا جا رہا ہے کہ وہ جلسے نہ کریں اور چیف جسٹس
خود وکلاءکے جلسوں سے خطاب کرتے ہیں ہمارے ملک میں ایوان صدر نے ماضی میں
جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی۔ ہمیں ایوان صدر سے جمہوریت پر وار ہوتے رہے۔
کیا ہمارے ملک کو سیاسی نہیں سازشی صدر چاہئے۔ پاکستان کی سیاست پر سب سے
بڑا وار غیرجماعتی اسمبلیاں تھیں موجودہ ایوان صدر نے کوئی قصور نہیں کیاہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کمزور ہو گیا تھا۔ اس لئے سوچا گیا
کہ جمہوریت پر جس گھر سے وار ہوتے ہیں وہاں بیٹھنا ضروری ہے۔ آصف علی
زرداری چاہتے تو وہ وزیراعظم بھی بن سکتے تھے لیکن وہ وہاں سازشیں کرنے کے
لئے نہیں بلکہ سازشیں روکنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے
اپنے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیئے ہیں۔ ان کی جماعت ہی ان کی طاقت ہے۔
ایوان صدر میں ماضی میں بیٹھنے والوں کے ساتھ اپنی کوئی طاقت نہیں ہوتی تھی۔
اس لئے وہ سازشوں کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دیتے تھے۔ اگر ایوان صدر میں
منتخب صدر نہ ہوتا تو ملک کا نظام آج تک نہ چلتا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے دور
حکومت میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب لگ رہا تھا کہ اب صدر کا بچنا مشکل ہے
پتہ نہیں کب گرفتار ہو گا لیکن صدر نے کوئی سازش نہیں کی اور ہمارے
وزیراعظم کو گھر جانا پڑا۔ ہم اس حوالے سے عدالتی فیصلے سے متفق نہیں لیکن
یہ فیصلہ تسلیم کیاہے ہماری حکومت نے متفقہ غیرجانبدار چیف الیکشن کمشنر کو
تعینات کرکے صاف شفاف انتخابات کی راہ ہموار کردی ہے اور الیکشن کمشنر سمیت
تمام ممبران کو آئینی تحفظ دے دیا ہے اور آئندہ ماہ ہونے والے ضمنی
انتخابات الیکشن کمیشن کے لئے امتحان ہیں۔ اگر ان انتخابات میں اسلحہ کی
نمائش اور طاقت کا استعمال نہ روکا گیا تو عام انتخابات میں روکنا مشکل ہو
گا اور عوام عام انتخابات کے حوالے سے قیاس آرائیوں پر کان نہ دھریں الیکشن
موخر ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے نہ امن و امان کو جوازبنا کر ایسا کیا
جاسکتا ہے۔ آج حالات 2008 سے زیادہ خراب نہیں ہیں۔ 2008 میں نہ صرف بے نظیر
بھٹو پر قاتلانہ حملے ہوئے بلکہ وہ شہید ہو چکی تھیں۔ سوات اور وزیرستان
دہشت گردوں کے قبضے میں تھے۔ بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں نے متشدد
بائیکاٹ کررکھاتھا۔ کراچی کی صورتحال بھی آج سے زیادہ خراب تھی۔ اس کے
باوجود الیکشن ہوئے۔ آج ملک میں میڈیا زیادہ آزاد ہے۔ عدلیہ کی صورتحال بھی
سب کے سامنے ہے۔ ایسے میں کوئی حکومت الیکشن ملتوی کرنے کی کوشش کرے تو یہ
حماقت ہوگی نگران حکومت بھی مشاورت سے بنے گی۔ قائد حزب اور اپوزیشن لیڈر
دو ،دو نام بھیجیں گے ان پر اتفاق نہ ہوا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس
جائے گا وہ بھی 72 گھنٹوں میں فیصلہ نہ کرسکی تو نام خودبخود الیکشن کمیشن
کے پاس چلے جائیں گے اور الیکشن کمیشن کسی ایک کا فیصلہ کردے گا۔ اب حکومت
یا اپوزیشن کی مرضی نہیں چل سکتی موجودہ حکومت نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی
ہے۔ آج ملک میں آٹے یا چینی کا بحران نہیں‘ این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں
ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختاری اور وسائل پر حق دیئے ہیں جبکہ منظور
وٹو کے پیپلزپارٹی پنجاب کا صدر بننے سے پارٹی میں جان آئی ہے۔ یہ بات
میڈیا میں آ رہی ہے کہ ان کی تعینات سے اتحادی اور مسلم لیگ (ن) کو اعتراض
ہے اگر اعتراض ہے تو اس کا مطلب ہے منظور وٹو میں کوئی صلاحیت ہے۔ بہرحال
چودھری برادری نے کسی تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔ ہم مسلم لیگ (ق) کے ساتھ
مل کر الیکشن لڑیں گے۔ |