بشکریہ : برادرم عرفان قادری
صاحب
آپ ۷ ربیع الثانی ۱۳۴۴ھ مطابق ۲۶ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو محلہ پورہ رانی قصبہ
مبارک پور ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے قاعدہ بغدادی سے لے کر درجہ
فضیلت تک تعلیم جامعہ اشرفیہ سے حاصل کی۔ جب آپ کی عمر کم و بیش پانچ سال
کی ہوئی تو آپ نے مدرسہ اشرفیہ میں داخلہ لے کر اپنے تعلیمی سفر کا آغاز
کیا۔ ناظرہ و قرآن شریف ختم کرنے کے بعد حضرت بحر العلوم نے درس نظامیہ کی
تکمیل کے لیے بہت سے بافیض اساتذۂ کرام سے اکتسابِ علم کیا اور ۲۲ سال کی
عمر میں شعبان ۱۳۶۶ھ مطابق جون ۱۹۴۷ء میں درس نظامی سے فراغت حاصل کی۔
فراغت کے سال ہی شوال ۱۳۶۶ھ میں مدرسہ ضیاء الاسلام محلہ پرانا گورکھ پور
شہر گورکھ پور میں بہ حیثیت صدر المدرسین تشریف لے گئے۔ مدرسہ ضیاء الاسلام
میں ایک سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ اسی دوران آپ نے ایک چار ورقی
رسالہ بنام »الضياء«کا اجرا بھی کیا، جسے پابندی کے ساتھ ماہ بہ ماہ شائع
فرماتے رہے۔ راقم الحروف کی معلومات کے مطابق حضرت بحر العلوم پہلے فرزندِ
اشرفیہ ہیں جنھوں نے ماہ نامہ »الضياء«جاری کر کے صحافت کے میدان میں سب سے
پہلا کارنامہ انجام دیا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جن جن قلم کارون نے
فرزندانِ اشرفیہ کی صحافتی خدمات کے بارے میں مضامین لکھے ہیں اور جنھوں نے
فرزندانِ اشرفیہ کی صحافتی خدمات کا اپنی کتابوں میں تذکرہ کیا ہے۔ حضرت
بحرالعلوم کے اس کارنامے کو فہرست سے غائب رکھا ہے۔
اس کے بعد مدرسہ اہل سنت انوار العلوم تلسی پور ضلع گونڈہ تشریف لے گئے اور
وہاں تقریباً ۸، ۹ سال درس و تدریس سے منسلک رہے۔ ۱۳۷۵ھ میں آپ جامعہ
اشرفیہ تشریف لائے اور درجۂ عالیہ کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا۔
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد صدر المدرسین کی حیثیت سے مسند
صدارت پر متمکن ہوئے۔ اور تدریس کے ساتھ ساتھ افتا کے فرائض بھی انجام دیتے
رہے۔ آپ نے ۲۹ سال تک جامعہ اشرفیہ کی خدمت کی۔ جامعہ سے علاحدگی اختیار
کرنے کے بعد ۱۴۰۸ھ سے دار العلوم شمس العلوم گھوسی میں مسلسل ۲۳ سالوں سے
تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہیں۔
علمی و تصنیفی خدمات: حضرت بحر العلوم بہترین مدرس ، عمدہ خطیب، ماہر محدث
و فقیہ، بے مثال قلم کار، مصنف اور شاعر فطرت ہیں۔ آپ نے کئی ایک اہم علمی
و تصنیفی خدمات انجام دی ہیں۔
[۱] فتاویٰ رضویہ شریف کی اشاعت: حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف صاحب علیہ
الرحمہ کے وصال کے بعد فتاویٰ رضویہ کی تحقیق و اشاعت کا کام آپ ہی نے
انجام دیا ہے۔ آپ سني دار الاشاعت کے قیام اور فتاویٰ رضویہ کی تحقیق و
اشاعت میں حضرت حافظ جی علیہ الرحمہ کے ساتھ قدم بہ قدم شریک رہے ہیں۔
چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جلدوں کی تحقیق و اشاعت کا کام حضرت بحر العلوم
نے کیا ہے۔ جو ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے، حضرت نے اپنی فقہی و فنی
صلاحیتوں کو بروے کار لا کر اس کی تحقیق فرمائی، ساتھ ہی ساتھ ترتیب، فہرست
سازی اور تصحیح کا اہتمام فرما کر اپنے مقدموں سے مزین کر کے اسے شائع
فرمایا۔
[۲] فتاویٰ بحر العلوم (چھ ضخیم جلدوں میں)
[۳] اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی عربی تصنیف شمائم العنبر کی
تحقیق اور اردو ترجمہ
[۴]الشاہد
[۵] بدعت کیا ہے؟
[۶] ازالۂ اوہام
[۷] نداے یا رسول اللہ
[۸] سیرتِ مبارکہ کی ایک مفید کتاب محمد مثل الكامل کا اردو ترجمہ (غیر
مطبوعہ)
[۹] مضامین بحر العلوم
[۱۰] عیدین کی تکبیرات زوائد
[۱۱] مسئلہ آمین
[۱۲] حیات صدر الشریعہ
[۱۳] تذکرہ حضور دعا گو درویش بابا علیہ الرحمہ
[۱۴] انوكھی لڑائی (واقعاتِ كربلا سے متعلق)
[۱۵] مختار الاحاديث كا اردو ترجمه (غير مطبوعه)
[۱۶] خطباتِ بحر العلوم (غير مطبوعه)
[۱۷] حيات صدر الافاضل مولانا نعيم الدين مراد آبادي عليه الرحمه (مشموله
اطيب البيان)
[۱۸] مدرسه اشرفيه سے الجامعة الاشرفيه تك (اشرفيه كي نشاة ثانيه كي روداد)
[۱۹] اسلام كا چوتھا ركن (ماه نامه الضيا ميں تحرير كيے گئے مضامين كا
مجموعه)
[۲۰] نجدي تحريك۔
وصال : 15 محرم الحرام 1434ھ بمطابق 29 نومبر 2012ء شب جمعہ مبارک پور ۔۔۔ |