پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں گزرے دن کی روداد

ہمارے ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، کوئی انقلابی تحریک ہی ملک کے ہر شعبے میں خوش آئند تبدیلی لا سکتی ہے۔ہرشعبہ ہائے زندگی میں اقربا پروری، رشوت خوری،کام چوری اور احساس ذمہ داری جیسے بینادی عوامل کا فقدان ہے۔اس کا ایک آنکھوں دیکھا حال آپ کو سنائوں گا۔مجھے کافی عرصہ سے ایک مرض لاحق ہے جس کے علاج معالجے کے سلسلے میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ میڈیکل سائنسز جیسے معیاری ہسپتال کا رخ کیا جیسےبہت سے لوگ پمز کے نام سے بھی جانتے ہیں، جانے کا اتفاق ہوا ہے۔وہاں رجسٹریشن کروانے سے لے کر ڈاکٹر کو چیک کروانے تک بے شمارتکلیف دہ مراحل سے گذرنا پڑا، پہلے جاری کردہ پرچی پر نام کا اندراج غلط ہوا،پھر باری کے نمبرز کے انتظار کے دوران من پسند لوگ یا یوں کہہ لیجئے سفاری لوگ اندر جاتے رہے اور مجھ جیسا شریف النفس انسان چپ ہو کر ذیادتی کو برداشت کرتا رہا، اسی دوران وہاں موجود عملہ کے فرد بھی تیز طرار لہجے میں اس کو درست ثابت کرنے کے دلائل بھی دیتے رہے۔خیر ہماری باری آئی اور ہم نے معائنہ کروایا ،اور ڈاکٹر صاحب نے معولی سا آپریشن کرنے کی تجویز دی جسے میں نے قبول کر لی ۔انہوں نے مجھے تقریبا چارہ ماہ بعد کی تاریخ دی۔

خیر انسان کے نصیب میں جو لکھا ہو وہ ہو کر رہتا ہے میں سب کچھ بھول گیا کہ ہمارے ملک میں ہر طرف یہ صورت حال دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں کام کرنے والے اچھے لوگ ہیں انکو بھی درست طور پر کام کرنے نہیں دیا جاتا ہے اور راہ میں حائل ہونے پر دور دراز کے علاقوں میں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔ہم عوام کس کس معاملے میں حکومت کے خلاف بولیں اور بولیں بھی تو کیا حاصل ہوگا کہ موجودہ حکومت میں تمام تر لوگ ہی ماشا اللہ سے قابل اور شریف لوگ ہیں کہ قتل جیسے الزامات و جعلی ڈگری کے باوجود بھی ایوانوں میں موجود ہیں۔ہم بولیں گے تو پھر کوئی نہ کوئی اٹھا کر لے جائے گا اور پھر سپریم کورٹ سے ہمارے پیارے داد رسی کرتے نظر آئیں گے۔خیر جناب بات ہو رہی تھی ایک دن پمز میں علاج معالجے کی، تو اب ہوا یہ کہ مقررہ تاریخ ہم نے بنا ناشتہ کئے پمز ہسپتال کا رخ کر لیا کہ چلو معمولی سا آپریشن ہے جلدی سے ہو جائے گا وہاں کوئی مسئلہ نہ ہوگا۔مگر ہم نہیں جانتے ہیں کہ ہمارے مقدر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔

جب رسمی کاروائی کے بعد اپنے مرض سے متعلقہ شعبے کا رخ کیا تو معلوم ہوا کہ جناب ڈاکٹر محمد نعیم صاحب جو اس شعبہ کے انچارج ہیں موجود نہیں ہیں، اللہ جانے یہ سربراہاں شعبہ جات کو علاج معالجے سے بڑھ کر کون سے ایسے کام ہوتے ہین جو تاخیر سے آکر دو تین گھنٹے کرسی پر بیٹھ کر چائے پی کر رخصت ہو جاتے ہیں اور بچاری بیمار عوام جو ساٹھ سالوں سے بہت سی بیماری میں مبتلا ہے کو دیکھنے کی بجائے اپنی جیب کو دیکھنا زیادہ گوارا کرتے ہیں تاکہ انکے اپنے بچوں کو بہترین سہولیات مل سکیں۔

وہاں موجود اردلی نے جو کہ نمبر پکار رہا تھا نے کافی بار پوچھنے پر یہی بتایا کہ صاحب ابھی موجود نہیں ہیں چونکہ چہرے سے شناسائی نہ تھی تو ہم بھی وہیں صبح نو سے بارہ تک موجود رہے۔اس اردلی نے بولا کہ جب آپریشن کے لئے وقت دیئے گئے مریضوں کو ڈاکٹر صاحب یاد کریں گے اس وقت حاضر انکے سامنے کردوں گا۔مگر نہ ایسا ہونا تھا نہ ہوا کہ ڈاکٹر محمد نعیم صاحب جن سے معائنے کی مہر پرچی پر موجود تھی اور ہم خود بہ نفسا نفیس صبح سے موجود تھے آئے اور یوں غائب ہوئے کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ہمیں اردلی نے خبر تک نہیں کی کہ آپ معائنہ کروا لیں۔جو کہ نااہلی اور فرائض سے غفلت کی سنگین کوتاہی شمار کی جا سکتی ہے۔

ہم جو وہاں چار ماہ تقربیا بعد محض معمولی آپریشن کروانے آئے تھے، کو بعد ازں ڈاکٹر محمد نعیم صاحب کے جانے کے بعد دوسرے ڈاکٹر غالبا عاشر نام تھا نے کہا کہ ہمارے پاس فالتو بیڈ موجود نہیں ہے آپ اب تین ہفتہ بعد تشریف لائیں ۔ہم نے جہاں تک ہو سکا اپنی جانب سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ جناب آپ نے اتنے عرصہ بعد کا وقت دیا اور ہم بطور خاص چھٹی لے کر آئے اور آپ یوں ہم سے نہ کریں ۔تو وہ کہنے لگے ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس روز کتنے مریض وہاں آپریشن کرانے آئیں ہونگے۔لیکن یہ مسئلہ تو پمز ہسپتال کی انتظامیہ کا ہے کہ وہ بیڈ کی فراہمی کو ممکن بنائے یا حکومت اس سلسلے میں بھر پور تعاون کرے۔ جو لوگ دور دراز سے آتے ہیں وہ بنا آپریشن کے واپس جائیں اور انکے پرچی پر دوبارہ لکھ دیا جائے کہ فلاں تاریخ کو واپس آئیں لیکن ممکنہ داخلے کے لئے اگر جگہ ہوئی تو، اس میں آپ لوگ بتائیں بچاری عوام کا کیا قصور ہے؟

اگر پمز کے پاس اس قدر سہولیات نہیں ہیں تو ایسے مریض سے بروقت رابطہ کر کے انکو ہسپتال آنے سے کیوں نہیں روکا جاتا ہے؟ کیوں انکا وقت اور آمدورفت پر پیسہ برباد کروایا جتا ہے؟ کیا ہم مستحق لوگ جو سرکاری اداروں سے علاج کروانا چاہتے ہیں نجی اداروں سے رابطہ کر لیں اگر ایسی بات ہے تو ایسے نام نہاد اداروں کو بند کرنا چاہیے۔معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ لوگ بہت سی خوبیوں کو دیکھ کر معمولی کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہیں وہی بعض اوقات دوسروں کے لئے پریشانی اور اذیت کا سبب بنتی ہیں جیسا کہ میرے ساتھ ہوا ہے۔

میں اس سلسلے میں پمز اوروزارت صحت سے درخواست کرونگا کہ چھوٹی چھوٹی بدانتظامی کاروائیوں کی جانب بھی توجہ دیں تاکہ عوام کم سے کم اپنا علاج معالجے کے سلسلے میں تو پریشان نہ ہو،ڈاکڑ بننا تو سب چاہتے ہیں مگر افسوس کے بنا کر وہ محض پیسہ کو ترجیح دیتے ہیں کسی انسان کے احساسات و جذبات کو نظر انداز کر تے ہیں۔ ہم تو خیر اپنی قسمت کو روتے ہوئے واپس آ گئے ہیں کہ کچھ پیسہ جمع کروا کر یا قرضہ لے کر پرائیوٹ طور پر آپریشن کروا لیں گے لیکن کیا سب میری طرح نجی طور پر علاج معالجے کی استطاعت رکھتے ہیں جو ایسا کر سکیں گے؟ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے کہ بیشتر عوام کو تو صحت کی بینادی سہولیات ہیں میسر نہیں ہیں؟

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 481820 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More